ہمیں کیا سکھاؤگے تہذیب، جاؤ

ڈاکٹر عزیزہ انجم ایم بی بی ایس ڈاکٹر بھی ہیں،شاعرہ بھی ہیں اور نثر نگار بھی۔ مریضوں کا علاج تینوں طریقوں سے کرتی ہیں۔ ان کا پورا گھرانا، میاں بیوی بچوں سمیت، خاصا باذوق معالج ہے۔ (’میاں بیوی بچوں سمیت‘ کارومن مخفف بھی ’ایم بی بی ایس‘ ہی بنتا ہے)آپا عزیزہ انجم جب ڈاؤ میڈیکل کالج (کراچی) کی طالبہ تھیں تو اُس وقت اُن کی کہی ہوئی ایک غزل سن کر جو ہم پھڑکے تو اب تک پھڑک رہے ہیں۔اسی غزل سے دو خوراک آپ کو بھی دیے دیتے ہیں، اِس توقع پر کہ شاید آپ بھی فوراً ہی پھڑک جائیں:
کٹے گا کس طرح چاہت کی وادیوں کا سفر
یہاں کے لوگ عجب، اِن کی اُلفتیں بھی عجب
طِلِسمِ خواب کی زنجیر جب کبھی ٹوٹی
لگیں قریب میں بکھری حقیقتیں بھی عجب
جو لوگ شعر کے وزن کا شعور رکھتے ہیں، وہ تو شعر پڑھ کر اپنا تلفظ خود درست کر لیتے ہیں۔ باقی لوگوں کے لیے عرض ہے کہ ’طلسم‘ کے ’ط‘ اور’ ل‘ دونوں کو زیر کے ساتھ پڑھا جائے گا ۔ ’س‘ ساکن ہے۔ مطلب ہے جادو، سحر، حیرت انگیزبات۔ بعض طلسم’ ہوش رُبا‘ بھی ہوتے ہیں۔رُبا کا مطلب ہے اُڑانے والا۔ اُڑانے والے ہوش ہی نہیں اُڑاتے، دل بھی اُڑا لیتے ہیں۔ تب ہی تو دل رُبا کہلاتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحبہ کی طبی مشق اور مشقِ سخن دونوںشباب پر ہیں ۔ ابھی تین برس پہلے اُن کا مجموعۂ کلام ’’چاندنی اکیلی ہے‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا اورمریضانِ شعر وسخن کے ہجوم سے دادوصول کی۔ مگر ہمارے پچھلے کالم نے خود ڈاکٹر صاحبہ سے دادپائی۔یاد رہے کہ پچھلا کالم ’آپ، تم اور تُو‘ کے تناظر میں اُردو زبان کے تہذیبی طور طریقوں پرتھا۔ ڈاکٹر صاحبہ نے، داد دینے کے بعد، ہمارے لیے ایک نسخہ تجویزکیا:
’’مزید لکھیے۔ موضوع بر وقت ہے۔ لہجے اور زبان سے بھی تہذیب و شرافت کا پتا چلتا ہے‘‘۔
اب چوں کہ ہمیں ڈاکٹر نے نسخے میں لکھ کر دے دیا ہے، چناں چہ ہم مزید لکھتے ہیں:
مغرب کی بد تہذیبیوں میں سے ایک بدتمیزی اور ہمارے برقی ذرائع ابلاغ میں در آئی ہے۔ انگریزی زبان میں ’آپ، تم اور تُو‘ کا فرق تو ہے نہیں، You کی لاٹھی سے سب کو ہانکا جاتا ہے۔ وہاں القاب و آداب کے بغیر نام لے کرپکارنا بے تکلفی کا اظہارہے۔ اگر پیارسے پُکارنے کا نام معلوم ہو جائے تو کیا کہنے۔ معلوم نہ ہو تب بھی ایلزبتھ کو لزی اور جیکب کو جیکی پکارنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس عمل کی نقالی نے اردو زبان کی تہذیب، ادب آداب اور رکھ رکھاؤ کو متاثر کیا ہے۔ ابھی نوبت یہاں تک تو نہیں پہنچی کہ بزرگ شاعر جناب افتخار عارف کو ’اِفتی‘ کہہ کر پُکارا جائے۔تاہم بڑااَ وگھٹ لگتا ہے جب اُن سے کم عمر نظامت کار اُن کا مصاحبہ کرتے ہوئے پوچھتا ہے:
’’افتخار! یہ بتائیے کہ آپ کی نظم ’بارہواں کھلاڑی‘ کا اصل پس منظر کیا ہے؟‘‘
کم عمر تو کیا؟ ہماری تہذیب میں ہم عمر افراد سے بھی یہی توقع کی جاتی ہے کہ وہ مجلس میں کسی بے تکلف دوست کا نام بھی آداب و القاب کے بغیرنہیں پُکاریں گے۔چھوٹوں کے سوا کسی کو محض نام سے پُکارناہماری تہذیب میں’ بد تہذیبی‘ شمار کیا جاتا ہے۔ جناب، قبلہ، حضور، محترم، محترمہ وغیرہ کے القاب اسی لیے ہیں۔رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلّم کااِسمِ ذاتی تنہا پُکار کر آپؐ کا ذکر کرنا ہمارے ہاں سخت بے ادبی سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح آداب و القاب کے بغیر دیگر بزرگوں کانام لینا بھی بد تہذیبی ہے۔ نام لینا ضروری اور ناگزیر ہو توجناب اور حضرت وغیرہ کا سابقہ یا صاحب اور صاحبہ وغیرہ کا لاحقہ لگایا جاتا ہے۔یہ ہماری زبان اور اِس کی تہذیب کا حسن ہے۔ اردو میں مصاحبہ کرنے والے اپنی زبان کی تہذیب و اخلاق کا خیال رکھیں تو اُن کی گفتگو میں بھی حسن پیدا ہو جائے۔
ہمارے آدابِ معاشرت، مغربی مراسمِ اخلاق (Etiquettes) سے ارفع و اعلیٰ ہیں۔ہمارے تہذیبی رویوں میں اپنائیت، احترامِ انسانیت اور قربت کے رشتوں کی مٹھاس ہے۔ تکبر، اجنبیت، غیریت اور لفنگا پن نہیں ہے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے تک ہمارے ہاں محلے اور بازار میں بھی وہ حفظِ مراتب ملحوظ رکھا جاتا تھا جس کا لحاظ گھر اور خاندان میں کیا جاتاہے۔ مثلاً مردوں کو حسبِ مرتبہ بابا، تایا، چچا، ماموں ، خالو، بھائی جان یا بھتیجے اور بیٹا کہہ کر پکارنا اور خواتین کو امّاں، خالہ، آپا، باجی، بہن اور بیٹی کہہ کر بلانا۔ مگر اب مغربی تہذیب کے زیرِ اثر ہمارے محلوں، دفتروں اور بازاروں میں بھی سر، میڈم ، مس، مِسّی اور مسٹر کہنے کا رواج عام ہوتا جا رہا ہے۔ہمارے ہاں توگھر کے خادموں اور خادماؤں کو بھی احترام کے رشتوں سے مخاطب کرتے ہیں۔انھیں چاچا، ماما، ماسی (خالہ) اور بُوا (بڑی بہن) کے القاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ سیاسی اُفق پر جب تک ہماری تہذیب کا سورج ماند نہیں پڑا تھا کسی نے قائدِ اعظم کی ہمشیرہ کو ’فاطی‘ اور قائدِ عوام کی بیٹی کو ’پِنکی‘ کہہ کر نہیں پکارا۔ دونوں کے ناموں کے ساتھ ’محترمہ‘ کا لقب لگایا گیا۔ پھر اس قوم نے اگر محترمہ فاطمہ جناح کو ’مادرِ ملّت‘ کا خطاب دیا تو محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی ’دُختر مشرق‘ قرار دیا۔
یورپ کے لوگ جب پہلی بار اپنی سرمائی نیند (Hibernation) سے جاگے تو بحری جہازوں میں مالِ تجارت لاد لاد کر ایشیائی اور افریقی ممالک کو تہذیب سکھانے نکلے ۔جن جن ممالک پر ان کا داؤ چل سکا، وہاں کے لوگوں کو غلام بنا کر انھوں نے خوب تہذیب سکھائی۔ اب اُن کی اتحادی افواج بندوق کے بل پر دنیا بھر کو جمہوریت سکھاتی پھرتی ہیں۔ ابھی ابھی افغانیوں کو جمہوریت سکھا کر اور منہ کی کھا کر گئی ہیں۔ مگر جن ممالک کے لوگ جمہوریت سیکھ جاتے ہیں، وہاں جھٹ فوجی آمریت قائم کر دی جاتی ہے۔ مثلاً الجزائر، مثلاً مصر اور مثلاً… خیر چھوڑیے۔ جب وہ ہمارے ہاں تہذیب سکھانے آئے تھے تو جنابِ احمد ندیمؔ قاسمی نے انھیں ڈانٹ کر بھگا دیاتھا:
ہمیں کیا سکھاؤ گے تہذیب، جاؤ!
تم اپنے تمدن کا لاشہ سنبھالو
ڈانٹ کھا کر وہ چلے تو گئے، مگر اپنے تمدن کا لاشہ یہیں چھوڑ گئے۔جس کی سڑاند سے ہماری سونگھنے کی حِس ہی جاتی رہی۔قاسمی صاحب کے اس شعر میں ’تہذیب‘ اور ’تمدن‘ دو الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ان دونوں میں فرق ہے۔ تہذیب کا مطلب ہے کانٹ چھانٹ کرنا اور اصلاح کرنا۔ باغیچہ سنوارنے کے لیے مالی صاحبان (جنھیں باغبان بھی کہا جاتا ہے) پودوں کی تراش خراش کرکے انھیں خوش نما بنا دیتے ہیں۔ یہی تہذیب ہے۔ انگریزی میں اس عمل کو Cultivation کہتے ہیں Culture اسی سے بنا ہے۔ یہی کلچر انگریزی زبان میں ’تہذیب‘ کا متبادل ہے۔ جب کہ لفظ ’مدینہ‘ (یعنی شہر) سے مدنیت (Civics) کا لفظ وجود میں آیا ہے اور مدنی (یعنی شہری) طور طریقوں کو تمدن (Civilization) کہا جاتا ہے۔پہلے صرف دیہاتیوں ہی کوغیر متمدن سمجھا جاتا تھا اور گاؤدی یا پینڈو کے الفاظ سے یاد کیا جاتا تھا۔مگر مغربی تسلط کے بعدسے فوجی بیرکوں کی بجائے شہروں میں رہنے والے بھی BloodyCivilian کہے جانے لگے ہیں۔
ایک تیسرا لفظ ’ثقافت‘ ہے۔ جسے اچھے خاصے ثقہ اور سمجھ دار لوگ بھی ’تہذیب‘ اور ’تمدن‘ سے خلط ملط کر دیتے ہیں۔ جب کہ ’ثقف‘ کے معنی ذہانت، زیرکی، دانائی اور مہارت کے ہیں۔کسی بات کو سمجھ لینا ، گرفت میں لے لینااور پالینا۔لہٰذا ثقافت اُن علوم، مہارتوں اور معارف کا نام ہے جن کو کوئی قوم ایک طویل مدت کے تجربے کے بعد اپنے معمولاتِ زندگی کا حصہ بنالیتی ہے۔ مثلاً غذاؤں، لباس اور وظائفِ حیات میں حرام و حلال کا خیال رکھناہماری ثقافت کا حصہ ہے۔ دیگر امتوں کے ہاں شاید ’ثقافت‘ جیسی کوئی اصطلاح الگ سے نہیں ہے۔ لہٰذا وہ اپنی تمام رسوم اور ہر رواج کو ’کلچر کی Cane سے ہانک دیتے ہیں۔