جماعت اسلامی کیوں قائم کی گئی ؟

جماعت اسلامی کا قیام خلا میں نہیں ہوا۔ بہت سی دوسری جماعتیں بھی کام کررہی تھیں۔ ان میں مسلمانوں کی جماعتیں بھی تھیں اور غیر مسلموں کی بھی۔ مسلمانوں کی جماعتوں میں سیاسی جماعتیں بھی تھیں اور دینی جماعتیں اور گروہ بھی۔ جماعت اسلامی جس مقصد اور نصب العین پر بنائی گئی اس کی دعوت سید مودودیؒ 1933ء سے دیتے آرہے تھے۔ اگر یہ دعوت مسلمانوں کی کوئی بھی دوسری جماعت قبول کرلیتی، اور اس کے مقصد اور نصب العین کو اپنا مقصد اور نصب العین بنا لیتی تو جماعت اسلامی قائم کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ اس لیے مقصد ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنانا نہ تھا بلکہ ایک ایسی جماعتی ہیئت کو وجود میں لانا تھا جو خالصتاً اللہ کا کلمہ بلند کرنے کا فریضہ انجام دے۔ لیکن جب کسی جماعت نے بھی اس دعوت پر کان نہ دھرے تو سید صاحبؒ نے خود جماعت اسلامی بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ یہ ایک طویل داستان ہے۔ جس اختصار مگر جامعیت کے ساتھ سید صاحبؒ نے تشکیلِ جماعت کا سبب خود بیان کیا ہے شاید اس سے مختصر اور جامع طور پر بیان نہیں کیا جا سکتا۔ سید مودودیؒ نے کہا:
’’جماعت سازی کا یہ قصور ہم نے مجبوراً کیا ہے، نہ کہ شوقیہ۔ سب کو معلوم ہے کہ اس جماعت کی تشکیل سے پہلے میں برسوں اکیلا پکارتا رہا ہوں کہ مسلمانو! یہ تم کن راہوں میں اپنی قوتیں اور کوششیں صرف کررہے ہو، تمہارے کرنے کا اصل کام تو یہ ہے، اس پر اپنی تمام مساعی مرکوز کرو۔ یہ دعوت اگر سب مسلمان قبول کرلیتے تو کہنا ہی کیا تھا۔ مسلمانوں میں ایک نئی جماعت بننے کے بجائے مسلمانوں کی ایک جماعت بنتی اور کم از کم ہندوستان کی حد تک وہ الجماعت ہوتی جس کی موجودگی میں کوئی دوسری جماعت بنانا شرعاً حرام ہوتا۔ یہ بھی نہیں تو مسلمانوں کی مختلف جماعتوں میں کوئی ایک ہی اسے مان لیتی، تب بھی ہم راضی تھے۔ اسی میں بخوشی شامل ہوجاتے۔ مگر جب پکار پکار کر ہم تھک گئے اور کسی نے سن کر نہ دیا تب ہم نے مجبوراً یہ فیصلہ کیا کہ وہ سب لوگ جو اس کام کو حق اور فرض سمجھ چکے ہیں خود ہی مجتمع ہوں اور اس کے لیے اجتماعی سعی کریں۔‘‘
دینی و سیاسی جماعتوں کا تناظر:
دعوت کے ابتدائی چار پانچ برس افکار و نظریات کی تطہیر اور تعمیرنو میں صرف ہوئے۔ دوسرے شعبہ ہائے زندگی سے متعلق افکار و نظریات اور عملی کردار کی طرح سید صاحبؒ نے مسلمانوں کی سیاسی زندگی اور افکار پر بھی تنقید کی۔ اس زمانے میں مسلمانوں کی سیاست دو بڑے دھڑوں میں بٹی ہوئی تھی۔ مسلمانوں کا ایک بڑا حصہ جس نے تحریکِ خلافت چلائی تھی، کانگریس اور متحدہ قومیت کا ہم نوا تھا۔ ان کی قیادت جمعیت العلمائے ہند کررہی تھی۔ پھر مجلسِ خلافت ٹوٹنے کے نتیجے میں مجلس احرار اسلام وجود میں آئی تھی۔ فکری اور نظریاتی طور پر یہ لوگ بھی جمعیت علمائے ہند کے ہم مسلک تھے۔ دوسرا حصہ اُن لوگوں پر مشتمل تھا جو کانگریس کی ہندو پالیسیوں اور ہندوئوں کی متعصبانہ ذہنیت سے تنگ آکر الگ ہوگئے تھے اور اپنی شناخت (Identity) کو نیا سیاسی پیکر دینے کی تلاش میں تھے۔ مولانا محمد علی جوہر اس گروہ کے رہنما تھے۔
دوسرا سیاسی دھڑا اُن لوگوں کا تھا جو نہ تو کانگریس میں یا اس کی حامی جماعتوں میں کبھی شریک ہوئے تھے اور نہ جنگِ آزادی کی سیاست ہی میں انہوں نے کوئی فعال حصہ لیا تھا۔ ایک لحاظ سے یہ دھڑا الگ تھلگ رہ کر اس پورے منظرنامے (Scenario) کا تماشائی بنا رہا جوکانگریس کی سوراج کی تحریک اور تحریکِ خلافت نے مل کر تشکیل دیا تھا۔ تاہم اس گروہ میں اچھی خاصی تعداد ایسے افراد کی تھی جو مسلم اُمہ کا درد رکھتے تھے اور اس کے مسائل کے بارے میں مخلص تھے، اور جو تحریکِ خلافت کے ختم ہوجانے سے پیدا ہونے والے تعطل کو دور کرنے اور قومی شناخت کی طرف بڑھنے والی راہیں کھولنا چاہتے تھے۔ یہ عنصر اُس زمانے میں بھی جب تحریکِ خلافت اور جنگِ آزادی عروج پر تھی، مسلم لیگ کے پرچم تلے کھڑا رہا تھا، اور اب بھی اس کی وفاداریاں مسلم لیگ کے ساتھ تھیں۔ انہی افراد میں سے ایک ممتاز و نمایاں فرد علامہ اقبالؒ تھے جنھوں نے 1930ء میں مسلم لیگ کے اجلاس میں مسلمانوں کے مسئلے کا حل ہندوستان کے مسلم اکثریت کے علاقوں میں آزاد مسلم مملکت کے قیام میں بتایا تھا۔ یہ گویا اس بات کا اظہار تھا کہ مسلمان اپنی جس شناخت کی تلاش میں ہیں وہ ہندوستان میں ان کی آزاد مملکت کی صورت میں انھیں مل سکتی ہے۔ تاہم یہ اپنے دور کی عبقری شخصیت کی ایک تجویز تھی جو مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے پیش کی گئی تھی۔ مسلم لیگ اُس وقت تک فعال اور متحرک نہیں ہوئی تھی اور ایک مختصر سی مدت کو چھوڑ کر وہ اب بھی اُسی ڈگر پر چل رہی تھی جس کو اس نے اپنے یومِ ولادت سے اپنایا تھا۔ اس نشاۃ ثانیہ کے لیے ایک ایسے رہنما کی ضرورت تھی جو متحرک مردِ عمل ہو۔ وہ رہنما اسے قائداعظم محمد علی جناحؒ کی صورت میں مل گیا اور 1935ء میں مسلم لیگ کی تنظیمِ نو کا آغاز ہوا۔ تاہم علامہ اقبالؒ کی تجویز کردہ آزاد مسلم مملکت کے قیام کی تحریک ’’تحریکِ پاکستان‘‘ کے نام سے بہت بعد میں شروع ہوئی۔
جماعت اسلامی کسی کی حریف نہیں:
جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں، سید مودودیؒ الگ سے کوئی نئی جماعت قائم کرنے کے خواہش مند نہ تھے، بلکہ وہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کے اندر پہلے سے کام کرنے والی جماعتیں سب، یا ان میں سے کوئی ایک اس دعوت اور اس کے مقصد اور نصب العین کو اپنا لے۔ لیکن جب ایسا نہ ہوا تو اُن کے لیے خود ان لوگوں کو ایک جماعت کی صورت میں منظم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا جو اس دعوت کو دعوت ِحق سمجھتے تھے اور اس مقصد اور نصب العین کے لیے جدوجہد کرنے کو تیار تھے جو ایک مسلمان کی زندگی کا مقصد اور نصب العین تھا۔ جماعت اسلامی قائم ہوئی تو اس پر الزامات کی بوچھاڑ شروع ہوگئی، اور اس کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلائی جانے لگیں۔ ایک غلط فہمی جو پھیلائی گئی وہ یہ تھی کہ جماعت اسلامی دوسری جماعتوںکے مقابلے میں تشکیل دی گئی ہے اور وہ ان کی حریف ہے اور ان سے برسرِپیکار ہونا چاہتی ہے۔ سید صاحبؒ نے جماعت کی زندگی کے بالکل ابتدائی دنوں ہی میں اس کی تردید کرتے ہوئے اس غلط فہمی کورفع کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے لکھا:
’’ہماری مخالفت کسی خاص جماعت سے نہیں بلکہ اس نظامِ زندگی سے ہے جو خدا کی اطاعت کے سوا کسی دوسرے اقتدار کی اطاعت پر، اورخدائی قانون و ضابطے کے سوا کسی دوسرے قانون و ضابطے کی پابندی پر قائم ہو۔ ہم کسی گروہ سے نہیں بلکہ صرف اس نظام سے برسرپیکار ہیں۔‘‘