افغانستان کی صورت حال اس وقت عالمی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ طالبان کو کابل پر دوبارہ قابض ہوئے دس بارہ روز گزر چکے ہیں اور انہیں کابل کا نظم و نسق سنبھالے تیسرا ہفتہ شروع ہوچکا ہے، تاہم ابھی تک باقاعدہ حکومت سازی کا عمل مکمل نہیں ہوسکا۔ افغانستان کا نظام اس وقت ایک عبوری انتظامیہ کے ذریعے چل رہا ہے۔ اس خطے کے ممالک سمیت اقوام عالم ابھی تک تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو کے مصداق صورت حال کا جائزہ لے رہی ہیں۔ بظاہر تو اس وقت افغانستان پر طالبان کا ہی سکہ چل رہا ہے، تاہم ان کے بیشتر رہنمائوں کے اثاثے ابھی تک منجمد ہیں، ان پر پابندیاں ہیں۔ منجمد اثاثے واپس ملنے اور پابندیاں ختم ہونے میں ابھی وقت درکار ہے۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ افغانستان کا سیاسی مستقبل کن شرائط پر طے ہونا ہے؟ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے، یہ صرف افغانستان کے مستقبل کا سوال بھی نہیں، بلکہ افغان صورتِ حال امریکی انتظامیہ کے مستقبل کا بھی فیصلہ کرسکتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ بات قبل ازوقت خیال کی جائے مگر عین ممکن ہے تین سال کے بعد امریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں افغانستان ہی انتخابی مہم کا موضوع بن جائے، کیونکہ ٹرمپ انخلاء کو سرنڈر کا نام دے رہے ہیں، اور بائیڈن اسے حکمت عملی اور بہترین فیصلہ قرار دے رہے ہیں۔ اب دونوں کا مستقبل افغانستان کی صورتِ حال سے جڑ گیا ہے۔ آج کی حقیقت یہ ہے کہ بیس سال کے پُرآشوب واقعات کے بعد افغانستان بالکل بدل چکا ہے، قابض امریکہ کے خلاف صرف طالبان ہی مزاحمت کی علامت تھے اور امریکی فوج کے انخلا کے لیے مذاکرات بھی طالبان کے ساتھ ہی ہوئے، لہٰذا انہیں امریکہ کے نکل جانے کے بعد اقتدار واپس اپنے ہاتھ میں لینے کا موقع ملا۔ اسلام آباد میں وزارتِ خارجہ اور وفاقی حکومت کے بڑے مسلسل سر جوڑے بیٹھے ہیں، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو سر کھجانے کی فرصت نہیں، وہ طالبان قیادت کے علاوہ افغان اپوزیشن رہنمائوں، دنیا کے اہم ممالک اور اقوام متحدہ کی شخصیات سے رابطے میں ہیں، اور دفتر خارجہ میں ایک پوری ٹیم اُن کے ساتھ کام کررہی ہے جو کابل کے حالات پر عالمی ردعمل کا جائزہ لے رہی ہے۔ شاہ محمود قریشی اپنے سیاسی پس منظر کے باعث کوئی بڑا قابلِ ذکر فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، انہیں وزارتِ خارجہ کی بیوروکریسی اور پالیسی سازوں کے فیصلوں پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔
قائد حزبِ اختلاف شہبازشریف نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے، حکومت نے ابھی تک اس بارے میں کوئی جواب نہیں دیا۔ جہاں تک پارلیمنٹ کا سوال ہے ایک حساس ان کیمرہ بریفنگ دی جاچکی ہے، لیکن اب صورت حال بدل رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ حکومت کوئی فیصلہ کرنے سے قبل ہوا کا رخ دیکھ رہی ہے، اُسے یہ امید تھی کہ امریکی نکل جائیں گے تو طالبان ہی آئیں گے۔ ان چشم کشا حقائق کے باعث اسلام آباد اور دنیا کے تمام اہم ممالک کی قیادت متفق تھی اور خاموش آنکھوں سے امریکہ کے انخلاء کے بعد طالبان کے فیصلہ کن پوزیشن میں آجانے سے متعلق حقائق سے آگاہ تھی، تاہم ردعمل دینے سے گریز کیا جارہا تھا۔ ردعمل دینے میں تاخیر بھی ایک مسئلہ بن سکتی ہے۔ عالمی برادری ابھی تک اسی کیفیت میں ہے، لیکن چین کی قیادت قدرے متحرک ہے اور اُس نے طالبان سے کچھ معاملات میں ہم آہنگی پیدا کرلی ہے۔ روس بھی ایک قدم اٹھاتا ہے اور پھر رک جاتا ہے۔ اسلام آباد نے بھی کچھ فیصلے کرلیے ہیں مگر فی الحال خاموش ہے۔ اگر پاکستان آگے بڑھ کر طالبان حکومت کو تسلیم کرلے یا اُسے کسی حد تک کوئی سہولت یا راستہ فراہم کرے تو پھر عالمی برادری کی جانب سے پاکستان پر بہت دبائو آجائے گا اور تقاضا کیا جائے گا کہ وہ طالبان سے عالمی برادری کے مطالبات منوانے کے لیے متحرک ہو۔ پاکستان کی کوشش ہے کہ عالمی برادری افغانستان سے متعلق فیصلہ کرے تاکہ اسے کابل سے متعلق کوئی فیصلہ لینے میں آسانی ہو۔ یہ خاموشی اس لیے بھی ہے کہ امریکہ خود ابھی تک خاموش ہے، حالانکہ یہ بات اب واضح ہوگئی ہے کہ واشنگٹن حالات سے مکمل طور پر آگاہ تھا، امریکی محکمہ خارجہ نے طالبان کے کابل پر قبضے کے خدشے سے بائیڈن انتظامیہ کو مکمل آگاہ کردیا تھا، دنیا بھر کے اہم ممالک میں موجود امریکی سفارت کاروں نے واشنگٹن کو لکھ بھیجا تھاکہ طالبان افغان علاقوں پر تیزی سے قابض ہورہے ہیں۔ ان سفارت کاروں نے رائے دی تھی کہ امریکی محکمہ خارجہ کو طالبان کے خلاف سخت ردعمل دینا چاہیے۔ دوحہ مذاکرات کے حتمی اور فیصلہ کن دور کے بعد افغان صدر اشرف غنی اور نائب صدر امراللہ صالح بھی یقین کربیٹھے تھے کہ ان کی حکومت ختم ہوگئی ہے، اسی لیے وہ مزاحمت کیے بغیر خاموشی کے ساتھ کابل سے بیرونِ ملک روانہ ہوگئے۔ احمد شاہ مسعود کے بیٹے نے اپنا فیصلہ کرلیا تھا، مگر احمد شاہ مسعود کے دو بھائی ایک وفد کے ہمراہ آئندہ کی حکومت کے خدوخال پر بات چیت کے لیے اسلام آباد آئے تھے، پاکستان نے ان کی بات سنی، مگر انہیں اپنا کوئی فیصلہ نہیں سنایا۔ اسلام آباد میں قومی پالیسی ساز عہدیدار یہ سمجھتے ہیں کہ نائن الیون کے واقعے کے بعد امریکہ انتقام اور ریفارم کے ایجنڈے کے ساتھ افغانستان میں داخل ہوا تھا، جہاں 20سال رہنے کے بعد اُسے ایسی صورت حال کا سامنا تھا کہ مزید یہاں رہتا تو دم گھٹ کر مر جاتا۔ وہ یہاں اصلاحات لاتے لاتے افغان تہذیب و تمدن، روایات اور مذہبی اقدار کی قوت کے سامنے ڈھیر ہوچکا تھا۔ کھلے اور چشم کشا حقائق یہ ہیں کہ ٹرمپ کے دور میں ہی دوحہ امن معاہدے اور امریکی فوج کی واپسی کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی افغان حکومت اور فوج میں بددلی پیدا ہوگئی اور افغان فوجی کمانڈرز اور وار لارڈز اپنی جان اور دولت بچانے کے لیے محفوظ ٹھکانے تلاش کرنے لگے۔ بعض نے طالبان کے ساتھ خفیہ معاہدے کرلیے۔ عام افغان فوجی اپنی قیادت اور وار لارڈز کو دیکھ کر مزاحمت کے بجائے فاتح طالبان کے سامنے ہتھیار پھینکنے لگا۔ یوں افغان آرمی چند دنوں میں ہی منظر سے غائب ہو گئی اور طالبان کسی رکاوٹ کے بغیر کابل سمیت بڑے شہروں میں داخل ہوگئے۔ انہوں نے افغان فوجیوں، سرکاری ملازمین اور شہریوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا اور بلاوجہ تشدد و خون خرابے سے گریز کیا، اور دوحہ معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے بیرونی افواج، سفارت کاروں اور بیرونی اداروں میں کام کرنے والوں کے ساتھ الجھے بغیر انہیں واپسی کے لیے وقت اور محفوظ راستہ دیا، یہی وجہ تھی کہ اشرف غنی کے لیے افغانستان سے نکلنا ممکن ہوا۔ امریکی فوج کے انخلاء کے بعد آج پوری دنیا کی نظریں طالبان اور افغانستان پر لگی ہیں، ایک رائے ہے کہ طالبان نے اب تک سمجھ بوجھ سے کام لیتے ہوئے انتقامی کارروائیوں سے گریز کیا ہے مگر انہیں اپنے رویّے میں مزید لچک پیدا کرنی ہوگی، خواتین اور بچوں کے حقوق کا خاص خیال رکھنا ہوگا۔ توقع کی جارہی ہے کہ طالبان خواتین اور انسانی حقوق سے متعلق اپنے وعدوں کو پورا کریں گے۔ طالبان نے کچھ اعلانات کیے ہیں تاہم اقوام عالم ابھی مطمئن نظر نہیں آرہیں۔ اگر اقوام عالم نے طالبان کے بجائے سابق افغان حکمرانوں پر توجہ دی تو پھر کابل میں گھمسان کا معرکہ ہوگا۔
افغانستان اور طالبان کے دو تاریخی حوالے ہیں جنہیں نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ طالبان کی فکری بنیاد میں شاہ ولی اللہ کی فکر شامل ہے۔ طالبان اپنے امیر کی قیادت میں طالبان کی شوریٰ کے فیصلوں سے حاکمیت چاہتے ہیں۔ ان کے سامنے مطالبہ رکھا جارہا ہے کہ وہ وسیع البنیاد عبوری حکومت قائم کریں۔ پہلی صورت میں انہیں سفارتی تنہائی مل سکتی ہے، اور دوسری صورت میں عالمی حمایت۔ مگر طالبان افغان عوام کی حمایت اور عالمی تائید کے ساتھ بڑھنا چاہتے ہیں۔
طالبان کی کامیابی ہماری تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ ابھی کچھ اور واقعات بھی ہوں گے، اور اس خطے کے ممالک ایک دوسرے سے مشاورتی سفارتی رابطوں میں ہیں۔ پاکستان افغانستان میں پائیدار امن کے لیے پورے اخلاص کے ساتھ سہولت کاری میں مصروف ہے۔ طالبان امریکہ مذاکرات پاکستان نے کرائے، مگر بین الافغان مذاکرات کابل کی ذمہ داری تھی۔ افغان رہنما کیوں باہم مل بیٹھ کر معاملات حل نہیں کر سکے یہ ہماری نہیں اُن کے سوچنے کی بات ہے۔ پاکستان کابل پر طالبان کا پُرامن کنٹرول قائم ہونے کے بعد زندگی معمول کی طرف آنے کا متمنی اور خواہش مند ہے۔ ملا عبدالغنی برادر سمیت طالبان قیادت اب افغانستان پہنچ چکی ہے۔ ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے کابل میں پہلی پریس کانفرنس کے دوران جو اعلانات کیے ان سے کئی خدشات کی نفی ہوئی، حوصلہ افزا امکانات نمایاں ہوئے اور بین الاقوامی امور کے حوالے سے طالبان قیادت کا زاویہ نظر سامنے آیا۔ طالبان قیادت نے یقین دلایا ہے کہ ملک میں سب کو مذہبی آزادی حاصل ہوگی، تمام سفارت خانوں اور امدادی ایجنسیوں کو مکمل تحفظ دیا جائے گا۔ عالمی برادری کو یقین دلایا گیا کہ افغان سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں کرنے دیں گے۔ کہا گیا کہ پاکستان، چین اور روس کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں مگر نہ کسی کے اتحادی ہیں نہ کسی بلاک کا حصہ۔ پڑوسی ممالک سے عالمی معیار اور باہمی احترام پر مبنی تعلقات رکھیں گے۔ طالبان ترجمان نے واضح کیا کہ خواتین کو وہ تمام حقوق بلاتفریق دیے جائیں گے جو اسلام نے عطا کیے ہیں۔ یہ اعلان خوش آئند ہے۔ پریس کانفرنس سے قبل طالبان کے مختلف وفود کئی ملکوں کے دورے کرکے ان کے تحفظات دور کرچکے ہیں۔ ترجمان افغان طالبان نے کہا ہے کہ تمام ممالک سے دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں مگر مداخلت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ غیر ملکیوں کے انخلا میں غیر ملکی افواج کی مدد کے وعدے کی پاسداری کررہے ہیں، غیر ملکیوں کے ساتھ افغانوں کو بھی ملک چھوڑنے کے لیے محفوظ راستہ دے رہے ہیں۔ ترجمان کی پریس کانفرنس سے اندازہ ہورہا ہے کہ انہیں خود بھی عالمی برادری کے مطالبات کا احساس ہے۔ افغانستان میں روس کے سفیر دمتری زیرنوف کا دعویٰ سامنے آیا ہے کہ طالبان نے ان کے سفارت خانے سے کہا ہے کہ شمالی افغانستان میں موجود حکومتی حامیوں کو ان کی طرف سے معاہدے کی پیشکش کا پیغام پہنچا دیا جائے۔ طالبان کی سیاسی قیادت کی جانب سے پیغام دیا گیا ہے کہ وادی پنجشیر میں جنگجوؤں کو بتائیں کہ طالبان کو امید ہے کہ طالبان سیاسی معاہدے کے ذریعے مسئلے حل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ وادی پنجشیر شمالی اتحاد کے مسلح دھڑوں کا مضبوط گڑھ ہے۔ اس علاقے میں جن حکومتی شخصیات نے پناہ لی ہے ان میں نائب صدر امراللہ صالح بھی شامل ہیں۔ اس پس منظر میں افغان رہنما صلاح الدین ربانی کی قیادت میں آئے ہوئے 8رکنی وفد کی وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتوں میں پاکستان کے اسی مؤقف کا اعادہ کیا گیا۔ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے نتیجے میں بڑی تعداد میں افغان شہری ترکِ وطن کرسکتے ہیں اور اندازاً ہر ہفتے 20 سے 30 ہزار افغان ملک چھوڑ رہے ہیں۔ اسی لیے حال ہی میں سلامتی کونسل نے ہنگامی اجلاس میں مغربی ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنی سرحدیں پناہ گزینوں کے لیے بند نہ کریں۔ افراتفری اور خوف کے باعث آنے والے دنوں میں ترکِ وطن کے خواہش مند افغان باشندے پڑوسی اور مغربی ممالک کا رخ کرتے رہیں گے۔ یورپی ممالک اپنی سرحدوں کی قلعہ بندی کررہے ہیں اور اسی خوف سے فرانس اور جرمنی میں تارکین وطن کی تعداد کو محدود کرنے سے متعلق بحث کا آغاز ہوگیا ہے۔ امریکہ اسپیشل امیگرنٹ ویزے کے اہل کم از کم 22 ہزار افغان باشندوں کو اپنے ہاں لے جائے گا۔ اسی طرح جرمنی 10 ہزار اور برطانیہ 20 ہزار افغان باشندوں کو سیاسی پناہ دے گا۔ کینیڈا نے 20 ہزار افغان پناہ گزینوں کی آبادکاری کا وعدہ کیا ہے۔ ان کے علاوہ کینیڈین فوج کی مدد کرنے والے افغان شہریوں کے لیے ٹروڈو حکومت نے خصوصی امیگریشن پروگرام بھی ترتیب دیا ہے۔
یہ امیگریشن کے مسائل ہیں۔ اس خطے کے ممالک کے لیے تجارت کے مسائل الگ ہیں۔ طالبان نے پاکستان کے ٹرانزٹ روٹ کے ذریعے افغانستان بھارت باہمی تجارت روک دی ہے۔ افغانستان سے بھارت اشیاء پاکستان کے راستے جاتی تھیں۔ طالبان نے پاکستان جانے والے کارگو پر پابندی لگادی ہے، اس لیے بھارت سے تجارت بھی بند ہوگئی ہے۔ دونوں ملکوں کی باہمی تجارت 1335 ملین ڈالر ہے۔ بھارت نے افغانستان میں تقریباً 400 منصوبوں پر لگ بھگ تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ وہ افغانستان کو شکر، دوائیں، ملبوسات، چائے، کافی، مصالحہ جات اور ٹرانسمیشن ٹاور ایکسپورٹ کرتا ہے اور افغانستان سے بڑی مقدار میں خشک میوہ جات منگواتا ہے۔ بھارت خشک میوہ جات کا تقریباً 85 فیصد افغانستان سے درآمد کرتا ہے۔ افغانستان بھارت کو کشمش، اخروٹ، بادام، انجیر، پستہ، خشک خوبانی جیسے میوہ جات کے علاوہ چیری، تربوز اور ادویاتی جڑی بوٹیاں بھی برآمد کرتا ہے۔ آمدن، تعلیم، صحت، جس اعتبار سے بھی دیکھیں، دنیا کے پسماندہ ترین ممالک کی ہر فہرست میں افغانستان سب سے اوپر کے دو تین ملکوں میں شامل ہوتا ہے۔ افغانستان کم از کم دس کھرب ڈالر کے معدنی ذخائر سے مالامال ہے۔ امریکی محکمہ دفاع اور ارضیاتی سروے کے تعاون سے کیے جانے والے اس تجزیے سے پتا چلا کہ ان ذخائر میں ایک ایسی دھات بھی شامل ہے جو اگر آج ختم ہوجائے تو کل تک تمام دنیا کا کاروبار ٹھپ ہوجائے۔ یہ دھات لیتھیم ہے جو موبائل فون، ٹیبلٹس، لیپ ٹاپ، کیمروں، ڈرونز اور دوسری ڈیوائسز کی بیٹریوں کے علاوہ الیکٹرک کاروں کی ری چارج ایبل بیٹریوں کا بھی لازمی جزو ہے۔ بات 10 کھرب پر ختم نہیں ہوئی، بلکہ 2017ء میں ہونے والے ایک اور سروے کے مطابق افغانستان کے معدنی وسائل کی مالیت 30 کھرب ڈالر سے زائد ہے، لیکن یہ سروے بھی حتمی نہیں، کیوں کہ ملک کے حالات کی وجہ سے ابھی تک وہاں کوئی جامع سروے نہیں ہوسکا، جس سے اصل تصویر سامنے آسکے۔ جوں جوں موبائل ڈیوائسز اور الیکٹرک گاڑیوں کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے، ویسے ویسے لیتھیم کی طلب بھی روزبروز بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق 2040ء میں اس دھات کی طلب میں 40 گنا اضافہ ہوجائے گا۔ جیسے تیل سے مشرقِ وسطیٰ کی معیشت دیکھتے ہی دیکھتے بدل گئی ویسے ہی معدنیات سے مالامال ملک ان سے فائدہ اٹھا کر اپنی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ پینٹاگون کی مذکورہ خفیہ رپورٹ میں افغانستان لیتھیم کا مرکز قرار دیا گیا ہے۔ یہاں حیران کن پوٹینشل موجود ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ سعودی عرب یا مشرقِ وسطیٰ کے دوسرے ملکوں میں تیل پایا جاتا ہے، جسے آج کی ماحولیاتی تشویش سے دوچار دنیا میں پسند نہیں کیا جاتا، جب کہ لیتھیم صاف ستھری اور قابلِ تجدید توانائی کا اہم حصہ ہے۔ لیتھیم افغانستان کے غزنی، ہرات اور نمروز صوبوں میں موجود ہے۔ صرف لیتھیم ہی نہیں، افغانستان میں تانبا، سونا، لوہا اور کوبالٹ بھی بڑی مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ 2010ء کی امریکی رپورٹ کے مطابق وہاں 421 ارب ڈالر مالیت کا لوہا، 274 ارب ڈالر مالیت کا تانبا، اور سیکڑوں ارب ڈالر کی دوسری نایاب دھاتیں موجود ہیں۔ اب یہ سارا ذخیرہ طالبان کے قبضے میں آگیا ہے۔ طالبان کا امتحان ہے کہ وہ افغانستان کے ان وسائل کی مدد سے اپنا ملک سنوارتے ہیں یا اقتدار اور اختیار کی کھینچاتانی کے سپرد کرتے ہیں۔