جنگ و جدل! مگر کب تک؟

کسی جواز کے بغیر غیر متعلقہ تنازعات میں الجھنے اور جنگیں چھیڑنے سے ایک طرف تو امریکا کی طاقت میں غیر معمولی حد تک کمی واقع ہوئی ہے اور دوسری طرف اس کی ساکھ بھی بُری طرح متاثر ہوئی ہے۔
میں نہ تو عسکری معاملات کا ماہر ہوں نہ جنگوں کے شدید منفی اثرات کا کوئی بھی بڑا تجزیہ کار۔ میں تو عام شہری ہوں جسے افغانستان میں رونما ہونے والے حالات و واقعات اور ان کے نتیجے میں جانوں کے ضیاع کا شدت سے احساس ہے۔
میں جو کچھ بیان کر رہا ہوں وہ نہ تو مستقبل بینی ہے اور ہی کوئی ہدایت نامہ۔ نہ میں کوئی تجویز پیش کر رہا ہوں۔ یہ تو عالمی طاقتوں، بالخصوص امریکا، سے ایک التماس ہے کہ وہ ایسی پالیسیا اپنائیں جن کے نتیجے میں دنیا بہتر ہو جائے، امن و استحکام کی فضاء پیدا ہو اور دنیا کا ہر انسان زیادہ سے زیادہ سکون کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی پوزیشن میں آسکے۔
آج کی دنیا کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ علوم و فنون میں فقید المثال نوعیت کی پیش رفت یقینی بنالینے کے بعد بھی انصاف اور امن کے لیے بھرپور کوششیں کرنے کے بجائے ساری توانائی جنگوں کی بھٹی میں جھونکی جارہی ہے۔ میں کم و بیش نصف صدی قبل امریکا آیا تھا۔ پھر مجھے یہاں کی شہریت بھی مل گئی۔ میں اس یقین کے ساتھ امریکا آیا تھا کہ یہی وہ ملک ہے جو دنیا کو درکار امن اور انصاف یقینی بنانے کے لیے غیر معمولی سطح پر کوششیں کرسکتا ہے اور کرے گا۔
اس کے بجائے میں نے امریکا کو ایک ایسا ملک پایا ہے جو غیر ضروری جنگوں کی بھٹی میں اپنے آپ کو جھونک کر خود کو شدید کمزوری سے دوچار کرچکا ہے۔ ان جنگوں کے نتیجے میں امریکا کی طاقت میں خاصی کمی آئی ہے اور پوری دنیا میں اس کی ساکھ بھی خطرناک حد تک کمزور ہوئی ہے۔ آج شاید ہی کوئی خطہ ایسا ہو جو امریکا کو ایک آدرش ملک کے طور پر دیکھتا ہو۔ امریکا کی ترقی اور ساری چکاچوند صرف مادّی معاملات تک ہے۔ اخلاقی اور مثالی سطح پر امریکا کی وہ پوزیشن نہیں جو ہونی چاہیے تھی۔ یہ سب کچھ میرے لیے انتہائی الم ناک رہا ہے کیونکہ کوئی اور ملک ایسا نہیں جو مجھے، میری بیوی اور بیری بیٹی کو پروفیشنل سطح پر آگے بڑھنے کے لیے حقیقی مواقع پر مبنی ماحول فراہم کرسکے۔
امریکا نے اب تک جو بھی عسکری مہم جوئی کی ہے اس کے نتیجے میں اس کی ساکھ مزید خراب ہوئی ہے کیونکہ متعلقہ ممالک یا خطوں کی آبادیوں کو کچھ بہتر ملنے کے بجائے اُن کے لیے مسائل بڑھے ہیں، بڑے پیمانے پر خرابیاں ان کا مقدر بنی ہیں۔ امریکا نے جب بھی کہیں عسکری مہم جوئی کی ہے یا مداخلت کا مرتکب ہوا ہے تب یہی کہا گیا ہے کہ وہ معاملات کو بہتر بنانا چاہتا ہے، متعلقہ ممالک یا خطوں کو نئی زندگی دینا چاہتا ہے، جمہوری اقدار کو پروان چڑھانے کا خواہش مند ہے اور یہ کہ اس کی مداخلت سے شر پسند قوتیں کمزور پڑیں گی اور خیر کی قوتوں کو بڑھاوا ملے گا مگر جو کچھ ہوتا آیا ہے وہ اس کے برعکس ہے۔ یہ بات صرف افغانستان کے معاملے میں درست نہں بلکہ عراق، لیبیا، شام اور یمن کے معاملے میں بھی بالکل درست ہے۔
امریکا کے معاملے میں یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ کسی بھی ملک میں غیر ضروری طور پر کی جانے والی مداخلت سے صرف نفرت پنپتی ہے۔
٭ طالبان کی ’’شکست‘‘ کا المیہ
ہم طالبان سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔ طالبان کون تھے یا ہیں؟ طالبان وہ ہیں جنہیں ہم نے خود پروان چڑھایا تھا۔ 1970 کی دہائی کے آخری دنوں میں جب سابق سوویت یونین نے افغانستان پر لشکر کشی کی تب امریکا نے متعدد ممالک سے تعلق رکھنے والے مجاہدین کو پروان چڑھاکر سویت قابض افواج کے مقابل کھڑا کیا۔ ان مجاہدین نے ایک عشرے کی جاں گُسل جدوجہد کے بعد سوویت قابض افواج کو شکست سے دوچار کیا۔
اب ایک ناقابلِ تردید حقیقت یہ ہے کہ طالبان دو عشروں کی شدید خوں ریز جدوجہد کے بعد پوری طاقت اور جوش و خروش کے ساتھ ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ ان کا سامنا کرنا ایسا آسان اور سستا نہیں رہا۔ امریکا نے دو ہزار ارب ڈالر سے بھی زیادہ خرچ کیے مگر طالبان پر حتمی حیثیت میں قابو پانے سے قاصر رہا ہے۔ امریکا نے دل کھول کر جو کچھ خرچ کیا وہ افغانستان میں انتظامی اور عسکری سطح پر بے مثال کرپشن کی راہ ہموار کرنے کا سبب بنا۔
بے شرمی پر مبنی قتلِ عام
سیم کین نے اپنی نظم ’’دشمن کیسے تخلیق کیا جائے‘‘ میں کہا ہے کہ جب ہم کسی دشمن کو (اپنی ضرورت اور ذہنیت کے مطابق) تخلیق کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تب کسی کو قتل کرنے تک ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں رہتا اور قتلِ عام کا بازار گرم کرتے وقت کسی بھی درجے کی شرم محسوس نہیں ہوتی۔
امریکی پالیسی سازوں کا ایک بڑا یا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ جب بھی کچھ سوچتے ہیں تو ذہن میں وہ صنعتی ڈھانچا ہوتا ہے جس کی بنیاد جنگوں کے جاری رکھنے پر ہے۔ جنگیں چھیڑی جاتی ہیں تو امریکا میں وہ صنعتی ڈھانچا ترقی کرتا ہے جو ہتھیار، گولا بارود، لڑاکا طیارے ہیلی کاپٹرز، ڈرونز اور دوسرا جنگی ساز و سامان تیار کرتا ہے۔ امریکا کے بانی صدر جارج واشنگٹن نے بیرون ملک عسکری مہم جوئی اور کسی بھی مقام پر غیر ضروری مداخلت سے خبردار کیا تھا۔ صدر آئزن ہاور نے جمہوریت کو ایسے صنعتی ڈھانچے کی موجودگی لاحق خطرات سے خبردار کیا تھا جس کی بنیادی جنگوں پر رکھی گئی ہو۔ امریکا میں اس وقت صنعتی ڈھانچے کا ایک بڑا حصہ جنگوں کی بنیاد پر قائم ہے۔ جنگیں ہوتی رہیں گی، خانہ جنگیاں جاری رہیں گی تو امریکا میں صنعتیں بھی چلتی رہیں گی۔ عسکری مہم جوئی ختم ہوگی تو بہت سی صنعتوں کی بساط لپٹ جائے گی۔
جنگی ساز و سامان تیار کرنے والی صنعتوں سے بھی لوگ ہی وابستہ ہیں۔ ان لوگوں کے بچے بھی اور اُن کے بچے بھی۔ جنگی ساز و سامان تیار کرنے والی صنعتوں کے وابستہ افراد کو اپنی نئی نسلوں کے لیے ایک بہتر دنیا چھوڑ کر جانا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ لوگ کون سی دنیا ترکے میں چھوڑ رہے ہیں۔ شیطانی چہرے والی دنیا تو کسی بھی حالت میں ایسی دنیا نہیں جس کا خواب دیکھا جاتا رہا ہے۔ کیا نئی نسلوں کو ایسی دنیا ترکے میں دی جائے گی؟
کیا انسانی المیے ناگزیر ہیں؟
میں کم و بیش پچاس ممالک میں صحتِ عامہ سے متعلق مشنز سے وابستہ رہا ہوں۔ میں نے غربت اور بیماریوں کا بدنما چہرہ دیکھا ہے۔ میں نے جنگ و جدل کے انتہائی خطرناک، بلکہ ہلاکت خیز اثرات کا خود مشاہدہ کیا ہے۔ میں نے السلوا ڈور، نکارا گوا، موزمبیق اور انگولا میں جنگوں اور خانہ جنگیوںکے نتیجے میں لاکھوں، بلکہ کروڑوں افراد کو در بہ در ہوتے دیکھا ہے۔ یہ سب کچھ ایسا نہیں کہ آسانی سے بھلادیا جائے۔ محض آنکھیں بند کرلینے سے معاملات درست نہیں ہو جاتے۔ محض خوش گمانی پالنے سے کسی تباہ حال ملک کا بھلا نہیں ہو جاتا۔
اب ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا یہ انسانی المیے واقعی ناگزیر ہیں۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ جنگیں برآمد کرنے کے بجائے ہم ٹیکنالوجیز برآمد کریں، اساتذہ، فنکاروں، معالجین اور محققین کے ساتھ مل کر ہم ایک بہتر دنیا کا وجود یقینی بنانے کے لیے کام کریں؟
میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ ایسا ممکن ہے۔ اعلیٰ انسانی اقدار کو بنیاد بناکر پالیسیاں کیوں پروان چڑھائی جائیں؟ ہمیں تصادم اور محاذ آرائی کے بنیادی ڈھانچے کو تعاون اور اشتراکِ عمل کے بنیادی ڈھانچے سے بدلنا ہے۔
پاکستانی فزیشین اور تھئیٹر ڈائریکٹر بینا شریف نے مجھے بتایا کہ استعماری اور نو آبادیاتی قوتوں کو دوسرے ممالک اور خطوں کے انسانوں کی کچھ پروا نہیں۔ یہی سبب ہے کہ وہ صحت و تعلیمِ عامہ کے بہتر نظام، ثقافتی اقدار کے فروغ اور قومی تعمیر کے ذریعے دوسروں کی زندگی بہتر بنانے کے بارے میں کبھی نہیں سوچتے۔ بڑی اور قابض نوعیت کی قوتوں کے ذہنوں سے یہ سب کچھ مٹ چکا ہے۔ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ جنگیں جاری رہیں اور قتل و غارت کا بازار گرم رہے کیونکہ استعمار کی قوت کو پنپنے کے لیے بہترین ماحول صرف جنگ و جدل سے ملتا ہے۔
جنگوں سے بچایا ہوا پیسہ دنیا بھر میں لوگوں کی حالت بہتر بنانے کے لیے مختص کیا جانا چاہیے۔ ترقی پذیر ممالک میں غربت سے لڑنے کے لیے ایسا کرنا لازم ہے۔ غربت کی کوکھ سے صحت و تعلیمِ عامہ کے مسائل جن لیتے ہیں، معاشرتی عوارض بھی غربت ہی کی پیداوار ہوتے ہیں۔ جو پیسہ جنگ کی بھٹی میں جھونکے جانے سے رہ جائے وہ ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک کے لوگوں کو سستی زرعی مشینری فراہم کرنے کے لیے بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔ اسی طور پر تجارت کے لیے موافق ماحول پیدا کرنے پر بھی توجہ دی جاسکتی ہے۔
دنیا بھر میں فنکاروں، کھلاڑیوں، معالجین، اساتذہ اور محققین کے تبادلوںکے ذریعے بھی دوستی، تعاون اور اشتراکِ عمل کا ماحول پروان چڑھایا جاسکتا ہے۔ اس وقت عوامی سطح پر رابطے بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔
٭ نامعلوم کا خوف
جنگوں اور خانہ جنگیوں پر نہ لٹائی جانے والی رقم سے انتہائی غریب آبادیوں میں بیماریوں کا قلع قمع کرنے میں خاطر خواہ حد تک مدد لی جاسکتی ہے۔ ایسے تحقیقی منصوبوں کے لیے بھی فنڈنگ کی راہ ہموار ہوسکتی ہے جن کی مدد سے سب کے لیے صحت اور بہتر حالات ممکن بنانا مقصود ہو۔ مختلف جان لیوا بیماریوں پر بہت حد تک قابو پاکر بھی انسانیت کی غیر معمولی خدمت انجام دی جاسکتی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ وسائل کی قلت ہے۔ ہمارے پاس غیر معمولی تناسب سے وسائل موجود ہیں۔ سوال صرف زندگی کو نئے نقطۂ نظر سے دیکھنے اور حیرت انگیز نتائج پیدا کرنے والے امکانات کو شناخت کرکے عمل کی راہ پر گامزن ہونے کا ہے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ میں کچھ زیادہ ہی سادہ لوح واقع ہوا ہوں۔ مگر یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جو سادہ لوح قرار نہیں دیئے جاتے انہوں نے ہی ہمیں جنگ پسندی کی دلدل میں دھنسا دیا ہے۔ اگر ہم واقعی چاہیں تو ایک بہتر دنیا کو معرضِ وجود میں لاسکتے ہیں۔
theglobalist.com. Quo Vadis, America? By César Chelala August 28, 2021