’’گائوآمد و خررفت‘‘ سندھ کابینہ میں تبدیلیوں کے مستقبل میں سنگین نتائج

پیپلز پارٹی کی قیادت کی جانب سے ہفتہِ رفتہ سندھ کابینہ میں ہونے والی اچانک تبدیلیوں پر سیاسی مبصرین بے حد حیران ہیں، اور تجزیہ نگار اپنے اپنے انداز میں تبصرے کرنے میں مصروف ہیں، اور اس عمل کے پسِ پردہ مختلف وجوہ اور اسباب تلاش کررہے ہیں، لیکن بہرحال سب کا اس امر پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ سندھ کابینہ میں کی گئی حالیہ تبدیلیوں کے مثبت اثرات اور فوائد بہ مشکل ہی پیپلز پارٹی کی قیادت یا اہلِ سندھ کو حاصل ہوسکیں گے۔ سندھ کابینہ کو پہلی مرتبہ اتنے بڑے پیمانے پر تبدیل کیا گیا ہے۔ اس سے پیشتر بھی پی پی پی کے تین ادوار میں بارہا سندھ کی کابینہ میں ردوبدل کیا جاتا رہا ہے اور دوچار وزراء و مشیران یا پھر ان کے محکمے تبدیل کیے جاتے رہے ہیں، لیکن اِس مرتبہ تو حد ہوگئی ہے کہ لگ بھگ ایک طرح سے پوری کابینہ ہی تبدیل کردی گئی ہے۔ بظاہر تو پیپلز پارٹی کے رہنما اور حکومتِ سندھ کے ذمہ داران یہ تاثر پیش کررہے ہیں کہ سندھ کابینہ میں حالیہ تبدیلیاں پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ہدایات پر روبہ عمل لائی گئی ہیں، لیکن راز ہائے درونِ خانہ سے باخبر چند سیاسی تجزیہ نگاروں کی آراء میں ان تبدیلیوں کے پس پردہ یہ خدشہ، خطرہ اور خوف بھی کارفرما ہے کہ گزشتہ دنوں جس طرح سے تحریک انصاف کے مرکزی اور سندھ کے رہنما صوبہ سندھ میں مستقبل میں پی ٹی آئی کی حکومت قائم کرنے کے لیے اپنے ارادوں اور عزائم کا برملا اظہار کرچکے ہیں اسے پیپلزپارٹی کی قیادت نے بڑی سنجیدگی سے لیا ہے اور اسے ایک طرح سے اپنے لیے ’’خطرے کی گھنٹی‘‘ تک قرار دے ڈالا ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کے خیال میں سندھ میں پی ٹی آئی کے لیے مستقبل میں اپنی حکومت تشکیل دینا اس لیے بھی ناممکن قرار نہیں دیا جا سکتا کہ فی الوقت پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ کی ہر طرح اور ہرلحاظ سے منظورِ نظر ہے۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی کی قیادت سندھ میں لگ بھگ ڈیڑھ عشروں پر محیط اپنے کامل اقتدار کے باوجود اہلِ سندھ کو صحیح طور سے ڈیلیور نہ کرنے کی وجہ سے بھی احساسِ زیاں اور خفت سے دوچار ہے، اور بلدیاتی و عام انتخابات قریب آتے دیکھ کر اسے سیاسی اور عوامی سطح پر یہ تاثر دینا ضروری ہوگیا تھا کہ وہ صوبے کے عوام کے لیے کام کرنے میں سنجیدہ ہے۔ ان سیاسی مبصرین کے مطابق سندھ کابینہ میں حالیہ کی جانے والی تبدیلیاں پی پی قیادت کی درحقیقت مذکورہ سوچ کا عملی اظہار ہیں۔
عوامی سطح پر سندھ کابینہ میں بڑے پیمانے پر کی جانے والی ان تبدیلیوں کو محض چہروں کی تبدیلی قرار دیتے ہوئے ’’خر آمد و گائو رفت‘‘ کے مصداق ٹھیرایا جارہا ہے، کیوں کہ سندھ کابینہ میں نئے شامل کردہ، یا ان کے محکمے تبدیل کیے جانے والے بیشتر ناکام چہرے وہی پرانے اور ازکارِ رفتہ ہیں جن کی ماضی میں کارکردگی کسی طرح سے مثالی یا یادگار نہیں رہی ہے۔ بلکہ سندھ کابینہ کے 7 وزراء، مشیران اور معاونینِ خاص تو ایسے ہیں جن کے خلاف نیب کی جانب سے تحقیقات جاری ہیں، یا ان کے خلاف ریفرنس داخل ہیں۔ نئے صوبائی وزیر آب پاشی جام خان شورو پر حیدرآباد میں سرکاری زمینیں اونے پونے داموں پر سی این جی کے لیے الاٹ کرنے اور ناجائز اثاثے بنانے کے الزام کے تحت ریفرنس داخل ہے۔ جیکب آباد سے تعلق رکھنے والے اعجاز خان جکھرانی کے خلاف 74 کروڑ روپے کے ناجائز اثاثہ جات اور مشینری کی خریداری میں 34کروڑ کی مبینہ کرپشن کرنے پر دو انکوائریاں چل رہی ہیں۔ اسی طرح سے وزیرٹرانسپورٹ اویس قادر شاہ پر ایک ارب 23 کروڑ روپے کے آمدنی سے کہیں بڑھ کر ناجائز اثاثے بنانے کی وجہ سے نیب کی طرف سے ریفرنس داخل ہے۔ علاوہ ازیں نئے مشیران منظور وسان، نواب وسان، شہلا رضا اور وزیر بلدیات ناصر شاہ کے خلاف بھی مبینہ کرپشن اور ناجائز اثاثے بنانے پر نیب کی جانب سے ریفرنس داخل ہیں۔ سندھ کابینہ کے وزراء، مشیران، معاونین اور کوآرڈی نیٹرز کی تعداد حالیہ تبدیلی کی وجہ سے 54 ہوگئی ہے۔ سیاسی مبصرین اس امر کو بھی ایک ستم ظریفی قرار دے رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی ویسے تو خود کو جمہوریت کی بہت بڑی علَم بردار باور کرایا کرتی ہے لیکن 54 کی مذکورہ تعداد میں محض 23 ارکان ہی منتخب شدہ عوامی نمائندے ہیں، باقی سارے غیر منتخب اور مرکزی و صوبائی پی پی قیادت اور ذمہ داران کے من چاہے افراد شامل ہیں، جس سے پی پی کے جمہوریت کی علُم بردار پارٹی ہونے کی یکسر نفی ہوتی ہے۔ سندھ کابینہ میں پہلی مرتبہ 26 معاونین ِخاص رکھے گئے ہیں۔ 15 معاونین کو مختلف محکمہ جات میں خصوصی ذمہ داریاں دی گئی ہیں۔ اسی طرح دیگر کوآرڈی نیٹرز وغیرہ کا تقرر کر کے سب کو خصوصی اور اعلیٰ مراعات سے نوازا گیا ہے جو سندھ کے غریب عوام پر بلاشبہ ایک اضافی بوجھ لادنے کے مترادف قطعی غیر ضروری قدم ہے، جس کے توسط سے پیپلز پارٹی کی قیادت اور حکومتِ سندھ نے اپنے قریبی اورمنظور ِنظر افراد کو نوازا ہے، اور یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ انہیں اہلِ سندھ سے کہیں زیادہ اپنے فوائد اور مفادات عزیز ہیں۔ بعض سیاسی مبصرین اس سوچ کے حامل ہیں کہ جس انداز سے سندھ کابینہ میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی گئی ہیں دراصل اس طرح سے پیپلز پارٹی کی قیادت نے اپنے منتخب نمائندوں اور پارٹی رہنمائوں کو اقتدار سے لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کیا ہے۔ کیوں کہ بہت عرصے سے پیپلز پارٹی کے اندر یہ تاثر موجود تھا کہ اقتدار صرف چار پانچ افراد تک ہی محدود ہے۔ اقتدار سے دور پیپلز پارٹی کے منتخب نمائندوں و غیر منتخب اہم رہنمائوں کی اپنی کچہریوں میں کی جانے والی یہ بات چیت پیپلز پارٹی کی قیادت تک بھی پہنچ رہی تھی، اور اسے اب اس سبب سے یہ خدشہ لاحق ہو چلا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ پیپلز پارٹی کے مذکورہ ناراض رہنما آگے چل کر ہمارے بجائے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے صوبہ سندھ میں متحرک کیے گئے ان کے نومنتخب معاونِ خاص سابق وزیراعلیٰ سندھ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم سے اندرونی طور پر پینگیں بڑھانے نہ لگ جائیں جو گرم و سرد چشیدہ اور گرگِ باراں دیدہ سیاست دان ہیں اور ان کا تقرر وزیراعظم عمران خان نے کیا ہی اس لیے ہے کہ وہ صوبہ سندھ میں پی ٹی آئی کے لیے سیاسی راستہ ہموار کریں، نئی مؤثر اہم سیاسی شخصیات کو پی ٹی آئی میں شامل کرائیں تاکہ مستقبل میں ان کا سندھ میں پی ٹی آئی کی حکومت تشکیل دینے کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکے۔
دوسری جانب شنید ہے کہ پی پی قیادت کی جانب سے جس انداز میں پی پی کے سینئر وزراء نثار کھوڑو، فدا حسین ڈیرو، اور سہیل انور سیال و دیگر کو ان کی وزارتوں سے عدم کارکردگی یا پی پی کے سیاسی مخالفین سے روابط سمیت دیگر الزامات عائد کرکے ہٹایا گیا ہے، اس کی بنا پر سبک دوش کیے جانے والے وزراء حد درجہ نالاں اور برہم ہیں۔ پی پی کی قیادت کو اس امر کے پیش نظر اب یہ خدشہ لاحق ہوچلا ہے کہ کہیں سبک دوش کیے جانے والے وزراء آگے چل کر پارٹی کے لیے سیاسی خطرہ نہ بن جائیں۔ دوسری جانب الزامات کی زد میں آنے والے مذکورہ وزراء نے خود پر عائد کردہ الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے ان پر اپنی ناراضی اور برہمی کا اظہار کیا ہے۔ گویا اب پیپلز پارٹی کی قیادت ایک طرح سے ’’نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن‘‘ کی سی صورت حال سے دوچار ہے، اور اسے ’’بنانے کے چکر‘‘ میں ’’گنوانے‘‘ کا بھی خطرہ محسوس ہورہا ہے۔ اس لیے سندھ کابینہ میں حالیہ ردوبدل کی کئی جہات ہیں، اور آگے چل کر اس قدم کے کئی ضمنی اثرات بھی پی پی کو بھگتنے پڑ سکتے ہیں۔ حالیہ تجربہ یا تبدیلی اس وجہ سے معمول سے ہٹ کر ہی گردانی جائے گی۔ اگر اس کے پسِ پردہ کارکردگی بہتر بنانے کی تمنا ہے تو شاید ہی یہ آرزو بارآور ثابت ہوسکے۔ سابق وزیر تعلیم سعید غنی کو وزیر اطلاعات و نشریات، جبکہ سردار شاہ کو وزیر تعلیم بنایا گیا۔ اسی طرح سے کئی وزراء اور مشیران و معاونین کے محکمے تبدیل کیے گئے ہیں۔
سندھ کابینہ میں مذکورہ جو بھی تبدیلیاں کی گئی ہیں وہ درحقیقت آزمائے ہوئوں کو ایک مرتبہ پھر سے آزمانے کی غلطی کرنے جیسی ہیں۔ حکومتِ سندھ کی زیادہ تر وزارتیں شروع ہی سے اپنے لیے مختص کردہ سالانہ ترقیاتی فنڈز تک کو مناسب طور سے خرچ کرنے میں ناکام اور نااہل ثابت ہوچکی ہیں۔ رہا گورننس کا حال، تو وہ بھی سب پر عیاں اور واضح ہے۔ وزارتوں اور اداروں کی مجموعی کارکردگی سے کسی حکومت کی نیک نامی یا کامیابی کا تاثر قائم ہوتا ہے، لیکن ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں (جن میں صوبہ سندھ سرفہرست ہے) جس کارکردگی اور معیار کی حامل ہیں اس سے عوام بہ خوبی واقف ہیں۔ ہمارے ادارے عوام کو بجائے سہولیات بہم پہنچانے کے اُن کی مشکلات میں بے پایاں اضافے کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ پی پی قیادت نے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ٹاسک دیئے جانے والے ڈاکٹر ارباب غلام رحیم کے آبائی ضلع تھرپارکر کے ہر تعلقہ سے سندھ کابینہ میں نمائندگی دی ہے جو اس کی بوکھلاہٹ اور خوف کا ایک واضح مظہر ہے۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ عمران خان کے من چاہے سابق وزیراعلیٰ سندھ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم کا دورِ وزارت عُلیا بھی ہرگز مثالی یا کامیاب نہیں تھا، اور متحدہ قومی موومنٹ نے اُن کے دورِ حکومت میں سندھ میں وحشت اور سفاکی کا راج قائم کر رکھا تھا، اور سندھ کے سارے سرکاری ادارے آج ہی کی طرح ماضی میں بھی تباہی اور بدعنوانی سے معمور تھے۔ اس لیے مستقبل میں اگر سندھ میں بالفرض پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوبھی جاتی ہے تو اہلِ سندھ کو اس بارے میں قطعی کوئی خوش گمانی نہیں ہے، بعینہٖ سندھ کے عوام آج سندھ میں پی پی کی جانب سے سندھ کابینہ میں کی جانے والی حالیہ تبدیلیوں سے یکسر لاتعلق بلکہ بے زار دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں قطعی یقین نہیں ہے کہ ان تبدیلیوں سے سندھ کے تباہ حال اور بدعنوانیوں سے بھرے ہوئے سرکاری اداروں میں کسی نوع کی کوئی بہتری رونما ہوسکے گی۔ عوام جانتے ہیں کہ پی پی عوامی پارٹی نہیں بلکہ وڈیروں اور بھوتاروں کی جماعت بن چکی ہے۔ صرف چہروں کی تبدیلی سے اہلِ سندھ کے حالات میں تبدیلی کا آجانا ناممکن ہے۔ سندھ میں بدامنی، بے روزگاری، پولیس گردی، زراعت کی تباہی، صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی سمیت اَن گنت مسائل نے اہلِ سندھ کی زندگی کو بے حد کٹھن اور مشکل بنادیا ہے۔ ہر روز مہنگائی اور بے روزگاری سے متاثرہ افراد کی جانب سے خودکشی کا انتہائی قدم عالمِ مایوسی میں اٹھائے جانے کی دردناک خبریں سامنے آتی رہتی ہیں لیکن بے حس اور سنگ دل حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ بہرکیف پی پی کی جانب سے سندھ کابینہ میں تبدیلی کا حالیہ قدم مستقبل میں بہت سارے سنگین مضمرات کا حامل بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ پی پی کے صوبائی صدر نثار کھوڑو کی جانب سے وزارت سے ہٹائے جانے کی بنا پر آگے چل کر پی پی کی صوبائی صدارت سے بطور احتجاج استعفیٰ دینے کی غیر مصدقہ اطلاعات بھی سامنے آرہی ہیں۔
سیاسی مبصرین کے اس تبصرے میں خاصا وزن محسوس ہوتا ہے کہ پی پی قیادت کے حالیہ قدم سے پی پی کے اندر بہت ساری ناراضیوں نے جنم لے لیا ہے، اور اگر وفاقی حکومت آگے چل کر سچ مچ سندھ کے اندر پی پی کے خلاف سیاسی اتحاد تشکیل دینے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو پی پی قیادت کو اس کی بنا پر مشکل صورتِ حال کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اور پی پی قیادت کے سندھ کابینہ میں تبدیلی کے فیصلے کے نتیجے میں اقتدار سے دور کردیے جانے والے ناراض رہنما پی پی کے خلاف نئے سیاسی اتحاد میں بطور انتقام شمولیت اختیار کرسکتے ہیں۔ لیکن یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اگر عوام کے ووٹوں سے برسراقتدار کوئی بھی جماعت اپنے ووٹروں کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو پورا کرے اور عوام کو سنجیدگی کے ساتھ ریلیف پہنچانے کے لیے مخلصانہ اقدامات کرے تو اسے نہ اپنی کابینہ میں چہروں کی تبدیلی کا ڈھونگ رچانا پڑے گا اور نہ ہی مستقبل کے کسی سیاسی اتحاد کی تشکیل سے اس کی قیادت کی نیندیں اڑیں گی۔