پھر لہو صبح کا ستارہ ہوا
پھر وہی سانحہ دوبارہ ہوا
آسماں آنسوؤں میں ڈوب گیا
سرخ رو شام کا کنارہ ہوا
اجڑے اور تباہ حالی کے شکار کراچی کے لوگوں کے مسائل، درد اور غم ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔ ہر کچھ عرصے بعد دل دہلا دینے والے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں، ہر کچھ عرصے بعد المیے جنم لیتے رہتے ہیں اور لوگ اپنے پیاروں سے محروم ہوتے رہتے ہیں… جس پر کچھ دن شور شرابا رہتا ہے، خبریں چلتی ہیں، اور پھر خاموشی چھا جاتی ہے۔ یہی اس شہر کی تاریخ اور یہی اس شہر کی کہانی ہے کہ یہ مختلف عنوانات سے موت کا شہر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کراچی کے ساتھ حکمرانوں نے وہ ظلم کیا ہے جو شاید دشمن بھی نہ کرے۔ پورے ملک کو پالنے والے شہر کراچی کے عوام کی بدقسمتی ہے کہ اسے پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اب پی ٹی آئی نے اذیت، موت اور زخموں کے سوا کچھ نہیں دیا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہاں ہر کچھ عرصے بعد المیے جنم لیتے اور لوگوں کی کہانیاں بنتی رہتی ہیں۔ کورنگی مہران ٹاؤن میں کیمیکل فیکٹری میں آگ لگنے سے تین سگے بھائیوں سمیت17 مزدوروں کا جھلس کر جاں بحق ہونا بھی ان حکمرانوں کے ظلم اور بے حسی کی کہانی ہے۔ اس سانحے کی کمشنر کو پیش کردہ ابتدائی رپورٹ کے مطابق واقعہ 27 اگست کو صبح 10 بج کر 8 منٹ پر ہوا، بی ایم لگیج انڈسٹری پلاٹ نمبر سی 40 سیکٹر 6 ایف مہران ٹائون کورنگی میں ایمرجنسی اخراج کے راستے موجود نہ تھے اور اوپر والی منزل مکمل بند تھی۔ فیکٹری میں کیمیکل کی موجودگی کے باعث آگ تیزی سے پھیلی، ایمرجنسی ایگزٹ نہ ہونے سے ہلاکتیں زیادہ ہوئی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق انتظامات نہ ہونے کے سبب مزدوروں کی دم گھٹنے سے موت واقع ہوئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چھت پر موجود دروازے پر تالا لگا ہوا تھا، تالا توڑنے کی کوشش بھی کامیاب نہ ہوئی۔ کھڑکیوں پر لگی گِرل کو توڑنے کی کوشش بھی ناکام رہی۔ فیکٹری عملے کے مطابق اندر پچیس کے قریب لوگ موجود تھے۔
سانحہ کورنگی ہمارے سماج کا المیہ اور سفاک طرزِ حکمرانی کا ایک نمونہ ہے۔ بڑے بڑے حادثے ہوتے ہیں اور بار بار ہوتے ہیں، کیونکہ ان کے ذمہ داروں کا کبھی تعین نہیں ہوتا، اور اگر ہو بھی جائے تو کم ازکم ہمارا نظام انہیں سزا دینے میں ناکام رہتا ہے۔ گہری سازش کے تحت اسی طرز کا ماضی میں ہونے والا سانحہ بلدیہ اس کی اہم مثال ہے جس کے متاثرین آج بھی انصاف کے منتظر ہیں۔ آج سے9 سال قبل 11 ستمبر 2012ء کو بلدیہ ٹاؤن میں واقع ایک فیکٹری میں ہولناک آتشزدگی کے نتیجے میں وہاں کام کرنے والے مرد و خواتین سمیت 260 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ سانحہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے اعلیٰ عہدیدار حماد صدیقی نے 20 کروڑ روپے بھتہ نہ ملنے پر بلدیہ میں قائم گارمنٹس فیکٹری میں آگ لگوائی تھی۔
سانحہ بلدیہ کے متاثرین کے گھرانوں کی طرح اس واقعے کے بعد بھی غریب متاثرین کے گھروں میں صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے۔ ہر گھر کا اپنا درد اور الگ داستان ہے۔ واقعے والے دن ہی دو ماہ کی دلہن پر سکتہ طاری ہوگیا تھا، ایک باپ بیٹے کی لاش دیکھ کر دل کا دورہ پڑنے سے چل بسا تھا۔ واقعے کے بعد جاں بحق تین بھائیوں کی والدہ بھاگی بھاگی جناح ہسپتال پہنچی۔ غم سے نڈھال اس ماں کا کہنا تھا کہ ”میں نے ایک نظر لاشوں کو دیکھا ہے، مجھے کچھ نہیں پتا چل رہا کہ میرے بیٹوں کی لاشیں کون سی ہیں“۔ اُس دکھیاری ماں کا مزید کہنا تھا کہ ”میں نے تو اپنے بیٹوں کو مزدوری کے لیے بھیجا تھا، ان کو جل کر مرنے کے لیے نہیں بھیجا تھا۔“
جسارت کے رپورٹر خالد مخدومی کے مطابق جاں بحق افراد کے گھر آج بھی ماتم کدہ بنے ہوئے ہیں۔ کہیں ایک ماں نوحہ کناں تھی کہ اس کے اکلوتے بیٹے کی لاش انصاف مانگ رہی ہے، تو کسی کی بیٹی کو ڈاکٹر بننے کا خواب اب واقعی خواب لگنے لگا، کسی بوڑھے باپ کو اپنے پوتے پوتیوں کے سروں سے چھت چھن جانے کا خوف دل میں درد کا سبب بننے لگا، کہیں کسی چچا کو اپنے 8 بھتیجے بھتیجیوں کی تعلیم وتربیت میں کمی کا خوف رلانے لگا۔ فیکٹری حادثے میں جاں بحق ہونے والے 33 سالہ صابر کی 12 سالہ بیٹی اپنے والد کا خواب پورا نہ کرسکی۔ 12 سالہ آمنہ نے خالد مخدومی کو روتے ہوئے بتایا کہ ”ابو کی خواہش تھی کہ میں ڈاکٹر بنوں، میں بابا کی خواہش پوری کروں گی“۔ مرحوم صابر کے 3 بچے ہیں۔ مرحوم کے بھائی نے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا کہ آتشزدگی سے جاں بحق ہونے والوں کو گھر فراہم کیے جائیں اور ان کے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے ماہانہ معاوضہ ادا کیا جائے۔ صابر کرائے کے گھر میں رہائش پذیر تھے۔ مرحوم کی اہلیہ شدتِ غم سے نڈھال ہیں اور ان کے معصوم بچے بھی اپنے بابا کا انتظار کررہے ہیں، جبکہ ان کو ابھی اس بات کا احساس نہیں ہے کہ اب وہ کبھی واپس نہیں آسکتے اور منوں مٹی تلے جاسوئے ہیں۔ مہران ٹاون سانحے میں جاں بحق ہونے والے کاشف کی والدہ نے اپنی گفتگو میں کہا کہ یہ سب سوچی سمجھی سازش تھی، ان کا کہنا تھا کہ وہ فیکٹری پہنچنے والے ابتدائی لوگوں میں شامل تھیں، اُس وقت تک سب زندہ تھے، سب چیخ رہے تھے، آگ بجھانے کا کوئی سلنڈر ان کے پاس نہیں تھا۔ غم سے نڈھال ماں کا کہنا تھا کہ سب چلّا رہے تھے کہ تالا توڑا جائے، دو گھنٹے تک پانی کی گاڑی نہیں آئی، جب وہ گاڑی آئی تو آگ نہیں دھواں بجھا رہی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ کوئی انچارج، چوکیدار نہیں مرا۔ چوکیدار لوگوں کو بھگا رہا تھا۔ فیکٹری میں آگ لگنے سے جاں بحق 3 بھائیوں عرفان، فرحان اور فرمان کے والد محمد احسان نے بتایا کہ میرے 5 بیٹے اور 2 بیٹیاں ہیں جن میں سے 3 آج جاں بحق ہوگئے۔ انہوں نے بتایا کہ تینوں جاں بحق بیٹے شادی شدہ تھے، ان کے 4، 4 بچے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب میں بوڑھا ہوگیا ہوں، ایک بیٹا نشے کا عادی ہے۔
اس حادثے میں جاں بحق ہونے والوں میں بائیس سالہ محمد کاشف بھی شامل تھے۔ ان کی رہائش مہران ٹاون میں فیکٹری کے بالکل سامنے تھی۔ محمد کاشف کے بھائی محمد زاہد نے بی بی سی کو بتایا کہ ”حادثے والی صبح بھی بڑی عجیب تھی۔ اُس روز مجھے اپنی اہلیہ کو لینے کے لیے اپنے آبائی ضلع نواب شاہ جانا تھا۔“ وہ کہتے ہیں ”صبح کے وقت میں اور کاشف ساتھ ساتھ نکلے تھے۔ اُس کو فیکٹری جانا تھا جبکہ مجھے گاؤں۔ میرے ساتھ میرے والد بھی تھے۔ اس نے جب ہم لوگوں کو دیکھا تو کہنے لگا کہ اگر آپ دس منٹ انتظار کریں تو میں فیکٹری سے چھٹی لے کر آتا ہوں اور آپ کے ساتھ ہی گاؤں چلتا ہوں“۔ محمد زاہد کا کہنا تھا کہ ”میں نے اُس سے کہا کہ چلو ٹھیک ہے ہم تمھارا انتظار کرتے ہیں۔ تم جاؤ اور واپس آؤ۔ اچھا ہے ہم سب ساتھ جائیں گے۔ جس کے بعد وہ فیکٹری چلا گیا۔ میرا خیال تھا کہ اس کو چھٹی وغیرہ لینے میں آدھا گھنٹہ لگ جائے گا۔ مگر اس کے جانے کے کوئی پندرہ، بیس منٹ بعد شور شرابہ شروع ہو گیا۔“
ان کا کہنا تھا کہ ”میں نے باہر جاکر دیکھا تو فیکٹری کے باہر لوگ اکٹھے تھے۔ فیکٹری میں سے دھواں نکل رہا تھا۔ میرا بھائی اندر تھا۔ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ.. ایک کھڑکی توڑ کر فیکٹری کے دوسرے فلور پر پہنچ گیا۔ میرا خیال تھا کہ میرا بھائی فیکٹری کے تیسرے فلور پر ہوگا۔ میں نے تیسرے فلور پر جانے کی کوشش کی مگر وہاں پر اتنا دھواں تھا کہ مجھے کچھ نظر نہیں آرہا تھا، کئی منٹ تک کوشش کرتا رہا، جب محسوس ہوا کہ اب میں بے ہوش ہونے والا ہوں تو بمشکل اسی کھڑکی سے کود کر نیچے اتر آیا“۔ محمد زاہد کا کہنا تھا کہ ”ہم 6بہن بھائی ہیں۔ محمد کاشف کا نمبر تیسرا تھا۔ وہ ہم سب کا بہت لاڈلا اور ضدی بھائی تھا۔ ان دنوں اسے جنون سوار تھا کہ دبئی جانا ہے، جس کے لیے وہ کوشش کررہا تھا۔ اس فیکٹری میں کام کرنے کی وجہ بھی یہی تھی کہ اسے فیکٹری والوں نے کہا تھا کہ وہ اسے دبئی بھیجیں گے، جس کی وجہ سے ایک دفعہ ملازمت چھوڑنے کے باوجود اس نے دوبارہ ملازمت کرلی تھی۔“
محمد زاہد کا کہنا تھا کہ ”میرا بھائی چلا گیا۔ میرے ماں باپ سکتے کی کیفیت میں ہیں۔ اگر کوئی میری بات سنے تو میں کہتا ہوں کہ اس حادثے کے نتیجے میں کئی خاندان تباہ و برباد ہوچکے ہیں۔“
وہ کہتے ہیں ”کئی ایسے خاندان ہیں جن کے گھروں میں اب چولھا بھی نہیں جلے گا۔ کئی ایسے ہیں جن کے گھروں کے دو دو اور پانچ پانچ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ لوگ اپنے گھروں سے مزدوریاں کرنے اور رزقِ حلال کمانے گئے تھے۔ اب ان کے خاندانوں کا کیا بنے گا، کسی نے سوچا ہے؟“
یہ واقعہ صرف ایک حادثہ نہیں بلکہ سندھ حکومت، ادارئہ ترقیات کراچی، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، انڈسٹریز اینڈ لیبر ڈپارٹمنٹ اور متعلقہ اداروں کی مجرمانہ غفلت کا نتیجہ ہے۔
یہ ستمبر2012 ء میں بلدیہ ٹاؤن کی گارمنٹس فیکٹری میں کام کے دوران لگنے والی آگ کے بعد بڑا، افسوس ناک اور المناک واقعہ ہے۔ فائر بریگیڈ حکام کے مطابق فیکٹری میں مختلف اشیاء بنانے میں استعمال ہونے والا کیمیکل موجود تھا، آگ کیمیکل کے ڈرم میں لگی اور پھیلتی گئی۔ فیکٹری کی تمام کھڑکیاں گِرل لگا کر بند کی گئی تھیں، فیکٹری میں اندر آنے اور باہر جانے کا ایک ہی راستہ تھا، اسی لیے لوگوں کو امداد پہنچانے اور نکالنے میں مشکلات کا سامنا رہا جس کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافہ ہوا۔ اس واقعے میں بھی فائر بریگیڈ کے دیر سے پہنچنے کی شکایت موجود ہے۔ ماضی میں بلدیہ فیکٹری میں جو آگ ایم کیو ایم نے بھتے کے لیے لگوائی تھی، اُس میں بھی محفوظ باہر نکلنے کا کوئی ہنگامی راستہ موجود نہ ہونے کی وجہ سے ڈھائی سو سے زائد مزدور ہلاک ہوئے تھے جن کے لواحقین آج بھی انصاف کے منتظر ہیں۔ قانون کے تحت ایسی عمارات کی کھڑکیوں کو لوہے کی گرل لگا کر بند کرنے اور کام کے اوقات میں دروازوں کو تالا لگانے کی ممانعت ہے۔ ہمارے قانون میں یہ شق موجود ہے کہ کسی بھی تجارتی عمارت میں کم از کم چار داخلی اور خارجی راستے لازمی ہوں، اس کے علاوہ آگ لگنے کی صورت میں ہنگامی اخراج کے لیے دو مزید راستے ہونا بھی ضروری ہیں۔ اسی طرح کسی بھی صنعتی استعمال کے لیے بنائی جانے والی عمارت میں آگ بجھانے کے خصوصی آلات اور اسپرنکل ہونا لازمی اور ضروری ہونا چاہیے، کیونکہ وہ آگ لگنے کی صورت میں خودکار نظام کے تحت پانی برساتا ہے۔ اس کے ساتھ عمارتوں میں آگ بجھانے کے لیے علیحدہ سے پانی کا ٹینک بھی لازمی طور پر ہونا چاہیے۔
امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرائیڈے اسپیشل سے گفتگو میں کہا ہے کہ یہ سانحہ اپنی نوعیت کا ایک بڑا اور المناک سانحہ ہے، ایک ہی فیملی کے تین بھائیوں سمیت 17افراد کا جاں بحق ہونا بہت بڑا غم ہے۔ سانحہ کورنگی فیکٹری کی ذمہ داری سندھ حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ سندھ حکومت بتائے کہ رہائشی علاقے میں اتنی بڑی فیکٹری غیر قانونی طریقے سے کیسے لگائی جاسکتی ہے؟ سندھ حکومت اس سانحے کی ذمہ داری سے پیچھے نہیں ہٹ سکتی۔ اس المناک سانحے کی تحقیقات کروائی جائے، اتنے بڑے پیمانے پر آگ لگنے کی وجوہات اور ذمہ داران کا تعین کیا جائے، سندھ حکومت عملی طور پر جاں بحق ہونے والے مزدوروں کے ورثاء اور اہلِ خانہ کو معاوضہ ادا کرے، فی کس ایک کروڑ روپے زرِ تلافی ادا کیا جائے، ورثاء کو سرکاری نوکری دی جائے اور ان کے بچوں کے تعلیمی اخراجات سرکاری سطح پر ادا کیے جائیں، اور آئندہ ایسے سانحات کی روک تھام کے لیے اقدامات ہونے چاہئیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آگ لگنے کے بعد فائر فائٹرز کا بروقت جائے وقوعہ پر نہ پہنچنا، اور سندھ حکومت و بلدیاتی اداروں کے پاس آگ بجھانے کے ضروری انتظامات نہ ہونا حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اگر فوری ریسکیو اور فائر بریگیڈ کی بروقت کارروائی ہوجاتی تو قیمتی انسانی جانوں کا اتنا ضیاع نہ ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ اس امر کی بھی تحقیقات کی جائے کہ کیمیکل فیکٹری گنجان رہائشی علاقے میں کس طرح اور کس کی اجازت سے کام کررہی تھی، اور فیکٹری میں ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات اور انتظامات کیے گئے تھے؟ ایک سوال کے جواب میں حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ جس طرح جماعت اسلامی نے بلدیہ ٹاون کے متاثرین کو آج تک نہیں چھوڑا، اور ان کے دکھ درد میں شریک اور آج بھی ان سے رابطے میں ہے اور ہر طرح کی مدد کررہی ہے، اسی طرح ہم متاثرینِ مہران ٹاون کے اہلِ خانہ کے بھی ساتھ ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مہران ٹاون پر قبضہ مافیا کا راج ہے، جن کی ملی بھگت سے رہائشی علاقے میں فیکٹری لگانے کی اجازت دی گئی، حکومت اور متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہے کہ قبضہ مافیاوں کے خلاف کارروائی کریں، اور ہم سپریم کورٹ سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ سانحہ کورنگی فیکٹری کے ذمہ داران کے خلاف فوری ازخود نوٹس لے۔
ماضی میں جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے روبرو عمارتوں میں آگ لگنے کے واقعات اور فائر قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی تھی، جس میں سول ڈیفنس نے کراچی کی عمارتوں میں لگنے والی آگ کی وجوہات سے عدالت کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ کراچی کی 80 فیصد عمارتوں میں ایمرجنسی گیٹ تک نہیں لگائے جاتے، بلڈرز بڑی بڑی عمارتیں بنا لیتے ہیں مگر لوگوں کے تحفظ یا سیفٹی کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جاتے۔ اُس وقت یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ لوگ سیفٹی کے بجائے سیکورٹی پر زیادہ توجہ دیتے ہیں، اور یہ شکایت بھی سامنے آئی تھی کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی جن عمارتوں کے نقشے پاس کرتی ہے وہ نقشے سول ڈیفنس کو فراہم نہیں کیے جاتے۔ اور اُس وقت عدالت میں معزز جج نے ریمارکس دیے تھے کہ آئے روز ٹیکسٹائل انڈسٹریز اور عمارتوں میں آگ لگ جاتی ہے، لوگوں کی جانیں چلی جاتی ہیں۔ عدالت نے کہا تھا کہ قوانین کا تبدیل ہونا وقت کی ضرورت ہے لیکن پہلے سے جو قوانین موجود ہیں اُن پر عمل درآمد کیوں نہیں ہورہا؟ لیکن وہی سوال آج بھی موجود ہیں۔ اس اندوہناک واقعے پر جہاں اُس ماں کے سوال کا جواب کراچی کو لُوٹنے والے سفاک حکمرانوں کو دینا ہوگا جس کے تین بیٹے جاں بحق ہوئے کہ ”میں نے اپنے بیٹوں کو مزدوری کے لیے بھیجا تھا، جل کر مرنے کے لیے نہیں بھیجا تھا“، وہاں ایک بار پھر ہلاکتوں کے بعد سوال یہ ہے کہ کیمیکل فیکٹری رہائشی پلاٹ پر کس طرح قائم ہوئی؟ اور متعلقہ ادارے کیا کررہے تھے؟ اور حکومت نے نومبر 2020ء میں عدلیہ کے کہنے پر کون سے نئے قوانین بنائے، اور پہلے سے موجود قوانین پر کتنا عمل درآمد کروایا؟ یقیناً ان سب کا جواب ایک ہی ہے کہ کچھ بھی نہیں ہوا، اور وہی ہوا جو شہر کراچی میں ہر حادثے اور المیے کے بعد ہوتا ہے کہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ہم افتخار عارف کی زبان میں یہی کہہ سکتے ہیں کہ
یہ بستیاں ہیں کہ مقتل دعا کیے جائیں
دعا کے دن ہیں مسلسل دعا کیے جائیں
کوئی فغاں کوئی نالہ کوئی بکا کوئی بین
کھلے گا باب مقفل دعا کیے جائیں
یہ اضطراب یہ لمبا سفر یہ تنہائی
یہ رات اور یہ جنگل دعا کیے جائیں
بحال ہو کے رہے گی فضائے خطۂ خیر
یہ حبس ہوگا معطل دعا کیے جائیں