اگست 2021ء ک اختتام تک ”کورونا وائرس“ کے نام پر تعلیمی اداروں کی بندش کو پورے 19 ماہ مکمل ہوگئے۔ درمیان میں اگر کھولے بھی گئے تو مختصر وقت کے لیے، اور وہ بھی بچوں کا گروپ میں متبادل دنوں میں آنا… جبکہ دوسری طرف اس پورے عرصے میں ہم دیکھتے ہیں کہ تعلیمی اداروں کے سوا دیگر تمام ادارے مثلاً فیکٹریاں، دفاتر، شاپنگ مال، بازار سب کھلے ہوئے ہیں، احتیاطی تدابیر بھی کہیں دور دور تک نظر نہیں آئیں، اور اگر کہیں دیکھی بھی گئیں تو خانہ پُری کے لیے۔ محسوس تو یہی ہوتا ہے کہ ”کورونا وائرس“ کی طرف سے حکمرانوں کو شاید خفیہ دھمکی ملی ہے کہ اگر ”تعلیمی ادارے“ کھولے گئے اور بچوں کو تعلیم دینے کی کوشش کی گئی تو میں سب کچھ برباد کردوں گا۔
ریاست کی تعلیم سے بدنیتی یا دشمنی کی ایک معمولی سی مثال 16 مئی 2021ء کے جنگ اخبار (اشاعت کراچی) سے مل جائے گی۔ آپ کو اس اخبار کے فرنٹ پیج پر نمایاں سرخی نظر آئے گی: ”کورونا صورت حال بہتر۔ ٹرانسپورٹ آج اور کاروبار اور دفاتر کل سے بحال“۔ جب کہ اسی صفحے کے درمیانی حصے میں ایک چھوٹی سی خبر نظر آئے گی جس کی ہیڈنگ ہے: ”تعلیمی ادارے 23 مئی تک بند“۔ جب آپ تفصیل پڑھیں گے تو معلوم ہوگا کہ ”وزیر تعلیم کے فرمان کے مطابق کورونا کے پھیلاؤ کے باعث تعلیمی اداروں کو 23 مئی تک بند کیا جارہا ہے“۔ کیا یہ تعلیم دشمنی تصور نہیں ہوگی کہ ”نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر“ کہتا ہے کہ پورے ملک میں کورونا صورت حال بہتر، لہٰذا انٹر سٹی ٹرانسپورٹ، کاروبار، بازار، دفاتر سب بحال… جبکہ تعلیمی اداروں کو 23 مئی اور پھر مزید 7 جون تک بند رکھا گیا۔
16 جولائی کو پھر عید کی چار دن کی چھٹیوں سمیت بغیر کسی نامعقول وجہ کے 30 جولائی تک اسکولوں کو چھٹیاں دے دی جاتی ہیں اور 30 جولائی سے ایک دن پہلے 8 اگست تک سخت لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا جاتا ہے، پھر 7 اگست کو کورونا کی صورت حال بہتر قرار دے کر حسب معمول جملہ تمام کاروبارِ زندگی کو اپنی سرگرمیوں کی اجازت مل جاتی ہے سوائے ”تعلیمی اداروں“ کے۔ ان کے لیے عاشورے کے بعد کھلنے کا فرمان جاری ہوتا ہے یعنی 23 اگست سے۔ پھر 17 اگست کو وزیر تعلیم پریس کانفرنس کرکے 23 اگست سے تعلیمی سرگرمیوں کی بحالی کا اعلان بھی کردیتے ہیں، لیکن 20 اگست کو وزیراعلیٰ سندھ کا فرمان جاری ہوجاتا ہے کہ تعلیمی ادارے 30 اگست تک بند رہیں گے۔ پھر صرف ایک دن کے نوٹس پر غیر معینہ بندش کا اعلامیہ جاری ہوتا ہے۔ وجہ نامعلوم ہے۔ سندھ بھر میں مختلف ایسوسی ایشنز کے احتجاج اور مظاہروں کے بعد وزیر تعلیم ایسوسی ایشن کے نمائندوں کو بلاکر ویکسی نیٹڈ اسٹاف والے اسکولوں کو کھولنے کا اعلان کرتے ہیں، جب کہ اب زیادہ تر تعلیمی اداروں کا اسٹاف ویکسی نیٹڈ ہوچکا ہے، اس کے علاوہ یونی ورسٹی کی سطح پر طالب علم بھی ویکسی نیٹڈ ہوچکے ہیں، پھر بھی تعلیمی اداروں کا بند ہونا سمجھ سے بالاتر ہے۔ اگر شرط صرف ویکسی نیٹڈ اسٹاف والے اسکول یا دیگر تعلیمی ادارے ہی ہیں تو 30 اگست سے ہی کیوں؟ تفصیلات کے مطابق گورنمنٹ اسٹاف تو تقریباً سارا ہی ویکسی نیٹڈ ہے، پرائیویٹ سیکٹر والے بھی کہتے ہیں کہ 90 فیصد سے زائد ویکسی نیٹڈ ہوچکے ہیں تو پھر بندش کا جواز کیسا؟ یہ بات تعلیمی دہشت گردی کے مترادف ہے، یہ تعلیم کے ساتھ کورونا کے نام پر گھٹیا سیاست ہے۔ نوٹیفکیشن کے ذریعے دھمکی دی جاتی ہے کہ اگر ایک بھی اسٹاف ممبر کسی اسکول میں بغیر ویکسین کے پایا گیا تو اسکول کو بند کردیں گے، اس کی رجسٹریشن منسوخ کردیں گے۔ دھمکیاں صرف تعلیمی اداروں کو، اساتذہ کو، تعلیمی ادارے کے اسٹاف کو۔ پورے معاشرے میں صنعتیں، بازار، ادارے کیا سب ویکسی نیٹڈ ہوگئے ہیں؟ اور کیا ایسا ممکن ہے؟ یونی ورسٹی سطح پر تو اسٹاف کے ساتھ ساتھ طالب علم بھی ویکسی نیٹڈ ہیں۔ نہ ہونے پر بھی ایس و پیز پر بہترین عمل درآمد ہوسکتا ہے۔ ان کی بندش کا کیا جواز ہے؟ کوئی بھی ذمہ دار اس کا ڈھنگ سے جواب دینے سے قاصر ہے۔
کوئی تو ایسا عمل وزارتِ تعلیم کی جانب سے نظر آئے جس سے لگے کہ یہ لوگ تعلیم یافتہ ہیں، اور تعلیم بھی ان کی ترجیحات میں کہیں نہ کہیں شامل ہے۔
یہ کھیل پچھلے 19 ماہ سے ہورہا ہے۔ دفاتر، کاروبار، بازار، شاپنگ مالز کی چہل پہل سب معمول کے مطابق ہی ہے۔ ایس او پیز پر عمل درآمد کی دھجیاں اڑانا… اس کے گواہ تو سبھی ہیں۔ سیاسی جلسے جلوس ہوں یا اس دوران ہونے والے ضمنی انتخابات، بازاروں میں، شاپنگ مالز میں کبھی اوقاتِ کار 10 گھنٹے کردئیے گئے لیکن رش اور ہجوم تو اور بھی زیادہ ہوگیا اور ایس او پیز پر عمل درآمد بھی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہی رہا۔ لیکن نہ جانے کیوں تعلیمی ادارے جن کا دورانیہ دیگر اداروں کے مقابلے میں کم ہی ہوتا ہے اور جن کا نظم و ضبط بھی بہتر ہوتا ہے اور یہ ایس او پیز پر زیادہ بہتر عمل کرتے ہیں، پھر بھی ان کو مسلسل نہ صرف بند رکھا جارہا ہے بلکہ ان کے مسائل اور ان کی مشکلات کی کوئی پروا بھی نہیں ہے۔ جب کہ سندھ حکومت کو پرائیویٹ اسکولز کا احسان مند ہونا چاہیے کہ یہ جیسے بھی ہیں، اسکول چاہے 80 گز کے پلاٹ پر بنا ہوا ہے یا 500 گز پر یا 1000 گز پر، تربیت یافتہ اساتذہ ہیں یا غیر تربیت یافتہ، انٹر پاس ہیں یا ماسٹر کیا ہوا ہے… لیکن یہ بات ماننا پڑے گی کہ صوبہ سندھ کی تعلیمی نااہلی کا بوجھ انہی پرائیویٹ اداروں نے اٹھایا ہوا ہے۔ موجودہ صورت حال میں ان اداروں کا ہاتھ پکڑنے کے بجائے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹے جارہے ہیں۔ خود تعلیمی افسران کا ماننا ہے کہ 1700 سے زائد اسکول معاشی بدحالی کے باعث بند ہوگئے (جب کہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے)، گورنمنٹ نے ان بند ہونے والے اسکولوں کو بچانے کے لیے کیا کیا؟ سندھ میں تعلیم کے فروغ کے صرف دعوے کیے جاتے ہیں، ماضی میں بھی سندھ حکومت نے تعلیم کے لیے کوئی بہتر اقدامات نہیں کیے، یہ عمل قوم کے بچوں کے ساتھ اور خصوصاً سندھ کے بچوں کے ساتھ زیادتی اور ظلم کے مترادف ہے۔ سندھ کے بچوں کو تعلیمی میدان میں پیچھے رکھ کر ان کو برباد کرنے کی سازش ہورہی ہے۔
پچھلے دنوں تھرپارکر میں تربیتِ اساتذہ کے لیے جانے کا موقع ملا۔ یہ صحرا میں قائم ایک ایک کمرے پر مشتمل اسکولوں کے اساتذہ کے لیے پروگرام تھا۔ ان اسکولوں میں غیر رسمی انداز میں اول تا پنجم کی ملٹی گریڈ تدریس کی جاتی ہے۔ بچوں کی کُل تعداد صرف 20 سے 25 تک ہوتی ہے، یہ بچے تقریباً ایک ہی خاندان یا گوٹھ کے ہوتے ہیں۔ حیرت ہوئی جب یہ معلوم ہوا کہ اگر کورونا کی وجہ سے اسکول بند ہونے کے احکامات آتے ہیں تو ایک ایک کمرے پر مشتمل یہ غیر رسمی اسکول بھی بند کردیے جاتے ہیں۔ خوشی ہوئی کہ قانون اتنا طاقتور ہے کہ صحرا میں موجود ایک مخصوص اور محدود آبادی والے گاؤں تک میں اس پر عمل درآمد کروایا جاتا ہے، اورشدید غم بھی ہوا کہ قانون کی طاقت صرف تعلیمی اداروں کو بند کرنے کے لیے ہے، اور باقی معاشرتی خرابیوں پر قانون کی طاقت اور اس پر عمل درآمد کی صورت حال….؟ بہرحال اعلیٰ سطح پر اس کی تحقیق ضروری ہے کہ کورونا کی آڑ میں صرف تعلیمی ادارے ہی کیوں بند ہیں؟ کیا کورونا کی افزائش صرف تعلیمی اداروں میں ہی ہوتی ہے اور وہ بھی اسکولوں میں؟
پچھلے سیشن میں بچوں کے امتحانات بھی نہیں لیے گئے، جبکہ امتحانات میں اور خصوصاً بورڈز کے امتحانات میں بچوں کو فاصلوں سے اور الگ الگ ہی بٹھایا جاتا ہے۔ اسی طرح پچھلے سیشن میں امپرومنٹ کے ہزاروں طلبہ کا کیرئیر امتحانات نہ لینے کے باعث خطرے میں پڑچکا ہے۔ اس جاری سیشن میں اگرچہ میٹرک اور انٹر کے امتحانات ہورہے ہیں لیکن جو معیار ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ تدریس نہ ہوسکنے کے باعث نصاب کو مختصر کیا گیا۔ بچوں کو پرچے انتہائی تاخیر سے ملنا، حتیٰ کہ امتحان کا وقت ختم ہونے کے بعد ملنا، کاپیاں تاخیر سے ملنے کے باوجود بچوں کو اضافی وقت فراہم کرنے کے بجائے ان سے کاپیاں جلد واپس لینا، بچوں پر طنز کرنا کہ تم کو حکومت ویسے بھی پاس کردے گی، کیا کروگے اتنا لکھ کر؟، کون سا ایسا اسکول ہے جس کو تکلیف دہ مراحل سے گزرنے کے بعد بھی پریکٹیکل کا سامان مکمل مل گیا ہو۔ بے قاعدگی اور بدنظمی کے یہ معاملات تو میڈیا خود منظرِعام پر لاتا رہا ہے اور لارہا ہے۔ میرٹ سے ہٹ کر بھرتی کیے گئے افسران اور دیگر عملے نے نالائقی اور نااہلی کی آخری حدیں بھی عبور کرلیں، اور یہ سب کچھ ایک سازش کے تحت سرکاری تعلیمی بورڈز کو ناکام ثابت کرنے کے لیے کیا گیا۔ جس طرح ماضی میں ریاست کے دیگر کامیاب اداروں کو تباہ کیا گیا، اسی طرح اب سرکاری تعلیمی بورڈ کی باری آگئی ہے، یعنی معاشرے میں اس کی کارکردگی کی ایسی تصویر پیش کی جائے کہ لوگ خود ہی پرائیویٹ بورڈ کی طرف رجوع کریں۔
لازمی مضامین کے امتحانات تو ویسے ہی منسوخ کردئیے گئے، اس فیصلے سے لازمی مضامین کی اہمیت اور مقاصد کی توہین کی گئی ہے۔ کیا اسی شہر یا صوبے میں ہونے والے دیگر بورڈ کے امتحانات مثلاً اے لیول، او لیول یا کیمبرج کے امتحانات کا نصاب مختصر ہوا؟ کیا ان کے امتحانات کے لیے ان کے مضامین مختصر کیے گئے؟ اس سے کیا ثابت ہوتا ہے؟ صرف اور صرف نااہلی اور نالائقی۔ کیا او لیول، اے لیول اور کیمبرج کے بچوں کو یہ کہا گیا کہ فکر نہ کرو بس امتحانات دو، کوئی فیل نہیں ہوگا۔ جبکہ ہمارے میٹرک اور انٹر بورڈ کے بچوں کے لیے وزیر تعلیم کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا کہ کوئی فیل نہیں ہوگا۔ یہ اعلان بچوں کے مستقبل کو محفوظ نہیں بلکہ برباد کرنے کا باعث بنے گا۔ پوری دنیا میں یہ اس قوم کے بچوں کی رسوائی ہے۔ تعلیمی عمل کو بحال کرنے اور بچوں کو عمدہ معیار کے ساتھ علم کے زیور سے آراستہ کرنے کے بجائے اس ملک کے بچوں کے ساتھ وہ اقدامات کیے جارہے ہیں جو صرف بچوں کے مستقبل کو ہی نہیں بلکہ درحقیقت قوم کے مستقبل کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ بہرحال بڑی مشکل سے بورڈ کے امتحانات شروع ہوئے تو خوف و ہراس پھیلا کر ایک بار پھر نہ صرف تعلیمی اداروں کو بند کردیا گیا بلکہ جاری امتحانات کو بھی منسوخ کرکے سندھ حکومت طالب علموں، اساتذہ اور والدین کو نفسیاتی مریض بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ جاری امتحانات کیوں منسوخ کردئیے گئی؟ ہر کلاس میں بچوں کی تعداد محدود تھی، انٹر بورڈ نے ماسک اور سینی ٹائزر بھی مہیا کیے ہوئے تھے لیکن پھر امتحانات منسوخ کردئیے گئے۔ ایکسپو سینٹر اور دیگر سینٹرز پر کئی کئی گھنٹے لوگ ویکسین کے لیے حالتِ رش میں کھڑے رہتے ہیں۔ وہاں کوئی دیکھنے والا نہیں۔ وہاں کورونا کا کوئی خطرہ نہیں؟ کوئی منطق، کوئی دلیل تو حکومت عنایت کرے اپنے اقدامات کی۔ یونیورسٹی میں زیر تعلیم بچوں کا کیا مستقبل ہوگا؟ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو ان بچوں کو مستقبل میں کون پوچھے گا؟ ان کی اسناد پر موجودہ تعلیمی سیشن ان کے لیے ناسور بن جائے گا۔
2020ء کے انٹر میں پاس ہونے والے وہ بچے جن کا گورنمنٹ اداروں میں داخلہ ہوا ہے، ان کا وقت مسلسل ضائع ہورہا ہے، کیوں کہ گورنمنٹ کی سطح پر تو آن لائن کا خاطر خواہ بندوبست نہیں ہے، لہٰذا یا تو پڑھائی متاثر ہے یا پھر داخلے متاثر ہیں۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ یہ خطیر رقم خرچ کرکے پرائیویٹ اداروں میں داخلہ لیں، جہاں پر فی الحال غیرپیشہ ورآنہ انداز میں بہرحال آن لائن کی سہولت دستیاب ہے۔ کیا ہر بچہ اور اس کا گھرانہ اتنی مالی حیثیت رکھتا ہے کہ وہ یہ مالی بوجھ اٹھا سکے؟ اب 2021ء میں بھی انٹر کے طلبہ امتحان دے کر فارغ ہوگئے۔ یہ بھی 100 فیصد پاس ہوں گے۔ یہ سب کب اور کہاں اور کیسے ایڈجسٹ ہوں گے؟ کیا گورنمنٹ کے پاس اس کی کوئی منظم منصوبہ بندی ہے؟
طالب علموں، والدین اور اسکول انتظامیہ کے ساتھ ہونے والی اس شدید بدانتظامی کا کون ذمہ دار ہے اور اس کا حساب کون لے گا؟ وزیر تعلیم اب کیا اقدامات کریں گے؟ کیا ایکشن لیں گے؟ نااہلوں کو کب فارغ کیا جائے گا؟ تعلیم کے ساتھ مذاق کب بند کیا جائے گا؟ کورونا کی آڑ میں کب تک تعلیم کا جنازہ نکلتا رہے گا؟
حکومت کو چاہیے کہ پہلے وہ جہالت کے خاتمے کی ویکسین بنائے، پھر آپ تاریخی ترقی کریں گے۔ حکومت یہ تک نہیں بتاتی کہ کورونا کے باعث صرف تعلیمی اداروں کو بند کرنے کے بعد آپ کا متبادل تعلیمی پلان کیا ہے۔ سیکڑوں کی تعداد میں اسکول تباہ ہوکر بند ہوچکے ہیں، ہزاروں بچوں کا مستقبل ڈوب چکا ہے، مزید اب آپ کیا چاہتے ہیں؟ میڈیکل اور دیگر یونیورسٹیوں میں تو اساتذہ کے ساتھ ساتھ طالب علم بھی ویکسین لگوا چکے ہیں تو اب انہیں بند کرنے کا کیا جواز ہے! جن بچوں کے اسکول آنے جانے پر پابندی عائد کی گئی ہے، کیا یہ گھروں سے باہر نہیں آتے جاتے؟ کیا یہ دوستوں کے ساتھ باہر گلیوں میں نہیں کھیلتے؟ کیا یہ بازاروں میں نہیں آتے جاتے؟ جب سارا دن کاروبارِ زندگی چل رہا ہے تو تعلیمی ادارے کیوں نہیں کھل سکتے! حکومت کم ازکم کوئی معقول دلیل تو دے کہ صرف تعلیمی اداروں سے ہی کورونا کو کون سا خطرہ ہے جو باقی اداروں اور بازاروں سے نہیں ہے! حکومت فوری طور پر کورونا کے نام پر تعلیم کے ساتھ گھٹیا سیاست بند کرے، حکومت دیگر اداروں کی طرح تمام تعلیمی اداروں کو فوری طور پر بغیر کسی دھمکی اور بےجا سختی کے 100 فیصد حاضری کے ساتھ بحال کرے تاکہ تعلیمی سرگرمیوں کو معیار کے مطابق ممکن بنایا جاسکے۔ 50 فیصد حاضری کے ساتھ کب تک تعلیم دی جائے گی؟ اس صورت حال میں کیسے نصاب کی تکمیل ہوسکتی ہے؟ حکومتی ماہرینِ تعلیم وضاحت کریں؟
کورونا کو اب 19 ماہ مکمل ہوگئے ہیں، سندھ میں تیسرے تعلیمی سیشن کا آغاز بھی مسلسل ایک ماہ کی بندش سے ہوگیا ہے۔ کیا حکومت کو اس دوران اندازہ نہیں ہوا کہ آن لائن تعلیم کا نظام ابھی اسکول کے بچوں کے لیے انتہائی غیر موثر ہے!
یونیورسٹی کی سطح پر آن لائن تعلیم موثر نہیں رہی تو پری پرائمری یا پرائمری کے بچے کیسے آن لائن کلاسز یا صرف اسائنمنٹ کے ذریعے موثر تعلیمی عمل جاری رکھ سکتے ہیں؟ کتنے لوگوں کے پاس یہ سہولیات دستیاب ہیں؟ ہزاروں اسکول تو وہ ہیں جو فلاحی اداروں کی زیر سرپرستی چل رہے ہیں۔ ان پسماندہ علاقوں میں تعلیم کو فروغ دینے کے لیے وہ اپنی بے مثال خدمات انجام دے رہے ہیں، کیا ان علاقوں میں آن لائن تعلیم ممکن ہے؟ ریاست نے پسماندہ علاقوں میں بھی فلاحی اداروں کی جانب سے دی جانے والی تعلیم و تربیت کے عمل کو تباہ کردیا ہے۔ آن لائن تعلیم تو دور کی بات، یہاں تو اسائنمنٹ کے ذریعے بھی تعلیم دینا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ زیادہ تر والدین پڑھے لکھے نہیں ہیں، مزدور پیشہ ہیں۔ یہاں تو اسکول 100 فیصد بچوں کو اسکول بلا کر ہی تعلیمی ضروریات پوری کرسکتا ہے۔ کیا حکومت ان اعداد و شمار کا ادراک نہیں رکھتی جو مزے سے کہہ دیتی ہے کہ آن لائن پڑھایا جائے! خودحکومتِ وقت بتائے کہ کورونا کو ڈیڑھ سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا، آپ نے سرکاری اسکولوں کے بچوں کی آن لائن تعلیم کے لیے کیا ہوم ورک کیا؟ کیا صؤبائی سطح پر آن لائن تعلیم کا کوئی قابل عمل معیاری منصوبہ مکمل کیا؟
ایک فورم پر جس میں راقم بھی مدعو تھا، صوبہ سندھ کی تعلیم کے ایک بڑے افسر فخر سے بتا رہے تھے کہ ہم نے گورنمنٹ کے اساتذہ کو آن لائن کی تربیت فراہم کی ہے۔ اسی فورم میں گورنمنٹ اسکول کی بھی ایک انچارج موجود تھیں، انہوں نے تصحیح کی کہ ”سر، جن کو پڑھانا ہے، ان کے پاس سہولت موجود نہیں ہے، آن لائن تعلیم کے لیے سہولت کا دونوں طرف ہونا ضروری ہے۔“
والدین کے پاس وسائل کی عدم دستیابی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ مجموعی طور پر پوری دنیا کے 80 کروڑ سے زائد طلبہ صرف اس لیے تعلیم سے محروم ہوجائیں گے کہ آن لائن تعلیم ان کی دسترس میں نہیں ہوگی۔ ہم اُن بچوں کی بات نہیں کررہے جو اسکول میں داخل ہی نہیں ہیں، مثلاً پاکستان میں دو کروڑ سے زائد وہ بچے ہیں جو سرے سے اسکول ہی نہیں جاپاتے، بلکہ ہم صرف اُن بچوں کی بات کررہے ہیں جو اسکولوں میں داخل ہیں۔ یہ وہ بچے ہیں جن کے پاس یا تو کمپیوٹر نہیں ہوں گے یا انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب نہیں ہوں گی۔ اللہ نہ کرے لیکن محسوس یہی ہوتا ہے کہ اگر نہ صرف ہمارے بچوں کو بلکہ پوری دنیا کے بچوں کو زبردستی آن لائن تعلیم کی طرف دھکیلا گیا تو مستقبل کا ایک خوفناک معاشی، معاشرتی اورنفسیاتی بحران ہمارا منتظر ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آنے والا دور آن لائن کے ساتھ ہی منسلک ہوگا، لیکن بغیر کسی منصوبہ بندی کے اگر اس طرح اقدامات اٹھائے گئے تو بھیانک نتائج بھگتنے پڑیں گے۔
یہ بات تسلیم کی جائے کہ فی الحال اسکول کے طالب علموں کے لیے خصوصاً آن لائن یا تفویض کاری کی بنیاد پر طے شدہ نصاب کو پڑھانا ممکن ہی نہیں ہے، معیار تعلیم کا سوال بعد کا ہے۔ لہٰذا تعلیمی عمل کو اسکولوں میں ہی جاری رکھنے کے اقدامات کو یقینی بنایا جائے۔ اب جب کہ تعلیمی ادارے تقریباً ویکسی نیٹڈ بھی ہوچکے ہیں، لہٰذا ان کو فوری طور پر سو فیصد حاضری کے ساتھ بحال کیا جائے۔
اس پورے عرصے میں اگر اعدادو شمار کو جمع کیا جائے تو سیکڑوں اسکول بند ہوچکے ہیں، کرائے کی بلڈنگ والے بہت سے اسکول مکمل طور پر برباد ہوچکے ہیں، ہزاروں اساتذہ بے روزگار ہوچکے ہیں، اسکولوں سے وابستہ سیکڑوں ادارے بھی بربادی کے دہانے پر کھڑے ہیں، لیکن حکومت کو کوئی پروا نہیں۔ ریاست سے مختلف فورمز پر بار بار اسکول ذمہ داران نے، اسکولز ایسوسی ایشنز نے توجہ دلائی، درخواستیں کیں کہ اسکول بند ہونے کی وجہ سے ان کی مالی مشکلات کو محسوس کیا جائے، ریاست ان اسکولوں کی مدد کے لیے کوئی پالیسی وضع کرے، لیکن ریاستی ذمہ داران کا سوتیلا پن برقرار ہے۔ وزیراعظم کو براہِ راست نوٹس لینا چاہیے اور اسکولوں کو مالیاتی ریلیف فراہم کرنے کے اقدامات اٹھائے جائیں، ضرورت کے مطابق بلاسود آسان قرضے بھی فراہم کیے جائیں۔ فوری طور پر عمل درآمد کا پلان گورنمنٹ کی جانب سے جاری کیا جائے۔
تعلیمی اداروں کی سرپرستی حکومت کی اہم ترجیحات میں شامل ہونی چاہیے۔ حکومت اور تعلیمی بورڈز صورت حال سے واقف ہونے کے باوجود رجسٹریشن کی مد میں، امتحانی فارم کی مد میں اور اسکول ریکگنائزیشن کی مد میں لیٹ فیس وصول کررہے ہیں۔ موجودہ حالات میں یہ عمل انتہائی ناقابل فہم اور شرمناک ہے، اس عمل سے گریز کرنا چاہیے اور لیٹ فیس لیے بغیر طالب علموں اور اسکولوں کو سہولت دینی چاہیے۔ بورڈ کو چاہیے کہ اسکول رجسٹریشن کی مدت میں ایک سال کی براہِ راست توسیع کرے۔
اسی طرح یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ خاموشی کے ساتھ اسکولوں کے لیے ایک ٹیرف الگ سے جاری کیا گیا ہے جو عام کمرشل سے بھی مہنگا ٹیرف ہے۔ کے الیکڑک کا یہ اقدام انتہائی شرمناک ہے۔ نئے جاری کردہ ٹیرف A3G کو ختم کیا جائے۔ کے الیکٹرک کو لگام دی جائے، اور نہ صرف اس ٹیرف کو ختم کیا جائے بلکہ پچھلے تمام بل جوکہ اس ٹیرف کے تحت لیے گئے ہیں واپس کیے جائیں۔
مختصر یہ کہ ملک کی بقا تعلیم و تربیت کے فروغ پر منحصر ہے۔ ریاست کا فرض ہے کہ وہ نعروں کے بجائے عملاً قوم کے نونہالوں کی تعلیم و تربیت میں خصوصی دلچسپی لے، اور تمام نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں کو کھول کر ان میں نہ صرف تعلیمی عمل کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھنے کو ممکن بنائے بلکہ معیارِ تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دے۔