کتاب
:
لسانیات کے بنیادی مباحث
مصنف
:
ڈاکٹر رئوف پاریکھ
صفحات
:
256 قیمت: 800 روپے
ناشر
:
سٹی بک پوائنٹ، نوید اسکوائر اردو بازار، کراچی
فون021-32762483
ای میل
:
citybookurdubazar@gmail.com
F
:
citybookpoint
ڈاکٹر رئوف پاریکھ لسانیات سے دلچسپی رکھتے ہیں، اور اس میدان میں اُن کی گراں قدر تصانیف ہیں جن کا تعارف ہم کراتے رہے ہیں۔ ان کی اس سلسلے میں یہ تازہ ترین تصنیف ہے جو اردو زبان میں اس موضوع پر قیمتی اضافہ ہے۔
ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’لسانیات کے موضوع پر اِس طالب علم کی یہ طالب علمانہ جسارت طالب علموں ہی کے لیے ہے۔ طالب علمانہ یوں کہ مجھ جیسے طالب علم کو اپنی محدودات کا احساس ہونا چاہیے، اور دوسرے یہ کہ اس کتاب میں یہ امر مدنظر رہا کہ لسانیات کے موضوعات و مباحث آسان زبان میں، اردو کی مثالوں کی مدد سے اور وضاحت کے ساتھ بیان کیے جائیں تاکہ طالب علم لسانیات سے بھاگنے کے بجائے اس دلچسپ علم کی تفہیم کے ذریعے اردو اور دیگر پاکستانی زبانوں کو بھی سمجھیں، اور ہوسکے تو ان پر تحقیقی کام بھی کریں۔
یہ لسانیات کی ابتدائی درسی کتاب ہے، اسی لیے اس کے مباحث بیشتر ابتدائی اور تعارفی نوعیت کے ہیں، اور لسانیات کے پیچیدہ مسائل یا ماہرین کی اختلافی آرا کو حسبِ ضرورت مختصراً اور آسان انداز میں بیان کیا گیا ہے، البتہ تحقیقِ مزید کے لیے حواشی میں مآخذ کی نشاندہی کردی گئی ہے۔ اس کتاب کی تسوید میں یقیناً انگریزی مصادر و منابع سے بہت زیادہ مدد لی گئی ہے جن کے بار بار حوالے دیئے گئے ہیں۔ اردو، دیگر پاکستانی زبانوں اور پاکستان کی مثالیں دے کر اس علم کا اطلاق ہمارے معاشرے پر کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے، اور جہاں جہاں اردو یا دیگر پاکستانی زبانوں سے متعلق بات کی گئی ہے وہاں بھی متعلقہ مآخذ کے حوالے دے دیئے گئے ہیں۔
اس کتاب میں کچھ غلط فہمیاں بھی دورکرنے کی کوشش کی گئی ہے، مثلاً ہمارے بعض لکھنے والے بالخصوص قواعد نویس آواز، حرف، لفظ اور صوتیے (یعنی فونیم) (Phoneme) میں کوئی فرق نہیںکرتے۔ اسی طرح ہماری پاکستانی زبانوں پر لکھنے والے اکثر ڈائیلکٹ (Dialect) کو لہجے کہتے ہیں، حالانکہ لہجہ تو necent کا مترادف ہے۔ بعض لوگ حروفِ تہجی (الف۔ د۔ی) کو صوتیہ سمجھتے ہیں، یا کہتے ہیں کہ اردو میں تین ہی مصوتے یا واول (vowel) ہیں۔ ان معاملات کی درستی اور وضاحت آپ کو اس کتاب میں متعلقہ ابواب میں ملے گی۔
لسانیات کے کچھ جدید نظریات بھی پیش کیے گئے ہیں۔ فہرستِ ابواب کے ساتھ عنوانات کی تفصیلی فہرست بھی الگ سے دی گئی ہے، تاکہ مطلوبہ مواد تک رسائی فوری اور آسان ہوسکے۔ بنیادی مقصد اعلیٰ مدارج کے طالب علموں کے لیے لسانیات پر اردو میں ایک آسان اور جامع کتاب پیش کرنا ہے۔
علمی و تحقیقی کاموں میں حوالوں کا اندراج ناگزیر ہوتا ہے، لیکن ہمارے بعض طالب علم یا تو حوالوں کی اہمیت کو سمجھتے نہیں ہیں، یا کاہلی کے سبب حوالے نہیں دیتے۔ ایک کتاب سے دس جملے لیتے ہیں اور اس کا ایک بار حوالہ دے کر سمجھتے ہیں کہ یہ کافی ہے۔ اس کتاب میں بعض اوقات حوالے زیادہ نظر آئیں گے اور حواشی میں ’’ایضاً‘‘ کی تکرار بھی ملے گی، جس کا سبب یہ ہے کہ یہ جدید تحقیقی طریق کار کے عین مطابق ہے، بصورتِ دیگر اسے سرقے (Plagiarism) کا ارتکاب سمجھا جاتا ہے۔
حوالے ہر باب کے آخر میں دیئے گئے ہیں۔ کئی کتب کا اسی باب یا اگلے ابواب میں بھی بار بار حوالہ آیا ہے، لیکن ہر بار اور ہر باب میں طباعتی تفصیلات (ناشر، مقامِ اشاعت وسالِ اشاعت وغیرہ) دینے کے بجائے ہر باب میں پہلی بار حوالہ آنے پر مصنف اور کتاب کے نام کے ساتھ مکمل طباعتی تفصیلات حواشی میں دی گئی ہیں لیکن بعدازاں اسی کتاب کا حوالہ اسی باب میں آنے پر حواشی میں مصنف اور کتاب کے نام کے ساتھ ’’محولہ بالا‘‘ لکھا گیا ہے، اور اس باب میں طباعتی تفصیلات دہرائی نہیں گئی ہیں، لیکن فہرستِ مآخذ میں یہ تفصیلات موجود ہیں‘‘۔
’’اصطلاحات کے انگریزی مترادفات بار بار قوسین (بریکٹ) میں دیئے گئے ہیں، تاکہ طالب علموں کو آسانی ہو۔ انگریزی اصطلاحات کے لیے رائج اردو مترادفات کو ترجیح دی گئی ہے، لیکن بعض اصطلاحات خود ہی گھڑنی پڑیں، جن کی طرف متن ہی میں اشارہ کردیا گیا ہے۔
کتاب کے مباحث کو علمی اور غیر ذاتی وغیر جذباتی رکھنے کی حتی الامکان کوشش کی گئی ہے، کیونکہ یہ کتاب مناظراتی یا نظریاتی یا تبلیغی نہیں بلکہ علمی، عملی اور افادی ہے۔ امید ہے اسے اسی نظر سے دیکھا جائے گا۔ البتہ کچھ موضوعات باوجود خواہش کے اس کتاب میں شامل نہ کیے جاسکے، کیونکہ اس طرح اس کی ضخامت اور قیمت دونوں بہت بڑھ جاتے اور طالب علم ایک اور مشکل میں پڑ جاتے۔ خدا نے چاہا تو ان موضوعات پر پھر کبھی اظہارِ خیال کا موقع ملے گا۔ لیکن
کارِ دنیا کسے تمام نکرد
ہر چہ گیرید مختصر گیرید‘‘
کتاب 14 ابواب پر منقسم ہے، اس میں جدید مغربی لسانی تحقیقات کو آسان اردو میں ڈاکٹر صاحب نے پیش کیا ہے، اور اردو کی ثروت میں وقیع اضافہ کیا ہے جس پر وہ شکریے کے مستحق ہیں۔ ان 14 ابواب کے عنوانات درج ذیل ہیں:
-1 پس منظر (1): زبان اور لسانیات، -2 پس منظر (2): لسانی مطالعات کی تاریخ (ایک مختصر جائزہ)،-3مارفیمیات (1): مارفیم، مارفیمیات اور اردو، -4 مارفیمیات (2): تعلیلقیہ، مادّہ، ساق اور اردو کے مارفیم، -5 معنویات (1) معنی، نحو اور تداولیات، -6 معنویات (2): لغوی معنویات اور معنوی رشتے، -7 صوتیات (1): صوت اور صوتیہ، -8 صوتیات (2): اصوات، مقامِ تلفیظ اور اندازِ تلتفیظ، -9 فونیمیات (1): اردو کے مصوتے اور مصمتے، -10 فونیمیات (2): صوت رکن، صوت رکنی ساخت اور صوتیاتی حروفِ تہجی، -11 سماجی لسانیات (1): زبان اور معاشرہ، -12 سماجی لسانیات (2): کثیر لسانی معاشرہ اور زبان، -13 تاریخی لسانیات: زبانوں کے خاندان، -14 نفسیاتی لسانیات: ذہن اور زبان۔
بطور تبرک ڈاکٹر صاحب کی ایک رائے درج کرتے ہیں:
’’اردو میں لسانیات کی تدریس: ایک بنیادی غلطی
ہمارے ہاں ایک عام خیال یہ ہے کہ تاریخی لسانیات سے چونکہ زبان کی تاریخ کا علم ہوتا ہے، لہٰذا پہلے تاریخی لسانیات پڑھی جائے، اور ہماری جامعات میں بالعموم پہلے تاریخی لسانیات پڑھائی جاتی ہے، یعنی جس معصوم طالب علم کو یہی نہیں معلوم کہ ڈائیلکٹ کیا ہوتا ہے، زبانوں کا خاندان کیا ہوتا ہے، پروٹو لینگویج کس کو کہتے ہیں، پروٹو لینگویج سے زبانیں نکلتی ہیں یا نہیں، اور اردو کی پروٹو لینگویج کیا ہوسکتی ہے، اسے پہلے ہی دن سے یہ پڑھایا جاتا ہے کہ اردو پنجابی سے نکلی یا نہیں نکلی، اور اردو کا خاندان چونکہ آریائی ہے اور دکن کے دراوڑی خاندانِ السنہ سے الگ ہے اس لیے وہ دکن میں پیدا ہوسکتی تھی یا نہیں، کھڑی بولی اور برج بھاشا کیا ہیں اور ان کی صوتیاتی اور مارفیمیاتی خصوصیات کیا ہیں، اردو کھڑی بولی سے نکلی یا نہیں، وغیرہ۔ گویا جس بے چارے کو لسانیات کی ان بنیادی اصطلاحات کا بھی علم نہیں ہے جو تشریحی لسانیات (یعنی مارفیمیات، صوتیات، معنویات اور فونیمیات وغیرہ) میں استعمال ہوتی ہیں، اُسے آپ تاریخی لسانیات پڑھانا شروع کردیتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں جس کو یک زمانی مطالعے کا کوئی علم نہیں ہے اُس کی لسانیات کی تعلیم کا آغاز ہمارے ہاں کثیر زمانی مطالعے سے کیا جاتا ہے۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کسی کو الجبرا کے پیچیدہ مسائل پہلے بتائے جائیں پھر اسے بنیادی حساب پڑھایا جائے۔‘‘
کتاب مجلّد ہے، نیوز پرنٹ پر طبع کی گئی ہے۔