ہم تیزی سے Brabed wire sickness syndrome (دوسری عالمی جنگ کے دوران یہ قیدیوں کی ایسی مایوسانہ کیفیت تھی، کہ جس میں وہ مظالم اور خوف سے گھبرا کر خاردارتاروں کی جانب بھاگ کھڑے ہوتے تھے۔۔۔ خاردار تاروں کا یہ بخار یا روگ ایک انتہائی مایوسانہ ذہنی حالت تھی، یہ اک طرح کی خودکشی تھی) کا شکار ہورہے تھے۔ دوسری عالمی جنگ نے ہمیں ’’عوام کی سائیکو پیتھالوجی(ذہنی علم الامراض)‘‘ کا بھرپور علم دیا۔ اس جنگ نے ہمیں اعصابی دباؤ کی کشا کش میں جھونک دیاتھا، ہمیں کنسنٹریشن کیمپ پہنچادیاتھا!
میرے تجربات کی یہ کہانی بطور ایک عام قیدی کی ہے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہوگا ، کہ مجھے کسی کیمپ میں نہ ہی ماہر نفسیات مقرر کیا گیا تھا، اور نہ ہی بطور ڈاکٹر مامور کیا گیا تھا، سوائے آخری چند ہفتوں کے۔ جبکہ میرے چند ساتھی اس معاملہ میںخوش نصیب رہے تھے کہ انہیں فرسٹ ایڈ کی کچھ ذمے داریاں سونپی گئی تھیں، جیسے ردی کے ٹکڑوں سے بینڈیج بنانے کا کام وغیرہ۔ میری پہچان بس قیدی نمبر 119اور 104ہی رہی، جو بیشتر وقت زمین کھود کر ریلوے لائنوں پر پٹریاں بچھاتا رہا تھا۔
ایک بار مجھے ایک سرنگ کی کھدائی کا کام دیا گیا۔ یہ کام مجھے بغیر کسی کی مدد کے کرنا تھا، یہ سرنگ سڑک کے نیچے سے پانی کے لیے نکالنی تھی۔ یہ کوشش رائیگاں نہ گئی؛1944 کے کرسمس سے ذرا پہلے مجھے ’’پریمئم کوپن‘‘ کا تحفہ ملا۔ یہ وہ تعمیری کمپنی جاری کرتی تھی ،کہ جسے ہمیں بطورغلام بیچا گیا تھا۔ اس فرم نے کیمپ حکام سے یومیہ اجرت مقرر کر رکھی تھی، یہ فی کس قیدی طے تھی۔ یہ کوپن فرم کو پچاس فیننگ کاایک پڑتا تھا، اسے چھ سگریٹوں سے بدلا بھی جاسکتا تھا۔ عموما یہ کوپن چند ہفتوں بعد ہی بے کار ہوجاتا تھا۔ مجھے ایک ایسے کوپن کا مالک بننے کا اعزاز حاصل ہوا، جس کی قدر بارہ سگریٹوں کے برابر تھی۔ اس سے زیادہ اہم بات یہ تھی کہ ان بارہ سگریٹوں کا تبادلہ بارہ سوپ سے بھی کیا جاسکتا تھا، اور سوپ کے یہ بارہ پیالے فاقہ کشی میں بھوک سے حقیقی فرارکی مانند تھے۔
درحقیقت سگریٹ کا کش بھرنے کا حق صرف ’کاپو‘ کے لیے محفوظ تھا، جس کا ہفتہ وار کوپن کوٹہ یقینی تھا؛ یہ سہولت ایسے قیدی کو بھی میسر آجاتی تھی جو کارخانے یا گودام میں بطور فورمین جان جوکھوں کے کام کرتا ہو، اُسے ایسے خطرناک کاموں کے بدلے چند سگریٹ عنایت کردی جاتی تھیں۔ یہ وہ چند رعایتیں تھیں جو انہیں بخشی جاتی تھیں۔ یہ وہ لوگ تھے جو جینے کی امنگ کھوچکے تھے اور زندگی کے آخری دنوں سے ’’لطف ‘‘ اٹھانا چاہتے تھے۔ یوں، جب ہم کسی ساتھی کو سگریٹ پیتا دیکھتے، سمجھ جاتے کہ اب اُس کا زندگی سے ایمان اٹھ چکا ہے، جینے کی سکت اب اُس میں باقی نہیں رہی۔ اس طرح کے افراد میں زندگی کی طرف لوٹ جانے کی امید خال خال ہی رہ جاتی تھی۔
بہت سارے قیدیوں کے مشاہدات اور تجربات کے حاصلات کا جائزہ لیا جائے، تواُن کے ذہن پر کیمپ کی زندگی کے ردعمل تین مراحل میں سفر کرتے نظر آتے ہیں: پہلا وہ دور کہ جب انہیں کیمپ میں لایا جاتا ہے، دوسرا جب وہ یہاں کی زندگی کے عادی ہوجاتے ہیں، تیسرا کہ جب وہ رہائی پاکر آازاد ہوجاتے ہیں۔ پہلے مرحلہ کی علامت ’صدمہ‘ ہے۔ چند یقینی حالتوں سے گزر کریہ صدمہ کیمپ کی باقاعدہ زندگی میں معمول بن جاتا ہے۔ میں یہاں اپنے لائے جانے کا تجربہ مثال کے طور پر بیان کرتا ہوں۔
یہ پندرہ سو افراد کا بے ہنگم سا قافلہ تھا، جو کئی روزوشب سے ریل کی بوگیوں میں ٹھنسا محو سفرتھا، ہر بوگی میں80 قیدی سوار تھے، یہ سب اپنے بچے کچھے سامان پر جیسے پڑے ہوئے تھے۔ بوگیاں اس قدر بھری ہوئی تھیں کہ بہ مشکل ہی کھڑکیوں کے بالائی حصے سے سرمئی ملگجی صبح کی روشنی اندر داخل ہوپاتی تھی۔ ہر ایک یہ توقع کررہا تھا کہ ریل کسی اسلحہ ساز کارخانے کی جانب جارہی ہے، کہ جہاں اُن سے جبری مشقت لی جائے گی۔ ہم بالکل نہیں جانتے تھے کہ اُس وقت کہاں تھے؟ آیا کہ سلیسیا (پولینڈ کا مرکزی علاقہ) پہنچے ہیں یا پہلے ہی سے پولینڈ میں کہیںموجود ہیں۔
انجن کی سیٹی بہت دردناک تھی، یوں لگتا تھا کسی غم کے بوجھ سے پھٹا جارہا ہو، سسکیاں بھررہا ہو، کہ جیسے اس کی منزل دوزخ ہو۔ تب، اچانک ایک جگہ ریل ایک مقام پرجھٹکا کھاکر رکی، معلوم ہوتا تھا کہ قریب کوئی بڑا اسٹیشن آگیاہو۔ پریشان حال مسافروں کے ایک حصے سے کربناک چیخ سنائی دی’’یہاں آشویز Auschwitzکا سائنس بورڈ لگا ہے!‘‘۔ ایک لمحے کے لیے جیسے سب کے دل دھڑکنا بھول گئے!
آشویز Auschwitz، یہ نام خوف اور دہشت کی علامت تھا: گیس چیمبر، بھٹیاں، اور قتل عام اس کی پہچان تھے۔ دھیرے دھیرے، ہچکچاتے ہوئے ریل آگے بڑھی، کہ جیسے اپنے مسافروں کو اس خوفناک خواب سے کسی طرح نکال لے جائے گی۔ ہم آشویز پہنچادیے گئے تھے! یہ تلخ ترین حقیقت اب ہمارے وجود میں سرایت کرچکی تھی!
جوں جوں صبح کی روشنی پھیل رہی تھی، اس بہت بڑے کیمپ کے خط و خال واضح ہوتے چلے جارہے تھے: خاردارتاروں کی باڑھیں دور تک کھنچی ہوئی نظر آرہی تھیں؛ واچ ٹاورز؛ سرچ لائٹس؛اور پھٹے خستہ حال انسانوں کی قطاریں، ملگجی صبح میں یہ ملگجے ملگجے سے لوگ الگ تھلگ سیدھی سڑکوں پرچلے جارہے تھے۔ یہ کہاں جارہے تھے؟ اور ان پر چیخنے چلانے اور حکم چلانے والے کیا کہہ رہے تھے؟ ہم قطعی ناواقف تھے۔ اُس لمحے میرا تخیل کسی ایسے پھانسی گھاٹ تک لے گیا جہاں بہت ساری لاشیں جھول رہی تھیں۔ میں بہت زیادہ ڈر گیا تھا! مگریہ ڈر جیسے کوئی بات ہی نہ تھی!کیونکہ ہمیں بہت جلد ان ہولناکیوں کا عادی ہوجانا تھا۔
ہمیں ریل سے اسٹیشن پر دھکیل دیا گیا۔ جرمن گارڈز کی چیخ پکار نے جیسے خاموشی توڑڈالی تھی۔ (باقی صفحہ 41پر)
اب ہمیں ان کریہہ آوازوں اورکرخت لہجوں کا مسلسل سامنا کرنا تھا، یہ ایک کیمپ سے دوسرے کیمپ تک آسیب کی طرح ہمارا پیچھا کرتی رہی تھیں۔ دھونس، دھمکی، اور حقارت سے لتھڑی کرخت آوازیں سماعت خراش تھیں ، ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کسی فرد کو بار بار قتل کیا جارہا ہو، اور وہ اذیت سے دوہرا ہوا جارہا ہو۔
جب ہماری بوگی کا دروازہ کھُلااور قیدیوں کا ایک گروہ اندر دھکیل دیا گیا، توہم کچھ الجھ گئے۔ یہ قیدی دھاری دار وردیاں پہنے ہوئے تھے، بالکل گنجے تھے، مگر صحت مند نظر آتے تھے۔ یہ قیدی یورپ کی ہر زبان ہی بول رہے تھے، ان سے حس مزاح کا اظہار بھی ہورہا تھا، جو ان حالات میں ہم پر شدید ناگوار گزررہا تھا۔ ایک ایسے آدمی کی مانندکہ جس کے لیے ’’ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ہی بہت‘‘ ، مجھے کچھ امید بندھی کہ شاید میں بھی کبھی اس قسم کے خوش باش قیدیوں کی سی حیثیت اختیار کرلوں گا! میں فطرتا رجائیت پسندتھا: (ایک ایسی کیفیت جس نے مجھے انتہائی مایوس کُن صورتحال میں بھی سنبھالے رکھا تھا)۔
علم نفسیات میں ’یقین کی ایک کیفیت‘ کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اسے “delusion of reprieve.”کہا جاتا ہے۔ اس کیفیت میں ایک نیم مردہ آدمی ، سزائے موت سے ذرا پہلے تک، اس مغالطہ میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ شاید آخری لمحہ میں کسی طرح بچ جائے گا!
ہم سب بھی اُمید کے چیتھڑوں سے چمٹے رہے اور یقین کرتے رہے کہ یہ سب اتنا بُرا بھی ثابت نہ ہوگا!
ہمارے لیے ان قیدیوں (جو انہیں ریل سے کیمپ منتقل کرنے آئے تھے) کے لال لال گال اورگول مٹول چہرے بڑی اُمید تھے۔
ہم تب کہاں جانتے تھے کہ یہ وہ چنیدہ اشرافیہ تھی ، جو سالوں سے ہر آنے والے دن اسٹیشن سے قیدیوں کو کیمپ منتقل کرتی رہی تھی!
غرض، انہوں نے ہم قیدیوں کا سارا سامان قبضے میں لے لیاتھا۔ یہ سالوں سے ہورہا تھا۔ اس سامان میں سونے چاندی کے زیورات اور دیگر قیمتی اشیاء شامل تھیں۔ یقینا آشویز وہ عجیب مقام تھا جہاں قیمتی اشیاء کا منفرد ذخیرہ جمع ہوچکا تھا۔ یہ صرف گوداموں تک محدود نہ تھا، بلکہ ایس ایس(جرمن محافظوں) کی کلائیوں میں قیمتی گھڑیوں کی صورت بھی دکھائی دیتا تھا۔
(جاری ہے)