’’حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ رب العزت والجلال سے براہِ راست روایت کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے نیکیوں اور برائیوں کو لکھ دیا ہے، پھر اسے خوب بیان بھی کردیا ہے، لہٰذا جس شخص نے نیکی کا ارادہ کیا اور پھر اس کو نہ کیا تو بھی اللہ تعالیٰ اپنے یہاں پوری ایک نیکی اس کے نامہ اعمال میں لکھ دیتے ہیں، اور جس نے نیکی کے ارادے کے ساتھ ساتھ وہ نیکی کر بھی لی تو اللہ تعالیٰ اپنے یہاں اس کے بدلے میں دس سے لے کر سات سو تک بلکہ اس سے بھی زیادہ نیکیاں اس کے نامہ اعمال میں لکھ دیتے ہیں۔ اور اگر کسی نے برائی کا ارادہ کیا اور پھر اس کا ارتکاب نہ کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اپنے یہاں ایک نیکی لکھ دیتے ہیں، اور اگر برائی کا ارادہ کرکے وہ برائی کر بھی لی تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں صرف ایک گناہ لکھ دیتے ہیں‘‘۔
امام یحییٰ بن شرف الدین النووی (م 676ء) اس حدیث کی مختصر تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’میرے بھائی (ہمیں اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے) اللہ تعالیٰ کی مہربانی دیکھیے اور اس حدیث کے الفاظ پر تھوڑا سا غور کیجیے، اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ’’اپنے پاس‘‘، اس کا مطلب ہے رب تعالیٰ کا بندے کے ارادے کی طرف خاص توجہ کرنا اور اسے وزن دینا۔ پھر لفظ ’’پوری‘‘، تاکید ہے اور اللہ تعالیٰ کا زیادہ توجہ کرنے کی طرف اشارہ ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ کا ایسی برائی کے بارے میں فرمان جس کا بندے نے ارادہ کیا لیکن اسے عمل میں نہیں لایا، اللہ تعالیٰ اسے اپنے پاس پوری نیکی لکھتا ہے، اس کی تاکید بھی ’’پوری‘‘ لفظ سے کی ہے، اور اگر برائی کا عمل کیا تو اسے ایک برائی لکھتا ہے۔ اس میں برائی کی کمی اور ہلکا پن ”ایک“ کے لفظ سے بیان کیا، اور اس کی تاکید لفظ ”کامل“ (پوری) سے نہیں کی۔ پس اللہ سبحانہ کی بے حساب تعریفیں اور بڑے احسانات ہیں، اللہ ہی توفیق دینے والا ہے‘‘۔
تشریح: حدیث کے شارحین نے لکھا ہے کہ یہ حدیث ان اہم اور عظیم احادیث میں سے ایک ہے جن میں اللہ تعالیٰ نے اس امت پر جو عظیم مہربانیاں اور احسانات کیے ہیں، ان کا بیان ہے۔ ان حضرات نے اس کی شرح میں کئی نکات اور تشریحات تحریر کی ہیں، ان میں سے چند اختصاریے بیان کیے جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ارشاد فرمایا:’’جس شخص نے نیکی کی تو اُس کے لیے اس کا دس گنا اجر ہے، اور جس نے برائی کی تو اس جیسا ہی بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا‘‘۔(الانعام 161:5)
دوسری جگہ ارشاد ہے:’’جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، ان کے خرچ کی مثال ایسے ہے جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس میں سے سات بالیں نکلیں، اور ہر بالی میں سو دانے ہوں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ جس کے عمل کو چاہتا ہے، بڑھاتا ہے‘‘۔ (البقرہ262:2)
اسی طرح کی دوسری کتنی ہی آیتیں ہیں جنہیں عملِ صالح اور انفاق کے بارے میں آمدہ احادیث سے ملایا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں اُس کی رضا کے لیے اخلاص، سچائی اور ثواب کی نیت سے جو بھی نیکی کی جاتی ہے اُس کا اجر کم از کم دس گنا ملتا ہے اور زیادہ کے لیے کوئی حد نہیں ہے۔ نیکی کی نوعیت، وقت، مقام اور نیکی کرنے والے کی کیفیت سے اس کا اجر کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔
حدیث کے عربی متن میں لفظ ہم (ارادہ) آیا ہے۔ علما نے اس کیفیت کو سمجھنے کے لیے انسان کے دل میں آنے والے خیالات، تصورات اور ارادوں کی پانچ قسمیں بیان کی ہیں۔ دو شعروں پر غور کیجیے:
مراتب القصد خمس ہاجس ذکروا
فخاطر بحدیث النفس فاستمع
یلیہ ہم فعزم کلہا رفعت
سوی الاخیر ففیہ الاخذ قدوقع
’’قصد (ارادے) کے پانچ درجے ہیں: ہاجس (وہم یا ہلکا خیال) دل کا خیال، دل کے وسوسے اور سوچ، ہم (ارادہ) اور عزم (پکا ارادہ) ان میں سے آخری کے سوا سب معاف ہیں‘‘۔
نیکی کا ارادہ و عزم کرتے ہی ایک نیکی لکھی جاتی ہے، اور برائی کا ارادہ کرنے سے برائی نہیں لکھی جاتی، اور جب کوئی ارادے کو عملی شکل دے تو برائی کرنے پر صرف ایک برائی لکھی جاتی ہے، اور نیکی کرنے پر کم از کم دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ بزاز اپنی مسند میں ایک روایت لایا ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا ’’اعمال کی سات قسمیں ہیں: دو عمل لازم کرنے والے ہیں، دو عمل ایسے ہیں جن میں ایک کے بدلے ایک ہے، ایک عمل ایسا ہے جس کے بدلے دس نیکیاں ہیں، ان میں میںؔ ایک ایسا ہے جس پر سات سو نیکیاں ہیں، اور ایک عمل ایسا ہے جس کا ثواب اللہ تعالیٰ کے پاس اتنا ہے کہ اسے شمار نہیں کیا جاسکتا، جو دو اعمال لازمی نتیجہ دینے والے ہیں وہ کفر اور ایمان ہیں جن کی وجہ سے دوزخ یا جنت لازم آئیں گے، جن دو اعمال کی وجہ سے ایک پر ایک ہے، وہ نیکی کا ارادہ کرنے پر ایک نیکی ہے اور برائی کرنے پر ایک بدی ہے۔ ایسا عمل جس کے بدلے دس نیکیاں ہیں وہ مومن کا نیک عمل ہے جو صحیح نیت سے کیا جائے تو اس پر کم از کم دس نیکیاں ہیں، جو عمل سات سو کے برابر ہے، وہ مومن کا جہاد فی سبیل اللہ میں ایک درہم خرچ کرنا ہے، اور ساتویں قسم روزہ ہے جیسے حدیث میں ہے ’’مومن کا ہر عمل اس کے اجر والا ہے سوائے روزے کے جو میرے لیے ہے اور اس کا بدلہ میں خود دوں گا۔ لہٰذا روزے کا اجر و ثواب اللہ ہی جانتا ہے‘‘۔
برائی کا ارادہ کرکے چھوڑنے والوں کی تین قسمیں ہیں: ایک وہ شخص جو کسی برائی کا ارادہ کرتا ہے، پھر اللہ کی خاطر اسے چھوڑ دیتا ہے یعنی ارادے پر عمل نہیں کرتا۔ ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ ایک نیکی کا اجر عطا کرتا ہے۔ یہ اس لیے کہ اس شخص نے ایک کام کرنے کا ارادہ کیا پھر اس کے خلاف عمل (دل کا عمل) کیا۔ ایک حدیث میں ہے:
’’اس نے میری وجہ سے یہ چھوڑی‘‘۔ (باقی صفحہ 41پر)
دوسرا وہ شخص جو برائی کرنے کے ارادے پر پختہ تھا لیکن بھول گیا اور غفلت کی وجہ سے یہ برائی نہ کرسکا، سو اس کے لیے نہ نیکی ہے اور نہ ہی گناہ ہے۔
تیسرا وہ شخص جو بے بسی، سستی اور لاچاری کی وجہ سے برائی کے ارادے پر عمل نہیں کرسکا اگرچہ ارادے پر قائم تھا، اس کے لیے کوئی نیکی نہیں ہے بلکہ الٹا ایک گناہ ہے، کیونکہ وہ یہ برائی کرنے کی نیت رکھتا تھا، بس اسے کسی وجہ سے موقع میسر نہیں آیا، جیسے ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’جب دو مسلمان تلواریں (ہتھیار) لے کر آپس میں لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں‘‘۔ صحابہ نے پوچھا ’’یارسول اللہؐ! اس قاتل کی تو بات سمجھ میں آتی ہے، البتہ مقتول کا دوزخی ہونا سمجھ میں نہیں آتا؟‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’اپنے مدمقابل کے قتل کرنے پر حرص کرنے والا تھا‘‘۔ یعنی اپنی نیت اور ارادے پر پختہ قائم تھا لیکن اسے قتل کا موقع نہیں ملا۔ دل کا ارادہ ایک قسم کا عمل ہے، اس لیے دل کے عمل کا بھی ثواب اور اجر ہے۔
اللہ تعالیٰ اور رسول اللہؐ مومنوں کو یہ بات ذہن نشین کرانا چاہتے ہیں کہ مومن کی سوچ تعمیری ہونی چاہیے، اور اگر برائی کا منصوبہ اور خیال ذہن میں آجائے تو اسے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اس کی رضا چاہتے ہوئے اس پر عمل نہ کرنے کا ارادہ و عزم کرنا چاہیے۔