سچ اور سچائی

ایک لفظ ’’انسان‘‘ کی صداقت ہی اتنی وسیع المعنی ہے کہ اس کے کوئی معنی نہیں۔ انسان سب کچھ ہے… انسان کچھ بھی نہیں۔ انسان کے بارے میں کیا بات سچ ہے، کچھ فیصلہ نہیں ہوسکتا۔ انسان اپنے عقیدے کو سچ اور دوسروں کے عقائد کو جھوٹ کہتا ہے۔ ہم اپنے وطن کی خاطر مر جائیں تو شہید۔ دشمن اپنے وطن کی خاطر مرمٹے تو واصل بہ جہنم۔ ہم یہ نہیں سوچ سکتے کہ دوسروں کا عقیدہ اُن کے لیے اتنا ہی واجب الاحترام ہے جتنا ہمارے لیے ہمارا عقیدہ۔ پیدا کرنے والے نے ہی خیر اور شر کو تخلیق فرمایا۔ انسانوں کی سرشت میں دنیا کی محبت اور آخرت کی طلب رکھ دی گئی۔ فطرت نے کسی کے ہاتھ میں کاسۂ گدائی دے دیا اور کسی کے سر پر تاجِ شاہی پہنا دیا۔ ایک کی خوشی دوسرے کا غم ہے۔ سچ اور جھوٹ کی پہچان یکساں کیسے ہوسکتی ہے؟
ہم جو کچھ دیکھتے ہیں، اسے ویسے ہی سچ سمجھ لیتے ہیں۔ دوربین، خردبین نے ثابت کردیا ہے کہ ہم جو کچھ دیکھتے ہیں وہ ویسے سچ نہیں۔ ہم ساکن ہیں، لیکن ہم متحرک ہیں۔ ہماری عمر بڑھ رہی ہے لیکن ہماری عمر کم ہورہی ہے۔ یہ سچ ہے کہ سائنس نے انسان کو آسائشیں دی ہیں۔ انسان کو تحفظ دیا ہے۔ انسان کو زمین سے اٹھا کر آسمان تک پہنچا دیا ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ سائنس نے انسان کا جینا حرام کردیا۔ انسان کو غیرمحفوظ بنادیا۔ انسان کا آسمانی سفر زمین پر آگ برسانے کے لیے ہورہا ہے۔
سچ اور جھوٹ صرف پہچان کے درجے ہیں۔ ان میں سے کچھ باطل نہیں۔ اس کائنات میں سب سے بڑی سچائی یہ ہے کہ جوکچھ تخلیق کیا گیا ہے، وہ باطل نہیں ہے۔
ایک ملک کی سچائی دوسرے ملک کی سچائی نہیں ہے۔ ہم جس شے سے کراہت کرتے ہیں، وہ دوسرے ملک میں مرغوب غذا ہے۔ اسی طرح ایک زمانے کا جھوٹ دوسرے زمانے کا سچ ہوسکتا ہے۔ فاصلوں سے سچ نظر آنے والی شے قریب سے دیکھو تو جھوٹ ہے، سراب ہے۔
زمین پر چاند کی چاندنی ہے لیکن چاند پر چاندنی نہیں۔ اب اصل صداقت کیا ہے۔ زندگی کا خواب الگ ہے۔ خواب کی زندگی الگ۔
انسان کسی ایک صداقت کے سفر میں ہوتا ہے۔ اسے راستے میں اور طرح کی صداقتیں ملتی ہیں۔ وہ انہیں جھوٹ سمجھ کر چھوڑ دیتا ہے۔ انسان اپنے لیے جو کچھ پسند کرتا ہے، عین ممکن ہے کہ اس کے لیے نقصان دہ ہو۔ اسی طرح وہ اپنے لیے جو کچھ ناپسند کرتا ہے، عین ممکن ہے کہ وہ اس کے لیے مفید ہو۔ یعنی ہماری اپنی پسند اور ناپسند کی صداقت بھی جھوٹ ہوسکتی ہے۔
اسی طرح منافقین اگر مسجد بنائیں اور اُن کی نیت یہ ہو کہ مسلمانوںکو نقصان پہنچایا جائے تو یہ حکم ہے کہ ایسی مسجد کو گرا دیا جائے۔ مسجد سچ ہے، لیکن بدنیت انسان بنائے، تو جھوٹ ہے۔
ہر انسان سچ اور جھوٹ کا فیصلہ نہیں کرسکتا۔ ایک عدالت کا سچا فیصلہ دوسری عدالت میں ہی جھوٹ ہوجاتا ہے، اور دونوں عدالتیں سچی ہیں۔
سچ اور جھوٹ کی پہچان اس لیے ناممکن ہے کہ سچ اور جھوٹ کا تعلق عقیدے سے ہے۔ تسلیم سے ہے۔ اس میں تحقیق کا پہلوکم ہے۔
ہم سچائی کی تلاش میں نکلیں تو ہمیں سچائی نہیں ملے گی۔ سچائی نہیں مل سکتی۔ زیادہ سے زیادہ ہم صرف سچے انسان تک پہنچ سکتے ہیں۔ ہم جس انسان کو سچا مان لیں، اُس کا فرمایا ہوا ہر لفظ سچ ہے۔ سچے کا فرمان سچ ہے۔ سچ کو ماننے کے لیے ہمیں خود سچائی کا راستہ اختیار کرنا ہے۔ صادق کو ماننے والا صدیق ہی تو ہوگا۔ صادق کی ہر بات صداقت ہے۔
اسی صداقت کے حوالے سے ہی صداقتِ کائنات یا صداقتِ ہستی کی پہچان ممکن ہے۔ اگر صادق کا حوالہ نہ ہو تو سچ اور جھوٹ کے الفاظ اپنی اہمیت کھو بیٹھتے ہیں۔ ہم کو سچے دل سے صادق کی ہر بات کو سچ مان کر زندگی کا شعور حاصل کرنا ہے۔
صادق تک رسائی ہی اصل صداقت ہے۔ صادق مل گیا تو سب صداقتیں مل گئیں۔ صادق کے مخالف راستے میں کذب ہے، جہل ہے، بلکہ ابوجہل ہے۔
صادق کے فرمان میں اپنی وضاحتیں شامل کرنے سے سچ میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔ صادق الہام بولتا ہے، ہم ابہام بولتے ہیں۔
قرآن اللہ کا کلام ہے، سچ ہے… حق ہے۔ تفسیر انسان کی وضاحت ہے۔ ممکن ہے سچ نہ ہو۔ الہامی کتاب کی تفسیر صاحبِ الہام ہی لکھ سکتا ہے۔ سچ کوسچ ہی رہنے دیا جائے، اسے کوئی اور لباس نہ پہنایا جائے۔
[’’دل دریا سمندر‘‘۔ واصف علی واصف۔ ص 28۔29]

عزیز تر ہے متاعِ امیر و سلطاں سے
وہ شعر جس میں ہو بجلی کا سوز و براقی

علامہ اقبال اپنے کلام میں مختلف مقامات پر مختلف انداز میں اپنے کلام کی حقیقت اور اہمیت کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں۔ اس شعر میں بھی وہ بتارہے ہیں کہ اگر ایسا شعر جس میں جذبوں کو جلا بخشنے اور مشکلات کو حل کرنے کے لیے روشنی اور رہنمائی کا پیغام ہو تو ایسا شعر حقیقت میں بادشاہوں کے خزانوں سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے، اس لیے کہ اس میں روشنی ہوتی ہے، حرارت ہوتی ہے اور حیات آفرینی کا درس ہوتا ہے۔ علامہ اپنے کلام کے سوزو گداز سے بخوبی آگاہ ہونے کی بنا پر بجا طور پر اپنے مخاطب کو متوجہ کرتے ہیں کہ میرے کلام کے معنی سمجھو اور اس میں بتائی گئی حکمت و دانائی سے فائدہ اٹھا کر اپنے دور کی مشکلات کا مقابلہ کرو۔