26 اگست 1941 ء برصغیر کی تاریخ کا یاد گار دن ہے۔ ملک بھر سے اہلِ درد مسلمان ایک داعیِ حق کی دعوت پر لاہور میں جمع تھے اور دورِ جدید کی سب سے بڑی اسلامی تحریک کی بنیاد ڈالی جارہی تھی۔ اب یہ تحریک زندگی کی 80بہاریں پوری کر چکی ہے۔ اس کے داعی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ تھے ابتدائی اجلاس میں شرکت کرنے والے ارکان کی تعداد 75تھی۔ تاسیسی ارکان ایک نہایت خوبصورت گل دستہ تھے۔ ان میں معاشرے کے ہر طبقہ کی نمائندگی موجود تھی۔ اسی طرح پورے برصغیر کے تمام علاقوں سے بھی لوگ اس میں شریک ہوئے۔ پٹنہ سے لے کر مدراس تک اور سرگودہا سے لے کر کراچی تک ہر خطے کے لوگ اس دعوت پر لبیک کہتے ہوئے شاملِ کارواں ہو گئے تھے۔ شرکاء میں ملک کے مایہ ناز اور مستند علما اور جدید تعلیم یافتہ وکلا اور ماہرین تعلیم بھی شامل تھے اور ان کے پہلو بہ پہلو بہت کم پڑھے لکھے بلکہ نیم خواندہ لوگ بھی وہاں موجود تھے۔ بڑے بڑے زمیندار اور معاشی لحاظ سے خوشحال لوگ بھی شریک ِمحفل تھے اور مستری و مزدور قسم کے درد دل رکھنے والے باشعور مسلمان بھی حاضر تھے۔
اس تاسیسی اجلاس میں جماعت کا نام ’’ جماعت اسلامی ‘‘ رکھا گیا اور مولانا مودودی ؒ کو متفقہ طور پر نئی تاسیس شدہ جماعت کا ’’ امیر ‘‘ منتخب کیا گیا۔ یوں یہ چھوٹا سا قافلہ بے سرو سامانی کی حالت میں ’’ ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا ‘‘ کے جذبات سے سرشار ایک کٹھن اور مشکل سفر پر روانہ ہو گیا۔ وقت کی منہ زور اور مخالف موجوں کے گرداب میں اپنی کشتی ڈال دینے والے یہ لوگ بڑے باہمت تھے۔ وقت جوں جو ں گزرتا گیا، دعوت پھیلتی چلی گئی اور اس کے ساتھ ہر چہار طرف سے مخالفتیں بھی ابھر آئیں۔ مخالفت کرنے والوں میں مراعات یافتہ جاگیردار طبقہ، سیکولر ذہن اور فرنگی راج سے مرعوب دانشوروں کی ٹولیاں اور سب سے افسوسناک بات یہ کہ دین کا دم بھرنے والے ثقہ لوگ سبھی شامل تھے۔ مخصوص مفاد رکھنے والے تمام عناصر اور نوکر شاہی کے کل پرزے بھی مخالفت پر اتر آئے۔
کمیونسٹ اور سیکولر کانگریسی لوگوں کی مخالفت تو سمجھ میں آتی ہے مگر تحریک ِ پاکستان چلانے والوں میں بھی ایسے لوگ شامل تھے، جنہوں نے قیامِ پاکستان کی منزل قریب آنے پر جماعت اسلامی اور مولانا مودودیؒ کی مخالفت کا محاذ کھول لیا۔ یہ مخالفانہ رجحان رفتہ رفتہ بڑھتا رہا لیکن قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی زندگی میں اس میں شدت کی وہ صورت حال نہ پیدا ہوئی جسے دھماکہ خیز کہا جا سکے۔ قائداعظم کی وفات کے بعد برسرِاقتدار طبقے نے اس مخالفت کو دشمنی اور عناد میں بد ل دیا اور مولانا مودودیؒ کو گرفتار کر لیا گیا۔ یہ اکتوبر 1948 ء کی بات ہے جبکہ قائداعظم کی وفات ستمبر 1948ء میں ہوئی۔
مولانا مودودیؒ نے چومکھی لڑائی لڑی اور ہر محاذ پر ڈٹے رہے۔ قادیانی کذابوں کا فرنگی زہر ہو یا انکارِ حدیث کا پرویزی فتنہ… مغربی اباحیت پسندوں کی ریشہ دوانیاں ہوں یا حکومتی تشدد… اشتراکیوں کی شر انگیزی ہو یا زرد صحافت کے حملے… سب کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ آپ نے استدلال سے سب کو لاجواب کردیا، مگر نہ کبھی اشتعال میں آئے، نہ قانون سے ماورا کبھی کوئی اقدام کیا۔ آپ کے قلم میں بڑا زور تھا۔ ’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘، ’’مسئلہ ختمِ نبوت‘‘، ’’انسان کا معاشی مسئلہ اور اس کا اسلامی حل‘‘، ’’سود‘‘، ’’پردہ‘‘، ’’اسلام اور ضبطِ ولادت‘‘، ’’قومیت پرستی کا محاکمہ‘‘، ’’تنقیہات‘‘، ’’اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی ‘‘ مولانا کے وہ علمی کارنامے ہیں جن کے ذریعے انہوں نے سب حملہ آوروں کا مدلل جواب دیا۔ مولانا مرحوم کے یہ رشحاتِ قلم آج بھی حرفِ آخر کی حیثیت رکھتے ہیں۔
قیام پاکستان کے فوراً بعد لادین لابی متحرک ہوگئی اور اسلامی دستور کی راہ میں دیوار بن گئی۔ مولانا مودودیؒ اور دیگر علمائے حق کی کاوشوں سے 31 علما کے 22نکات کی منظوری ایک عظیم کارنامہ تھا۔ آج تک پاکستان کا دستور جو سیکولر نہیں بنایا جاسکا، تو اس میں ان نکات اور قراردادِ مقاصد کا کلیدی کردار ہے۔ مولانا کا کمال یہ تھاکہ انہوں نے علما کے خلاف اپنی زبان اور قلم استعمال نہیں کیا۔ ان کی بہت حکیمانہ اور صائب رائے تھی کہ علما کے خلاف آواز اٹھانے کے نتیجے میں اسلام اور اہلِ اسلام کی نہیں، کفر اور اسلام دشمن قوتوں کی کامیابی ہوگی۔ مولانا نے 1972ء تک جماعت اسلامی کی عملاً قیادت کی، اور اس کے بعد اپنی وفات 1979ء تک فکری رہنمائی کا فریضہ سر انجام دیتے رہے۔ اس عرصے میں تنظیمی لحاظ سے وہ جماعت کے ایک رکن کی حیثیت سے ہمیشہ امیر جماعت میاں طفیل محمد صاحب کی اطاعت کرتے رہے۔ تنظیمی امور میں کوئی شخص سوال کرتا تو اسے نظمِ جماعت سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا کرتے۔ وہ اطاعتِ نظم کے میدان میں ایک بہترین مثال تھے۔
جماعت اسلامی، پاکستان کی غالباً واحد سیاسی اور دینی جماعت ہے، جس کا باقاعدہ ایک دستور ہے اور جس کے ہر سطح کے انتخابات دستور کے تحت آج کے دن تک باقاعدگی سے ہوتے رہے ہیں۔ یہ دستور 1957ء میں مرکزی مجلس شوریٰ کے طویل اجلاس منعقدہ 19 تا 26 مئی میں منظور کیا گیا تھا۔ اس سے قبل مختصر دستور تاسیس سے لے کر قیام پاکستان تک، اور پھر آزادی کے بعد مئی 1957ء تک نافذ رہا۔ موجودہ دستور میں وقتاً فوقتاً ترامیم بھی ہوتی رہی ہیں مگر دراصل اپنے جوہر کے لحاظ سے یہ وہی دستور ہے جو مولانا کی سربراہی میں مرکزی مجلس شوریٰ جماعت اسلامی پاکستان نے منظور کیا تھا۔ اس دستور کے مطابق جماعت اسلامی نہ تو کسی خفیہ طریقے سے ملک میں تبدیلی لا سکتی ہے، اور نہ ہی فساد فی الارض کے کسی پروگرام کا حصہ بن سکتی ہے۔ اسی طرح کسی غیر قانونی اور پُرتشدد کارروائی کے ذریعے انقلاب کی بھی جماعت اسلامی کے دستور میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ارکانِ جماعت جو جماعت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، تمام شرعی فرائض پر عمل درآمد اور تمام کبیرہ گناہوں سے بچنے کے پابند ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ رزقِ حلال بھی رکنیت کی بنیادی شرط ہے۔ اللہ کے فضل و کرم سے جماعت اس وقت ملک بھر میں شہروں اور قصبات سے لے کر دیہاتوں اور گوٹھوں تک متعارف و معروف ہے۔ وابستگانِ جماعت ہر جگہ موجود ہیں اور جماعتی تنظیم نچلی سطح تک پہنچ چکی ہے۔ ملک بھر میں جماعت اسلامی کے تعلیمی اور رفاہی اداروں کا بھی مؤثر نیٹ ورک موجود ہے۔ الخدمت فائونڈیشن پاکستان میں کام کرنے والی مقامی این جی اوز میں سب سے نمایاں مقام کی حامل ہے۔ جماعت کی پوری تاریخ قومی سانحات اور آفاتِ ارضی و سماوی کی آزمائشوں کے دوران خدمتِ خلق کے سنہری ابواب سے مزین ہے۔ ملک میں جماعت اسلامی نے عصری اور دینی تعلیمی اداروں کا ایک نیٹ ورک قائم کر رکھناہے، اور کئی رفاہی ڈسپنسریاں اور ہسپتال بھی جماعت کے زیراہتمام ملک میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ اس بات کو جماعت اسلامی کے دوست و دشمن سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ ملک کی تمام جماعتوں میں سب سے زیادہ اسٹریٹ پاور اگر کسی جماعت کے پاس ہے تو وہ جماعت اسلامی ہی ہے۔ افرادی قوت کے لحاظ سے اس وقت جماعت اسلامی کی تازہ ترین پوزیشن درج ذیل ہے:
جماعت کے کُل ممبرز بیالیس لاکھ کے قریب ہیں، جبکہ فعال کارکنان جو جماعت اسلامی کے ہر پروگرام اور پکار پر فوراً اپنی رضا کارانہ خدمات پیش کرنے کے لیے میدان میں نکل آتے ہیں، تقریباً سوا لاکھ ہیں۔ جماعت اسلامی کا تنظیمی ڈھانچہ ان ارکان ہی کی بدولت قائم و مضبوط ہے۔ وہ قوتِ متحرکہ اور ہمزۃ الوصل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ شورائوں اور امرا کے انتخاب کا حق بھی ارکان ہی کو حاصل ہے۔ اس وقت تازہ ترین دستیاب تنظیمی ریکارڈ کے مطابق مرد ارکان کی کُل تعداد40ہزار کے قریب ہے جبکہ خواتین ارکان 5 ہزار سے متجاوز ہیں۔
الحمدللہ آج ہم جماعت اسلامی کی80 ویں سالگرہ منا رہے ہیں تو ہمیں اپنی شاندار تاریخ اور ماضی پر فخر ہے۔ ہمارے اسلاف نے للہیت، اخلاص، حب الوطنی اور اسلام، اسلامی اقدار، دستور اور نظریۂ پاکستان سے وابستگی کے جو سنگ ہائے میل تعمیر کیے ہیں وہ روشنی کے مینار ہیں۔ ہم آنے والی نسلوں کے لیے بھی ایک روشن مستقبل کے نقیب اور مبشر ہیں۔