فکرِ اسلامی میں سیّد مودودی ؒ کی شمولیت سے پہلے دور کو میں ذاتی طور پر”پری- مودودی ایرا“(Pre- Moudodi Era) سے تعبیر کرتاہوں اور ان کے بعد کے زمانے کو ”پوسٹ- مودودی ایرا“ ((Post- Moudodi Era سمجھتا ہوں ۔ ہوسکتا ہے کسی صاحب علم نے اس صورت میں یہ تقسیم پہلے کردی ہو یا نہیں ، یا اُسے اِس تقسیم سے اتفاق ہو یا نہ ہو، یہ میرے علم میں نہیں ۔ مگر میں نے اپنی پہلی کتاب، “غمزۂ خوں ریز ” میں فکرِ اسلامی کی اِس تقسیم کا ذکر کیا ہے ، جو خالص میری ذاتی رائے ہے اور جس سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ البتہ میرا اصرار یہ ہے کہ فکر اسلامی کے حوالے سے کھینچے گئے اس خط اور تقسیم کے دونوں طرف فکر اسلامی میں موجود وہ فرق بہر صورت موجود ہے، اس سے انکار ممکن نہیں گو کہ اس کے اظہار کا اِس سے بھی ایک بہتر پیرایہ ممکن ہو سکتا ہے۔
ہمارا مقصد دراصل ان اصطلاحات کے ذریعے ہمارے مذہبی فکر میں اُس بنیادی اور اساسی فرق کو واضح کرنا ہے جو سیّد ؒ سے پہلے اور بعد کے ادوار کے درمیان موجود ہے ۔
پری- مودودی ایرا میں دین کا متصوفانہ اور خانقہی تصوّر غالب تھا، اور اجتماع سے زیادہ فرد کی انفرادیت کی اصلاح پر زور دیا جاتا تھا ۔ بات اگر اسی حد تک ہو تی اور محض “ترتیب” کے اِس اُلٹ پھیر تک محدود رہتی کہ اجتماعی اصلاح کے مقابلے میں انفرادی اصلاح کو زیادہ اہمیت اور اوّلیت دی جا نی چاہیے ، تو شاید تشویش یا فکر کی بات نہ تھی ۔ مگر غضب یہ تھا کہ ہمارے بہت ہی نمایاں اہلِ علم اور ہمارے صوفیہ میں سے بعض نے ملوکیت کے جبر اور اجتماعی نظام میں ریاست و حکومت کی اصلاح میں ناکامی اور کچھ دوسرے عوامل کی بنیاد پر صرف اور صرف انفرادی اصلاح کو مرض کا اصل علاج سمجھا تھا۔ پھر بزرگوں کے قدم سے قدم ملا کر آگے دُور تک کا سفر اس ذہنی ماحول میں طے ہوتا گیا کہ اجتماعی اصلاح کی اہمیت، یا کم از کم اس کے اصل ناگزیر مقام سے توجہ ہٹتی گئی ، اور یہ تصوّر ذہنوں میں راسخ ہوتا گیا کہ اگر معاشرے میں اکثریت کی انفرادی اصلاح ہو جائے، تو معاشرتی اجتماعیت ” خود بخود” ٹھیک ہو جا ئے گی۔ آپ حیران ہونگے کہ عین سیاسی خود مختاری کے چھن جا نے کے بعد دورِ غلامی میں عالمِ اسلام میں ایسے اہلِ علم کی کمی نہیں تھی ، جو ریاست و سیاست کی جھنجٹ سے ”فارغ“ ہونے کو ایک طرح سے نفسی،روحانی اور انفرادی اصلاح کے لیے نعمت خداوندی سمجھتے تھے ۔ ہندوستان میں شبلی نعمانی جیسا معتبر نام ان میں شامل ہے۔[1]
آج یورپ اور افریقہ میں کچھ انتہائی مخلص اور جوشیلے مسلم و نومسلم مختلف خانقاہوں میں غزالیؒ کی تعلیمات کے عشق میں…جہاں اُن کی تعلیمات کا صرف ایک پہلو لیا گیا ہے… ذکرو و فکر میں روح کی آسودگی اور تربیت سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔ وہ یہ پختہ گمان کر بیٹھے ہیں کہ یہی خانقہی تقویٰ عام ہوا تو خود بخود ”اصلاحِ عام“ کا سبب بنے گا … ورنہ ذاتی اصلاح میں مگن رہ کر اپنی کشتی کا پار ہونا تو یقینی ہی یقینی ہے ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اسی تصوف کو ”متبادل دین“ کا نام دینے والے زمانۂ حال کے ایک صاحب علم ہوں یا بھارتی سیکولرزم سے موافقت اور موانست پید کرنے والے” خان“ ، دونوں کی کاوشیں اپنے نتائج و عواقب میں اسی تصوف اور اسی انفرادی اصلاح کی محدودیت میں تحلیل ہو جاتی ہیں ،جس تصوف کو ان میں سے کم از کم ایک صاحب نے تو متبادل دین قرار دےکر اسے ”دینی اصطلاح“ کی فہرست ہی سے نکال باہر کیا ہے۔ یہاں اِس نتیجے کے بر آمد ہونے کی اصل وجہ دونوں کی طرف سے یہ دعویٰ ہے کہ:
”اسلام کی دعوت اصلاً فرد کے لیے ہے۔“
یہ دعویٰ ، جیسا کہ اُوپر عرض کیا گیا، محض دعوت کی ترتیب میں فرد کی ابتدا یا اہمیت تک محدود ہوتا تو تشویش کی بات نہ تھی ، مگر محدود نہ رہ سکا، اور آگے بڑھ کر ریاست کو بھی جب سیکولر مانا گیا تولا محالہ :
”اسلام کی دعوت اصلاً فرد کے لیے ہے“ کا یہ دعویٰ ”اسلام کی دعوت اصلاً فرد تک محدود ہے“پر منتج ہوا۔ ہم نے اپنی کتاب ”کامیاب ریاست ،ناکام باشندے“ میں اس پر تفصیل سے گفتگو کی ہے، اور یہی موضوع ہماری نئی کتاب ”اسلام اور ریاست“ میں بھی زیر بحث رہا ہے ۔
اس نقط ٔ نظر سے غور کیا جائے تو مذکورہ بالا دونوں اہل ِعلم حضرات کا انداز فکر”پری- مودودی ایرا“ کے خانقہی تصوّرِ دین ہی کی طرف مرا جعت اور واپسی کے سوا کچھ نہیں ۔اِن کے ہاں شعوری نہیں تو لا شعوری طور پر تصوف کی مخالفت میں جس چیز کی تردید کی گئی ہے، ایک مختلف راستے سے گھوم پھِر کر واپس اُسی مقام پر پہنچ کر پڑاؤ ڈالا گیا ہے۔
پری- مودودی ایرا میں دوسرا بڑا مسئلہ مسلم ضمیر کے اندر”محسوس“سے کراہت پر مبنی ایک فاصلہ، ایک بیگانگی اور دُوری کا رویّہ تھا۔ یہ درحقیقت مادی اور دنیوی مفاد کے معاملے میں صبر و قناعت اور بدلے میں اُخروی نجات کے روحانی مفاد کو ترجیح اور اوّلیت دینے کے راست موقف میں غلو اور انتہا پسندی کا رویّہ تھا ۔ اس میں بالآخر محسوس کو یا دوسرے الفاظ میں مادیت کو مردود مانا گیا تھا اور اس سے دُور بھاگنے کا طرز عمل اختیار کرنا دین کا تقاضا سمجھا گیا تھا۔اس طرزِ فکر و عمل کے ڈانڈے بھی دراصل مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں ریاست کے اس ناگزیر اور بھر پور کردار کے لیے کوئی جگہ باقی نہ رہنے کی تشنگی سے ملتے تھے، جس میں ایک اسلامی ریاست اجتماعی اصلاح اور کفالت دونوں کی صلاحیت بھی رکھتی ہے اور کردار بھی ادا کرتی ہے ۔ مگر خلافت کے ختم ہونے اور ملوکیت کے غلبے کے سبب ریاست اپنی یہ حیثیت کھو بیٹھی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ خلافت کے نظام کے ختم ہونے اور ملوکیت مسلّط ہونے کے نتیجے میں اجتماعی زندگی کی نظم میں طویل طوائف الملوکی نے ایک طرف اجتماعی زندگی میں خدا کو بطور حاکم و مطاع ماننے کا تصوّر ختم کردیا تھا ، تو دوسری طرف ایک فلاحی ریاست کی حیثیت سے ریاست کے وجود کے ختم ہونے کے نتیجے میں زندگی کے تقاضوں کو پورا کرنا شریعت کے احکام کو زندگی سے نکالنے اور ان کی خلاف ورزی کرکے انہیں پامال کرنے کے بغیر ممکن نہ رہا تھا۔ اجتماعی معاملات اجتماعی نظم کا دائرۂ کار ہو تے ہیںاور یہ ہمیشہ ریاست کی قوت نافذہ کے متقاضی ہوتے ہیں۔ فرد اپنی انفرادی حیثیت میں ان کے سامنے ہمیشہ بے بس ہوتا ہے۔اب جب معاشرے کے نیک سیرت اور اہل اللہ لوگ اس دو راہے پر پہنچے کہ مادی اور اجتماعی زندگی کی ضرورتوں کو شریعت کے احکام کی پامالی اور قربانی پر قبول کریں ، یا اس اجتماعی زندگی کی جھنجٹ ہی سے نکل کر مادی زندگی کی ضرورتوں کو تین طلاقیں دے کر سرے سے کنارہ کشی کا راستہ اختیار کریں، تو ظاہر ہے کہ”اہل اللہ” کے انتخاب کا راستہ یہ دوسرا راستہ ہی ہو سکتا تھا اور توقع کے عین مطابق اُنہوں نے اس کا انتخاب کیا بھی۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ فکرو عمل دونوں میں اس صورت حال کا نتیجہ ، اجتماعی زندگی کا خدا کی اطاعت سے مکمل طور پر خارج ہونے کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا تھا، اور ہوا بھی نہیں۔ اس طرز عمل پر صدیاں بیت گئیں ، اور ایک طر ف خانقہی نظام نے فرد کی انفرادیت کو روحانی سکون بخشنے بلکہ ملاءاعلیٰ تک کی سیر کرانے کی کامیابیوں کی منزلیں طے کرا دیں اور دوسری طرف عرصہ دراز تک مادیت سے اجتناب و کنارہ کشی کی مذہبی اور دینی تلقین نے طبیعتوں میں ہر دنیادارانہ تصوّر زندگی سے نفرت اور دُوری کے جذبات پید کر دیے۔ اس کے بعد ممکن نہ رہا کہ اس طویل سفر کے بعد ایک بار پھر مادیت اور محسوس کو خالق کی تخلیق قرار دے کر اسے واپس اس خالق کے دائرۂ اطاعت میں لانے کے لیے زبان کھولنے کی جسارت کی جاتی۔ جب سیّد مودودیؒ نے ایسا کیا تو توقع کے عین مطابق تھا کہ اُنہیں صرف تصوف کا نہیں اسلام کا بھی دشمن قرار دیا جاتا۔
جیسا کہ بتایا گیا کہ انفرادی اصلاح ہی کو اوّلیت دینے اور آہستہ آہستہ اس کا غلبہ ہو جانے کے بعد اُسے سب کچھ سمجھنے کا یہ رجحان دراصل عجمی تصوف کی انفرادیت میں پناہ لینے ہی کا نتیجہ تھا۔اگر چہ یہ راستہ تو ملوکیت کے غلبے اور اُسے بزور شمشیر خلافت میں بدلنے کی کوششوں میں مسلسل ناکامی نے پہلے ہی دکھایا تھا مگر عالمی سطح پر سیاسی شکست اور قائدانہ اقتدار سے محروم مسلمانوں کو جب مغرب کی مادی تہذیب کے غلبے کا بھی سامنا ہوا ،تو ردّعمل میں قرآن کی حسّی روح سے انکار بلکہ روگردانی کا راستہ اختیار کیے بغیر نہ رہا جاسکا ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر عمل کے لیے فکر و نظر میں جواز کا کوئی بیانیہ درکار ہوتا ہے۔ یہاں بھی مسلمان اہلِ علم میں سے بہت نمایاں شخصیات نے عجمی تصوف کی انفرادیت اور قرآن میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوششیں کیں۔ ان مساعی کا نتیجہ یہ ہوا کہ محسوس کے غیر حقیقی ہونے کو قبول کرکے قرآن کی حسّی روح سے انکار کیا گیا اور اُسے فلسفیانہ طور پر افلاطونی عقلیت سمجھا گیا ۔
اٹھارویں صدی کے شروع میں ایک طرف مغرب کی سائنسی ترقی، انڈسٹرلائزیشن اور خالص مادی و حسّی سِولایزیشن کا ظہور ہوا تو دوسری طرف ساتھ ہی عالم اسلام کی علمی برتری کا خاتمہ اور سیاسی اقتدار کا سورج بھی غروب ہوا ۔ قدرتی بات تھی کہ دنیوی اُمور اور محسوس کے علم میں مسلم فکر کی دلچسپی ختم ہوئی ، سیاسی زوال اپنے منطقی انجام کو پہنچا، اقتدارِ عالم سے مسلمان محروم ہوا اور خالص مادی ترقی کی بنیاد پر ایک غیر روحانی مغربی تہذیب سے عالم اسلام کو واسطہ پڑا ، تو کئی تغیرات واقع ہوئے ۔ ان تغیرات کا مطالعہ بے شک بہت دلچسپ ہے۔ اگر زندگی نے وفا کی تو کسی موقع پر اُن پر بات ہو سکتی ہے ۔ مگر ہم یہاں اپنے موضوع کے اعتبار سے ان سے کوئی تعارض نہ کرنے پر مجبور ہیں ۔ البتہ اتنا عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ان تغیرات میں خود مسلم فکر کے اندر رونما ہونے والا ردّعمل ہماری دلچسپی کا موضوع ہے ۔ بیسویں صدی کے آغاز میں مسلم فکر میں اِس ردّعمل کا اظہار شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبال ؒنے اپنے خطبات کی شکل میں دیا ۔
علامہؒ تشکیل جدید کے پہلے خطبے میں لکھتے ہیں :
”پچھلے پانچ سو برس سے الہیات ِاسلامیہ پر جمود کی ایک کیفیت طاری ہے۔ وہ دن گئے جب یورپ کے افکار دنیائے اسلام سے متاثر ہوا کرتے تھے۔ تاریخِ حاضرہ کا سب سے زیادہ توجہ طلب مظہر یہ ہے کہ ذہنی اعتبار سے عالم اسلام نہایت تیزی کے ساتھ مغرب کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اِس تحریک میں بجائے خود کوئی خرابی نہیں کیوں کہ جہاں تک علم و حکمت کا تعلق ہے، مغربی تہذیب دراصل اسلامی تہذیب ہی کے بعض پہلو ؤں کی ایک ترقی یافتہ شکل ہے ۔ لیکن اندیشہ یہ ہے کہ اِس تہذیب کی ظاہری آب و تاب کہیں اس تحریک میں حارج نہ ہو جائے اور ہم اس کے حقیقی جوہر ، ضمیر اور باطن تک پہنچنے سے قاصر رہیں ۔“] [2
دراصل مغرب میں علامہؒ کے غور و فکر نے اُن پر یہ حقیقت وا کردی تھی کہ نہ صرف قرآن کا موقف ہمارے بعض صوفیہ اور فلاسفہ کے دعووں کے برعکس انٹی کلاسیکل (Anti-Classical ) ہے بلکہ مغربی تہذیب کا حسّی عنصر ہمارے لیے غیر دینی یا ناقابلِ ترک و قابلِ نفرت بھی نہیں۔ اقبالؒ مغرب کی مادی ترقی کو مسلمانوں کے عروج کے زمانے میں شروع کردہ تحریک باور کرا کر مسلمانوں کو یقین دلانا چاہتا ہے کہ مغربی تہذیب میں حسّی عنصر خود ہمارے اسلامی کلچر کا اثاثہ ہے جس سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ۔ البتہ اقبالؒ کے اس دعوے پر بھی عین نذیر نیازی کے خدشے اور تنبیہ کے مطابق ایک اور ردّعمل سامنے آیا اور ڈاکٹر بر ہان احمد فاروقی جیسے اساتذہ کو یہ تشویش لاحق ہوئی کہ علامہؒ نے قرآن کی حسّی روح میں مبالغہ کرکے اس فرق کو نظر انداز کیا ہے جو قرآن نے محسوس کے”حقیقی“ہونے اور اس کے” منتہائے حقیقت“ ہونے کے درمیان واضح کیا ہے ۔
”قرآن عقلیت (Rationalism ) کے برعکس محسوس کوغیر حقیقی کے بجائے حقیقی ضرور سمجھتا ہے مگر منتہائے حقیقت نہیں، جیسا کہ حضرت علامہؒ کا خیال یا دعویٰ ہے ۔ محسوسات کے ماوراء کچھ بھی ہونے کی نفی قرآن کے موقف کی درست تفہیم یا ترجمانی نہیں ہوگی۔“ [3]
مگر علامہؒ کے جس دعوے پر اِس سے بھی شدید ردّعمل سامنے آیا، وہ اِسی خطبے میں درجہ ذیل یہ الفاظ ہیں:
”دراصل علم کی حرکت میں لا متناہی کی یہی موجودگی ہے جس نے متناہی فکر کو ممکن کر رکھا ہے۔ کانٹ اور غزالی دونوں اس حقیقت سے بے خبر رہے کہ علم کے ہر عمل میں فکر اپنی متناہیت سے تجاوز کر جاتا ہے … فکر بالطبع تحدید سے آزاد ہے اور اس لیے یہ ممکن نہیں کہ اپنی انفرادیت کے تنگ حلقے میں مقید رہے۔ اس کے ماورا جو وسیع عالم ہے اس میں کوئی شے بھی اِس سے بیگانہ نہیں بلکہ یہ بظاہر وہی بے گانہ عالم ہے جس کی زندگی میں بتدریج حصہ لیتے ہوئے فکر اپنی حدود کو توڑ ڈالتا ہے اور اس لا متناہیت سے لطف اندوز ہوتاہے جو بالقوہ اس میں پوشیدہ ہے اور جس کا مطلب یہ ہے کہ فکر میں حرکت پیدا ہوتی ہے تو محض اس لیے کہ اس کی متناہیت میں لا متناہی بھی مضمر رہتا ہے ۔“ [4]
اس پر ڈاکٹر برہان فاروقی سراپائے احتجاج ہیں، فرماتے ہیں :
”… وحی کی احتیاج اس وقت ثابت کی جاسکتی ہے جب تسلیم کیا جائے کہ انسان اپنی فطرت میں حقیقت حقّہ کو پانے کی استعداد اور اپنے اعمال کے اُن نمونوں کو پانے کی اہلیت سے محروم ہے جس میں حصولِ نصب العین کی ضمانت ہو ۔ لیکن اگر ہم اس کا اثبات کریں کہ انسان میں ایک استعداد ایسی بھی ہے جو منتہائے حقیقت کو پانے کی اہلیت رکھتی ہے، تو پھر وحی، مذہب کی بنیادی شرط کی حیثیت سے مطلقاً غیر ضروری ہے ۔“ [5]
ایسی ہی شدید تنقید کی چند مثالیں فرزندِ اقبال نے اپنی کتاب ”خطباتِ اقبال تسہیل و تفہیم“میں دی ہیں ۔ [6]
قطع نظر یہ کہ حضرتِ علامہؒ کے ان دونوں دعووں پر اِس تنقید کو درست سمجھا جائے یا نہیں، علامہؒ کے خطبات پر یہ اور اس طرح کے دوسرے مقامات پر تنقید بجائے خود اس بات کا ثبوت ہے کہ پری-مودودی ایرا میں قرآنی تعبیر کا راستہ کسی حد تک عجمی تصوف کا تناظر ہی تھا۔ اس اسٹیٹس کو کو توڑنا آسان کام نہ تھا ۔ ہماری ذاتی رائے یہ ہے کہ صدیوں کے اِس جمود نے خود ایک ایسے مجدد کے ظہور کا محل پیدا کیا تھا، جو قرآنی بصیرت کی روشنی اور وقت کے تقاضوں کے عین مطابق ایک جدید علم الکلام سے مسلح ہو کر اس پر حملہ آور ہو۔ چنانچہ جب فکرِ اسلامی میں سیّد مودودیؒ کے افکار شامل ہوئے تو یہاں سے نقشہ تبدیل ہونا شروع ہوا، اور ابتدا میں چلنے والی مخالفت کے تند و تیز طوفانوں نے بالآخر باد موافق کا وطیرہ اختیار کرکے تنہا ملا ح کی اس کشتی کو کامیابی سے کنارے لگایا ۔
”پوسٹ- مودودی ایرا“ میں فکرِ اسلامی کے اندر جو عظیم الشان تبدیلی واقع ہوئی وہ یہ تھی کہ سیّد مودودی ؒ ہی نے یہ جھنڈا بلند کیا اور اس مقدمے کو قرآن و سنّت کی طاقت سے اُٹھا کر عالم اسلام کے سامنے رکھا کہ جس خدا کو مسجد و محراب اور خانقاہ میں معبود مانا جاتا ہے ، اُس کو ریاست و حکومت میں کیوں حاکم و مطاع نہیں مانا جاتا ؟ گویا اجتماعیت میں اطاعتِ خداوندی کے اِس پہلو کو ایک عرصۂ دراز کے بعد سیّد ؒ ہی نے دوبارہ زندہ اور اُجاگر کیا ۔آپ اس جدو جہد کی علمی تفصیل میں دلچسپی رکھتے ہوں تو سیّد مودودی ؒ کی تصنیف ”قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں“، ”اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر“ ، اس طرح ابوالحسن علی ندودی ؒ کی طرف سے عبادات کو”بجائے خود مقصد“ ماننے کے دعوے اور سیّد مودودی ؒ کی طرف سے عبادات ایک مقصد کا ”ذریعہ“ ہونے کی گفتگو ، نیز ابوالحسن علی ندوی ؒ کی کتاب ‘”عصر حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح“ میں یہ مباحث ملاحظہ کر سکتے ہیں ۔ ان میں کہیں کہیں یہی موضوع بالکل واضح تو کہیں اشاروں کنائیوں میں بیان کیا گیا ہے ۔ ذرا سا غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سیّد ؒ دراصل اجتماعیت میں اطاعت خداوندی کے اس پہلو پر غیر معمولی زور اس لیے دے رہے ہیں کہ یہ ، جیسا کہ عرض کیا گیا ، عرصۂ دراز سے نظر انداز کیا گیا پہلو ہے ۔ دوسری طرف روایتی فکر یا خانقاہی نقطۂ نظر اِسے قبول کرنے میں مانع ہے ۔ (یہاں ”روایتی فکر“ سے مراد”فکر اسلامی کی روایت“ نہیں ہے ، بلکہ وہ روایتی فکر ہے جو عجمی تصوف سے شعوری یا لاشعوری طور پر متاثر و مغلوب ہے)
قدرتی بات تھی کہ یہ بھولا ہوا سبق دوبارہ یاد دلانا کوئی آسان کام نہ تھا ۔ کوئے یار سے نکلنے والے سیّد ؒ کو حکومتی طاقت کے دارو رسن سے بھی اور قلم و کاغذ میں پرانے جمے جمائے نظام پر تنقید و تحقیق کی خار زار وادیوں سے بھی گزرنا پڑا۔”اپنوں“ نے تصوف کا دشمن اور اکابر کے راستے سے ہٹا ہوا باور کرایا، تو دشمنانِ اسلام نے اس کے تصوّر دین کو”سیاسی اسلام“ کی اصطلاح میں محدود کرکے بے توقیر کرنے کی کوشش کی ۔ لیکن مفکرین اسلام میں اس صدی کے سیّد ؒ کو میں اِس لحاظ سے خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ اگر چہ اسلامی ریاست کے قیام کی اُن کی آرزو اُن کی زندگی میں تو پوری نہیں ہوسکی، اور مزید بھی معلوم نہیں کہ ” کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار“، مگر وہ ابھی حیات تھے کہ عالمِ اسلام کے معتبر اہلِ علم ان کی زبان میں بات کرنے پر آمادہ بلکہ مجبور نظر آئے اور مسجد و خانقاہ میں خدا کو معبود ماننے کے ساتھ ریاست و حکومت میں بھی اللہ تعالیٰ کو حاکم و مطاع ماننے کی اس حقیقت اور ضرورت کو تسلیم کرلیا گیا ۔
حوالہ جات
[1] ۔”جہاد کہانی”، محمد فاروق (برطانیہ) ، شعیب سنز پبلشرز اینڈ بُک سیلرز سوات مارکیٹ جی ٹی روڈ منگورہ ، سوات، صفحات 547 تا 554آپ کتاب ہذا کےحوالہ جات میں حوالہ نمبر28 پر شبلی کا ایک جملہ اور اُس پر ہماری معروضات ملاحظہ فرما ئیں گے تو”پری-مودودی ایرا“ کے اس تصوّر دین کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں رہے گی۔
[2]۔ تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ ، حکیم الامت حضرت علامہ اقبال ؒ ، اردو ترجمہ سیّد نذیر نیازی، بزم اقبال نرسنگھ داس گارڈن کلب روڈ لاہور ، پہلا خطبہ صفحہ ۱۱
[3] ۔ “قرآن اور مسلمانوں کے زندہ مسائل” ، ڈاکٹر برہان احمد فاروقی، علم و عرفان پبلشرز اردو بازار لاہور ، صفحات ۲۴۶، ۲۴۷
[4] ۔ تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ ، حکیم الامت حضرت علامہ اقبال ؒ ، اردو ترجمہ سیّد نذیر نیازی، بزم اقبال نرسنگھ داس گارڈن کلب روڈ لاہور ، پہلا خطبہ صفحہ ۱۰
[5] ۔”قرآن اور مسلمانوں کے زندہ مسائل” ، ڈاکٹر برہان احمد فاروقی، علم و عرفان پبلشرز اردو بازار لاہور، صفحہ ۲۴۸
[6] ۔ “خطبات اقبال تسہیل و تفہیم” ، ڈاکٹر جاوید اقبال ، سنگ میل پبلیکیشنز لاہور ،صفحہ ۱۱ تا ۱۹
مصنف کا ایک مختصر تعارف :
Mohammad Farooq
M.Sc. Geology ;Department of Geology University of Peshawar
M.Phil. Geology; National Centre of Excellence In Geology, (NCE) Peshawar
M.Sc. Environment Health and Safety; University of Sunderland (UK).
Home town and Country: Village Pand, Mingora Swat.
At Present: As a Permanent citizen of UK , in Stockton-On-Tees, England