مذکرکے لیے ’ہی‘ ہے، مؤنث کے لیے ’شی‘ ہے
اِس دورِ وَبا ساز میں پاکستان کے تقریباً ہرصوبے سے ایسے فقرے سننے ہی کو نہیں، بڑی کثرت سے پڑھنے کو بھی مل رہے ہیں کہ
’’عبدالقدوس بھائی کا اچانک انتقال ہوگیا ہے، نمازِ جنازہ آج رات نو بجے ادا کیا جائے گا‘‘۔
مانا کہ جنازہ خواتین کا ہو تب بھی مذکر ہی بولا جائے گا۔ مگر صاحب، یہاںاطلاع ’نماز ادا‘ کرنے کی دی جارہی ہے۔ نماز چاہے جنازے کی ادا کی جائے یا جمعے کی، خواہ خواتین پڑھ رہی ہوں یا مرد، نماز اسمِ مؤنث ہی رہے گی، ہر حالت میں ادا کی جائے گی۔ البتہ جنازہ مذکر رہے گا۔ نمازِ جنازہ صدیوں سے پڑھی اور پڑھائی جاتی ہے۔ فقط یہی بات بتانے کے لیے خواجہ حیدر علی آتش ؔنے اپنے جنازے میں لیٹے لیٹے ایک زندہ شعرکہہ ڈالا، جس کے پہلے مصرعے کی بھی لوگوں نے نمازِ جنازہ پڑھ ڈالی۔ زندہ حالت میں درست شعر یوں تھا:
مِری نمازِ جنازہ پڑھائی غیروں نے
مَرے تھے جن کے لیے وہ رہے وضو کرتے
اردو زبان کے مذکرو مؤنث بیش تر ’سماعی‘ ہیں۔ سننے سے تعلق رکھتے ہیں۔ کوئی لفظ آپ کسی مستند اہلِ زبان کو بولتے ہوئے سنیں گے تب اس کی جنس کا پتا چلے گا کہ اس لفظ کی ناک کے نیچے مونچھیں اُگی ہوئی ہیں یا ’پنکھڑی اِک گلاب کی سی ہے‘۔ تاہم اگر کوئی مستند اہلِ زبان آپ کے ہاتھ نہ لگ سکے جس کی گردن دبوچ کر آپ اُس کے حلق سے کسی لفظ کی تذکیر و تانیث اُگلوا سکیں، تو ایسی صورت میں لغت دیکھ لیجیے۔ آسان ترکیب ہے۔ لغت میں بالعموم ہر لفظ کے آگے ’امذ‘ یا ’امث‘ لکھا ہوتا ہے۔ ’امذ‘ مخفف ہے اِسمِ مذکرکا، اور ’امث‘ اِسمِ مؤنث کا۔ بعض الفاظ کی تذکیر و تانیث میں اہلِ زبان کے بیچ جھگڑا بھی کھڑا ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں اہلِ لغت اِن جھگڑالُو لوگوں کی آپا دھاپی کے بیچ سے یہ کہہ کر صاف بچ نکلتے ہیں کہ فلاں جگہ کے لوگ اِسے مذکر بولتے ہیں اور فلاں جگہ کے مؤنث۔
اردو کے جو الفاظ کسی قاعدے یا کسی اُصول کے پابند ہوتے ہیں، اُن کی تذکیر و تانیث پہچاننے میں چنداں دشواری نہیں ہوتی۔ بس یہ جاننے کی ضرورت پڑتی ہے کہ کون سا قاعدہ عربی و فارسی سے لیا گیا ہے، کون سا ہندی سے۔ اُلجھن وہاں ہوتی ہے جہاں قاعدے قانون سب دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ اُلجھتے وقت بھی یہی اُلجھن رہتی ہے کہ اُلجھن ہوتی ہے یا اُلجھن ہوتا ہے؟ ایسی صورت میں زبان سیکھنے والے نئے نئے مجنوؤں کو ابتدائے عشق ہی میں وحشت ہوجاتی ہے۔ اور بقولِ ظریفؔ لکھنوی:
وحشت میں ہر اِک نقشہ اُلٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے، لیلیٰ نظر آتا ہے
القصہ مختصر، اُردو زبان میں الفاظ کے مذکر مؤنث پہچاننے کا طریقہ یہ ہے کہ پنچ کہیں بلی مؤنث ہے تو مؤنث سہی، اور بڑھئی مذکر ہے تو مذکر ہی بھلا۔ اسی طرح قاعدہ قانون چھوڑ کر آپا کو مؤنث مانیے اور بھائی کو مذکر جانیے۔ جن الفاظ میں علاماتِ تذکیر و تانیث نہیں ہوتیں، یا ان علامتوں کی مرضی کے خلاف کوئی نتیجہ نکالاجاتا ہے اُن کا بس یہی حل ہے۔ باقی کا بھی ایسا ہی حال ہے۔ اب دیکھیے نا، چوٹ مؤنث ہے اوردرد مذکر۔آہ مؤنث ہے اور نباہ مذکر۔ نیند مؤنث ہے اورآرام مذکر۔ مذکر مؤنث پہچاننے اُٹھیں گے تو کہیں آپ کو اصول نظر آئیں گے، کہیں بے اُصولی۔گویا تذکیر و تانیث میں کبھی اصولوں پر سودے بازی کرلی جاتی ہے، کبھی بے اُصولی پر۔ مگریہ معاملہ صرف اردو کے ساتھ مخصوص نہیں۔ دوسری زبانوں میں بھی ایسا ہی ہے۔ عربی جیسی جامع و کامل زبان میں بھی شکل، صورت اور اِملا سے مذکر نظر آنے والے کئی الفاظ، مثلاً دار (گھر)، یَد (ہاتھ)، شمس (سورج) اور قمر (چاند) وغیرہ مؤنث قرار دیے جاتے ہیں۔
بعض زبانوں، مثلاً جرمن زبان، نے ایک علّت اور پال رکھی ہے۔ جرمن الفاظ مذکر (Maskulin) اور مؤنث (Feminin) ہی نہیں، مخنث (Neutral) بھی ہوتے ہیں۔ انگریزی پر چوٹ کرتے ہوئے اکبرؔ نے کبھی اردو کا ایک محاورہ استعمال کیا تھا:
مذکر کے لیے ’ہی‘ ہے، مؤنث کے لیے ’شی‘ ہے
مگر حضرت مخنث ہیں نہ ہیئوں میں نہ شیئوں میں
واضح رہے کہ جو شخص کسی شمار و قطار میں نہ ہو، اُس کی شان میں اردو کا یہ محاورہ بولا جاتا ہے کہ ’’وہ توہیئوں میں ہے نہ شیئوں میں‘‘۔ مگر جرمنوں نے اکبرؔ کا اعتراض رفع کردیا ہے۔ مخنثین کو بھی شمارو قطار میں لے آئے۔ مخنث الفاظ کے ساتھ وہ حرفِ تخصیص کے طور پر(جس طرح انگریزی میں The ہوتا ہے)Das” ” لگاتے ہیں۔ سرمائے (Kapital) کو انھوں نے بہت سوچ سمجھ کر مخنث قرار دیا ہے۔ اسی وجہ سے کارل مارکس کی کتاب کا نام “Das Kapital”بھی مخنث نکلا۔ (اسے داس کیپیٹال پڑھتے ہیں)۔ جرمن زبان میں تو کتاب (بُوخ Buch) بھی مخنث ہے، خواہ صاحبِ کتاب مذکر ہو یا مؤنث۔ بچہ جب تک بچہ رہے تب تک اُس کی جنس بھی دُبدھا میں رکھتے ہیں اور اُسے “Das Kind”(داس کِنڈ)کہتے ہیں۔ جرمن زبان میں باغ (Garden)کو Garten بولا جاتا ہے اور بچوں کے باغ یا پھلواری کو “Kinder Garten”کہتے ہیں۔ یہ لفظ انگریزی کے رستے سے ہماری زبان میں بھی در آیا اور وطنِ عزیز میں گلی گلی بچوں کے باغیچے کِھل اُٹھے، جو ہمارے ہاں بھی ’کنڈر گارٹن‘ ہی کہے اور لکھے جاتے ہیں۔
بات ’نمازِ جنازہ‘ سے چلی تھی۔ اضافت استعمال کرتے ہوئے ہمارے اخبارات و جرائد اور دیگر ذرائع ابلاغ اکثر تذکیر و تانیث کی غلطی کر جاتے ہیں۔ اضافت استعمال نہ کی جائے اور ’جنازے کی نماز‘ کہا جائے تو شاید ایسی غلطی نہ ہو۔ غلطی اکثر وہاں ہوتی ہے جہاں مضاف اور مضاف الیہ میں سے ایک مذکر ہو اور ایک مؤنث۔ جس اسم کا کسی سے تعلق ظاہر کیا جائے اُسے مضاف کہتے ہیں، اور جس سے تعلق یا نسبت قائم کی جائے وہ مضاف الیہ کہلاتا ہے۔ ’نمازِ جنازہ‘ میں نماز مضاف ہے۔ چوں کہ اس نماز کی نسبت جنازے سے قائم کی گئی ہیُ چناں چہ جنازہ مضاف الیہ ہے۔ ’نمازِ جنازہ‘ فارسی ترکیب ہے۔ اردو میں ترتیب اُلٹ جاتی ہے۔ اردو ترکیب میں ’حکومتِ پاکستان‘ کو ’پاکستان کی حکومت‘ کہا جائے گا۔ حکومت کا تعلق یا نسبت پاکستان سے ہے، سو پاکستان مضاف الیہ ہے اور حکومت مضاف۔ یہاں بھی حکومت مؤنث ہے اور پاکستان مذکر۔ جس طرح ہم ’پاکستان کا حکومت‘ نہیں کہہ سکتے، اسی طرح یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ’حکومتِ پاکستان ڈٹا ہوا ہے‘۔ یہاںڈَٹنا ’حکومت‘ کا فعل ہے، نہ کہ پاکستان کا۔ ایک مضمون نگار کے مضمون میں اس فقرے پر نظر پڑی کہ ’شاعر کے کلام میں رعنائیِ خیال پایا جاتا ہے‘۔ یہاں بھی ذکر خیال کا نہیں، خیال کی رعنائی کا ہورہا ہے۔ رعنائی مؤنث ہے لہٰذا پائی جاتی ہے۔
آج کا موضوعِ ناز و نیاز کچھ زیادہ ہی چیدہ وپیچیدہ و سنجیدہ ہوگیا۔ (’چیدہ‘ چُنی ہوئی، خاص، منتخب چیز کو کہتے ہیں)۔ لہٰذا آخر میں ایک سادہ سی بات کہہ کر ان پیچ دار باتوںکو بس کرتے ہیں۔ یہ اتنی سادہ سی بات ہے کہ اس کی پیچیدگیاں پہلے کبھی سمجھ ہی میں نہ آئیں۔ ہم بھی اس کا تلفظ غلط ہی ادا کرتے رہے۔ پروفیسر ڈاکٹر غازی علم الدین اپنی معرکہ آرا کتاب ’’لسانی زاویے‘‘ میں اسی عنوان سے جو ہمارے کالم کا مستقل عنوان ہے، رقم طراز ہیں:
’’ہم جنگلی بُوٹیوں کو عام طور پر ’’خودرَو‘‘ بُوٹیاں کہتے ہیں جو ایک غلط ترکیب ہے۔ رَو رفتن مصدر سے ہے جسے اردو میں مؤنث بولا جاتا ہے۔ اس کا معنی ہے دھارا، سَیل، بہاؤ، لہر اور موج۔ بطور لاحِقۂ فاعلی اس کا مطلب ہے ’’چلنے والا‘‘ جیسے تُندرَو، تیز رَو، راہ رَو، اور سُست رَو وغیرہ۔ جنگلی بوٹیوں کے لیے اصل ترکیب خودرُو ہے یعنی بغیر کاشت کیے اُگا ہوا کوئی پودا یا بُوٹی۔ رُو رُستن یا رُوئیدن مصدر سے ہے جس کا معنی ہے اُگنا‘‘۔ (ذیلی عنوان:’’خود رَو یا خود رُو‘‘)
رُوئیدگی کا لفظ ہمارے ہاں اکثر استعمال ہوتا رہتا ہے۔ یہ خیال ہی نہیں آیا کہ جو رُوئیدگی خودبخود ہوجائے وہ خود رُو کہی جائے گی، اور جوسبزہ نیا نیا اُگا ہو وہ ’نَو رُستہ‘ کہلائے گا۔ یاد آیاکہ اقبالؔ نے ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ جو نظم کہی ہے اُس کا اختتام اس دُعا پر کیا ہے:
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نُو رُستہ اس گھر کی نگہبانی کرے