کابل کو فتح ہوئے دو ہفتے مکمل ہونے کو آئے ہیں، تاہم ابھی تک افغانستان کے حالات کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھ سکا ہے اور نہ ہی حکومت سازی کے مراحل تکمیل پذیر ہوسکے ہیں۔ تاہم افغانستان کے سابق وزیراعظم اور حزبِ اسلامی کے سربراہ انجینئر گلبدین حکمت یار نے نئی صورت حال کے بعد افغان ذرائع ابلاغ سے اپنے پہلے باقاعدہ انٹرویو میں وضاحت کی ہے کہ نئی افغان حکومت کی تشکیل کے لیے مختلف دھڑوں میں باضابطہ مذاکرات آئندہ چند روز میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے مکمل انخلاء کے بعد شروع ہوں گے۔ اُن کا کہنا تھا کہ غیر رسمی روابط جاری ہیں جو جلد باضابطہ مذاکرات میں تبدیل ہوجائیں گے، اور امید ہے کہ کابل میں جلد ایک ایسی حکومت قائم ہوجائے گی جو افغان عوام اور عالمی برادری کے لیے قابلِ قبول ہوگی، تمام فریقوں کو اس بات کا احساس ہے کہ افغانستان میں نئی حکومت کی تشکیل کے لیے افغان سیاسی رہنمائوں اور طالبان کو باضابطہ طور پر مذاکرات کرنے چاہئیں۔ انجینئر گلبدین حکمت یار نے ذرائع ابلاغ کو مزید بتایا کہ طالبان یہ کہتے رہے ہیں کہ وہ اپنی مرضی کی اسلامی امارات مسلط نہیں کرنا چاہتے بلکہ تمام فریقوں کی مشاورت سے ایک مخلوط حکومت کے قیام کو ترجیح دیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں حزبِ اسلامی کے سربراہ نے افغانستان میں ابھی تک بعض منفی قوتوں کی سرگرمیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ کچھ امن دشمن افغانستان میں ایک مستحکم اور مضبوط مرکزی حکومت نہیں چاہتے، بعض غیر ملکی خفیہ ادارے افغان عوام کو بغاوت پر اکسا رہے ہیں، ہم کوشش کریں گے کہ افغان دشمن قوتیں امن عمل کو متاثر نہ کریں، افغانستان درست سمت میں گامزن ہے، یہاں ایسی حکومت ہونی چاہیے جو عالمی برادری کو بھی قبول ہو۔ افغانستان میں پاکستان کے سفیر منصور احمد خان نے بھی کابل میں انجینئر گلبدین حکمت یار سے ملاقات کی ہے اور حکومت سازی کے عمل پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا ہے۔
انجینئر گلبدین حکمت یار کا شمار افغانستان کے سینئر ترین سیاسی اور مجاہدین رہنمائوں میں ہوتا ہے، انہوں نے عین عالمِ جوانی میں افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کی مزاحمت کا فیصلہ کیا، وہ اُن اوّلین رہنمائوں میں شامل تھے جنہوں نے سوویت یونین کے خلاف جہاد کا عَلَم بلند کیا اور مجاہدین کو منظم کیا۔ پھر ان کی قیادت میں جب سوویت یونین، افغانستان میں دفن ہوگیا تو امریکہ نے گلبدین حکمت یار کو شیشے میں اتارنے کی بھرپور کوشش کی، مگر انہوں نے امریکی صدر سے ملاقات اور امریکہ کے آلۂ کار کا کردار ادا کرنے سے صاف الفاظ میں انکار کردیا، چنانچہ امریکہ نے سازشوں کا جال بچھایا اور جہاد کے بعد افغانستان میں مستحکم حکومت قائم نہ ہونے دی۔ چنانچہ جب طالبان نے افغانستان میں غلبہ حاصل کرلیا اور اپنی حکومت قائم کرلی تو انجینئر گلبدین تمام معاملات سے الگ ہوکر ایران چلے گئے، مگر جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا اور جہاد کا میدان اُس کے خلاف گرم ہوا تو حکمت یار بھی جلا وطنی ترک کرکے اس جہاد کا حصہ بن گئے۔ یوں 1979ء میں سوویت یونین کے خلاف شروع ہونے والے جہاد سے لے کر 2021ء میں امریکہ کی شکست اور بے نیل مرام افغانستان سے واپسی تک جہاد کے تمام مرحلوں اور اس کے خلاف ہونے والی ہر طرح کی سازشوں سے انجینئر گلبدین حکمت یار بخوبی آگاہ ہیں اور ہر طرح کے حالات سے نمٹنے کا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ موجودہ افغان صورتِ حال کا یہ یقیناً ایک مثبت پہلو ہے کہ یہاں انجینئر گلبدین جیسا سرد وگرم چشیدہ اور دیدہ ور رہنما مصالحت کار کے طور پر موجود ہے۔ اس لیے انہوں نے مستقبل قریب کے افغانستان کی جو نقشہ کشی کی ہے وہ نہ صرف قابلِ اعتماد ہے بلکہ امید افزا بھی ہے، کہ مستند ہے ان کا فرمایا ہوا…!
امریکہ اور اُس کے یورپی اتحادیوں کے بعد جس ملک کو موجودہ افغان صورتِ حال میں سب سے زیادہ ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ پاکستان کا ازلی دشمن بھارت ہے۔ چنانچہ اِس وقت اگر ایک جانب بھارت کے لیے یہ امر اذیت کا موجب ہے کہ کابل میں پاکستان کا سفارت خانہ غیر ملکیوں کے انخلاء کے لیے دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے، تو دوسری جانب یہ تکلیف بھی کچھ کم نہیں کہ اربوں ڈالر کی لاگت سے قائم کیے گئے وہ کیمپ آج ویران ہوچکے ہیں جو پاکستان کے خلاف تخریب کاری کے لیے دہشت گردوں کی تربیت کی خاطر کٹھ پتلی حکومت کے دوران افغان سرزمین پر بھارت نے قائم کررکھے تھے۔ نئی افغان قیادت کو بھی بھارت کے اس منفی طرزعمل کا بخوبی احساس ہے، چنانچہ مذکورہ بالا انٹرویو میں سابق افغان وزیراعظم انجینئر گلبدین حکمت یار نے بھارت کو دوٹوک الفاظ میں پیغام دیا ہے کہ ایک تو وہ افغانستان کے مستقبل پر بیانات دینے کے بجائے اپنے اندرونی معاملات سلجھائے، اور دوسرے یہ کہ کشمیر میں جاری جدوجہدِ آزادی کا بدلہ لینے کے لیے پاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال نہ کرے۔ انجینئر گلبدین حکمت یار کے اس انٹرویو سے جہاں یہ یقین پختہ ہوتا ہے کہ وہ دن اب بہت دور نہیں جب افغانستان اسلامی نظام کا گہوارہ اور امن، سلامتی و استحکام کا استعارہ ہوگا، وہاں پاکستان کو بھی طویل مدت کے بعد اپنی مغربی سرحد کی جانب سے سکون نصیب ہوگا اور یہاں سے دہشت گردی و تخریب کاری کے مہیب خطرات منڈلانے کے بجائے اخوت و محبت کی ٹھنڈی ہوائوں کے جھونکے ہمارا مقدر بنیں گے، اِن شاء اللہ۔
(حامد ریاض ڈوگر)