مسلم دنیا اور مغرب کی ہمہ گیر غلامی

بودلیئر نے دنیا کو علامتوں کا جنگل قرار دیا ہے۔ بودلیئر کی یہ بات سو فیصد درست ہے۔ دنیا واقعتاً علامتوں کا جنگل ہے` مگر مسلم دنیا کا معاملہ یہ ہے کہ وہ دو سو سال سے مغرب کی ذہنی غلامی کی علامتوں کا جنگل بنی ہوئی ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے ان علامتوں میں سے ایک علامت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ انگریزی نظامِ تعلیم ہماری ذہنی غلامی کی علامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ انگریزوں نے انگریزی اور انگریزی نظام تعلیم ’’کالے انگریز‘‘ پیدا کرنے کے لیے متعارف کرایا تھا۔ انہوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ انگریزی نظامِ تعلیم ہمارے معاشرے میں دین سے دوری کا سبب بنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موبائل فون کے استعمال سے جنسی جرائم بڑھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موبائل فون نے نوجوانوں کو فحش مواد تک رسائی دے دی ہے جو اس سے پہلے تاریخ میں کہیں موجود نہ تھی۔ انہوں نے کہا کہ مناسب تربیت نہ ہونے کے سبب نئی نسل تباہی کی طرف جارہی ہے، اور والدین کو نئی نسل کی تعلیم و تربیت پر توجہ دینا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کو سیرتِ طیبہؐ سے روشناس کرانے کی ضرورت ہے تاکہ انہیں معلوم ہوسکے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انسانی تاریخ کے سب سے عظیم انسان تھے۔ وزیراعظم عمران خان نے لاہور میں ایک ٹک ٹاکر کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کو افسوس ناک اور شرمناک قرار دیا اور کہا کہ ایک وقت وہ تھا جب ایسے واقعے کا تصور بھی ہمارے معاشرے میں محال تھا۔ انہوں نے خواتین کی ہراسانی کے واقعات کی روک تھام کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔
مسلم دنیا کہنے کو مسلم دنیا ہے، اسلامی دنیا ہے، مگر اصل بات یہ ہے کہ مسلم دنیا مغرب کا چربہ ہے۔ ہم ہر چیز میں مغرب کی نقالی کررہے ہیں۔ مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ ہمارا نظام تعلیم مغربی ہے، یا ہم انگریزی، فرانسیسی اور اطالوی زبان بولتے ہیں، بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ مسلم دنیا مغرب کی ہمہ گیر غلامی میں مبتلا ہے۔ ہماری کون سی چیز ہے جو مغرب سے آئی ہوئی نہیں ہے؟ ہماری خواہشیں، آرزوئیں، تمنائیں مغربی ہیں۔ ہمارے خواب مغربی ہیں۔
افراد، قوموں، ملّتوں اور امتوں کی پوری زندگی ان کی الٰہیات یا ان کی Ontology پر کھڑی ہوتی ہے۔ جیسی جس قوم، ملّت یا امت کی الٰہیات ہوتی ہے ویسی ہی اس کی زندگی ہوتی ہے۔ مسلمانوں کی الٰہیات یہ ہے کہ خدا ایک ہے، وہی ہمارا خالق ہے، وہی ہمارا مالک ہے، وہی ہمارا رازق ہے۔ اسی کی طرف سے ہم اِس دنیا میں بھیجے گئے ہیں۔ اسی کی وجہ سے ہم دنیا میں مقیم ہیں اور اسی کی طرف بالآخر ہم لوٹ کر جائیں گے۔ مغربی دنیا نے مسلم دنیا کے کروڑوں لوگوں کی الٰہیات کو بدل دیا ہے۔ ایک ارب 80 کروڑ کی مسلم دنیا میں تین چار کروڑ لوگ ایسے ہیں جن کی زندگی الحاد پر کھڑی ہوئی ہے۔ وہ خدا کو مانتے ہی نہیں۔ وہ مکمل طور پر سیکولر یا لبرل ہوچکے ہیں۔ بدقسمتی سے مسلم دنیاکے حکمرانوں کی اکثریت عقیدے کے اعتبار سے سیکولر اور لبرل ہے، اور وہ مغرب کے زیراثر اپنے معاشروں کو تیزی کے ساتھ سیکولرائز کرتے جارہے ہیں۔ مغرب کی الٰہیات کی بات کی جائے تو مغرب نے ایک سطح پر مادے کو خدا بنایا ہوا ہے، اور دوسری سطح پر لاالٰہ الا اللہ کے مقابلے پر اس کا نعرہ ہے: لاالٰہ الالاّنسان۔ نہیں ہے کوئی الٰہ سوائے انسان کے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلم دنیا میں کروڑوں لوگ مادے کو خدا بنائے ہوئے ہیں۔ کروڑوں انسان مادے کو پوج رہے ہیں۔ اُن کا عقیدہ ہے کہ ہمارا کوئی خالق، مالک اور رازق نہیں ہے۔ نہ ہم کسی کی طرف سے یہاں بھیجے گئے ہیں اور نہ مرنے کے بعد ہمیں کسی کے پاس جانا ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ مسلم دنیا کے اکثر ملکوں کے آئین سیکولر ہیں۔ پاکستان کا آئین اسلامی ہے مگر پاکستان کے مقتدر سیکولر طبقے نے اس آئین کو اسلام کا ’’قیدخانہ‘‘ بنادیا ہے۔ وہ اسلام کو کبھی آئین سے نکل کر ریاست کی زندگی میں مؤثر نہیں ہونے دیتا۔ چنانچہ ہماری معیشت سود پر کھڑی ہوئی ہے، حالانکہ قرآن کہتا ہے کہ سود اللہ اور رسولؐ کے خلاف جنگ ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس نے سود لیا اس نے گویا 36 بار اپنی ماں سے زنا کیا۔ مگر اسلامی فکر کے یہ پہلو ہمارے حکمران طبقے کو نظر ہی نہیں آتے۔ انہیں اہم لگتا ہے تو مغرب کا سودی نظام۔ یہ صرف پاکستان کا معاملہ نہیں، تمام مسلم ملکوں کا یہی حال ہے۔ مغرب نے ایک جانب ہمارے تصورِ الٰہ کو بدل دیا ہے، دوسری جانب اس نے ایسے کروڑوں لوگ پیدا کردیے ہیں جو خدا کو مانتے تو ہیں مگر اُن کے لیے خدا ایک ’’تصور‘‘ سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کروڑوں مسلمانوں کی زندگی سے اس بات کی گواہی نہیں ملتی کہ وہ ایک خدا کو ماننے والے ہیں، وہ خدا سے محبت بھی کرتے ہیں اور اس سے ڈرتے بھی ہیں۔
اسلام اور اسلامی تہذیب کا ایک ’’تصورِ انسان‘‘ ہے۔ اس تصورِ انسان کے تحت انسان اللہ تعالیٰ کا ’’عبد‘‘ ہے، اور وہ زندگی خدا کے حکم کے تحت بسر کرتا ہے۔ خدا کے حکم کے سامنے اس کی ذاتی، انفرادی، خاندانی یا طبقاتی رائے کی کوئی حیثیت نہیں۔ اس کے لیے خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہی حتمی صداقت ہے۔ مغرب نے مسلمانوں کے اِس تصور انسان پر بھی زبردست حملہ کیا ہے۔ چنانچہ مسلم معاشروں میں ایسے کروڑوں لوگ ہیں جو انسان کو ایک خودمختار اور خود مکتفی وجود مانتے ہیں۔ ایسا وجود جو زندگی بسر کرنے کے لیے کسی آسمانی ہدایت کا محتاج نہیں۔ بلکہ اس کی ’’عقل‘‘، اس کی ’’جبلتیں‘‘، اس کے ’’جذبات‘‘ اور اس کے ’’احساسات‘‘ اس کی رہنمائی کے لیے کافی ہیں۔ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کا نعرہ خدا اور مذہب سے بے نیاز انسان کا نعرہ ہے۔ ایک ایسے شخص کا نعرہ ہے جو خودمختار ہے اور اپنی زندگی کا مالک ہے۔ وہ خدا اور معاشرے کے سامنے جواب دہ نہیں۔ وہ مذہب اور اس کے ضابطوں کا منکر ہے۔ اسلام کا انسان ایک اور سطح پر روح، نفس اور جسم کا مجموعہ ہے۔ اس مجموعے میں روح کی اہمیت بنیادی ہے۔ کیونکہ جب تک روح انسان کے جسم میں موجود رہتی ہے، انسان ’’زندہ‘‘ کہلاتا ہے۔ جیسے ہی روح انسان کے جسم سے نکلتی ہے، انسان کی تعریف بدل جاتی ہے اور اسے ’’مُردہ‘‘ کہا جاتا ہے، ’’لاش‘‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے، اور اسے جلد از جلد دفنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مغرب کا انسان روح اور نفس کو مانتا ہی نہیں۔ اُس کے نزدیک انسان صرف جسمانی حقیقت ہے۔ مسلم دنیا کے کروڑوں سیکولر اور لبرل لوگ اسی تصورِ انسان کے قائل ہیں۔
اسلامی فکر کے مطابق نفس کے 6 درجے ہیں: نفسِ امارہ، نفسِ لوامہ، نفسِ مطمئنہ، نفسِ ملہمہ، نفسِ رافیہ اور نفسِ مرضیہ۔ انسان کا فرض یہ ہے کہ وہ نفس کا تزکیہ کرے اور نفسِ امارہ کو نفسِ مطمئنہ میں ڈھالے، اور نفسِ مطمئنہ کے دوسرے مدارج طے کرے۔ جدید مغرب نفس کے مدارج کا کوئی تصور نہیں رکھتا۔ مغرب کا علمِ نفسیات نفسِ امارہ کا تصور رکھتا ہے اور وہ نفسِ لوامہ کے بعض پہلوئوں کی بھی شدبد رکھتا ہے، مگر اسے نفسِ مطمئنہ اور اس کے دیگر مدارج کی ہوا بھی نہیں لگی۔ مسلم دنیا کے کروڑوں سیکولر اور لبرل لوگ جدید مغربی تہذیب کی علمیت کے زیراثر نفس کے تزکیے کے تصور سے آگاہ نہیں، نہ ہی وہ اس کے لیے کوئی رغبت اپنے اندر رکھتے ہیں۔ اکابر مسلم صوفیہ نے انسان کو ’’کائناتِ اصغر‘‘ یا چھوٹی کائنات کہہ کر پکارا ہے، اور ان کا اصرار ہے کہ خارج میں موجود کائناتِ اکبر کی ہر چیز کائناتِ اصغر میں موجود ہے۔ جدید سائنس کے ایک اندازے کے مطابق ہماری کائنات اتنی بڑی ہے کہ اس کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سفر کیا جائے تو اس میں 25 ارب نوری سال لگیں گے۔ یعنی اگر انسان روشنی کی رفتار سے سفر کرے تو وہ 25 ارب سال میں کائنات کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کا سفر کرسکے گا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلام کا تصورِ انسان ایک بہت بسیط انسان کا تصور ہے۔ اسلام کا تصور یہ ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ جدید مغربی فکر کا خیال ہے کہ انسان بندر کی اولاد ہے، اور مسلم دنیا کے کروڑوں سیکولر اور لبرل لوگ ڈارون سے اتفاق کرتے ہوئے خود کو بندر ہی کی اولاد سمجھتے ہیں۔
اسلام اور اسلامی تہذیب کا ایک تصورِ علم ہے۔ اس تصورِ علم کے مطابق سب سے برتر علم وحی کا علم ہے، اس لیے کہ وحی انسانی ساختہ چیز نہیں۔ وحی خدا کی رائے اور اُس کا حکم ہے، اور خدا چونکہ علیم و خبیر ہے اس لیے اُس کے علم میں کوئی نقص نہیں ہوسکتا۔ اس کے برعکس جدید مغرب وحی کے علم کو علم ہی تسلیم نہیں کرتا۔ اس کا تصورِ علم یہ ہے کہ جو کچھ سائنس کہتی ہے وہی ’’حق‘‘ ہے۔ جدید سائنس دو چیزوں پر کھڑی ہے: سائنسی مشاہدہ اور سائنسی تجربہ۔ جو چیز سائنسی مشاہدے اور سائنسی تجربے سے ثابت ہوجائے صرف وہی چیز موجود بھی ہے اور درست بھی۔ اب مشکل یہ ہے کہ خدا کے وجود کو کسی سائنسی مشاہدے یا تجربے، یا لیبارٹری ٹیسٹ سے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ آخرت بھی سائنس سے ثابت نہیں کی جا سکتی۔ جنت اور دوزخ کا وجود بھی سائنس سے ثابت نہیں ہوتا۔ فرشتوں کا وجود بھی سائنس کے دائرۂ کار سے باہر ہے۔ اس طرح سائنس پورے مذہب کا انکار کردیتی ہے۔ بدقسمتی سے مسلم دنیا کے کروڑوں انسان وحی کے بجائے جدید سائنس پر ایمان لائے ہوئے ہیں۔ وہ صرف اُس بات کو مانتے ہیں جو سائنس سے ثابت ہو۔ اُن کی نظر میں وحی ایک ’’غیرعلمی‘‘ تصور ہے اور جدید دنیا میں اس کی کوئی ضرورت نہیں۔
عمران خان نے بالکل درست کہا کہ انگریزی نظام تعلیم ہماری ذہنی غلامی کا عکاس ہے۔ اکبر الٰہ آبادی کی بصیرت کو داد دیجیے، انہوں نے دو سو سال پہلے اندازہ کرلیا تھا کہ مغرب کا لایا ہوا نظام تعلیم کیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے فرمایا:
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
اقبال، اکبر کے بعد منظر پر طلوع ہوئے اور انہوں نے بھی جدید تعلیم پر حملہ کرتے ہوئے اسے اسلامی خودی کا قاتل قرار دیا۔ انہوں نے فرمایا:
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے اُدھر پھیر
لیکن مغربی تعلیم کا اصل ہدف کیا تھا، اقبال کو اس بات کا بھی پورا شعور تھا۔ چنانچہ انہوں نے فرمایا:
تعلیم پیر فلسفۂ مغربی ہے یہ
نادان ہے جس کو ہستیٔ غائب کی ہے تلاش
اقبال کہہ رہے ہیں کہ مغرب کی تعلیم کے فلسفے کا دعویٰ ہے کہ جو شخص خدا کو تلاش کرتا ہے وہ نادان ہے۔ بھلا ایک نظر نہ آنے والے خدا کی تلاش کی ضرورت ہی کیا ہے! حالانکہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ عرفانِ خداوندی سے بڑی چیز کچھ بھی نہیں ہے۔ اس سلسلے میں مولانا مودودیؒ بھی اکبر اور اقبال سے پوری طرح متفق تھے۔ چنانچہ انہوں نے جدید تعلیمی اداروں کو نئی نسل کی قتل گاہیں قرار دیا ہے۔ ان قتل گاہوں سے اگر کوئی زندہ بچ کر نکل جاتا ہے تو یہ بات کسی معجزے سے کم نہیں۔
پاکستان میں خواتین کے حوالے سے جنسی درندگی کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں۔ اس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل کو معلوم ہی نہیں کہ اسلام میں عورت کا ماں، بیوی، بیٹی اور بہن کی حیثیت سے کیا مقام ہے۔ جب تک ہمارا معاشرہ مذہبی تھا خواتین کے خلاف جرائم کم تھے، مگر اب ہمارے معاشرے میں اسلام کے تصورِ عورت کی جگہ مغرب کا تصورِ عورت رائج ہوگیا ہے۔ اس تصورِ عورت میں عورت صرف جنس کی علامت یا sex symbol ہے۔ وہ اداکارہ ہے تو جنس کی علامت ہے۔ وہ گلوکارہ ہے تو جنس کی علامت ہے۔ وہ ماڈل گرل ہے تو جنس کی علامت ہے۔ وہ عام عورت ہے تو جنس کی علامت ہے۔ بدقسمتی سے نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت کے
سلسلے میں نہ خاندان کا ادارہ اپنا کام کررہا ہے، نہ اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں اپنا کام کررہی ہیں، نہ ذرائع ابلاغ کوئی کردار ادا کررہے ہیں۔ چنانچہ نئی نسل مکمل طور پر جنسی جبلت کی گرفت میں آگئی ہے۔ یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ ہماری فلمیں اور ڈرامے عورت کو ماں، بیوی، بہن، بیٹی، ڈاکٹر، انجینئر، شاعر، ادیب، صحافی اور استاد کے مضبوط کردار میں پیش نہیں کررہے۔ وہ اسے صرف جنسی اشتعال پیدا کرنے والی عورت کی حیثیت سے پیش کررہے ہیں، چنانچہ نئی نسل کے ذہن میں عورت کی شخصیت کا کوئی مثبت تصور نہیں ہے۔ چنانچہ مغرب کا عطا کردہ تصورِ عورت ہمارے یہاں خواتین کی بے تکریمی کا بڑا سبب بنا ہوا ہے۔
اکبر الٰہ آبادی جب تک زندہ رہے، مغرب کے خلاف فکری جہاد کرتے رہے۔ اقبال کی پوری شاعری مغرب کے خلاف بغاوت سے عبارت ہے۔ مولانا مودودیؒ جب تک زندہ رہے، مغرب کے خلاف صف آراء رہے۔ مگر اب ہمارے یہاں یا مسلم دنیا کے کسی حصے میں مغرب سے پنجہ آزمائی کرنے والی کوئی بڑی آواز موجود نہیں، بلکہ اب تو اسلامی تحریکوں تک کے اجتماعی ذہن سے مغرب کے خلاف بغاوت کا خیال نکل گیا ہے، چنانچہ مسلم دنیا میں مغربیت زیادہ تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے۔