بھارت میں جوہری پروگرام کے تابکاری مواد کی چوری اور غیر قانونی خرید و فروخت کی ایک اور رپورٹ منظر عام پر آئی ہے، جس کے مطابق بھارت میں دو افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جو جوہری پروگرام میں استعمال ہونے والا تابکاری مواد ’کیلی فورنیم‘ غیر قانونی طور پر فروخت اور چوری کرنے میں ملوث پائے گئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ’کیلی فورنیم‘ ایک انتہائی تابکار اور زہریلا مادہ ہے، اور گرفتار افراد نے اسے بھارت کے اندر سے خریدا ہے۔ یہ بات یقیناً نہایت تشویش ناک ہے کہ بھارت میں انتہائی حساس ریڈیوایکٹو سورس (ایس آر ایس) تک محفوظ نہیں، اور ان تابکار مادوں کی چوری اور غیر قانونی فروخت نہ صرف ممکن ہے بلکہ گزشتہ کچھ عرصے سے یہ معمول کی کارروائی بن چکی ہے، کیونکہ اس نوعیت کا یہ پہلا واقعہ نہیں، بلکہ گزشتہ چار ماہ کے دوران بھارت میں تابکار مادے کی چوری اور غیر قانونی خرید و فروخت کا یہ تیسرا واقعہ سامنے آیا ہے۔ قبل ازیں مئی اور جون میں دو واقعات میں گرفتار کیے گئے افراد سے سات کلو اور چھ کلو سے زائد ’یورینیم‘ کی برآمدگی کی جا چکی ہے۔ اور یہ تو وہ واقعات ہیں جو ذرائع ابلاغ کے ذریعے سامنے آگئے ہیں، فی الحقیقت تابکار مادے کی چوری اور غیر قانونی خرید و فروخت کا یہ کاروبار بھارت میں کس قدر وسیع پیمانے پر جاری ہے اس کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں۔ بھارت میں بار بار ہونے والے جوہری اور دیگر تابکار مادوں کی چوری کے یہ واقعات بھارت کے جوہری پروگرام اور تابکار مادوں کی حفاظت اور سلامتی سے متعلق شدید خدشات کو جنم دیتے ہیں، اور بھارت کے اندر ایسے مواد کی وسیع پیمانے پر بلیک مارکیٹنگ کی جانب بھی اشارہ کرتے ہیں۔ ان واقعات سے بھارت میں ایس آر ایس کو محفوظ بنانے سے متعلق انتظامات کے ناقص اور ناقابلِ اعتماد ہونے کی نشاندہی بھی ہوتی ہے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس صورت حال پر بروقت اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے، اور بجا طور پر اس طرح کی چوری کی روک تھام کے لیے مکمل تحقیقات اور انتہائی سخت اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری، خاص طور پر جوہری ہتھیاروں کو محفوظ بنانے کے ذمہ دار ادارے اس نہایت خطرناک صورتِ حال پر آنکھیں کیوں بند کیے ہوئے ہیں؟ بھارت میں تابکار مادہ خارج ہونے کے واقعات بھی سالہاسال سے جاری ہیں، اور اب انتہائی حساس نوعیت کے تابکار مادے کی چوری اور غیر قانونی فروخت کی پے درپے وارداتیں سامنے آرہی ہیں، مگر امریکہ اور اُس کے ہم نوا دیگر مغربی ممالک سمیت عالمی سطح پر جوہری پروگراموں کو محفوظ بنانے کے ذمہ دار اداروں میں سے کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ خدانخواستہ اس نوعیت کا کوئی ایک آدھ واقعہ بھی پاکستان میں سامنے آیا ہوتا تو بھارتی اور مغربی ذرائع ابلاغ نے اب تک آسمان سر پر اٹھا رکھا ہوتا کہ پاکستان کا جوہری پروگرام غیر محفوظ ہے۔ مختلف عالمی ادارے بھی پاکستان کے جوہری پروگرام کو ’’محفوظ‘‘ بنانے کے لیے اسے اپنی نگرانی میں لینے کے لیے حرکت میں آچکے ہوتے جس کی ایک نمایاں مثال ایف اے ٹی ایف کی طویل عرصے سے پاکستان کے خلاف جاری بلا جواز پابندیاں اور سختیاں ہیں، جو تمام شرائط پوری کرنے کے باوجود ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ قبل ازیں بے بنیاد الزام تراشیوں کو جواز بناکر پاکستان کے جوہری پروگرام کے بانی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خلاف کی جانے والی کارروائی بھی ان اداروںکی یک طرفہ سوچ ہی کی ایک مثال ہے۔ ضرورت ہے کہ پاکستانی دفتر خارجہ مکمل تحقیقات کے زبانی مطالبے سے آگے بڑھتے ہوئے اس معاملے میں بھارت کی نااہلی کو عالمی سطح پرشدومد سے اٹھائے، بیرونِ ملک پاکستانی سفارت خانوں کو اس ضمن میں متحرک کیا جائے، اور عالمی اداروں پر دبائو بڑھایا جائے کہ وہ بھارت کے ایٹمی پروگرام کے غیر محفوظ ہونے کے سبب اس کے خلاف ٹھوس تادیبی کارروائی عمل میں لائیں تاکہ مستقبل میں اس طرح کے مزید تشویش ناک واقعات کی روک تھام ہو سکے۔