طالبان کی مثبت اور معتدل سوچ مہذب دنیا بھی تعمیری اندازِ فکر اپنائے

امریکہ، نیٹو اور بھارت کوشکست دے کر کابل کو فتح کیے طالبان کو تین ہفتے سے زائد عرصہ گزر گیا ہے، اب مزاحمت کی آخری علامت وادیِ پنج شیر بھی مجاہدین کے سامنے ڈھیر ہوگئی ہے، اور یوں پورا افغانستان طالبان کے زیر نگین آگیا ہے۔ مجاہدین اگرچہ باقاعدہ حکومت سازی میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکے اور اس کے لیے وسیع تر بنیادوں پر مشاورت کا سلسلہ جاری ہے، توقع ہے کہ یہ کوششیں جلد نتیجہ خیز ہوں گی۔ پاکستانی آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے بھی ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ کابل کا دورہ کیا، جس کے دوران طالبان کے سیاسی شعبے کے سربراہ اور متوقع حکومتی قائد ملا عبدالغنی برادر سمیت اہم طالبان رہنمائوں سے ملاقاتیں کی گئیں اور دو طرفہ سلامتی اور سماجی و اقتصادی شعبوں میں تعاون پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
پاکستان اور افغانستان برادر اسلامی اور قریب ترین ہمسایہ ممالک ہیں، پاکستان نے حال ہی میں امریکی اور نیٹو فوجوں کے انخلاء میں بھی مؤثر کردار ادا کیا ہے۔ باہمی دلچسپی کے امور پر دو طرفہ مشاورت فریقین کی ضرورت اور عین فطری امر ہے، مگر بھارت جو پاکستان کا ازلی دشمن ہے، کے پیٹ میں اس دورے سے بہت مروڑ اٹھ رہے ہیں۔ بھارتی تجزیہ کاروں اور ذرائع ابلاغ نے اس موقع پر خوب واویلا کیا، اسے بھارت کے لیے خطرے کی گھنٹی اور کابل میں پاکستان کی مرضی کی حکومت بنانے کی کوشش قرار دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کل تک جب افغانستان میں امریکہ کے کٹھ پتلی حکمران مسلط تھے، تو بھارت افغانستان سے براہِ راست کوئی سرحدی قربت یا ثقافتی و مذہبی تعلق نہ ہونے کے باوجود اگر افغانستان کے ہر معاملے میں جائز و ناجائز طریقے سے دخیل رہا اور وہاں کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف اپنے مذموم منفی مقاصد کے لیے استعمال کررہا تھا، وہ اگر جائز اور درست تھا تو آج پاکستان اپنے قریب ترین ہمسایہ اور گہرے دینی و ثقافتی رشتوں میں منسلک ہونے کے سبب اگر طالبان کے ساتھ مشاورت میں شریک ہوتا ہے تو بھارت کے پاس اس معاملے کو بلاوجہ منفی رنگ دینے کا کیا جواز ہے؟ حقیقت دراصل یہ ہے کہ بھارت نے افغانستان میں پاکستان دشمن سرگرمیوں کی تربیت، سرپرستی اور نگرانی کے لیے اربوں ڈالر کی جو سرمایہ کاری کی تھی وہ اس کی توقعات کے قطعی برعکس چشم ِزدن میں راکھ کا ڈھیر بن گئی ہے، اور پاکستان کو نقصان پہنچانے کے تمام منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں، جس پر وہ زخم خوردہ سانپ کی طرح پیچ و تاب کھا رہا ہے۔ تاہم اب بھی وقت ہے کہ بھارت افغانستان کی صورتِ حال سے متعلق مثبت طرزِعمل اپنائے، اور وہاں مضبوط حکومت اور امن و استحکام کے قیام میں اگر تعاون نہیں کر سکتا تو اس میں بلاوجہ رکاوٹیں بھی کھڑی نہ کرے، ورنہ آئندہ دنوں میں اسے افغانستان میں مزید مشکلات اور ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑے گا۔
یہ اطمینان اور شکر کا مقام ہے کہ افغانستان کی نئی قیادت کا رویہ اور طرزِ فکر پاکستان کے حوالے سے نہایت مثبت و قابلِ قدر ہے۔ اہم افغان رہنما حزبِ اسلامی کے سربراہ انجینئر گلبدین حکمت یار، طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد اور سہیل شاہین نے جہاں ایک طرف بھارت کو اُس کے منفی طرزِعمل پر متنبہ کیا ہے، وہیں پاکستان سے متعلق اُن کے بیانات بہت حوصلہ افزا اور اطمینان بخش ہیں۔ انہوں نے افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کی یقین دہانیوں کے ساتھ ساتھ مشکل حالات میں ساتھ کھڑے ہونے پر پاکستان کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔ سی پیک میں شامل ہونے اور کاسا گیس پائپ لائن جیسے منصوبے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے عزم کا اظہار بھی کیا ہے۔ طالبان رہنمائوں نے حکومت سازی میں تمام گروپوں کو اعتماد میں لینے اور ساتھ لے کر چلنے، عالمی برادری کی توقعات کا خیال رکھنے اور خواتین سے متعلق مغربی دنیا کو لاحق بلاوجہ کے خدشات کے ازالے کی یقین دہانیاں بھی کرائی ہیں، جس سے یہ تاثر عام ہوا ہے کہ طالبان اب ایک بدلی ہوئی اور معتدل سوچ کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔ ان حالات میں مہذب ہونے کی دعویدار دنیا کے ممالک کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ طالبان کی مثبت اور معتدل سوچ کے جواب میں تعمیری اندازِ فکر اختیار کریں اور بلاوجہ کی پابندیوں اور جکڑ بندیوں کی دھمکیاں دینے کے بجائے نئی افغان حکومت سے تعاون کا راستہ اپنائیں، اور اسے مضبوط و مستحکم بنانے میں حصہ ڈالیں، تاکہ دنیا خصوصاً اس خطے کو مستقل امن اور استحکام نصیب ہو، اور یہ ترقی کا راستے پر گامزن ہوسکے۔