وقت کی اہمیت

وقت اللہ ربّ العزت کی ایک نعمت ہے۔ یہ امیر و غریب، عالم و جاہل اور چھوٹے بڑے کو یکساں ملی ہوئی ہے۔ انسان کو یہاں زندگی کی جتنی بھی مہلت ملی ہوئی ہے وہ ساری کی ساری وقت کی اکائیوں سے ہی عبارت ہے۔ لمحاتِ زندگی فراہم کرنے والا وقت درحقیقت بہت غنیمت ہے۔ یہ آپ کو بغیر کسی محنت کے ملا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ دنیا کی کوئی بھی دولت وقت کی متبادل نہیں ہوسکتی۔ دنیا کی ہر دولت کو کھونے کے بعد بھی اس بات کا امکان رہتا ہے کہ انسان اُسے دوبارہ پالے، بلکہ بسا اوقات اس سے بھی زیادہ حاصل کرسکتا ہے۔ لیکن وقت ایک ایسی دولت ہے کہ اس کا ایک لمحہ کسی قیمت پر واپس نہیں لایا جاسکتا۔ یہ بہتا ہوا دریا ہے، یا تازہ ہوا کا جھونکا ہے، جو آتا ہے اور گزر جاتا ہے، پھر آپ اسے پکڑ نہیں سکتے۔
یہ یومیہ ایک ہزار چار سو چالیس منٹ کی تھیلی ہر زندہ انسان کو دے دی جاتی ہے۔ اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ اس سرمائے کو کیسے استعمال کرتا ہے۔ اسے ’کب‘ استعمال کرنے کا اختیار نہیں ہے، کیونکہ وقت کی خوبی ہی یہی ہے کہ اسے اسی وقت استعمال کرنا ہوتا ہے۔ بس اب اسے استعمال کرنے کے لیے ’’کیسے‘‘ کے فن کی ضرورت ہے، اور جو بھی انسان اس ’’کیسے‘‘ کے فن سے واقف ہے وہ کامیاب ہوجاتا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ آپ ٹرین یا جہاز کا ٹکٹ تو لے لیں لیکن آپ کو نہ تو اسٹیشن یا ایئرپورٹ کا پتا ہو اور نہ ہی وہاں پہنچنے کے طریقے کا علم ہو، پھر ایسی صورت میں یہ ٹکٹ آپ کو کیا فائدہ دے گا؟ ہاں اتنا ضرور ہے کہ اس ٹکٹ کی کچھ رقم جہاز کی روانگی کے بعد آپ کو بطور ریفنڈ مل جائے گی۔ لیکن زندگی میں وقت کے ٹکٹ کا کوئی ریفنڈ نہیں ہوتا۔
انسان دنیا میں جتنی بھی کامیابیاں حاصل کرتا ہے اور جو بھی کارہائے نمایاں سرانجام دیتا ہے وہ سب کے سب وقت کے بہترین استعمال ہی کے مرہونِ منت ہوتے ہیں۔ وقت سے اچھے طریقے سے کام لینے والے اِس دنیا میں بہت ترقی کر گئے، اور کئی لوگ اِس دنیا کے ساتھ اپنی آخرت کو بھی بہتر بنا گئے۔ اس کے برعکس جتنے مفلوک الحال اور قابلِ ترس لوگ دکھائی دیتے ہیں اُن کی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کسی نہ کسی رنگ میں وقت کو ضائع کیا ہوتا ہے، چاہے وہ سستی اور کاہلی کا شکار ہوگئے ہوں یا پھر نصب العین اور مقاصد سے ہٹنے کے باعث کسی اور راستے پر چلے گئے۔ گویا وقت کو ضائع کرنا صرف وقت کو ضائع کرنا ہی نہیں ہے بلکہ خود اپنے آپ کو اور اپنی زندگی کو ضائع کرنا اور اپنے مستقبل کو تباہ کرنا ہے۔ لہٰذا دین، دنیا و آخرت کی تمام کامیابیوں، کامرانیوں، سعادتوں اور بھلائیوں کا دارومدار صرف اور صرف وقت کے بہترین استعمال پر منحصر ہے۔ وقت ایک ایسی زمین ہے کہ اگر اس میں سعیِ کامل کی جائے تو یہ پھل دیتی ہے۔ بے کار چھوڑ دی جائے تو خاردار جھاڑیاں اُگ آتی ہیں۔ وقت کی مثال چلچلاتی دھوپ میں رکھے ہوئے برف کے اُس بلاک کی ہے جس سے اگر فائدہ اٹھالیا جائے تو ٹھیک، ورنہ اُسے تو بہرحال پگھل ہی جانا ہے۔
وقت ایک گراں مایہ دولت ہے، اور اس دولت کی فطرت یہ ہے کہ یہ رکھ چھوڑنے کی چیز نہیں ہے۔ اگر انسان اس سے پوری مستعدی کے ساتھ فائدہ نہ اٹھائے تو یہ بہت جلد پانی کی روانی کے ساتھ بہہ جاتی ہے اور انسان اپنی غفلت اور بدبختی پر ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے۔ پھر اس کی یہ بھی فطرت ہے کہ یہ ایک شمشیر دو دَم ہے جس کی کاٹ دوطرفہ ہے۔ اگر آپ اس کو اپنے حق میں استعمال نہ کرسکے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ آپ کے خلاف استعمال ہوا۔ اگر اس کے ایک ایک لمحے کے بدلے میں آپ نے اجر نہیں کمایا تو صرف یہی خسارہ نہیں ہوا کہ آپ نے اپنے سرمائے سے فائدہ نہیں اٹھایا، بلکہ اس کا اصلی درد انگیز پہلو یہ ہے کہ ضائع شدہ زندگی کا ایک ایک پل آپ کے لیے وبال بنا۔ یہ رائیگاں جانے والی زندگی صرف رائیگاں ہی نہیں جاتی بلکہ انسان پر ایک ابدی لعنت بن کر مسلط ہوجاتی ہے۔
(’’شاہراہِ وقت پر کامیابی کا سفر‘‘…محمد بشیر جمعہ)
جگر سے تیر پھر وہی پار کر
تمنا کو سینوں میں بیدار کر

علامہ امتِ مسلمہ کو کل کی طرح آج بھی یہ درس دے رہے ہیں کہ اپنے دلوں میں وہی ایمانی جذبے اور ایمانی حرارت و تڑپ پیدا کریں اور اپنے مقام کو پہچانتے ہوئے اپنے آپ کو ذلتوں سے نکال کر امامت و قیادت کے لیے تیار کریں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ایمان و عمل کے جذبوں سے اپنے جگر چھلنی کریں اور سینوں میں ازسرِنو زندہ تمنائیں پیدا کریں۔