زمینی حقیقت

شہر کی مختلف مارکیٹوں، بازاروں، حتیٰ کہ ریڑھی پر سبزیوں اور پھل بیچنے والے دکان داروں سے جب بھی پھلوں، سبزیوں کے ریٹ بڑھ جانے کی بات کرتا ہوں تو وہ ایک ہی جواب دیتے ہیں: ”سر جی! کارپوریشن، ٹی ایم اے، پولیس، لیبر انسپکٹر اور محکمہ صحت والوں کو روزانہ پھل اور سبزیاں مفت دینے سے جان چھڑوا دیں، ہر ماہ جو ”نذرانہ‘‘ دینا پڑتا ہے وہ معاف کرا دیں، میرا وعدہ ہے کہ میں آپ کو ساری سبزیاں اور پھل بیس سے تیس روپے فی کلو کم نرخ پر بیچا کروں گا‘‘۔ کرپشن کا یہ ناسور صرف مارکیٹوں، بازاروں میں ہی نہیں سرایت کیا ہوا، ایک نقشہ پاس کرانے کے لیے جہاں چالیس سے پچاس لاکھ تک طلب کیے جاتے ہوں، وہاں کسی ریڑھی والے کو چند روپے پھل، سبزی مہنگی بیچنے پر کیا کہا جائے! جہاں کوئی کمرشل بلڈنگ بنانے کی اجازت لینے کے لیے تجوریوں کے منہ کھولنا پڑتے ہوں، وہاں کسی کو کیا خاک سرمایہ کاری کرنی ہے؟ اس وقت پوری قوم کی شناخت اور کردار کرپشن نے مشکوک کرکے رکھ دیا ہے۔ وہ غریب اور بے آسرا لوگ جنہیں عوام کہہ کر پکارا جاتا ہے، جنہیں قطاروں اور جلسوں میں کئی کئی گھنٹے کھڑا کرکے جمہوریت کا کھیل کھیلا جاتا ہے، جو ریلیوں اور دھرنوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح لائے جاتے ہیں، جنہیں سرکاری دفاتر میں دھکے دیے جاتے ہیں، جنہیں عدل و انصاف کے حصول کے لیے ذلیل و خوار کیا جاتا ہے، جنہیں بجلی، پانی اورگیس کے بلوں کی جائز شکایت پر بھی دفاتر میں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا، ان کی اُس وقت تک دادرسی کرنے والا کوئی نہیں ہوتا جب تک وہ اپنی مشکل اور مسائل کے حل کے لیے گھر تک نہ بیچ ڈالیں، اپنی زمین نہ فروخت کردیں، اپنے مال مویشی نہ بیچ دیں، یا کچھ نہ پاکر خود کو فروخت کرنے کے لیے پیش نہ کردیں۔ جہاں پر جائز کام ناجائز پیسے کے عوض ہوتا ہو، وہاں امیدوں کی فصل بونا کارِ عبث نہیں تو کیا ہے؟
کہنے کو تو ملک میں بدعنوانی کی روک تھام کے لیے متعدد محکمے کام کررہے ہیں، مگر یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ انسدادِ کرپشن پر مامور ادارے ہی اس وقت کرپشن کا گڑھ بن چکے ہیں۔ اپنے ایجنٹوں اور ٹائوٹوں کے ذریعے سرکاری اہلکاروں کے خلاف درخواستیں دائر کی جاتی ہیں اور پھر ان درخواستوں کی آڑ میں انہیں بلیک میل کرکے مک مکا کیا جاتا ہے۔ سننے میں آتا ہے کہ اس دھندے پر اب کسی حد تک قابو پا لیا گیا ہے، لیکن دور دراز علاقوں میں اس مافیا کے اہلکار شتر بے مہار بنتے جارہے ہیں۔ لگتا ہے انہیں کسی کا ڈر، خوف ہی نہیں ہے۔ اگرچہ انسدادِ کرپشن کے اداروں کے سربراہان سے متعدد ملاقاتیں رہی ہیں اور میں نے ہمیشہ انہیں ایک اچھا اور نیک انسان پایا ہے، لیکن نچلی سطح پر جو بدعنوانی کا سیلِ رواں بہہ رہا ہے، اُس کے آگے بند باندھنے کی ضرورت ہے۔ اگر کسی کو اس ضمن میں کوئی شک ہے تو ان اداروں کے ہر ریجنل دفتر میں کام کرنے والے پانچ، چھ اہلکاروں کی کسی بااعتماد خفیہ ادارے سے انکوائری کرالی جائے، گارنٹی سے کہتا ہوں کہ کرپشن کی حیران کن تفصیلات سامنے آئیں گی۔ انسدادِ کرپشن کے ادارے ہوں، کسٹمز، ایکسائز یا کوئی اور ایسا محکمہ… کیا کسی کو نظر نہیں آتا کہ ان اداروں کے معمولی ملازمین بھی لاکھوں میں کھیل رہے ہیں؟
جب بھی کسی سرکاری ادارے کی طرف سے ملکی مسائل اور معاملات پرکوئی کانفرنس ہوتی ہے تو اس کے لیے کسی مہنگے ہوٹل کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ ملکی اور بین الاقوامی مہمانوں کی پُرکشش ضیافت سے تواضع کی جاتی ہے، اور جب اس کانفرنس میں شرکت کرنے والے احباب اور سامعین ہال سے باہر نکل کر منہ صاف کرکے ٹشو پیپر ”ویسٹ بن“ میں پھینکتے ہیں تو ساتھ ہی اس دن کے موضوع کی افادیت اور اہمیت بھی اس ٹشوپیپر کے ساتھ کچرے کا حصہ بن جاتی ہے۔ اس ملک میں اب تک یہی ہوتا رہا ہے کہ ملکی مسائل پر غور کرنے اور انہیں حل کرنے کے لیے سیمینار اور کانفرنسیں تو بہت منعقد کی جاتی ہیں اور ہر سیمینار اور کانفرنس کے بعد لوگ کھا پی کر یہ جا‘ وہ جا۔ آج تک کسی مسئلے کا حل ان کروڑوں میں پڑنے والی کانفرنسوں کے ذریعے نکل سکا ہے؟ ہمارے استاد محترم گوگا دانشور اس طرح کی کانفرنسوں اور سیمیناروں کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں ”دعوتیں اڑائیں گے احباب اور پھر فاتحہ ہوگی۔“
آج کسی کے دل میں قانون کا احترام نہیں رہا، شاید اس لیے کہ قانون شکنی کے بعد دے دلا کر معاملہ سیٹل کرلیا جاتا ہے۔ انسان قیمت لگانے کے قابل ہونا چاہیے، آج ہر چیز بک رہی ہے۔ 1958ء میں جنرل ایوب خان نے جب مارشل لا لگایا تو قانون کا خوف اس قدر زیادہ تھا کہ پاکستان بننے کے بعد قبضے میں لی گئی جائدادیں تک واپس کی جانے لگیں۔ لاہور کے ایک رکشہ ڈرائیور کا کہنا ہے کہ 1999ء میں جب پرویزمشرف نے نوازشریف کی حکومت معزول کرکے اقتدار سنبھالا تو ٹریفک پولیس کے اہلکاروں میں اس قدر ڈر پایا جاتا تھا کہ وہ دس، بیس روپے لیتے ہوئے بھی ڈرتے تھے (آج سرعام چوکوں، چوراہوں میں ہماری جیبوں سے پیسہ اپنا حق سمجھ کر نکالا جارہا ہے)۔ اُس وقت سرکاری دفاتر میں حاضری پوری ہوگئی تھی، دفتری اوقات میں کوئی ایک شخص بھی اپنی سیٹ سے غائب نہیں ہوتا تھا، مہینوں سے رکی ہوئی فائلیں باہر آنے لگی تھیں، سائلوں کو عزت و احترم سے بلایا جاتا اور ان کے رکے ہوئے کام مکمل کیے جاتے۔ لیکن جیسے ہی 2002ء کے انتخابات کا نعرہ بلند ہوا اور جمہوریت نے اپنے پر پھیلانے شروع کیے تو ان پروں کے سائے میں کرپشن بھی جنم لینے لگی، اور نوبت اب یہاں تک پہنچ گئی کہ آج ہمارا ملک کرپشنستان بن چکا ہے۔ کسی دفتر میں، کسی تھانے میں، کسی سڑک پر اور کسی چوک میں چلے جائیں، آپ کو کرپشن اپنے جبڑے کھولے خونخوار نظروں سے بے کس عوام کو گھورتی نظر آئے گی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ لوگوں کو احتساب کا خوف نہیں رہا اور وہ اس قدر نڈر اور بے خوف ہوگئے ہیں؟
اس وقت ایک ضلعی ہیڈ کوارٹر میں عام اور کم مالیت کی جائدادوں کی رجسٹریوں کی تکمیل کے لیے پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپے تک کا ریٹ مقرر ہے، اور ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک ایک رجسٹرار کی ماہانہ رشوت چالیس سے پچاس لاکھ روپے تک ہوچکی ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ محکمہ انسدادِ کرپشن کے دفتر کا فاصلہ وہاں سے ایک فرلانگ سے بھی کم ہے۔ اگر ایک چھوٹے ضلع کے رجسٹرار کی ماہانہ رشوت کا یہ عالم ہے تو پورے صوبے میں اور پورے ملک میں ماہانہ کتنے ارب روپے صرف اس ایک ادارے میں کرپشن کی نذر ہورہے ہیں، بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ جب سے کورونا، لاک ڈائون اور اسمارٹ لاک ڈائون کا سلسلہ شروع ہوا ہے، لاہور کے کم ازکم پندرہ تھانوں کے بارے میں سرعام کہا جارہا ہے کہ وہ دکانیں کھولنے کی اجازت دینے کے عوض بیس سے پچیس لاکھ ماہانہ منتھلی وصول کررہے ہیں۔ اب اس میں کس کا کتنا حصہ ہے، یہ انہیں ہی علم ہوگا۔(باقی صفحہ 41پر)
جناب وزیراعظم! بڑے ڈاکوئوں کو چھوڑیے اور نیب کو حکم دیجیے کہ وہ اب تھانیداروں، پٹواریوں، تحصیل داروں، ایس ڈی اوز، لائن سپرنٹنڈنٹس، واسا، ایل ڈی اے، شعبہ تعلیم، ٹی ایم اے، انہار، زراعت، ایکسائز، کسٹمز اور اس طرح کے محکموں میں بیٹھے چھوٹے مگرمچھوں کو نکیل ڈالے۔ اگر پاکستان بچانا ہے، اگر اگلا الیکشن جیتنا ہے تو ہر اُن چھوٹے ڈاکوئوں پر ہاتھ ڈالیں جن سے عوام کا ہر روز پالا پڑتا ہے۔ جتنی کرپشن آج ہے، پہلے کبھی نہ تھی۔ پرائیویٹ ٹرانسپورٹ سے رشوت، سائلین سے رشوت، میٹر لگوانے یا ٹھیک کرانے پر رشوت، سند بنوانے پر رشوت، ایف آئی آر درج کروانے پر رشوت… کہاں کہاں رشوت نہیں دینا پڑتی؟ یہ سب دیکھنے میں چھوٹی چھوٹی باتیں لگتی ہیں لیکن یاد رکھیں کہ ہمیشہ چھوٹی کرپشن سے ہی بڑی کرپشن وجود میں آتی ہے۔ میر ظفر اللہ جمالی کے دور میں ملاوٹ کرنے کی سزا تین سال کے بجائے 25 سال کی گئی تھی، آج اس قانون کو پاس ہوئے 17 برس سے زائد ہوچلے ہیں اور اس تمام عرصے میں پورے ملک میں ملاوٹ کے کسی ایک کیس میں بھی کسی کو عمر قید کی سزا ہوئی؟ کیا یہ سمجھیں کہ پاکستان سے ملاوٹ کا مکمل خاتمہ ہوگیا ہے، یا یہ مطلب لیا جائے کہ احتساب کا نظام بوڑھا ہوگیا ہے؟
(منیر احمدبلوچ،دنیا ۔31اگست2021ء)