آزادکشمیرکے سینئر سیاست دان بیرسٹر سلطان محمود چودھری نے صدرِ آزادکشمیر کے عہدے کا حلف اُٹھا لیا ہے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس سعید اکرم نے اُن سے ایک بڑے عوامی اجتماع میں حلف لیا۔ تقریب میں آزادکشمیر بھر اور بیرونی ممالک سے بیرسٹر سلطان محمود کے ذاتی حلقہ اثر اور پارٹی کارکنوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ یوں روایتی طور پر ایوانِ صدر کے ہال میں منعقد ہونے والی ایک مختصر سی تقریب پہلی بار ایک عوامی میلے میں ڈھل گئی۔ دلچسپ اور معنی خیز بات یہ کہ اس تقریب پر عمران خان کی شخصیت کی چھاپ نہیں تھی۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ بیرسٹر سلطان محمود وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار تھے اورآخری وقت تک صدر کا عہدہ قبول کرنے سے انکاری تھے۔ صدارتی انتخابات میں بیرسٹر سلطان محمود 34 ووٹ لے کر آزادکشمیر کے اٹھائیسویں صدر منتخب ہوئے۔ وہ دو اتحادی جماعتوں کے سربراہوں مسلم کانفرنس کے سردار عتیق احمد خان اور جموں وکشمیر پیپلزپارٹی کے حسن ابراہیم خان کے ووٹ حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہے۔
بیرسٹر سلطان محمود چودھری آزادکشمیر کے معروف سیاسی راہنما چودھری نورحسین کے صاحب زادے ہیں۔ چودھری نور حسین تحریکِ آزادی کے ایک سرگرم راہنما تھے اور 1947ء میں سری نگر میں سردار محمد ابراہیم خان کی رہائش گاہ پر قراردادِ الحاقِ پاکستان منظور کرنے والوں میں بھی شامل تھے۔ میرپورکے علاقے میں چودھری نورحسین ایک سرگرم عوامی شخصیت کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔ انہوں نے اپنی جاٹ برادری کو علاقے کے جاگیرداروں کے خلاف سیاسی اعتبار سے منظم کرکے ایک قوت بنایا۔ مسلم کانفرنس سے اپنی سیاست کا آغاز کرنے کے بعد آزاد مسلم کانفرنس کے نام سے اپنی الگ جماعت قائم کی، اور1984ء میں سیاست سے ریٹائر ہوکر پارٹی کی قیادت بیرسٹر سلطان محمود کے حوالے کی۔ اس کے ایک سال بعد ہی 1985ء میں بیرسٹر سلطان محمود آزادکشمیر اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، اور ان کے پارلیمانی کردار کا آغاز ہوا۔
بیرسٹر سلطان محمود برطانیہ کی معروف درسگاہ ’’لنکنز ان‘‘ کے بار ایٹ لا ہیں، اور جاٹ برادری کے علاوہ آزادکشمیر کے تمام علاقوں اور برادریوں میں ان کا اپنا حلقۂ اثر موجود رہا ہے۔ وہ 9 بار قانون ساز اسمبلی کا الیکشن جیت چکے ہیں۔ بیرسٹر سلطان محمود نے اپنی سیاست کو کشمیر سینٹرک بنائے رکھا، اور بیرونی دنیا میں بھارتی مظالم کے خلاف اور کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کی حمایت کے لیے دہائیوں سے سرگرم ہیں۔ انہوں نے تارکین وطن کشمیریوں کو منظم کرکے تحریکِ آزادی کشمیر کے ساتھ وابستہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے امریکہ، برطانیہ اور یورپ میں بڑے مظاہروں کی قیادت کرکے ہر اہم موقع پر بھارت کو زچ کرنے کی کوشش کی، اور مسلسل غیر ملکی سفارت کاروں کو کشمیر کے حوالے سے بریف کرکے اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔
بیرسٹر سلطان محمود نے اپنے حکومتی کیرئیر کا آغاز 1996ء میں بطور وزیراعظم کیا۔ آزادکشمیر میں انہیں مسٹر کلین کے طور پر جانا جاتا ہے۔ بطور وزیراعظم انہوں نے خود کو روپے پیسے اور کمیشن کی سیاست سے دور رکھا۔ وہ ایک معتدل وزیراعظم کے طور پر جانے جاتے رہے۔ بعد میں وہ قانون ساز اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف بھی رہے۔ پی ٹی آئی میں شامل ہونے کے بعد آزاد کشمیر پی ٹی آئی فین کلب کے بجائے ایک سیاسی جماعت کے طور پر پہچانی جانے لگی، اور پارٹی نے مکمل سیاسی رنگ ڈھنگ اپنالیے، یہاں تک کہ دوسرے ہی الیکشن میں حکومت سازی میں کامیابی حاصل کی۔
آزادکشمیر کے آئین کے تحت صدر محض ایک آئینی اور علامتی عہدہ ہے، جبکہ بیرسٹر سلطان محمود ایک فعال اور ہمہ وقت متحرک شخصیت ہیں۔1985ء میں آزادکشمیر کے پارلیمانی نظام کے آغاز پر صدر میجر جنرل عبدالرحمان نے مرحوم زاہد ملک کے ہفت روزہ ’’حرمت‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ صدر کا کام کھانا، سونا اور سلامی لینا ہے۔ میجر جنرل عبدالرحمان اُس وقت ایوانِ صدر میں اپنے آخری ایام زیاد تر سوکر ہی گزار رہے تھے کیونکہ انتخابات کے نتیجے میں سردار سکندر حیات خان وزیراعظم بن چکے تھے اور ان کے پاس کرنے کو کچھ نہیں تھا۔ بعد میں سردار سکندر حیات خان خود صدر بنے تو انہوں نے بھی متعدد بار اسی حقیقت کا اعتراف کیا، مگر سردار عبدالقیوم خان جیسے فل ٹائم سیاست دان نے اس منصب کا وقار کسی طور کم نہیں ہونے دیا۔ وہ او آئی سی، رابطہ عالم اسلامی اور یورپی نمائندوں کو خطوط لکھ کر اور ملاقاتیں کرکے کشمیر پر سرگرمیاں جاری رکھے رہے۔ سردار عبدالقیوم خان کے بعد ایوانِ صدر پر ریٹائرڈ جرنیلوں، ججوں، سفارت کاروں اور سیاست میں غیر فعال لوگوں کا حق فائق سمجھا جاتا تھا، مگر اب سردار عبدالقیوم خان کے بعد ایک بار پھر ایوانِ صدر کی کنجیاں ایک فل ٹائم متحرک اور ذاتی حلقۂ اثر رکھنے والی شخصیت بیرسٹر سلطان محمود کو ملی ہیں۔ امید اور توقع ہے کہ وہ کھانے، سونے اور سلامی لینے والے صدر نہیں ہوں گے، بلکہ وہ ایوانِ صدر کو ایک ’’سویا ہوا محل‘‘ اور مطالعاتی دوروں پر آنے والے بچوں کی تفریح گاہ کے بجائے زیادہ بامقصد اور فعال بنائیں گے، اور اس کرسی پر بیٹھ کر سسٹم اور سیاسی کلاس کے لیے سرپرست کا رول ادا کریں گے، اور آزادکشمیر کو اُس سیاسی کشمکش کے اثرات سے محفوظ رکھیں گے جس نے پاکستانی سیاست کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ایوانِ صدر کے دروازے تمام سیاسی جماعتوں کے لیے کھلے رہیں گے اور اس منصب پر بیٹھ کر وہ ہم عصر سیاسی شخصیات سے مسئلہ کشمیر پر بارآور حکمت عملی پر مشاورت کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لیے زیادہ جانفشانی سے اپنا کردار ادا کریں گے۔ حکومت اور کابینہ کو اپنے تجربے اور قد کاٹھ کے مطابق راہِ راست پر رہنے کے مشورے دیں گے اور حکومت کے لیے سرپرست اور راہنما کا کردار ادا کریں گے۔ اور حکومت بھی اُن کے تجربے، بصیرت اور نیک نامی سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرے گی۔