اسلام اوّلین مذہب ہے جس نے حجاب کے ذریعے مسلم عورت کی عزت اور وقار کو سربلند کیا ہے، اورعورتوں کو مرد کی ہوسناکی سے، اور مردوں کو عورت کے فتنے سے بچایا ہے۔ حیا و حجاب کی تہذیب مسلم معاشرے کا احاطہ کرتی ہے۔ ضروری ہے کہ اسلامی انقلاب اور تہذیب و تمدن کے ذریعے صالح معاشرے کی تشکیل کی جائے۔ گھر کی چار دیواری اور خاندان کے دائروں میں تہذیبِ اسلامی کی قدر اور تمدن کے تقاضوں و اخلاق کی میاں بیوی مل کر ہی نگہبانی کرسکتے ہیں۔ اسلام کی خوبی ہی دین فطرت کی بنا پر ہے، اور فطری اعتبار سے مرد اور عورت کے جسم و صلاحیت کے مطابق دائرۂ کار مقرر کردیے گئے۔ مرد کو کسبِ معاش کا ذمہ دار بنا کر بیرونِ خانہ کے تمام کام تجارت، زراعت، صنعت و حرفت، معیشت، فوجی دفاع سونپ دیا گیا۔ تمام سخت، بھاری اور مشقت کے کام مرد کے ذمے ڈالے گئے۔ عورت کو شمع حرم بناکر آئندہ نسل کی تخلیق، پرورش، تربیت اور جملہ خانہ داری کے فرائض سونپے گئے۔ عورت کی اصل اور بنیادی ذمہ داری گھر کی فضا پرسکون بنانا اور بچوں کی اچھی تربیت ہے۔ بچوں کو باشعور بنا کر قوم کے مستقبل کو سنوارنا ہی ماں کا اصل ہدف ہے۔ اسلام کے معاشرتی قوانین کا فیض ہے کہ زوجین میں بے حد محبت ہوتی ہے اور وہ ایک دوسرے پر جان دیتے ہیں، اور معاشرے کو اسلامی تہذیب سے روشناس کرواکر چمن کے مالی کی طرح دیکھ بھال کرتے ہیں۔
شریعت نے حجاب کے ذریعے مسلم معاشرے میں مرد و عورت دونوں ہی کو شرم و حیا کی حدود و قیود کا پابند کردیا ہے۔ حجاب صرف عورت کے منہ اور سر کو ڈھانپ لینے کا نام نہیں، بلکہ مرد و عورت سب ہی کے لیے حجاب کا حکم ہے۔ غض بصر کا حکم صرف عورت کے لیے ہی مخصوص نہیں ہے۔ ذومعنی گفتگو، بے حیائی کے مظاہرے، ناکافی لباس سے سب کو ہی روکا گیا ہے۔ ستر کو ڈھانپنے کا حکم مرد و عورت دونوں کے لیے آیا ہے۔ شیطانی و تاریک قبیح خیالات مرد و عورت دونوں ہی کی شخصیت کو داغ دار اور بداثر بنادیتے ہیں۔ اسلامی انقلاب دراصل دین کے صحیح شعور و ایمان سے پیدا ہوتا ہے۔ قلب بدلتا ہے تو خیالات بھی نکھرتے ہیں، اور خیالات کی پاکیزگی و خوبصورتی نہ صرف انسانی شخصیت کو وقار اور تمکنت عطا کرتی ہے بلکہ پاکیزہ معاشرے کے قیام کا بھی ذریعہ بن جاتی ہے۔ جبکہ مخلوط محافل، بے باکانہ اطوار،کھلی بے تکلفی اخلاقی قدروں کو پامال کرکے جنسی جذبات اور غیر معمولی ہیجان کو بڑھا کر ماحول کو داغدار کرتے ہیں۔ دینِ اسلام میں کبھی بھی مرد و زن کے اختلاط کی گنجائش نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کی زندگی کا مقصد متعین کیا ہے جس کو وہ اپنے ہر عمل میں پیش نظر رکھتا ہے، اور اسلامی تہذیب انہی بنیادی عقائد و افکار پر مبنی ہے۔ اسلامی تہذیب امن و سلامتی کا پیغام دیتی ہے اور فتنہ و فساد کو رد کرتی ہے۔ فتنہ ہر وہ چیز ہے جو انسان کے دل و دما غ میں باعثِ کشمکش بن کر اس کی عقل و ضمیر کو کمزور اور عزم و ارادے کو متزلزل کرکے حق و صداقت سے دور کردے۔
خطرناک ترین فتنہ شیطان کا ہے جس نے انسان کی ضلالت و گمراہی کا آغاز ہی بے پردگی و بے حجابی سے کروایا۔ حضرت آدم و حوا کو بہکاکر ان کے ستر کھلوا دیے اور جنت سے نکلو ا دیا۔ دینِ فطرت میں آرائش کا حکم ہے نمائش کا نہیں۔ اور معاشرتی اصلاح کے لیے شریعتِ اسلامیہ میں ستر و حجاب کے احکام اسی قدر اہم ہیں جتنے نکاح و طلاق کے، تاکہ شیطانی نفس کے لیے کہیں سے چور دروازہ نہ نکل سکے۔ حیاء ایک وصف اور ایمان کا جزو ہے۔ دونوں خیر کے داعی ہیں اور شر سے انسان کو دور کرتے ہیں۔ ایمان اطاعتِ الٰہی کرنے، اور گناہ میں ملوث ہونے سے روکتا ہے، جب کہ حیاء انسان کو برے کام نہ کرنے پر ابھارتی ہے، اور اہلِ حق کے حق کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے اور فحش و بے حیائی سے روکتی ہے۔ اسی لیے صالح عورت کو حجاب کی تاکید کی گئی ہے۔
قبلِ اسلام بیٹیوں کو زندہ دفن کردیا جاتا تھا، لکھنے پڑھنے سے محروم رکھا جاتا تھا، قحبہ خانوں کی زینت بنایا جاتا تھا۔ صرف اسلام ہی نے عورت کو انسانی اور سماجی حقوق عطا کیے، اسے وراثت میں حق دار ٹھیرایا، عملاً حق مہر دلوایا، نازک آبگینے کہہ کر اس سے نرمی و درگزر کی تاکید کی، انتخابِ رفیق کا حق دیا، اور ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے روپ میں مجموعی طور پر وہ شرف و وقار اور تحفظ عطا کیا جس کی نظیر کہیں نہیں ملتی۔ اصل المیہ یہ کہ اسلام نے عورت کو قرآن و سنت کے جن اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کی تھی، دورِ حاضر کی عورت نے ان کی نفی کرکے بے حجاب ہوکر اپنے آپ کو پھر سے دورِ جاہلییت کی طرح مظلوم و محروم اور مرد کے لیے کھلونا بنادیا۔ عورتوں کے لیے حجاب رب کا حکم ہے، اور معاشرے کو پاک صاف رکھنے کا عملی ذریعہ بھی ہے۔ بے حجابی عورت مرد دونوں ہی کے لیے بہت بڑا فتنہ اور شیطا ن کا کاری وار ہے۔ کوئی قوم اُس وقت تک زوال پذیر نہیں ہوتی جب تک اس کی عورتیں زیورِ حیا سے مزین اور مرد شمشیر غیرت سے مسلح ہوں۔
مذہبِ اسلام نے عورت اور مرد کو بحیثیت انسان بنیادی انسانی حقوق میں مساوات اور یک رنگی عطا فرمائی۔ مرد و خواتین دونوں ہی کے لیے ایک ہی نظامِ عقائد ہے، دونوں ہی کے جنت میں مقیم رہنے، دونوں کے اکٹھے لغزش کھانے، اور دونوں کے زمین پر بھیجے جانے اور دونوں ہی کی جانب سے اللہ کے ہاں توبہ قبول کیے جانے کے احوال یکساں ہیں۔ اخلاقی لحاظ سے دونوں میں مساوات ہے، یعنی فضائلِ اخلاق اور رذائلِ اخلاق کی راہیں ایک جیسی ہیں، نیکی اور بدی کا بدلہ یکساں ہے، اور دونوں میں سے جو جتنا تقویٰ میں بڑھ جائے، مرتبہ پاسکتا ہے۔ عورت کو ترقی کے نام پر بے حجاب کرنا شیطانی قوتوں کا شاخسانہ ہے۔ اسلام اوّلین مذہب ہے جس نے حجاب کے ذریعے مسلم عورت کی عزت و وقار کو سربلند کیا ہے۔ اسلامی تعلیمات سے پہلوتہی اور بے حجابی نے مذہب سے عاری معاشرہ جنم دیا، جہاں مرد خواتین کی عزت و آبرو کو روندنے، معصوم کلیوں کو پامال کرنے اور اپنی درندگی کی بھینٹ چڑھانے میں آزاد ہے۔ حالیہ ہونے والے واقعات اسی بے حجابی کا شاخسانہ ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حجاب کے تصور کو صرف خواتین تک محدود نہ کیا جائے، بلکہ یہ سمجھا جائے کہ حجاب ایک تہذیب ہے۔ حجاب نظروں میں، گفتگو میں، معاملات میں، رکھ رکھاؤ میں، لباس میں، رویوں میں، پرنٹ، الیکٹرانک و سوشل میڈیا میں… غرض پورے معاشرے کا کلچر حجاب ہے، جس کے قوانین مسلم و غیر مسلم سب پر یکساں لاگو ہوتے ہیں۔ انسان کی حیا ہی اس کے عزت اور وقار کی نشانی ہے۔ حجاب قدامت پسندی اور بنیاد پرستی کی علامت نہیں ہے۔ اسلام نے ستر کی حدود سے مرد کو بھی مستثنیٰ قرار نہیں دیا۔ غض بصر کے احکامات عورت اور مرد دونوں ہی کے لیے ہیں، اور معاشرے کو حیا و حجاب کی تہذیب سے روشناس کرواکر فکری پاکیزگی کا وہ عظیم قانون عطا کیا جس میں انسانیت کی بقا و فلاح ہے۔