بیالیس سال سے جاری خودکش دھماکوں اور فضائی حملوں سے افغانوں کو جو نجات ملی تھی اُس کا دورانیہ 11 دن بھی نہ رہ سکا، اور حسین خواب کے نقطہ عروج پر 26 اگست کو بدنصیب افغانوں کی آنکھ کابل ایئرپورٹ کے قریب خوفناک خودکش دھماکے اور فائرنگ سے کھل گئی۔ افغانستان 1979ء سے بمباری، اندھا دھند فائرنگ اور ڈرون کے ڈرائونے حملوں کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ گزشتہ جمعرات کو ہونے والے دھماکے کی ذمہ داری دولتِ اسلامیہ عراق والشام یا داعش نے قبول کی ہے۔ انگریزی میں اس کا مخفف ISIS ہے۔ القاعدہ کی طرح داعش کی ولادت اور پرورش کے بارے میں بھی سوالیہ نشانات ہیں۔
اس حوالے سے امریکہ کے ایک سیاسی و عسکری مبصر اور امریکی فوج کے سابق افسر کینتھ او کیف (Kenneth O’Keefe) نے ستمبر2014ء میں انکشاف کیا تھا کہ ”داعش کی پنیری سی آئی اے کی نرسری میں اُگائی گئی ہے“۔ روسی ٹیلی ویژن پر اپنے سنسنی خیز انٹرویو میں کین اوکیف نے کہا کہ داعش امریکی سی آئی اے نے تشکیل دی ہے۔ جناب اوکیف کا کہنا تھا کہ اس دہشت گرد تنظیم کو شامی صدر بشارالاسد کے خلاف کھڑا کیا گیا تھا۔ امریکہ کا خیال تھا کہ شامی فوج جدید اسلحہ سے لیس اور انتہائی تربیت یافتہ ہے جسے ایران اور روس کی بھرپور حمایت حاصل ہے جبکہ لبنانی حزب اللہ بھی اس کی پشت پر ہے، اور اس منظم فوج کا مقابلہ عوامی مظاہروں اور محدود چھاپہ مار کارروائیوں سے ممکن نہیں۔ کین اوکیف نے الزام لگایا کہ خلیجی ممالک نے اسلحہ کی خریداری اور بھرتی کے لیے داعش کو وسائل فراہم کیے تھے۔ داعش کے سپاہیوں کو اردن کے فوجی اڈوں پر بھاری اسلحہ یعنی بکتربند گاڑیوں، توپ خانوں اور ٹینکوں کے استعمال کی تربیت دی گئی کہ یہ جنگجو چھاپہ مار جنگ کے ماہر ہیں اور بھاری ہتھیاروں کے استعمال کا انھیں کوئی تجربہ نہیں۔ کین اوکیف کا کہنا ہے کہ ابلاغ عامہ کے نمائندوں سے گفتگو، حساس و ہیجان انگیز تصویرکشی، انٹرنیٹ و یوٹیوب اور سوشل میڈیا پر تشہیر کے لیے بھی داعش کے کارکنوں کو خصوصی تربیت دی گئی ہے۔
کین اوکیف کے علاوہ ایک اور امریکی صحافی ایرن کلائن نے انکشاف کیا تھا کہ داعش کے منتخب جنگجوئوں کو ایلپاسو (El Paso)کے امریکی فوجی اڈے پر ٹینک چلانے اور ہیلی کاپٹر اڑانے کی مشق کرائی گئی۔ ایلپاسو امریکی ریاست ٹیکساس میں واقع ہے، جو اپنے گرم موسم اور ریت کے طوفانوں کی بنا پر عراق سے مماثلت رکھتا ہے۔
کسی غیر جانب دار ذریعے سے مسٹر اوکیف یا ایرن کلائن کے ان خدشات و انکشافات کی تصدیق یا تردید نہ ہوسکی، لیکن داعش کے اچانک ظہور، عراق و شام میں ان کی برق رفتار پیش قدمی، اور پھر تھوڑے ہی عرصے بعد اس علاقے سے ان کا قلع قمع نادیدہ سرپرستی کا پتا دیتا ہے۔ ٹینک، بکتربند گاڑیاں، تاریکی میں استعمال ہونے والی عینک، گن شپ ہیلی کاپٹر اور دوسرے قیمتی اسلحہ کے لیے خطیر رقم کی فراہمی ایک سوالیہ نشان ہے۔ ایک وقت میں ISIS کے مالی وسائل کا تخمینہ دو ارب ڈالر سے زیادہ تھا۔ آخر داعش کو یہ وسائل کس نے فراہم کیے؟ کینتھ اوکیف کا کہنا ہے کہ امریکہ نے داعش کی تشکیل و تربیت اور اسلحہ کی فروخت کی مد میں اربوں ڈالر کمائے، اور اب اس کے خاتمے کی مہم واشنگٹن اور اس کے حواریوں کے لیے اضافی آمدنی کا سبب بنے گی۔
داعش کے ظہور کے بارے میں مسٹر اوکیف نے بالی ووڈ اور ہالی ووڈ کے حوالے سے امریکہ کے عسکری فلسفے پر بڑے لطیف انداز میں گفتگو کی تھی۔ کینتھ کا کہنا تھا کہ بالی ووڈ اور ہالی ووڈ دنیا میں فلم سازی کے دو بڑے مراکز ہیں۔ امریکی تہذیب کی جارحانہ پیش قدمی کے اثرات بالی ووڈ کی فلموں پر مغربی دھنوں اور ہالی ووڈ اسٹائل رقص کی صورت میں نظر آتے ہیں، لیکن ان دونوں مراکز پر تخلیق کی جانے والی کہانیوں میں اب بھی بڑا واضح فرق ہے۔ ہندوستانی فلم ڈھائی سے ساڑھے تین گھنٹے میں مہرو محبت کے کلمات، مارکٹائی، گیت و رقص، ظالم سماج کے ماتم، بزرگوں کی نصیحت، رقیب کی بڑھکوں اور مزاحیہ کلمات کے تڑکوں کے بعد وصال کے حسین لمحات یا ابدی فراق کے ہیبت ناک مناظر کے ساتھ ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے برعکس ہالی ووڈ کی فلموں میں کہانی کے اختتام پر تشنگی کا عنصر شامل کردیا جاتا ہے، جس کی بنا پر اسی کہانی پر فلم کے بہت سے اضافی ایڈیشن جاری کرنے کی گنجائش باقی رہتی ہے، مثلاً EXORCIST کے بعد EXORCIST 1,2,3جاری کی گئی۔ سلوراسٹالن کی مشہور زمانہ راکی کے پانچ ایڈیشن کے بعد ریمبو 1,2,3,4کا سلسلہ شروع ہوا، اور ریمبو کے اختتام پر راکی ریمبو کے امتزاج نے ایک نئی سیریز کو جنم دیا۔ مسٹر اوکیف کا کہنا ہے کہ واشنگٹن اپنی عسکری پالیسی بھی اسی انداز میں تشکیل دیتا ہے، یعنی فوجی مہم کو منطقی انجام تک پہنچانے سے پہلے ایک نیا ہدف تراش کر کشور کشائی کا سلسلہ جاری رکھا جاتا ہے۔ چنانچہ داعش دراصل القاعدہ کا تسلسل ہے۔
چار سال پہلے امریکہ کے سرکاری ریڈیو VOA پر اپنے ایک انٹرویو میں سابق افغان صدر حامد کرزئی نے داعش کو امریکہ کا آلہ کار قرار دیا تھا۔ اپریل 2013ء میں جب امریکہ نے داعش کے خلاف انسانی تاریخ کا سب سے بڑا غیر جوہری بم یعنی GBU-43 المعروف بموں کی ماں یا MOAB استعمال کیا اُس وقت افغانستان کے سیاسی حلقوں میں سخت بے چینی پھیلی تھی۔ موایب سے ہونے والے دھماکے کی شدت 11 ٹن TNT کے مساوی ہے، جبکہ ہیروشیما پر گرائے جانے والے ایٹم بم کی تاثیر 15 ٹن TNTکے برابر تھی۔ بمباری کی تفصیل بیان کرتے ہوئے پینٹاگون (امریکی وزارتِ دفاع) کے ترجمان نے کہا تھا کہ اس خوفناک بم کا ہدف آچی کا گائوں مہمند درہ تھا جہاں مبینہ طور پر داعش نے زیر زمین سرنگوں کا ایک مربوط سلسلہ تعمیر کررکھا تھا۔ اس زیرزمین قلعے کو خراسان کمپلیکس کہا جاتا تھا۔ امریکہ میں افغانستان کے سفیر حمداللہ محب نے اُس وقت دعویٰ کیا تھا کہ اس حملے سے ایک بھی شہری متاثر نہیں ہوا اور ”بموں کی ماں“ نے خراسان کمپلیکس کو ریت کے تودے میں تبدیل کردیا ہے۔ یہاں تعینات سارے کے سارے داعش چھاپہ مار اپنے کمانداروں سمیت زندہ دفن ہوگئے۔
لیکن جب گرد بیٹھی تو پتا چلا کہ داعش کا بال بیکا تک نہ ہوا، اور بموں کی ماں نے معصوم شہریوں کو جلا کر خاک کردیا۔ اسی پس منظر میں VOA نے حامد کرزئی سے جب گفتگو کی تو سابق افغان صدر پھٹ پڑے اور انھوں نے صاف صاف کہا کہ داعش اور امریکی فوج میں کوئی فرق نہیں۔ سابق افغان صدر تو یہاں تک کہہ گئے کہ امریکہ کے فوجی ہیلی کاپٹروں پر داعش کو اسلحہ فراہم کیا جارہا ہے۔
کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد سے امریکی سیاست دان داعش کا راگ الاپ رہے ہیں۔ عسکری تجزیہ نگار اور دوسرے ماہرین دعویٰ کررہے ہیں کہ امریکی فوج کی واپسی اور افغان فوج کی تحلیل سے پیدا ہونے والے خلا کو داعش تیزی سے پُر کررہی ہے اور ایک نیا نائن الیون بس مہینوں کی بات ہے۔ اسی مصرع طرح پر غزل خوانی کرتے ہوئے پاکستان کے مشیر سلامتی ڈاکٹر معید یوسف نے فرمایا کہ اگر افغانستان کو تنہا چھوڑ دیا گیا تو ایک اور نائن الیون جنم لے سکتا ہے۔ یہ اور بات کہ 20 سال گزر جانے کے بعد بھی اس سانحے کے حقیقی ذمہ داروں کے بارے میں خود امریکی ماہرین بھی یکسو نہیں۔
کابل ایئرپورٹ پر حملے سے دو دن پہلے امریکی صدر بائیڈن نے کہا تھا کہ خفیہ اداروں کی اطلاعات کے مطابق دہشت گرد کسی بھی وقت حملہ کرنے والے ہیں۔ اور آخرکار یہ حملہ ہوگیا جس میں 13 امریکی سپاہیوں سمیت 100 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے، جس کے جواب میں امریکی ڈرون نے ننگرہار صوبے میں تقریباً اُسی جگہ داعش کے مبینہ دہشت گردوں پر حملہ کیا جہاں 4 سال پہلے بموں کی ماں نے قیامت ڈھائی تھی۔
اس حملے کے دو دن بعد 29 اگست کو امریکی ڈرون نے شمالی کابل کے گنجان علاقے میں ایک کار کو نشانہ بنایا۔ امریکیوں کا دعویٰ ہے کہ آتش گیر مواد سے بھری اس کار کا ہدف کابل ایئرپورٹ کے باہر انخلا کے انتظار میں کھڑے ہزاروں شہری تھے۔ اس حملے سے چند گھنٹے پہلے کابل کے امریکی سفارت خانے نے اپنے شہریوں سے کہا تھا کہ وہ ایئرپورٹ کے قرب و جوار سے ہٹ جائیں۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق اس حملے میں شیر خوار سمیت ایک ہی خاندان کے 9 افراد مارے گئے۔ داعش کا کیا نقصان ہوا اس کے بارے میں خود چچا سام کو بھی کچھ خبر نہیں۔ امریکی مرکزی کمان (سینٹرل کمانڈ) کے ترجمان نے محض اتنا کہا کہ اس پیش بندی کے نتیجے میں دہشت گردی کی ایک بڑی کارروائی ناکام بنادی گئی۔
انخلا کے دن قریب آتے ہی داعش کے حملوں اور امریکہ کی جوابی کارروائیوں سے ایک طرف افغانوں میں خاصی بے چینی ہے، تو دوسری طرف واشنگٹن کے ذرائع ابلاغ افغانستان سے فوج کی واپسی کو امریکہ کی شکست قرار دے رہے ہیں، جس کی وجہ سے صدر بائیڈن شدید دبائو میں ہیں۔ امریکی ماہرین کو اس بات پر سخت تشویش ہے کہ افغان فوجیوں نے اسلحہ کے ذخائر طالبان کے حوالے کردیے ہیں جن میں ہزاروں بکتربند گاڑیاں، مہلک مشین گنیں، جنگی جہاز اور جدید ترین ہیلی کاپٹر شامل ہیں۔ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تاریکی میں دیکھنے والی خصوصی عینکوں کے علاوہ جاسوسی کے حساس ترین آلات کی ایک بہت بڑی کھیپ بھی طالبان کے ہاتھ لگی ہے۔
امریکی ماہرین کا خیال ہے کہ طالبان ہیلی کاپٹر سمیت جدید اسلحہ استعمال کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، لیکن بقول صدر ٹرمپ یہ ”تیزملا“ جلد ہی تربیت حاصل کرلیں گے۔ بعض امریکی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ روس اور چین کو ”مالِ غنیمت“ کے اس ڈھیر سے دلچسپی ہے، اور وہ افغانوں کو تربیت کی آڑ میں جدید ترین امریکی اسلحہ تک رسائی حاصل کرلیں گے، جس سے اسلحہ سازی کے باب میں امریکہ کی کلیدی پیش رفت دشمن کے سامنے بے نقاب ہوسکتی ہے۔ کئی سابق جرنیل چھینے گئے امریکی اسلحہ کو بمباری کے ذریعے تباہ کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کام جلداز جلد ہوجانا چاہیے، کہ طالبان نے قیمتی اسلحہ محفوظ مقامات پر منتقل کرنا شروع کردیا ہے۔
طالبان رہنما خطرہ ظاہر کررہے ہیں کہ داعش کی سرکوبی کے نام پر امریکہ فضائی حملوں کا سلسلہ جاری رکھے گا جس کی وجہ سے افغانستان کے طول و عرض میں بے چینی و بے یقینی پھیلی رہے گی اور اقتصادیات کی تعمیرنو کا کام شروع نہیں ہوپائے گا جو نئی حکومت کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ طالبان نے بہت زور دے کر کہا ہے کہ 31 اگست کو انخلا کی تکمیل کے بعد افغان سرزمین پر داعش یا امریکہ کسی بھی قوت کی کارروائی سنگین جارحیت تصور ہوگی جس کی ذمہ داروں کو بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی۔
دوسری طرف واشنگٹن کی تیاریوں سے صاف ظاہر ہے کہ امریکہ افغانستان پر فضائی حملے جاری رکھے گا جس کے لیے پینٹاگون ماورائے افق (over the horizon) مہم کی اصطلاح استعمال کررہا ہے۔ جب کابل ایئرپورٹ خالی کرنے کے بعد امریکہ کے پاس افغانستان میں کوئی بھی فوجی یا ہوائی اڈا نہیں رہے گا تو ماورائے افق حملے کیسے ہوں گے؟ افغانستان خشکی سے گھرا ملک ہے، اور اس کی فضائی حدود میں داخلہ پاکستان، ایران، ترکمانستان، ازبکستان اور تاجکستان سے ہی ممکن ہے۔ کیا یہ ممالک امریکی بمباروں اور ڈرون کو اپنی فضائی حدود سے گزرکر افغانستان جانے کی اجازت دیں گے؟ اعلان کی حد تک تو یہ تمام ممالک غیر مبہم انداز میں کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین افغانستان پر حملے کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے، لیکن گزشتہ دو حملوں کے لیے ڈرون طیارے کسی نہ کسی ملک کی سرحد عبور کرکے افغانستان میں داخل ہوئے ہیں۔
اسی کے ساتھ افغانستان میں مداخلت اور غیر ملکی موجودگی کو قانونی تحفظ دینے کے لیے اقوام متحدہ کی سطح پر کوششوں کا آغاز ہوچکا ہے۔ رائٹرز کے مطابق فرانس کے صدر ایمانویل میخواں نے کہا ہے کہ ان کا ملک برطانیہ کے تعاون سے اقوام متحدہ میں ایک قرارداد پیش کرے گا جس کے تحت کابل میں اقوام متحدہ کی زیرنگرانی ایک محفوظ یا سیف زون (Safe Zone) قائم کیا جائے گا۔
سیف زون کے نام سے اس ”سیاسی جزیرے“ کے قیام کا مقصد افغانستان چھوڑنے کے خواہش مند لوگوں کے لیے ملک سے روانگی کو محفوظ اور یقینی بنانا ہوگا۔ سادہ الفاظ میں یہ کابل ایئرپورٹ اور اس سے متصل بڑے علاقے پر قبضے کا منصوبہ ہے۔ کابل ایئر پورٹ سمیت پورا دارالحکومت افغانستان کا اٹوٹ انگ ہے جس پر قبضے کو افغان عوام کبھی برداشت نہیں کریں گے۔ طالبان کو توقع ہے کہ چین اور روس اس قرارداد کو ویٹو کرکے غیر موثر کردیں گے۔
برطانیہ، فرانس، جرمنی اور امریکی دارالحکومتوں میں ہونے والی سرگرمیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ مغرب افغانستان کا پیچھا چھوڑنے کو تیار نہیں، یا یوں کہیے کہ غیر ملکی قبضہ ختم ہوئے ابھی تین ہفتے بھی نہیں گزرے کہ زرغونہ جان کے کشورِ حسین کو نئی زنجیر پہنانے کی کوششیں شروع ہوگئی ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اِس بار داعش کی گوشمالی کے نام پر افغانستان کو فضا سے نشانہ بنانے کے علاوہ اقتصادی پابندیوں کے ذریعے دنیا کے اس غریب ترین ملک کو فقروفاقہ میں مبتلا کرکے مخصوص ایجنڈے پر چلنے کے لیے مجبور کیا جائے گا۔ اسی کے ساتھ سفارتی تنہائی میں مبتلا کرکے عالمی اداروں تک کابل کی رسائی مسدود کردی جائے گی۔
طالبان کو ان مشکلات کا اچھی طرح اندازہ ہے، جن سے نمٹنے کے لیے نئی افغان قیادت ملک میں سیاسی یکجہتی اور مفاہمت کے ایک نکاتی ایجنڈے پر لسانی اکائیوں اور سیاسی طبقات سے بات چیت میں مصروف ہے۔ غیر مشروط عام معافی سے ہیجان میں کمی آئی ہے۔ گزشتہ ہفتے خانہ بدوش کوچی قبیلے کے سربراہ اور سابق صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے بھائی حشمت غنی نے خود کو نئی انتظامیہ کے حوالے کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میرا جینا مرنا افغانستان میں ہے، نہ میں روپوش رہوں گا اور نہ ملک چھوڑوں گا۔ جواب میں طالبان نے اُن کی سرداری تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ مشران (سردار اور معززین) کا احترام افغان اقدار کا حصہ ہے۔
گفتگو و مذاکرات کے نتیجے میں پنجشیر کا معاملہ بھی حل ہوتا نظر آرہا ہے۔ معاملہ صرف پنجشیر تک محدود نہیں، بلخ کے سابق گورنر استاد عطا محمد نور کے صاحب زادے خالد نور نے مُلّا مخالف شمالی اتحاد سے طالبان کے رابطے کی تصدیق کی ہے۔ ترکی کی کوششوں سے عبدالرشید دوستم اور طالبان کے درمیان ثالثی شروع ہوچکی ہے۔ عبوری وزیر اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ دوستم، احمد مسعود اور سابق نائب صدر امراللہ صالح سمیت ہم تمام افغان رہنمائوں کا احترام کرتے ہیں اور کسی کے خلاف انتقامی کارروائی کے بارے سوچا بھی نہیں جاسکتا۔
افغان سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ پابندیوں اور فضائی حملوں کا مقابلہ قومی اتفاقِ رائے اور مفاہمت ہی سے کیا جاسکتا ہے۔ دنیا کو افغان قوم کے آہنی عزم کا اندازہ ہوچکا ہے، چنانچہ براہِ راست حملے کے بجائے اندرونی خلفشار دشمن کی ترجیح ہے، جسے بے لاگ و جرات مندانہ مکالمے سے ناکام بنایا جاسکتا ہے، اور طالبان اسی سمت میں کام کرتے نظر آرہے ہیں۔
…٭…٭…٭…
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔