پاک امریکہ تعلقات مستحکم ہوسکیں گے؟

پاکستان کے چین سے بڑھتے ہوئے تعلقات، یا افغانستان کے بحران سے جڑے معاملات کو بنیاد بناکر بہت سے اہلِ دانش یا سفارتی محاذ پر موجود ماہرین پاک امریکہ تعلقات میں بداعتمادی کو زیر بحث لارہے ہیں۔ ان کے بقول پاکستان کا سارا جھکائو اب امریکہ کے بجائے چین کی جانب ہوگیا ہے اور اسی بنیاد پر امریکہ ہماری خارجہ پالیسی پر سخت تحفظات رکھتا ہے۔ کیونکہ پاکستان چین سے یقینی طور پر اپنے تعلقات کو نئی جہتوں اور ضرورتوں کے تحت آگے بڑھانا چاہتا ہے، لیکن اس کا مطلب امریکہ سے تعلقات میں بگاڑ پیدا کرنا یا اُس سے کسی قسم کی مقابلے کی فضا قائم کرنا بالکل نہیں۔
افغانستان کے حالیہ بحران کے حل کے تناظر میں امریکہ اور افغانستان کے ساتھ پاکستان ایک بڑا فریق ہے۔ سابق افغان حکومت، طالبان اور امریکہ کے درمیان مفاہمت یا مذاکرات کی جو میز سجی ہوئی تھی وہ بھی پاکستان کی معاونت کا ہی نتیجہ تھی۔ جو کچھ افغان حکومت یا سابق صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے کیا اُس پر محض پاکستان کے ہی تحفظات نہیں تھے، بلکہ خود امریکہ کی سیاسی قیادت سمیت اسٹیبلشمنٹ نے بھی اُن کے کردار پر شدید تنقید کی ہے۔ ان کے بقول افغان صدر مفاہمت کے ساتھ افغان طالبان کے ساتھ معاملات طے کرسکتے تھے، مگر اُن کی ہٹ دھرمی کے نتیجے میں افغان طالبان کو برتری حاصل ہوئی اور افغان حکومت کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ بہت سے عالمی سیاسی پنڈت بلاوجہ اس نکتے کو بنیاد بناکر پاک امریکہ تعلقات میں خرابی پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیںکہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کی اصل وجہ پاکستان کا سیاسی اور عسکری کردار ہے۔
پاکستان کے سامنے یقینی طور پر سفارتی محاذ پر ایک بڑا چیلنج امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بہتری اور ان معاملات میں ایک متوازن پالیسی ترتیب دینا ہے۔ اس تناظر میں پاکستان کو چار بڑے چیلنجوںکا سامنا ہے:
(1) پاکستان امریکہ سے ہر صورت بہتر تعلقات چاہتا ہے، اور اس کی خواہش ہے کہ امریکہ اس کے ساتھ ایک اہم اتحادی کے طور پر بہتر رویہ اختیار کرے۔
(2) امریکہ کی یہ پالیسی کہ وہ اپنی ناکامی کا سارا بوجھ پاکستان پر ڈالے، الزام تراشیوں سے ماحول کو بگاڑے، یا پاکستان کے خلاف عدم اعتماد کا ماحول پیدا کرے، یہ تعلقات کی بہتری کے لیے کوئی مناسب حکمت عملی نہیں۔
(3) امریکہ دہشت گردی سے نمٹنے اور خطے میں امن کی کوششوں پر پاکستان کے کردار کو تسلیم کرے، اور بلاوجہ اپنے اس اہم اتحادی پر شک کرکے ماحول کو خراب نہ کرے۔
(4) امریکہ بھارت کے تناظر میں عملی طور پر پاکستان کے تحفظات کو وہ اہمیت نہیں دے رہا جو ہماری ضرورت بنتے ہیں، اورنہ ہی اُس کی جانب سے بھارت پر خطے میں مثبت کردار ادا کرنے کے لیے دبائو نظر آتا ہے۔
افغانستان پر طالبان کے مکمل کنٹرول اور اشرف غنی حکومت کی پسپائی کو پاکستان کے ساتھ جوڑنے کی امریکی حکومت، میڈیا یا وہاں کے بڑے تھنک ٹینک کی پالیسی سمجھ سے بالاتر ہے، اوراس پر پاکستان میں شدید ردعمل پایا جاتا ہے۔ پاکستان سیاسی اور سفارتی محاذ پر کئی بار یہ کہہ چکا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ مل کر نہ صرف کام کرنا چاہتا ہے بلکہ ایک مربوط پالیسی سے خطے کی سیاست میں بھی اہم کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ بالخصوص پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کا یہ واضح پیغام کہ ہم ماضی سے نکل کر مستقبل کی طرف پیش قدمی کرنا چاہتے ہیں، اور جیو اسٹرے ٹیجک کے مقابلے میں جیو معیشت ہماری ترجیح ہے۔ پاک بھارت تعلقات کی بہتری میں بھی ہماری پالیسی یا عملی طور پر ردعمل بھارت کی نسبت خاصا مثبت ہے۔ طالبان کی حالیہ سیاسی برتری پر بھی پاکستان میںکوئی جشن نہیں، بلکہ ہم طالبان پر مفاہمت کی پالیسی اختیار کرنے، تمام فریقین پر مشتمل عبوری حکومت کے قیام، اور ماضی کے سخت گیر رویوں کے مقابلے میں اعتدال پسندی اور مخالفین کے بارے میں جمہوری پالیسی کو ممکن بنانے پر زور دے رہے ہیں۔ ہم طالبان پر بھی یہ واضح کرچکے ہیں کہ ان کے طرزعمل کی بنیاد اگر سیاسی ہوگی اور ماضی کے مقابلے میں وہ مثبت کردار ادا کریں گے تو ہم عالمی و علاقائی مشاورت سے ہی ان کی حکومت کو قبول کرنے کی بات پر آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اس لیے جو لوگ واشنگٹن میں بیٹھ کر پاکستان/طالبان گٹھ جوڑ کا ہوّا کھڑا کرکے معاملات کو خراب کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ امریکہ کے دوست کم اور دشمن زیادہ ہیں۔ اس عمل میں بھارت کا کردار بھی خاصا منفی ہے جو بلاوجہ پاکستان مخالف ایجنڈے کو بنیاد بنا کر پاک امریکہ تعلقات میں خرابیاں پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
اصل سوال یہی ہے کہ کیا امریکہ واقعی افغانستان میں استحکام کرنا چاہتا ہے؟ اور وہاں کی تعمیر و ترقی اور امن اس کی اہم ترجیحات کا حصہ ہے؟ اگرایسا ہے تو کیا وہ پاکستان کی شمولیت اور اہم اتحادی کی بنیاد پر تعلقات کے بغیر یہ کام کرسکے گا؟ یقینی طور پر ایسا ممکن نہیں۔ ماضی میں بھی ہم امریکہ کی جانب سے پاکستان کو پس پشت ڈال کر بھارت کی حمایت اور افغان بحران کے حل کی کوششوں کی ناکامی دیکھ چکے ہیں، اور اسی ناکامی کے بعد پاکستان کی مدد سے افغان بحران کے حل کی کوششوں کا آغاز ہوا۔کیونکہ پاکستان کی ترقی اور استحکام کی بنیاد افغانستان کا امن ہے۔ اس لیے پاکستان اور امریکہ کا افغانستان کے تناظر میں ایک دوسرے کا معاون اور اتحادی بننا دونوں کی ضرورت بنتا ہے۔ جو غلطی امریکہ نے افغانستان کے تناظر میں ماضی میں کی تھی اسے دہرانے کے بجائے امریکہ کو افغانستان کی ترقی اورامن کے ساتھ مستقل بنیادوں پر سیاسی، معاشی تعلقات کو استوار کرنا ہوگا۔ ایسے میں اگر پاک امریکہ تعلقات اعتماد کے ساتھ آگے بڑھیں تو مثبت نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ کیونکہ اگر امریکہ سمجھتا ہے کہ آنے والے برسوں میں ایک بڑا چیلنج افغانستان سمیت دنیا کے لیے القاعدہ بننے والی ہے تو ایسے میں پاکستان اور امریکہ میں دوریوں کے بجائے مضبوط تعلقات کی ضرورت ہے، اوراسی بنیاد پر مفاہمت کی سیاست آگے بڑھنی چاہیے۔
اسی طرح امریکہ کا اہم اتحادی بھارت ہے تو اس کا حق ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو مضبوط (باقی صفحہ 41پر)
بنائے۔ مگر پاکستان کے اس نقطہ نظر کو نظرانداز نہ کیا جائے کہ امریکہ بھارت تعلقات کی مضبوطی پاکستان پر دبائو بڑھانے، اسے کمزور کرنے یا عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے نہیں ہونی چاہیے۔ پاک بھارت تعلقات اورمسئلہ کشمیر کے پُرامن حل میں امریکی کوشش اور بھارت پر دبائو کی پالیسی واضح اور شفاف ہونی چاہیے جو سب کو نظر بھی آئے۔ مسئلہ محض افغانستان تک ہی محدود نہیں بلکہ مجموعی طور پر عالمی اور علاقائی سیاست میں پاک امریکہ تعلقات اور دوطرفہ تعاون ہی ایک دوسرے کے مفاد میں ہے۔ امریکہ کی پاکستان کو دیوار سے لگانے کی پالیسی، یا بھارت پر بڑھتا ہوا جھکائو یقینی طور پر پاکستان کومتبادل پالیسی کی طرف دھکیلے گا۔
امریکی تھنک ٹینک سمیت بہت سے سابق سفارت کار اور سابق صدور، یا خطے سے جڑے اہم افراد امریکی قیادت کو یہی پیغام دے رہے ہیں کہ وہ پاکستان کے بارے میں اپنی پالیسی میں بنیادی نوعیت کی تبدیلی لائے اور اسے ایک اہم اتحادی کے طور پر دیکھے، نہ کہ اس پر دبائو بڑھا کر تعلقات درست کرنے کے بجائے ان میں بگاڑ پیدا کیا جائے۔ پاکستان کو ماضی کے پاکستان کے مقابلے میں آج کے پاکستان کے طور پر دیکھے جو خود بھی خطے کی سیاست میں مثبت کلیدی کردار ادا کرنا چاہتا ہے، اور اس کے ساتھ اعتماد سازی، دو طرفہ تعاون اورمؤثر حکمت عملی ہی امریکہ کی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہونی چاہیے۔