دو قومی نظر یہ

اہل پاکستان نے اس سال اپنا 74واں یوم آزادی جہاں روایتی جوش وخروش سے منایا وہاں اس سال یوم آزادی کی خوشی کو افغانستان جو پاکستان کا قریبی مسلمان پڑوسی ملک ہے اور جس کی ہوائیں براہ راست پاکستان پراثر اندا زہوتی ہیں سے امریکی اور نیٹو افواج کی ذلت آمیز شکست اور طالبان کی پے در پے فتوحات اور بالآخر کابل کی فتح نے دوبالاکردیا ہے۔ ہمارے ہاں یوم آزادی کو روایتی جوش وخروش سے منایاجاتا ہے ،اسی تناظر میں انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز پشاور نے ایک نئی روایت قائم کرتے ہوئے ،نوجوان نسل کو تحریک پاکستان اور خاص کر دو قومی نظریے سے متعارف کرانے کے سلسلے میں دو قومی نظریے کے عنوان سے ایک پرمغز لیکچر کا اہتمام کیا، جس سے پاکستان سٹڈی سنٹر یونیورسٹی آف پشاور کے ڈائریکٹر اور معروف ماہر تعلیم ،محقق اور نظریہ پاکستان کے علمبردار پروفیسر ڈاکٹر فخرا لاسلام نے خطاب کیا۔
تقریب کا آغاز قرآن پاک کی تلاوت سے ہوا جس کے بعد تمام شرکا نے مل کر قومی ترانہ پڑھا۔چیئرمین آئی آر ایس ڈاکٹر محمد اقبال خلیل نے تقریب کے شرکاء کو خوش آمدید کہا اور آئی آر ایس کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہاکہ آئی آر ایس ایک تحقیقی ادارہ ہے جس کا مقصد اس خطے کے حالات پر نظر رکھتے ہوئے درپیش چیلنجز کا معروضی اور تحقیقی انداز میں جائزہ لیکر تجاویز متعلقہ اداروں اور فورمزکے ساتھ شیئر کرناہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی آر ایس نے نئے تعمیر شدہ دفتر میں اپنی سرگرمیوں کا آغا زکردیاہے۔ابتدائی طور پر کام کو منظم کرنے کے لیئے مختلف شعبوں میں پانچ ورکنگ گروپ بنائے گئے ہیں جن میں خارجہ پالیسی ،تعلیم،صحت،اقتصادیات اورڈویلپمنٹ سیکٹرشامل ہیں۔ فنانس گروپ نے پری اور پوسٹ بجٹ پر جب کہ خارجہ پالیسی گروپ نے افغانستان کی تازہ صورتحال پر سیمینارز منعقد کیے ہیں۔انہوں نے کہا کہ آج کے اس لیکچر کے انعقاد کا مقصد نئی نسل کو قیام پاکستان کے اغراض ومقاصد کے متعلق علمی بنیادوں پر دلائل کے ساتھ معلومات فراہم کرنا ہے۔
دو قومی نظریے پر گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر فخر الاسلام نے کہاکہ دوقومی نظریہ مذہبی قومیت کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے۔انہوں نے کہاکہ مغربی مفکرین کی مروجہ تعریف کے مطابق افراد کی ایک ایسی تعداد جو ایک خاص جغرافیائی وحدت کے اندر رہتی ہو اور جس کی مشترکہ زبان، ثقافت اور یکساںمفادات ہوں لوگوں کی ایسی مجموعی اکائی قوم کہلاتی ہے۔اس جدید تعریف کی بنیاد پر تو ہندوستان کے سب لوگ ایک قوم تھے البتہ ان کے مذہبی معاملات میں چونکہ واضح اختلافات پائے جاتے تھے لہٰذا اسی بنیا دپر دوقومی نظریہ وجود میں آیا حالانکہ کانگریس اس تعریف کو بنیاد بنا کر ہندوستان میں رہنے والے تمام مذاہب کے افراد کوایک قوم قرار دیتی تھی جسے بعض واقعات کے ظہور پزیر ہونے پر مسلمان راہنماوں نے چیلنج کرنا شروع کیاجس کی ابتداء 1883 میں امپیرئیل کونسل کے ایک اجلاس میں سرسید احمد خان نے مسلمانوں کے لیئے جداگانہ انتخابات کا طریقہ متعارف کرانے کے مطالبے کی شکل میں کیا۔ 12 جنوری 1883ء کو اس کونسل میں ایک قانون سامنے آیا جس پر سر سید احمد خان نے اعتراض کیا اور موقف اختیار کیا کہ کسی ممبر کو منتخب ہونے کے لئے رائے دہندہ گان میں جدا گانہ انتخا ب کا نظام متعارف کرانا چاہئے کیونکہ اگر آپ مشترکہ نظام متعارف کرائیں گے تو اس کے نتیجے میںہندوغالب رہیں گے اور مسلمانوں کو کبھی بھی اپنے نمائندے منتخب کرنے کا موقع نہیں مل سکے گااسی نقطہ نظر کی بنیا دپر سرسید احمد خان کو ان کے بعض نظریات سے اختلاف کے باوجود دوقومی نظریے کا بانی کہاجاتاہے۔
1930ء میں سرسید کے دو قومی نظریے کی مزید وضاحت علامہ محمد اقبال نے آل انڈیا مسلم لیگ کے الہ آباد میں منعقدہ سالانہ اجلاس میں مسلمانوں کو بطور ایک الگ قوم پیش کرنے کی صورت میں کی۔ علامہ اقبال کی یہ تقریر تاریخ میں خطبہ الہ آباد کے نام سے محفوظ ہے۔ یہ محض ایک تقریر نہیں تھی بلکہ یہ تقریر ایک مکمل فلسفے کا حامل نقطہ نظر تھا، جو مضبوط دلائل اور منظق کی بنیاد پر پیش کیا گیا۔ اس خطبے میں انھوں نے بر صغیر کے مسلمانوں کے لیے ان کی اکثریت کی بنیاد پر ایک علیحدہ وطن کا تصور پیش کیا۔ یہاں ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ قیام پاکستان کے لیے چلائی گئی تحریک پاکستان کے پیچھے اصل محرک نظریہ پاکستان اور بر صغیر پاک وہندمیں اسلام اور مسلمانوں کی بالا دستی کا تصور تھا کیونکہ بر صغیر پر مسلمان سات آٹھ سو سال تک حکومت کر چکے تھے اور انگریزوں کی آمد نے انہیں حکمرانوں سے غلام بنا کر رکھ دیا تھا اسی خوف کے انگریزوں کے جانے کے بعد مسلمان ہندووئں کے رحم و کرم پر رہ جائیںگے اور اس کے نتیجے میں ان کی آزادی اور مذہب پر عمل درآمد کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند ہو جائیںگے لہٰذا مسلمانوں کو اقبال اور جناح کی شکل میں جو قیادت ملی وہ پاکستان کے قیام کا محرک بنا۔یاد رہے کہ ہندو اپنی اکثریت کی بنیاد پر کانگرس کی قیادت میں جو اقدامات اٹھا رہے تھے اس نے مسلمانوں کو رد عمل میں علٰیحدہ وطن کا مطالبہ کرنے پر مجبور کیا۔اس سلسلے میںکانگریسی وزارتوں نے جلتی پر تیل کا کا م کیا جس نے پاکستان کے منزل کو قریب تر کرنے میں ایک اہم عامل کا کردار ادا کیا۔اسی طرح1945-46 کے انتخابات میں مسلم لیگ کی 95 فیصد کامیابی نے قیام پاکستان کی منزل کو مزیدقریب تر کر دیا ۔
پروفیسر فخر الاسلام نے کہاکہ سابق بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کا یہ کہنا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد دو قومی نظریئے کو خلیج بنگال میں غرق کر دیا گیا ہے بالکل جھوٹ اور من گھڑت بات ہے۔ یہ بات تب درست ہوتی اگر بنگال پاکستان سے الگ ہوکرایک الگ اسلامی مملکت بننے کی بجائے بھارت کے ساتھ دوبارہ مل جاتالیکن چونکہ ایسا نہیں ہوا اور بنگلادیش کے نام سے برصغیر میں پاکستان کے بعد ایک دوسرا مسلم اکثریتی ملک معرض وجود میں آگیا ہے تو یہ اصل میں دوقومی نظریئے کی جیت اور تسلسل ہے۔انہوں نے کہاکہ آج جولوگ عبد الغفار خان عرف باچا خان کوتحریک آذادی کاہیروثابت کرنا چاہتے ہیں انہیں یہ تلخ حقیقت یاد رکھنی چاہیے کہ باچا خان اس زمانے کے ایک بڑے اور معروف جاگیر دار بہرام خان کے فرزند تھے جوہمیشہ انگریزوں کے وفا دار رہے۔ 1998جلیانوالہ باغ واقع کے بعدشمالی مغربی سرحدی صوبے میں سیاسی ہلچل پیدا ہوئی ۔ باچا خان نے اپنی سوانح حیات ’’زما ژوند او جدہ جہد‘‘ یعنی ’’میری زندگی اور جدوجہد‘‘میں لکھتے ہیں کہ جب انھوں نے سانحہ جلیانوالہ باغ کے بعداپنی سیاسی سرگرمیوں میںتیزی لائی تو ان کے والد نے انہیں اپنے پا س بلا کر انگریزوں کے کہنے پر انہیںسیاست اور انگریزوں کی مخالفت سے با ز رہنے کی تلقین کی۔
پروفیسر ڈاکٹر فخر الاسلام نے کہا کہ نظریہ پاکستان کی واضح مخالفت کانگریس تو کر ہی رہی تھی البتہ مسلمانوں کی حد تک او رخاص کرشمال مغربی صوبے کی حد تک با چا خان اور خدائی خدمت گار تحریک نے اس کی کانگریس سے بھی بڑھ کر مخالفت کی۔ 3جون کا منصوبہ سامنے آنے کے بعد با چا خان نے کانگریس کی مرکزی ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں گاندھی اور نہرو کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ہمیں بھیڑیوں (مسلم لیگ) کے سامنے تن تنہا پھینک دیاہے، جس کے بعد انھوں نے الگ پختونستان کا نعرہ لگایا ۔نظریہ پاکستان یا دوقومی نظریئے کادوسرا مخالف طبقہ جمعیت علما ہندکی صورت میں سامنے آیاجس کی قیادت مولاناحسین احمد مدنی کر رہے تھے ۔جب علامہ اقبال کو حسین احمد مدنی کے دو قومی نظریئے سے متعلق خیالات کاپتا چلا تو آپ تڑپ کر رہ گئے۔آپ کویقین نہیں آرہاتھا کہ ایک عالم فاضل شخص دو قومی نظریئے کی مخالفت کر سکتا ہے۔جب حسین احمد مدنی نے کانگریس کی ہمنوائی کرتے ہوئے کہا کہ قومیں وطن سے بنتی ہیں تواس پر علامہ اقبال نے اپنے تاریخی اشعار کہے جن میں حسین احمد مدنی کے نظریئے کوہدف تنقید بنایاگیا۔
دو قو می نظریئے کے تیسرے مخالف مولانا سید ابواعلیٰ مودودی تھے۔ انھوں نے شروع میں تو علمی بنیادوں پر دو قومی نظریے کی مخالفت کی البتہ وہ کبھی بھی قیام پاکستان کے مخالف نہیں رہے۔انھوں نے کہا کہ ہندوستان کو فیڈریشن آف نیشن بنائیں جس میں مسلمانوں اور ہندووں کو ان کی آبادی کے تناسب سے زیادہ سے زیادہ اختیارات دیے جا ئیں۔یا پھر شمال مغرب میں سارے ہندوستان سے مسلمانوں اور جنوبی ہندوستان میں تمام ہندوئوں اور مشرقی پنجاب میں سکھوں کو 25 برسوں کے دوران منتقل ہونے کاوقت دیا جائے۔انہوں نے چوتھا حل یہ پیش کیا کہ مسلمان اکثریتی علاقوں پر مشتمل مسلمانوں کے ایک الگ ملک اور باقی ماندہ ہندوستان کو با ہم کنفیڈریشن بنا کر حکومت بنانی چاہیے۔ڈاکتر فخر الاسلام نے کہا کہ ہمیں مولانا مودودی کے نظریئے کو رد کرنے یا اس سے جان چھڑانے کے بجائے مولانا کے دلائل کا علمی بنیادوں پر جائزہ لینا چاہیے جن میں ہمیں کافی گہرائی اور وسعت ملے گی۔
مولونا مودودی تحریک پاکستان اور دوقومی نظریئے کے پس منظر میں اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’تحریکِ آزادی ہند اور مسلمان‘‘میں لکھتے ہیں کہ مسلمان اور غلامی،یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتیں۔ مُسلمان کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے، کہ وہ غُلامی کی فِضا میں اپنے دِین کے تقاضوں کو پُورا کر سکے۔ اِسلام پر اسی وقت پُوری طرح عمل ہو سکتا ہے، جب اِنسان ساری بندشوں کو توڑ کر صرف خُدا کا مطیع ہو جائے۔ اِسلام غلبہ اور حکمرانی کے لیے آیا ہے، دوسروں کی چاکری اور باطِل نظاموں کے تحت جُزوی اِصلاحات کے لیے نہیں آیا۔ ’’وہی ہے(ذات باری تعالیٰ) جس نے بھیجا اپنا رسول(ﷺ) ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ تاکہ اِس دین کو دُنیا کے تمام اَدیان پر غالب کردے۔ خواہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار گزرے‘‘۔
وہ لکھتے ہیں کہ اِسلام نے مسلمانوں کا مزاج یہ بنایا ہے، کہ طاغوت کی حکومت، خواہ وہ کسی رنگ میں ہو، کُھل کر اُس کی مخالفت کی جائے، اسے کبھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہ کیا جائے، اور خُدا کی حاکمیت کو سیاسی حیثیت سے عملاً قائم کرنے اور اُس کے قانون کو زندگی کے ہر شعبے میں جاری و ساری کرنے کی کوشش کی جائے، مسلمانوں کی پُوری تاریخ میں یہی کشمکش اور کوشش نظر آتی ہے۔برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے سامنے یہ مسْلہ اٹھارہویں اور اُنیسویں صدی میں بہت نمایاں ہو کر اُبھرا۔ سلطنتِ مغلیہ کے ختم ہونے تک صورت حال یہ تھی، کہ گو مجموعی طور پر مُلک کا نظامِ اجتماعی اِسلام کے مطابق نہ تھا، لیکن ایک طرف مسلم معاشرہ میں ہماری ثقافت کی روایات بڑی مضبوطی سے جا گزیں تھیں، اور دوسری طرف برطانوی سامراج کی آمد سے مسلمانوں کو ملی زندگی میں نظریاتی نقطہ نظر سے جو بگاڑ آ چکا تھا اس کو بڑھائیں اور اسے اس کی انتہا تک پہنچا دیں، تاکہ مسلمان سیاسی، معاشی، ذہنی، اخلاقی، ثقافتی، غرض ہر حیثیت سے غُلام بن جائیں، اور ان کا جُداگانہ وجود باقی نہ رہے۔مسلمانوں نے اِس نئی حیثیت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ مسلمان کی حیثیت سے زندہ رہنا چاہتے تھے، محض ہندوستان میں بسنے والی ایک مخلوق کی حیثیت سے نہیں۔ اُنہوں نے آزادی کی کوشش کی۔ سیّد احمد شہیدؒ نے جہاد کا اعلان کیا اور تحریکِ مجاہدین نے آخری دم تک مقابلہ کیا جبکہ فرائضی تحریک نے مشرقی ہند میں جہاد کا علَم بُلند کیا۔ 1857 کی جنگِ آزادی مسلمانوں ہی کے خُون سے سینچی گئی اور اِس طرح اپنی تمام خرابیوں اور کمزوریوں کے باوجود مسلمانوں نے اِسلام کے اس مزاج کا بار بار اظہار کیا کہ وہ غیر اللہ کی غُلامی کو قبول نہیں کر سکتا، اور طاغُوت کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔
بیسویں صدی کے شروع ہی سے حالات نے ایک ایسا رُخ اختیار کیا۔ نئی تحریکات اُبھریں۔ سیاسی اسٹیج پر بڑی گہما گہمی ہوئی۔ پُرانی دوستیاں ٹوٹیں اور نئی دُشمنیاں پیدا ہوئیں۔ وقتی اور ہنگامی طور پر بڑے بڑے کارنامے بھی انجام دئیے گئے۔ لیکن ابھی تک مسلمانوں کے سامنے وہ راہ واضح نہ ہوئی تھی، جو ایک طرف اُنہیں غُلامی سے نجات دلائے، اور آزادی کے وسیع میدانوں کو ان کے لیے مسخر کرے۔ان حالات میں مولانا سیّد ابوالاعلٰی مودودیؒ نے احیائے اِسلام کی جدوجہد کا آغاز کیا۔ ایک طرف آپؒ نے اِسلام کی بنیادی تعلیمات کو عقلی دلائل کے ساتھ پیش کیا اور ذہنوں سے شکوک کے ان کانٹوں کو نکالا، جو الحاد، بے دینی اور اشتراکیت کی یلغار نے پیوست کر دئیے تھے۔ پھر آپؒ نے ان تمدّنی، معاشرتی اور معاشی مسائل کا حل بھی اِسلام کی روشنی میں بتایا، جو سوچنے سمجھنے والے طبقات کو پریشان کیے ہوئے تھے۔
بلاشبہ اِس کتاب نے ایک نسل کو متاثر کیا، متحدہ قُومیّت کے طلسّم کو چاک کیا، اور ’’اِسلامی قومیت‘‘ کے احساس کو پُختہ کرکے اسے ایک سیاسی نصب العین یعنی قیام پاکستان کی شکل دی۔