ہماری قومی و ملی تاریخ میں ماہ اگست کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ 14اگست 1947ء کو پاکستان معرضِ وجود میں آیا اور ہماری آزادی کی صبح طلوع ہوئی۔ پاکستان جغرافیہ کے ساتھ ساتھ نظریے کا نام بھی ہے۔ پاکستان کی نظریاتی اساس کلمۂ توحید ہے۔ 26 اگست 1941ء کو اسی کلمۂ توحید کی بنیاد پر عالم اسلام کی ایک بڑی اسلامی تحریک یعنی جماعت اسلامی تشکیل پائی۔ تاریخی شہر لاہور کی ایک معروف بستی اسلامیہ پارک میں برصغیر کے کونے کونے سے آنے والے نمائندگان کی کُل تعداد صرف 75 تھی۔ یہ عالم اسلام کے معروف و ممتاز عالمِ دین اور مفکر مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی دعوت پر جمع ہوئے۔ آنے والے بیشتر افراد جوان بلکہ نوجوان تھے۔ یہ سب سنجیدگی و متانت کے پیکر اور اخلاص و مروت کے آئینہ دار تھے، اور ان کے جمع ہونے کا مقصد اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے ایک جماعت تشکیل دینا تھا۔
کسی بھی دینی یا سیاسی جماعت کی تاسیس کے موقع پر جشن کا سماں ہوتا ہے۔ مٹھائیاں بٹتی ہیں اور دعوتیں چلتی ہیں۔ ہدیۂ تبریک پیش ہوتا ہے اور کلماتِ تحسین کہے جاتے ہیں۔ لیکن جماعت اسلامی کی تاسیس کا یہ منظر منفرد اور انوکھا تھا۔ اس موقع پر اس نئی جماعت میں شمولیت اختیار کرنے والا ہر فرد اٹھتا، پہلے کلمۂ شہادت پڑھتا، تجدیدِ ایمان کرتا، پھر آنسوئوں اور آہوں کے درمیان حلف پڑھتا۔ یہ 75 افراد کتنے خوش قسمت تھے کہ برصغیر میں اللہ کی حاکمیت قائم کرنے اٹھے تھے۔ لوگ تو ذاتی اقتدار کے لیے جماعتوں میں شامل ہوتے ہیں، علاقائی تعصبات کی بنا پر پارٹیاں بناتے ہیں، لسانی ترجیحات پر اکٹھے ہوتے ہیں، شخصی قیادتوں کے سحر میں مبتلا ہوتے ہیں، لیکن یہاں سب اس لیے اکٹھے ہورہے تھے کہ دنیا میں اللہ کا کلمہ بلند ہو۔ اس موقع پر ابتدائی چندہ بھی جمع ہوا تو وہ پورے 75 روپے بھی نہ بنا۔ 74 روپے 9 آنے چندہ جمع ہوا۔ اللہ کریم کو ان 75 افراد کا اخلاص اتنا پسند آیا کہ تقسیمِ ہند تک اخلاص و محبت کے ساتھ دعوت و تحریک کے کام کے نتیجے میں پیغام ہندوستان کے کونے کونے میں پھیل گیا۔
14 اگست 1947ء کو جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا اور برصغیر تقسیم ہوگیا تو جماعت اسلامی بھی تقسیم ہوگئی۔ نام جماعت اسلامی ہی رہا، کام دعوتِ دین ہی رہا، مقام اہلِ ایمان کا دل ہی رہا لیکن تنظیمیں الگ الگ ہوگئیں۔ جماعت اسلامی پاکستان کے علاوہ ہندوستان، سری لنکا، مقبوضہ و آزاد کشمیر، نیپال میں مکمل طور پر علیحدہ اور بااختیار تنظیموں کے طور پر سرگرم ہوئی۔ 1971ء میں پاکستان دولخت ہوا تب بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی کا علیحدہ وجود ہوا۔ 75 افراد سے شروع ہونے والا یہ قافلۂ سخت جان ایسا شجرِ طیبہ ہے کہ جس کی جڑیں زمین میں اور شاخیں آسمان میں ہیں۔ ان تمام ممالک میں جماعت اسلامی کے وابستگان کی تعداد ڈھائی کروڑ سے زیادہ ہے۔
جماعت اسلامی معروف معنوں میں نہ مذہبی جماعت ہے نہ سیاسی جماعت۔ اکثر سیاسی جماعتیں سیاسی خاندانوں کی نمائندہ ہیں۔ ہر سیاسی جماعت کسی خاندان کو ظاہر کرتی ہے۔ اکثر دینی جماعتیں مسالک کی نمائندہ ہیں اور ہر جماعت کسی نہ کسی مسلک کی محافظ ہے۔ جماعت اسلامی نہ کسی سیاسی خانوادے کی نمائندہ اور محافظ ہے اور نہ ہی کسی خاص مسلک کی حامی یا مخالف ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان نے قومی تاریخ میں جو گہرے نقوش ثبت کیے ہیں ان کے چند نمایاں پہلو حسب ذیل ہیں:
آئینی و نظریاتی جدوجہد
قیام پاکستان کے بعد جاگیردار، وڈیرے، سول و ملٹری بیوروکریسی اور سیکولر طبقے کی پوری کوشش رہی کہ پاکستان سرزمینِ بے آئین ہی رہے، یا پھر آئین بنے تو وہ پاکستان کو اسلامی کے بجائے سیکولر بنانے کی دستاویز ہو۔ جماعت اسلامی پاکستان، بالخصوص بانیِ جماعت اسلامی مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے پاکستان کے جیّد علمائے کرام علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا شبیر احمد عثمانی، مفتی ابوالحسنات قادری، مولانا دائودغزنوی، علامہ جعفر حسین مجتہد اور دیگر علمائے کرام کے تعاون سے قراردادِ مقاصد منظور کروائی۔ 31 علمائے کرام کو 22نکات پر متحد کیا۔ سیکولر طبقے کے اس منفی پراپیگنڈہ کہ ’’کس کا اسلام نافذ کریں؟‘‘ کا عملی جواب دیا۔ مطالبہ دستورِ اسلامی کی مہم چلائی۔ جب دستور ساز اسمبلی توڑ دی گئی تو ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں دستوری جنگ لڑی اور بالآخر کامیابی حاصل کی۔ 1956ء کے آئین کی تشکیل میں بھرپور حصہ لیا۔ اس آئین کو اسلامی، جمہوری، وفاقی بنانے میں قابلِ قدر تجاویز دیں۔ 1958ء کے مارشل لا کی وجہ سے آئین کی صف لپیٹی گئی تو مارشل لا کے خاتمے، شہری آزادیوں کی بحالی، انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے مسلسل جدوجہد کی۔ اسی جدوجہد کے دوران جماعت اسلامی کے اجتماعِ عام بیرون بھا ٹی گیٹ لاہور 1963ء پر گولی چلائی گئی، ایک رکنِ جماعت اللہ بخش شہید ہوئے۔ 1964ء میں جماعت اسلامی پر پابندی لگا دی گئی۔ تمام اراکینِ شوریٰ نظربند ہوئے، پھر عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے سے جماعت بحال ہوئی۔ 1973ء کے آئین کی تشکیل اور اس کی اسلامی دفعات کی تدوین میں جماعت اسلامی کے ارکانِ اسمبلی پروفیسر غفور احمدؒ، محمود اعظم فاروقیؒ، ڈاکٹر نذیر احمدؒ شہید، صاحبزادہ صفی اللہ ؒ نے دیگر علمائے کرام حضرت مولانا مفتی محمودؒ، مولانا شاہ احمد نورانیؒ وغیرہ کی رہنمائی میں قراردادِ مقاصد کی شمولیت، پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھنے، سرکاری مذہب اسلام قرار دینے، اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت کے قیام، قرآن و سنت کے منافی قانون سازی کی آئینی ممانعت، آرٹیکل 31 کے تحت اسلامی معاشرے کے قیام کو حکومتی ذمہ داری قرار دینے، صدر، وزیراعظم و دیگر عہدے داران کے حلف وغیرہ کے سلسلے میں بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔ 1974ء کی تحریکِ ختمِ نبوت کے نتیجے میں قادیانی غیر مسلم اقلیت قرار پائے۔
آئینِ پاکستان کے تحفظ کے لیے جماعت اسلامی اب تک سرگرم عمل ہے۔ موجودہ سیاسی بحران میں بھی جماعت اسلامی کی پوری کوشش ہے کہ آئینِ پاکستان کو کسی صورت کوئی نقصان نہ پہنچے۔
اتحادِ امت
جماعت اسلامی پاکستان کا دوسرا بڑا کارنامہ اتحادِ امت کے لیے مساعیِ جمیلہ ہے۔ چونکہ جماعت اسلامی خود کسی خاص مسلک کی نمائندہ نہیں، اس میں تمام مسالک سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں اور جماعت اسلامی خود اتحادِ امت کی علامت ہے، پھر جماعت اسلامی نے ہمیشہ اتحادِ امت اور بین المسلکی ہم آہنگی کی بھرپور کوشش کی ہے۔ تحریک ختمِ نبوت، تحریک نظامِ مصطفیٰ ؐ، ملّی یکجہتی کونسل، متحدہ مجلس عمل وغیرہ کی صورت میں امت کو اکٹھا کرنے کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ تحریر کو طوالت سے بچانے کے لیے میں جماعت اسلامی کی کامیابیوں کی صرف فہرست شامل کررہا ہوں۔ موروثی سیاست کی نفی اور جماعت اسلامی کے اپنے اندر جمہوریت، خفیہ بیلٹ کے ذریعے امیر جماعت و شوریٰ کا انتخاب۔
جمہوریت کا تحفظ، آمریت کا مقابلہ
جماعت اسلامی نے ہمیشہ آمریتوں (ایوبی آمریت، بھٹو شاہی، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کی آمریت)کی مذمت و مخالفت کی ہے اور جمہوریت اور جمہوری اقدامات کے تحفظ کی جنگ لڑی ہے۔
خدمتِ خلق اور ریلیف ورک
جماعت اسلامی کے تحت الخدمت فائونڈیشن ہر سال تین ارب روپے کے خدمتِ خلق کے پراجیکٹس چلارہی ہے۔ ہسپتال، ڈسپنسریاں، ایمبولینس سروس، بلڈ بینکس، کفالتِ یتامیٰ کے لیے آغوش کے نام سے ہاسٹلز اور تعلیمی اداروں کا قیام، زلزلہ زدگان، سیلاب زدگان، آئی ڈی پیز وغیرہ، اور اب کورونا وباکے خاتمے کے لیے کروڑوں روپے کے ریلیف و بحالی پراجیکٹس وغیرہ۔
ہر طبقۂ زندگی میں اصلاحِ امت کا کام
طلبہ میں اسلامی جمعیت طلبہ، طالبات میں اسلامی جمعیت طالبات، دینی مدارس میں جمعیت طلبہ عربیہ، مزدوروں میں نیشنل لیبر فیڈریشن، تحریک محنت، کسانوں میں کسان بورڈ پاکستان، اساتذہ میں تنظیم اساتذہ، علما میں جمعیت اتحاد العلماء، وکلا میں اسلامک لائرز موومنٹ، ڈاکٹرز میں پیما، ہومیو ڈاکٹرز میں ایما، انجینئرز فورم، نوجوانوں میں شباب ملی، خواتین میں حلقہ خواتین، تاجروں میں پاکستان بزنس فورم… گویا کہ ہر طبقۂ زندگی میں دعوتی کام ہورہاہے اور معاشرے کے ایک بڑے طبقے کو اپنے معاشرے اور حکومت کی اصلاح کے لیے منظم کیا جارہا ہے۔ فہم قرآن کلاسز، دروسِ قرآن کے حلقوں، شب بیداریوں، تربیت گاہوں، دینی لٹریچر وغیرہ کے سلسلے کے ذریعے دینی ماحول کی تعمیر و تشکیل کا کام جاری ہے۔