پاکستان میں بائیں بازو کی جملہ سیاسی جماعتوں نے 27 اپریل1978ء کو افغان صدر سردار دائود کے خلاف بغاوت، ان کے قتل، اور اقتدار ماسکو کی ماتحت کمیونسٹ، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی افغانستان کے ہاتھ آنے پرخوشی کا اظہار کیا تھا، اور بڑی پُرامید اور سرشار ہوئیں۔ ایسی ہی مسرت ان کے چہروں پر تب دیکھی گئی تھی جب سردار دائود نے ان مارکسسٹوں کے تعاون سے ظاہر شاہ سے حکومت ہتھیالی تھی۔ سردار دائود مختصر عرصے میں خارجہ پالیسی میں تبدیلی لائے اور ماسکو پر انحصار کی پالیسی ترک کردی، جس پر ماسکو نے انہیں اقتدار سے بے دخل کرنے کی ٹھان لی۔ اس تناظر میں روس کی کمیونسٹ پارٹی، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، اور پاکستان کی نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) نے منقسم پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کو یکجا کیا۔ اس جماعت کی داغ بیل یکم جنوری1965ء کو ڈالی گئی تھی۔1967ء میں پارٹی دو دھڑوں خلق اور پرچم میں تقسیم ہوئی۔ پرچم دھڑے کی قیادت ببرک کارمل اور خلق کی نور محمد ترہ کئی کررہے تھے۔ بغاوت کے بعد بھی یہ دو جماعتیں باہم دست و گریباں تھیں۔ کہنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے انقلابیوں، بائیں بازو کے سیاسی حلقوں اور پشتون قوم پرستوں نے ظاہر شاہ سے اقتدار چھن جانے پر خوشی منائی تھی، وہ اس لیے کہ سردار دائود تب روس نواز تھے۔ چناں چہ سردار دائود کے بہیمانہ قتل پر ان کے ہاں والہانہ ماحول بن گیا، کسی نے خفگی کا اظہار نہ کیا کیونکہ اقتدار کمیونسٹوں کے ہاتھ لگا تھا۔یہ حلقے اس بگاڑ، تخریب اور خون آشامی کو انقلاب در انقلاب کہتے رہے۔ یوں دس سال روسی افواج افغانستان کے اندر وحشت و دہشت گردی کی بدترین مثال قائم کرتی رہیں۔ اس ننگی جارحیت اور قبضے کو افغانستان کی خوشحالی، ترقی اور جمہوریت کے معنی پہنائے جاتے۔ روس کی موجودگی اور قبضے کے لیے خوشنما دلیلیں گھڑی جاتیں۔ بعینہٖ نائن الیون کے بعد امریکی اور نیٹو افواج کے حملے اور قبضے کو آزادی سے تعبیر کیا گیا۔ علی الخصوص پاکستان کی دو پشتون جماعتیں پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں افغانستان پر طویل گفتگو کرتیں۔ آزاد و جمہوری افغانستان کے الفاظ کی تکرار کی جاتی۔ پاکستان پر افغانستان میں مداخلت کے الزامات دھرے جاتے۔ حالاں کہ دراصل ان کا ہر و موقع پر افغانستان کو موضوع بنانا بجائے خود مداخلت کے زمرے میں آتا ہے۔ جس طرح روسی قبضے کے دوران لاکھوں افغانوں کے قتل و بربادی پر ان کے ہاں خاموشی چھائی رہی اسی طرح امریکی قبضے کے ان بیس سالوں کی زیادتیوں اور افغانستان کے اقتدارِ اعلیٰ کو فوجی طاقت تلے روندے جانے پر بھی انہیں سانپ سونگھ رکھا تھا۔ 29 فروری2020ء کو قابض امریکہ اور اس کے مقابل استقلال و آزادی کی جنگ و جدوجہد کرنے والوں کے درمیان معاہدہ ہوا تو ان حلقوں کی طرف سے باحوصلہ پالیسی بیانات کے بجائے کابل اور دوسرے معنوں میں قابض افواج اور بھارتی موجودگی کے حق میں بدستور فضا بنائی جاتی۔ جمعہ 4 جون 2021ء کے بیان میں اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی خان نے کہا کہ ان کی جماعت افغان حکومت کے ساتھ کھڑی ہے کیوں کہ وہ افغانستان کی نمائندہ حکومت ہے، اور ان کی جماعت افغانستان کسی متشدد فریق کے حوالے کرنے کے خلاف ہے۔ بیان میں پاکستان کی حکومت کو پوری نصیحت و تاکید کی گئی ہے۔ یعنی انہیں قابض افواج دکھائی دی ہیں نہ بھارت کے جاسوسی کے ادارے، جو پاکستان کے اندر دہشت گردی کے کیا کیا کھیل نہیں کھیل چکے! انہوں نے فاٹا کے اُن مسلح گروہوں کی اعانت بھی کی جن کے ہاتھ اے این پی کے درجنوں رہنمائوں اور کارکنوں کے خونِ ناحق سے رنگین ہیں۔ ایمل ولی نے پیش ازیں 3جون کو خطاب میں کہا کہ ’’پاکستان سے جتھے سہولت کے ساتھ افغانستان جارہے ہیں، پاکستان میں افغان طالبان کی وکالت کی جارہی ہے اور افغان حکومت سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ انہیں سیاسی قوت کے طور پر تسلیم کرکے حکومت میں حصہ دیا جائے‘‘۔ انہیں خبر ہونی چاہیے کہ دراصل کابل کی حکومت پاکستان اورامریکہ سے اپیل کرتی رہی کہ انہیں بات چیت پر آمادہ کیا جائے۔ کئی بار کابل حکومت انہیں حکومت میں غالب حصہ دینے کی پیشکش کرچکی تھی۔ لیکن وہ ایسا کیوں کرتے جنہوں نے ملک سے قابض بیرونی افواج کے انخلا اور ملکی استقلال کی خاطر بیس سالہ طویل جدوجہد کی ہے، گوانتا ناموبے، بگرام، ہلمند، قندھار کے فوجی عقوبت خانوں میں اذیتیں جھیلی ہیں، افغان عوام لقمہ اجل بنے ہیں؟ آخرکار امریکہ نے معاہدہ کرکے انہیں حقیقی فریق تسلیم کر ہی لیا، اور انخلا بھی یقینی بنا۔ آزادی پسندوں نے آزادی کا خواب شرمندۂ تعبیر کیا۔
افغانستان پر حملے اور قبضے کے بعد پاکستان کی دینی جماعتوں نے بھی افغانوں کو امریکیوں اور ان کے مسلط گروہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ البتہ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام نظریاتی غیر ملکی قبضے کے خلاف احتجاج کرتی ہیںاور آزادی کی جنگ لڑنے والوں کی حمایت میں بولتی رہی ہیں۔ جے یو آئی (ف) طویل عرصہ گویا لاتعلق رہی۔ اُس کی جانب سے 15 اگست 2021ء کوکابل میں طالبان کے داخل ہونے کے بعد تہنیتی پیغامات کا سلسلہ شروع ہوا۔ پی ڈی ایم کے کراچی جلسے میں مولانا فضل الرحمان نے امارتِ اسلامیہ افغانستان کے الفاظ بار بار ادا کیے۔ اچھی بات ہے، کیوں کہ افغان عوام کی اس تحریک اور آئندہ بننے والی حکومت کو سیاسی حمایت کی ضرورت ہے، تاکہ دنیا افغانستان سے غافل نہ ہو۔ پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کافی سوچ بچار یعنی چند دن حالات کا رخ دیکھنے کے بعد کابل کے حالات پر گفتگو کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہمارا خطہ ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو آزادی، استقلال اور وطن سے محبت کرتے ہیں، اور دنیا بھر نے تسلیم کیا ہے کہ افغان قوم ملنسار، مہمان نواز، انسان دوست ہے، مگر وہ اپنی آزادی کے معاملے پر حساس ہے۔ افغانستان اُن چند ممالک میں سے ہے جو مغربی استعماری قوتوں کے غلام نہیں ہوسکے۔‘‘
بات درست ہے، مگر یہاں تو ایک مکتبہ فکر نے افغانستان پر روسی سامراج، پھر امریکی استعماری و استبدادی قبضے کو خوش آمدید کہا ہے، جس میں محمود خان اچکزئی کی جماعت بھی شامل ہے۔ اور جنہوں نے استقلال و خودمختاری کی جنگ لڑی ہے وہ ماضی کی طرح آج ایک بار پھر کابل میں مسندِ اقتدار پر بیٹھے ہیں، جو طے شدہ حتمی تاریخ سے آگے امریکہ کو اپنے ملک میں برداشت کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ دوئم، امریکی اور بھارتی چھتری کے نیچے چلنے والی کابل کی حکومت کس طرح عوام کی منتخب حکومت کہلائی جاسکتی ہے؟ اور حکومت نے درست طور پر دوحہ میں مقابل فریق کو تسلیم کرکے مذاکرات کیے ہیں، اور پانچویں صوبے کی خواہش نہ ماضی کی جہادی تنظیموں کے سامنے رکھنے کی کسی کو ہمت ہوئی، نہ اس کے بعد ملا عمر کی حکومت اور نہ موجودہ حکومت کے سامنے کسی کو بیان کرنے کی جرأت ہوسکتی ہے۔ البتہ افغانستان کی کمیونسٹ لابی کے سرخیل ببرک کارمل اور ڈاکٹر نجیب اللہ آمادہ تھے کہ افغانستان کو سوویت یونین کی سولہویں جمہوریہ بنایا جائے، جس کا موقع انہیں افغان جہادی تنظیموں نے نہ دیا۔ محمود خان اچکزئی تحریک چلائیں کہ امریکہ سمیت دنیا کے ممالک افغانستان کی معاشی و اقتصادی ترقی میں حصہ ڈالیں، اور گناہ کا کفارہ ان کی جماعت بھی ادا کرے کہ جس نے ماضیِ قریب میں دنیا کی دو بڑی طاقتوں کے افغانستان پر قبضے میں سہولت کار کا کردارا دا کیا ہے۔ کابل کی نئی حکومت نے اقتدار ہاتھ میں لینے کے باوجود کسی کو نظرانداز کرنے کی پالیسی نہیں اپنائی ہے۔ بدترین اور سفاک دشمنوں کو بھی معاف کیا ہے۔ اچکزئی نے ایران، پاکستان اور چین کو افغانستان کی خودمختاری کی ضمانت دینے اور اس کی تشکیلِ نو کا توکہہ دیا ہے، مگر بھارت کے کرتوت پر دانستہ پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے، جس نے بیس سال افغانستان کے اندر تخریب اور شرارت کی پالیسی اپنائے رکھی تھی، تخریب اور فساد کے لیے کابل کی حکوت کو ہمہ وقت آمادہ کیے رکھا تھا۔ بھارت کی پوری توجہ پاکستان پر مرکوز تھی۔ لہٰذا وارننگ یا تاکید بھارت کو ہونی چاہیے تھی، جو اب تک افغانستان کے اندر فساد برپا کرنے کی تگ و دو میں ہے۔ اس نے ہرات کے اسماعیل خان کو جنگ پر آمادہ کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ ایران منتقل ہوگئے۔ دوستم اور عطا نور سے امیدیں باندھیں، وہ بھی ملک سے نکل گئے۔ اور پنجشیر کے احمد مسعود کو ورغلانے کی مکروہ سعی کی۔ یعنی بھارت چاہتا ہے کہ افغانستان میں خانہ جنگی کا دور دورہ ہو۔
دوسری طرف امریکہ نے افغانوں کو اپنے ہاں اور دیگر ممالک میں منتقل کرنے کا تماشا لگا رکھا ہے۔ مقصد اس چل چلائو کا یہی ہوسکتا ہے کہ دنیا کو باور کرایا جائے کہ امریکہ کے قبضے کے دوران افغان عوام خوش و خرم اور آسودہ تھے، اور اب غیر یقینی مستقبل کے پیش نظر نکل رہے ہیں۔
اشرف غنی کا نائب صدر امر اللہ صالح ہنوز ’’را‘‘کی بولی بول رہا ہے۔ پنجشیر کا کنٹرول میں لیا جانا مشکل ہر گز نہیں،البتہ تحریک بات چیت کی قائل ہے۔ اس بات میں بھی صداقت نہیں کہ پنجشیر ناقابلِ تسخیر ہے۔لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ وہاں روسی بھی داخل نہ ہوسکے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ احمد شاہ مسعود نے جہادی کمانڈر کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا، جس نے1982ء میں ہی روسی فوج سے ایک دوسرے کے مفادات کے تحفظ کا معاہدہ کر رکھا تھا، جس کے بعد روسی فوجوں کو پنجشیر میں داخل ہونے کی ضرورت نہ رہی۔افغانستان میں تعینات رہنے والے روسی جنرل’’باریس گراموف‘‘ لکھتے ہیں کہ احمد شاہ مسعود کے جنگجو روسیوں کے ساتھ مل کر حزبِ اسلامی کے مجاہدین پر حملے کرتے‘‘۔ یعنی پنجشیر کے نا قابلِ تسخیر ہونے کا محض ہوّا کھڑا کیا گیا ہے۔افغانستان کے اندر اپریل 1978ء سے1992ء تک، اور پھر نومبر2001ء سے اگست 2021ء تک کی تمام حکومتیں طفیلی تھیں۔ چناں چہ افغان اقتدارِ اعلیٰ، استقلال، خود مختاری کا دور اب شروع ہوا ہے،جس کی دنیا کی جانب سے مدد ہونی چاہیے۔اچھا ہوا محمود خان اچکزئی نے تسلیم کرلیا کہ افغانستان کی بربادی میں روس و امریکہ شامل ہیں۔محمود خان اچکزئی کی جانب سے طالبان کو تسلیم کرنا بھی قابلِ ستائش ہے۔