جن لوگوں کا خیال ہے کہ افغانستان سے شکست خوردہ امریکی افواج کے انخلا، اشرف غنی حکومت کے خاتمے، اور کابل سمیت پورے افغانستان پر طالبان کے قبضے سے افغانستان میں چالیس سال سے بالعموم اور بیس سال سے بالخصوص جاری بدامنی ختم ہوجائے گی، وہ غلطی پر ہیں۔ یہ محض کسی کی خواہش تو ہوسکتی ہے، زمینی حقائق اس نقطہ نظر کی قطعاً حمایت نہیں کرتے، جس کی تازہ ترین مثال جمعرات کو کابل کے ہوائی اڈے کے قریب ہونے والا بدترین دھماکہ ہے جس میں لگ بھگ ڈیڑھ سو افراد جاں بحق اور بیسیوں زخمی ہوچکے ہیں۔ یاد رہے کہ اس دھماکے کی نذر ہونے والے بدقسمت خاندانوں کو دہرے عذاب سے گزرنا پڑا ہے۔ اولاً دھماکے کی صورت میں ان کے چیتھڑے اڑائے گئے، ثانیاً دھماکے کے بعد کئی گھنٹوں تک نہ تو تڑپ تڑپ کرجان دینے والوں کی لاشوں کو اٹھانے کے لیے کوئی آیا، اور نہ ہی چیختے چلّاتے زخمیوں کی جان بچانے اور انہیں فوری طبی امداد پہنچانے کی کوئی منظم کوشش نظر آئی۔ زمین کا رزق بننے والے ان خاک نشینوں کے ساتھ ایک اور المیہ یہ پیش آیا کہ انہیں ریسکیو کرنے اور ان کی آہ وفغاں پر کان دھرنے نہ تو امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے کابل ایئرپورٹ کی محفوظ پناہ گاہ سے باہر آنا گوارا کیا، اور نہ ہی طالبان ان کا بوجھ اٹھانے پر آمادہ نظر آئے۔ رہی سہی کسر کابل کے غیر یقینی حالات، نظام زندگی کے مفلوج ہونے، اور سب سے بڑھ کر ہسپتالوں اور رفاہی اداروں کی غیر فعالیت اور وہاں سے بے دخل ہونے یا کیے جانے والے طبی عملے کی عدم دستیابی نے پوری کردی۔ حالیہ کابل بم دھماکے کی جو ویڈیوز سوشل میڈیا پر سامنے آئی ہیں اُن میں خون میں لت پت زخمیوں کی آہ وبکا، لاشوں کے ڈھیر میں تڑپتے معصوم بچوں اور خواتین کی حالت پر انتہائی سخت جان افراد کے دل بھی پسیج گئے ہیں۔
کہنے کو تو اس اندوہناک واقعے کی ذمہ داری نہ صرف دولتِ اسلامیہ خراسان نامی تنظیم نے قبول کرلی ہے بلکہ امریکہ بہادر کے صدرِ ذی وقار نے دنیا کو ایک بار پھر بے وقوف بناتے ہوئے اگر ایک سانس میں انتہائی غم وغصے اور افسردگی کے انداز میں اس حملے کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دینے اور ان مجرموں سے انتقام لینے کا اعلان کیا، تو اگلے ہی لمحے ’’ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی آئے چوکھا‘‘ کے مصداق مغربی میڈیا دنیا کو یہ باور کراتے ہوئے بھی پایا گیا کہ اس بم دھماکے کے ماسٹر مائنڈ دولتِ اسلامیہ کے ایک اہم کمانڈر کو نہ صرف مشرقی افغانستان کے صوبے ننگرہار میں ایک ڈرون حملے میں ہلاک کردیاگیا ہے، بلکہ اسی روز درندگی کا ایک اور مظاہرہ کرتے ہوئے ایئرپورٹ کے قریب داعش کے ایک اور مشتبہ حملہ آور کونشانہ بنانے کی آڑ میں ایک بار پھر نہتے اور بے گناہ افراد کو نشانہ بنایاگیا، جن میں معصوم اور کمسن بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔
دریں اثناء کابل ایئرپورٹ پر ہونے والے بم دھماکے میں ہلاک ہونے والے 13 امریکی فوجیوں کی لاشیں امریکہ پہنچ گئی ہیں، جن کی وصولی کے موقع پر امریکی صدر جوبائیڈن سمیت دیگر اعلیٰ امریکی عہدیدار بھی موجود تھے۔
افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کے افراتفری اور ذلت آمیز طریقے سے نکلنے پر جہاں اتحادی ممالک بشمول جرمنی اور برطانیہ میں تنقید جاری ہے، وہاں خود امریکہ کے اندر بھی حکومتی صفوں کے علاوہ اپوزیشن کی جانب سے انخلا کے حوالے سے جوبائیڈن کے عجلت میں کیے جانے والے فیصلے کو ہدفِ تنقید بنایا جارہا ہے۔ امریکہ کے سابق وزیر خارجہ اور قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسنجر نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں افغانستان سے بے سروسامانی اور کامیاب نتائج کے بغیر انخلا کو امریکی شکست سے تعبیرکرتے ہوئے اسے امریکہ کے لیے ناقابلِ تلافی نقصان قراردیا ہے۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن کی جانب سے بھی امریکی کمانڈر جنرل مارک ملی کو کابل سے امریکی افواج اور شہریوں کے غیر محفوظ اور بدانتظامی کے شکار انخلا کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے اُن سے اس ناکامی پر بازپرس کا عندیہ دیا گیا ہے۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق جوبائیڈن نے کہا ہے کہ بگرام ایئرپورٹ کے بجائے کابل ایئرپورٹ سے امریکی افواج اور شہریوں کے انخلا کا فیصلہ افغانستان میں متعین امریکی افواج کے کمانڈر نے کیا تھا جس کا خمیازہ امریکی افواج اور شہری افراتفری، شدید دبائو اور بدنظمی کی صورت میں بھگت چکے ہیں۔
اسی اثناءمیں یہ اطلاعات بھی سامنے آچکی ہیں کہ ترکی کے صدر طیب اردوان نے کہا ہے کہ ان کی حکومت طالبان سے براہِ راست بات چیت کررہی ہے تاکہ بین الاقوامی افواج کے انخلا کے بعد کابل ایئرپورٹ کا مشترکہ انتظام سنبھالنے میں مدد سے متعلق حتمی فیصلے کیے جاسکیں۔ صدر اردوان کا کہنا ہے کہ ترک حکام نے طالبان سے تین سے چار گھنٹوں پر محیط بات چیت کے دوران یہ واضح کیا کہ ترکی ایئرپورٹ کا انتظام سنبھالنے کے لیے تیار ہے لیکن اس کی سیکورٹی کے انچارج طالبان ہوں گے۔ ایئرپورٹ کا انتظام کیسے سنبھالا جاتا ہے اور اسے کس طرح محفوظ بنایا جاتا ہے، اس حوالے سے تاحال کوئی بھی بات واضح نہیں ہے۔ واضح رہے کہ ترکی نیٹو کا رکن ملک ہے، وہ امریکی اتحادی افواج کا حصہ بھی رہ چکا ہے، اور اس نے گزشتہ چھ سال سے ایئرپورٹ کی سیکورٹی کی ذمہ داری سنبھالی ہوئی تھی۔ تاہم طالبان بھی ایک سے زائد مرتبہ دنیا پر یہ بات واضح کرچکے ہیں کہ وہ ترکی سمیت تمام بین الاقوامی افواج کا ملک سے انخلا چاہتے ہیں، اور انخلا کی ڈیڈلائن گزرنے کے بعد کسی بھی غیرملکی فوجی کو افغان سرزمین پر ٹھیرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ صدر اردوان کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے باوجود تاحال اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا کہ ان کی افواج ایئرپورٹ پر موجود رہیں گی یا نہیں۔
دوسری جانب اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ جو لوگ کابل میں ہونے والے وحشت انگیز حملوں میں ملوث ہیں انھیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ اس ضمن میں اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر روپرٹ کولوائل کا کہنا ہے کہ کابل ایئرپورٹ پر ہلاکت خیز حملوں کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عام شہریوں، بچوں، خواتین کو ہلاک کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ حملے خاص طور پر دہشت پھیلانے کے لیے کیے گئے تھے اور ان کے باعث دہشت پھیلی۔ اسی طرح امریکی صدر جوبائیڈن نے بھی بڑھک ماری ہے کہ وہ ان شدت پسند عناصر کو پکڑیں گے جنھوں نے کابل دھماکے میں افغان شہریوں اور امریکی فوجیوں کو ہلاک کیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ جو امریکہ بیس سال میں اپنے 48 ممالک پر مشتمل اتحادکے ساڑھے تین ہزار فوجیوں کے سروں کی قربانی دے کر، اور کھربوں ڈالر طالبان کے خلاف جنگ میں جھونک کرافغان طالبان کو شکست نہیں دے سکا۔ وہ کابل ایئرپورٹ کے ایسے دھماکے کے مجرموں کوکیونکر اور کیسے گرفت میں لا سکے گا جن کے بارے میں خود مغربی میڈیا شکوک وشبہات کا اظہار کررہا ہے کہ آیا اس کے پیچھے واقعی داعش کا ہاتھ تھا یا یہ کسی اور گروپ اور ملک کی کارستانی بھی ہوسکتی ہے۔ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ اس دھماکے کا فائدہ ایئرپورٹ سے اس دھماکے کے نتیجے میں ہزاروں کی تعداد میں پیچھے ہٹنے پر مجبور ہونے والے افراد کی شکل میں کس کو پہنچا ہے؟ اور آیا کہیں یہ دھماکہ افغان شہریوں کے انخلا کے لیے ایئرپورٹ پر دبائو میں کمی کے لیے خود امریکی خفیہ اداروں نے تو نہیں کیا؟ کیونکہ جن حالات میں امریکہ کو وہاں سے خود اور اس کے اتحادیوں کو نکلنا پڑا ہے اس میں ان سے کسی بھی امر کو بعید قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہاں یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ محض پندرہ دنوں میں ایک ہی ایئرپورٹ سے ہزاروں پروازوں کے ذریعے قریباً دولاکھ افراد جنہیں اگر عرفِ عام میں بھگوڑے کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، کا ہنگامی بنیادوں پر افراتفری میںانخلا کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔