دنیا کے دیگر پیشوں کی طرح شعبہ صحافت کو بھی ایک انتہائی اہم اور نہایت ذمہ دارانہ پیشوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ جہاں اخباری مدیران ،مدیران خبر،رپورٹروں، فوٹو گرافروں، کیمرہ مینوں، کمپیوٹر آپریٹروں اور دیگرمتعلقہ تکنیکی عملہ سمیت ہزاروں ملازمین خدمات انجام دے رہے ہیں۔صحافت کے پیشہ کو بھی دنیا کے دیگر لازمی درجہ کے پیشوں مسلح افواج ،پولیس، صنعت ہوابازی، ہوٹل،بندرگاہوں، صنعتی پلانٹس اور بڑے بڑے پیداواری کارخانوں کی طرح لازمی خدمات کے اداروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ جہاںصحافی حضرات ہر قسم کے موسمی و قدرتی آفات، زلزلہ، سیلاب، بارش، آندھی، طوفان، شورش اور کرفیو اور حتیٰ کہ دوران جنگ بھی عوام الناس کو تازہ ترین خبروں کی فراہمی کے لئے نہایت محنت،تندہی اور فرض شناسی سے اپنے فرائض منصبی کی انجام دہی میں مصروف ہوتے ہیں۔ صنعت ابلاغ کے اداروں میں اخبارات و جرائد، خبر رساں ادارے،ریڈیو ،سرکاری اورنجی ٹی وی چینلز شامل ہیں۔
حکومت پاکستان کے ادارہ شماریات کے مطابق اس وقت ملک بھر میں چھوٹے بڑے اخبارات و جرائد کی تعداد کم و بیش707 اور پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی(PEMRA)کے مطابق نجی ٹی وی چینلز کی تعداد89 ہے۔جبکہ ملک بھر میں متعدد خبر رساں ادارے بھی قائم ہیں ۔ جہاں ہزاروں کارکن صحافی، تکنیکی اور دیگر عملہ رات کے اوقات میں خبروں کی ترسیل، وصولی، خبروں کی تیاری، فلمبندی،تدوین، اشاعت و نشریات اور دیگر انتظامی امور کے لئے خدمات انجام دے رہے ہیں۔
19ویں صدی میںدنیا میں صنعتی انقلاب برپا ہونے کے بعد صنعتوں میں خدمات انجام دینے والے ملازمین اور کارکنوں کے حالات کار کے متعلق گوناگوں مسائل سامنے آئے جن میں ان کے اوقات کار کا مسئلہ سر فہرست تھا۔دنیا بھر میں معیار محنت کی تشکیل، پالیسی سازی اور مرد و خواتین ملازمین کے لئے مہذب کام کے فروغ کے لئے کوشاں عالمی ادارہ محنت(ILO) کے ایک جائزہ کے مطابق دن کے بجائے رات میں خدمات انجام دینے والے ملازمین کی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ چنانچہ1919ء میں عالمی ادارہ محنت کے قیام کے ابتدائی برسوں میں رکن ممالک کے اجلاسوں میں طویل بحث و مباحثہ کے بعد ملازمین اورکارکنوں کے اوقات کار کے متعلق عالمی محنت معیار کے تحت یہ حقیقت تسلیم کی گئی تھی کہ کام کے زائد اوقات ملازمین اور کارکنوں کی صحت اور ان کے اہل خانہ کے لئے باعث نقصان ہیں۔ لہٰذا 29اکتوبر1919ء کو واشنگٹن ،ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں منعقدہ رکن ممالک کے اجلاس میں عالمی ادارہ محنت کی جانب سے طے کردہ کام کے گھنٹوں کے پہلے عہد وپیماں(Convention) میں ملازمین اور کارکنوں کے لئے کام کے محدود گھنٹوں اور مناسب عرصہ آرام فراہم کرنے کے لئے ایک قانون منظور کیا گیا تھا۔جو دنیا کی صنعتی تاریخ میں ملازمین اور کارکنوں کے اوقات کار کے حوالہ سے ایک اہم سنگ میل کا درجہ رکھتاہے۔اسی طرح عالمی ادارہ محنت کی مجلس عاملہ کے جنیوا میں منعقدہ14ویں اجلاس 10جون1930ء میں بھی تجارت اور دفاتر میں خدمات انجام دینے والے کارکنوں کے لئے کام کے مقررہ گھنٹوں کی منظوری دی گئی تھی۔ جس کا اطلاق تمام عوامی اور نجی شعبوں کے تجارتی و کاروباری اداروں بشمول ڈاک، ٹیلیگراف و ٹیلی فون سروسز اور کسی بھی تجارتی و کاروباری ادارہ کی شاخوں پر بھی کیا جائے گا۔عالمی ادارہ محنت کے ان درج بالا عہد و پیمان کے ذریعہ ملازمین اورکارکنوں کے لئے عام معیار کے مطابق دن میں8 گھنٹے کام یا ایک ہفتے میںکام کے48 باقاعدہ گھنٹے مقرر کئے گئے تھے۔
ماہرین صحت کے مطابق رات کی شفٹ میں کام کرنے سے انسانی صحت پر بے شمار مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جن میں قدرتی نیند کے سرور میں خلل، بلند فشار خون، دورہ قلب،تنائو، میٹابولزم میں تبدیلی، امراض معدہ کے مسائل،موٹاپا ، ذیا بیطیس، خواتین میں چھاتی کا سرطان اور جسم کے لازمی وٹامن ڈی سے محرومی کے خطرات میں اضافہ اور ان کی سماجی زندگی متاثر ہوسکتی ہے۔ عالمی ادارہ محنت کے عہد و پیماں نمبر171 بابت 1990کے مطابق رات کے کام کی تعریف’’ کسی کارکن کی جانب سے کم از کم مسلسل سات گھنٹے کام اور نصف شب سے صبح پانچ بجے تک وقفہ آرام ‘‘۔ بیان کی گئی ہے۔ایک طبی تحقیق کے مطابق دن کے بجائے رات میں خدمات انجام دینے ملازمین اور کارکنوںکی صحت کو سنگین خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
عالمی ادار صحت(WHO) کی کارکنوں کے اوقات کار کے متعلق ایک جائزہ رپورٹ میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ زیادہ دیر تک کام کرنا اچانک موت کی وجہ ہوسکتا ہے۔ اسی رپورٹ کے پیش نظر جنوبی کوریا میں ملازمین کو ہدایت کی گئی تھی کہ کمپیوٹر بند کرو اور گھر جائو۔انسانی صحت اور اوقات کار کے موضوع پرایک حالیہ طبی تحقیق کے مطابق صنعتی،کاروباری اور تجارتی اداروں میں طویل اوقات کار کے باعث لاکھوں کارکنان کی اچانک ہلاکتیں ہورہی ہیں۔عالمی سطح پر کی گئی تحقیق کے مطابق سال2016ء میں دنیا بھر کے مختلف اداروں اور دفاترمیں طویل اوقات کار کے باعث745000 ملازمین دل کا دورہ پڑنے یا فالج ہونے سے زندگی کی بازی ہارگئے۔ تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ ہفتے میں55گھنٹے یا اس سے زائد اوقات تک کام کرنے والے ملازمین میں فالج کے حملے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں اور دورہ قلب سے اموات کی شرح،35تا40گھنٹے کام کرنے والوں کے مقابلہ میں 17فیصد زیادہ ہوتی ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا اور مغربی بحرالکاہل کے ممالک کے ملازمین سب سے زیادہ متاثر پائے گئے۔ عالمی ادارہ صحت نے یہ بھی خبردار کیا ہے کہ کورونا کی حالیہ وبا کے باعث اس رحجان میں مزید تیزی آسکتی ہے۔
پاکستان میں بھی طویل اوقات کار،کام کے دبائو، ذہنی دبائو اور اداروں کی جانب سے کارکنان کو بروقت تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور بے روزگاری کے مسائل کا شکار متعدد صحافی اچانک موت کا شکار ہوئے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی اسی رپورٹ کے پیش نظر جنوبی کوریا میں ملازمین کو ہدایت کی گئی تھی کہ اب اوور ٹائم نہیں ہوگا ،ملازمین 8بجے کمپیوٹر بند کریں اور گھر جائیں۔سال 2018ء میںحکومت نے دارالحکومت سیئول میں ملازمین کو بروقت گھروں پر بھیجنے کے لئے ایک نئے اقدام کا اعلان کیا تھا، جس کے تحت جمعہ کی شب 8بجے تمام کمپیوٹر بند کرنا ہوں گے۔ حکومت کہنا ہے کہ وہ’’ اوورٹائم کام کرنے کی روایت‘‘ کو ختم کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔واضح رہے کہ جنوبی کوریا کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے کہ جہاں ہفتے میں سب سے زیادہ گھنٹے کام لیا جاتا ہے۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جنوبی کوریا میں ملازمین سالانہ اوسطاً 2,739گھنٹے کام کرتے ہیں ۔جو دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک کے ملازمین کے مقابلے میں 1,000گھنٹے زیادہ ہے۔
تفصیلات کے مطابق لندن کی ایک عالمی براڈ کاسٹنگ کمپنی میں گزشتہ 20برسوں سے رات کے اوقات کار میں خدمات انجام دینے والی 43سالہ برطانوی خاتون صحافی اور براڈکاسٹر کورڈیلا فیلویز نے صحافیوں کے رات کے اوقات میں کام کرنے کو قبرستانی شفٹ (Graveyard Shift)کا نام دیا ہے۔ انہوں نے نامہ نگار جولیٹ رینر کو رات کے اوقات کار کے نقصانات کے سیاہ سچ سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک طویل عرصہ سے نشریاتی ادارہ میں رات کے اوقات میں خدمات انجام دینے کے دوران میں بڑی آنت کی Endoscopies اور مانع افسردگی ادویات کے باعث قبض کا شکار ہوگئی تھی۔میری جلد سرمئی اور میرا موڈ مستقل گرا ہوا رہنے لگااور میرے سر کے بال جھڑنے لگے تھے۔ جب میں نے کمپنی میں شمولیت اختیار کی تھی تو مجھے یقین دلایا گیا تھا میرے لئے رات کے اوقات کار اختیار کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔یہ ایک باوقار اور باعزت ملازمت تھی کہ جس کی خاطر میں نے غیر سماجی گھنٹوں کی یہ زندگی اختیار کرلی تھی اور اس وقت میں جوان، پھرتیلی اور شوہر اور بچوں کے جھنجھٹ سے بھی آزاد تھی ۔ان دنوںمجھے اوسطاً ہفتے میں رات کی چار شفٹوں میں کام کرنا پڑتا تھا ،اس کے بعد چار دنوں کی چھٹی اورپھر چار دنوں کی پہلی شفٹ، پھر چار دنوں کی چھٹی اور پھر چار راتوں کی ڈیوٹی پر واپسی۔
یہ سلسلہ مسلسل پورے سات برسوں تک جاری رہا ۔ میں قطعیت کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ دن کے دوران سکون کی نیند لینا، خصوصا جب آپ گنجان آباد شہر لندن کے ایک فلیٹ میں رہتے ہوں،کانوں میںEar Plug لگانے کے باوجود تقریباً ناممکن تھا۔ میں دن میں کئی بار دروازہ پر گھنٹی بجنے پرہڑبڑاکر اٹھ جایا کرتی تھی، اکثر ایک ڈیلیوری مین تو ہمیشہ ہی غلط فلیٹ کی گھنٹی بجادیا کرتا تھا، لندن شہر کی سڑکوں کاپرشور ٹریفک، فلیٹوں کے ہمسایوں کی بلندآوازیں اور ٹیلی فون کی بجتی گھنٹیاں ،خوش قسمتی سے کسی دن خواہ کسی بھی شفٹ کے بعدمیں چار سے چھ گھنٹے کی بری طرح ٹوٹی ہوئی نیند پوری کرلیا کرتی تھی۔ مجھے یقین ہے کہ دن کی روشنی میں نیند لینے کی کوشش کے نتیجہ میں،میںغیر معمولی ہلکی نیند والی شخصیت بن گئی تھی۔
اس دوران میری یومیہ خوراک بھی متاثر ہوئی تھی، میں ہمیشہ دبلی رہی ہوں لیکن اس دوران میرا وزن کافی حد تک بڑھ گیا تھا۔ اس کی اہم وجہ یہ تھی کہ میں زیادہ تروقت باقاعدگی سے کھانا نہیں کھا پاتی تھی۔ بلکہ میں نے رات کی شفٹ کے دوران ہلکی پھلکی بھوک کے لئے جنک فوڈکا زیادہ استعمال شروع کردیا تھا۔ اپنی نائٹ شفٹوں کے دوران میں نے مکمل طاقت کے کین اور چینی بھرے چاکلیٹ باربھی کھانا شروع کردیئے تھے۔ میری مسلسل بے قاعدہ نیند اور غیر معیاری غذا کے منفی اثرات فوری طور پر سامنے آنا شروع ہوگئے تھے۔ میںایک طویل عرصہ تک بے خوابی کی مریضہ بن گئی تھی اور اس کے نتیجہ میں، میں نے ہر دستیاب خواب آور ادویات خود پر آزمائیں اور طویل عرصہ تک ان کا استعمال کیا ۔ صحت کی دن بدن بگڑتی صورت حال کے باعث میں نے چند ماہ قبل اپنے ڈاکٹر سے رجوع کیا تھا۔ جس نے میرے طبی معائنہ کے بعد مجھے فوری طور پر رات کے اوقات میں کام بند کرنے کا مشورہ دیا۔اس کے بعد میں نے جب اپنے ادارہ کے منیجر سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے ادارہ کے مقررہ معالج سے میرے لئے وقت لے کر دیا ۔اس معالج نے بھی یہی بات کہی کہ مجھے اب فوری طور پر رات کے اوقات میں کا بند کردینا چاہیے۔
انسانی صحت کو پہنچنے والے اسی سنگین خطرہ کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی ادارہ محنت(ILO) نے اپنے مقرر کردہ عالمی معیار محنت اور قانون سازی مرتب کرتے وقت ابتدا میں خواتین کے لئے رات کے اوقات میں کام کو ممنوع قرار دیا تھا۔عالمی ادارہ محنت کی مجلس عاملہ کے جنیوا میں منعقدہ77ویں اجلاس بابت 6جون1990 میں رات کے اوقات میں خدمات انجام دینے والے ملازمین اور کارکنوں کے لئے دن میں خدمات انجام دینے والے ملازمین اور کارکنوں کے مقابلہ میں’’ مناسب مالی معاوضہ‘‘ کے عہد و پیمان نمبر178کی منظوری بھی دی گئی تھی اور اسی فیصلہ کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا بھر میں لازمی پیشوں سے وابستہ ملازمین اور کارکنوں کی لازمی خدمات اور صحت پر مضر اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور ان کی حوصلہ افزائی کی غرض سے دن میں خدما ت انجام دینے والے ملازمین اور کارکنوں کے مقابلہ میں انہیںاضافی تنخواہیں، ادائیگیاں اور دیگرسہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔
پاکستان نے بھی عالمی ادارہ محنت کے رکن ملک کی حیثیت سے محنت کے شعبہ میں عالمی ادارہ محنت کے تمام عہد و پیمان کی توثیق کی ہوئی ہے ۔جس کے مقرر کردہ قوانین معیار محنت،عمدہ کام ہفتے میں چنانچہ ملک میںوفاقی اور صوبائی حکومتوںنے نجی شعبہ میں خدمات انجام دینے والے ملازمین اور کارکنوں اور ان کے اہل خانہ کی فلاح و بہبود کے لئے ورکرز ویلفیئر فنڈ (WWF)،ایمپلائیزاولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن (EOBI) اور صوبائی سطح پر ادارہ ہائے سماجی تحفظ اور دیگر فلاحی محکمے قائم کئے ہوئے ہیں۔جن کے قیام کا مقصد نجی صنعتی، کاروباری،تجارتی اداروں اور پبلک سیکٹر کے اداروں میں خدمات انجام دینے والے ملازمین اور کارکنوں کو حکومت کی نگرانی اوران کے آجران کی مالی سرپرستی اور تعاون سے قوانین محنت،اوقات کار، کم از کم اجرت، بچوں کی تعلیم وتعلیمی وظائف، جہیز امداد اور وفات امداد اور علاج و معالجہ اور ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن کی سہولیات بہم پہنچانا ہے۔ اخبارات و جرائد کے دفاتر میں خدمات انجام دینے والے ملازمین اور ان اخبارات و جرائدکے پرنٹنگ پریسوں اور دیگر شعبہ جات میں خدمات انجام دینے والے کارکنان بھی ان قومی و صوبائی اداروں کی فلا و بہبود کے زمرے میں آتے ہیں۔
پاکستان کے مروجہ ملازمتی قوانین کی رو سے تمام کاروباری، تجارتی، صنعتی، صحافتی،اشاعتی،نشریاتی اور دیگر نجی اداروں میں خدمات انجام دینے والے ملازمین خواہ ان کی ملازمت کسی بھی نوعیت کی ہو یعنی یومیہ اجرت،بدلی، تربیتی، موسمی ،عارضی، ٹھیکیداری یامستقل ،ایسے تمام ملازمین اور کارکنوں کے لئے ملازمتوں کے بنیادی حقوق بشمول 8گھنٹے کے اوقات کار اور ہفتہ واری رخصت فراہم کئے گئے ہیں اور آجران پر ان قوانین محنت پر عملدرآمد کے لئے قانونی و اخلاقی ذمہ داری عائد کی گئی ہے۔ ان بنیادی ملازمتی حقوق میں ملازمت فراہم کرتے وقت ملازمین / کارکنان کو تقررنامہ کا اجراء بمطابق قائمہ احکامات 1968، شرائط و ضوابط ملازمت ،کام کی صراحت ،اوقات کار کا تعین،تنخواہ اور الائونسز،ادارہ کے شناختی کارڈ کا اجراء ،کام کی جگہ حفاظتی اقدامات کی سہولت، ملازمت پر آمدورفت کے سواری کی سہولت، ذاتی اور اہل خانہ کے لئے علاج و معالجہ کی سہولت ،رخصت کی سہولیات ،اتفاقی /طبی/ استحقاقی/زچگی رخصت، بچوں کے لئے تعلیم کی سہولت، جنرل پروویڈنٹ فنڈ،ملازمین کا اجتماعی بیمہ ، اوور ٹائم ، دگنااوور ٹائم ،منافع کا بونس ،معیاری کھانے پینے کی سہولت کے لئے کینٹین کی سہولت، ملازم کی وفات کی صورت میں تدفین کے اخراجات اور متوفی ملازم/کارکن کے اہل بچہ یا بچی کے لئے ملازمت کی فراہمی، ملازمین/کارکنان اوران کے لواحقین کی پنشن کے لئے ای او بی آئی(EOBI) میں لازمی رجسٹریشن اور ماہانہ کنٹری بیوشن کی ادائیگی، ملازم اور اہل خانہ کے علاج و معالجہ کے لئے ادارہ ہائے سماجی تحفظ میں رجسٹریشن ، بچوں کی تعلیم اور تعلیمی وظائف،رہائشی سہولیات،علاج و معالجہ، بچیوں کی شادی کے لئے ایک لاکھ روپے کی جہیز گرانٹ اور دوران ملازمت حادثاتی وفات کی صورت میں5ؒٓلاکھ روپے کی وفات امداد(Death Grant) کے حصول کے لئے و رکرز ویلفیئر فنڈ(WWF) میں رجسٹریشن کرانا لازمی ہے۔
ہم نے پنشن کے قومی ادارہ ایمپلائیزاولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن(EOBI) میں طویل عرصہ ملازمت کے دوران افسر تعلقات عامہ کی حیثیت سے دنیا جہاں کی خبریں فراہم کرنے والے نامور اورتجربہ کار صحافی حضرات کو خو داپنے بنیادی ملازمتی حقوق اورحکومت کی جانب سے ملازمین کی فلاح و بہبود اور دیگر سہولیات کی فراہمی کے لئے قائم شدہ اداروں اور سہولیات کے معاملہ میں تقریباً لا علم پایا۔ لہٰذا ہم نے ای او بی آئی میڈیا ڈپارٹمنٹ کے سربراہ کی حیثیت سے شہر کراچی کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں سے تعلق رکھنے والے ایسے بے شمار صحافی حضرات کہ جنہیں ملازمت سے سبکدوشی کے بعد قوانین اور طریقہ کار سے لاعلمی اور دستاویزات کی کمی کے باعث اپنی ای او بی آئی کی ضعیف العمری پنشن کے حصول کے لئے دشواریوں کا سامنا تھا، ان کی مناسب رہنمائی اور تعاون کرکے ان کے لئے ضعیف العمری پنشن کی فراہمی کو یقینی بنایا۔ اس وقت بھی صورت حال یہ ہے کہ بیشتر اخبارت و جرائد، ریڈیو،اشتہاری اداروں،سرکاری و نجی ٹی وی چینلز اور دیگر صحافتی ادارے ای او بی آئی میں اپنی اور اپنے ادارے کے ملازمین کی رجسٹریشن اور ماہانہ کنٹری بیوشن کی ادائیگی سے یا تو لاعلم ہیںیا اس ذمہ داری سے کتراتے ہیں اور بعض رجسٹر شد ہ اخبارات و جرائد اور نجی ٹی وی چینلز کی انتظامیہ تو پنشن کی مد میں کنٹری بیوشن کی رقم بچانے کی غرض سے ای او بی آئی کے سامنے یا تو اصل تعداد سے کم ملازمین ظاہر کرتے ہیں یا بعض اخباری ادارے اپنے ملازمین کی تنخواہوں سے ماہانہ کنٹری بیوشن کٹوتی کرکے یہ رقم ای او بی آئی پنشن فنڈ میں جمع کرانے کے بجائے اپنے ادارہ کی دیگر مدوں میں استعمال کرکے امانت میںخیانت کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ اسی طرح ان اخباری اور ٹی وی چینلز کے اداروں کی جانب سے ملازمت سے سبکدوش ہونے والے اپنے ملازمین کو ملازمتی سرٹیفیکیٹ،ملازمتی دستاویزات کی تصدیق اور پنشن کی رقم کے تعین کے لئے ان ریٹائر ملازمین کی آخری برس کے12ماہ کی تنخواہوں کے گوشوارے فراہم کرنے میں بھی لیت و لیل کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔
دیکھا جائے تواس ترقی یافتہ دور میں بھی وطن عزیز میں صحافیوں اور دیگر ملازمین کو تقرر نامے کے عدم اجراء، طویل اوقات کار اوربروقت تنخواہیں اور دیگر بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی کی بدترین صورتحال کے باعث بیشتر اخباری ادارے اور ٹی وی چینلز صحافیوں کے لئے بیگار کیمپ کا درجہ اختیار کرگئے ہیں۔ جہاں صحافی حضرات اپنی راتوں کی قیمتی نیند قربان کرکے اور اپنی انمول صحت کو خطرات میں ڈال کر نا صرف اخبارات و جرائد کی بروقت اشاعت کو یقینی بنارہے ہیںبلکہ 24گھنٹے ٹی وی چینلز کی بلا خلل نشریات کی فراہمی کے ذریعہ عوام الناس کو لمحہ بہ لمحہ تازہ ترین خبروں کی فراہمی بھی یقینی بنارہے ہیں۔ لیکن افسوس صد افسوس ان بے لوث خدمات اور فرض شناسی سے اپنے فرائض کی انجام دہی کے باوجود صنعت صحافت سے وابستہ صحافی اور ملازمین کی ایک بڑی تعداد نا صرف اپنے بنیادی ملازمتی حقوق سے محروم ہے بلکہ ستم بالائے ستم بروقت اپنے فرائض انجام دینے کے باوجوداپنی کئی کئی ماہ کی تنخواہوں، ادائیگیوں اور دیگر بنیادی سہولیات سے بھی محروم نظر آتے ہیں اور بہت سے صحافی تو جان کی بھی بازی ہار گئے ہیںجو یقیناپورے ملک کی صحافی برادری کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔
اگرچہ گزرتے وقت کے ساتھ بیشتر قومی اخبارات اور ٹی وی چینلز میں ملازمین اور کارکنوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے ٹریڈ یونین سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں۔ لیکن ہر شہر میں صحافی حضرات کی فلاح و بہبود کے نام پر متعدد انجمنیں اور پریس کلب قائم ہیں۔ لیکن صحافیوں کے بنیادی ملازمتی حقوق،وقت پر تنخوہوں کی عدم ادائیگی،اچانک برطرفیوں، بیروزگاری، بقایاجات کی ادائیگی اور بڑھاپے میں پنشن اور طبی سہولیات کی فراہمی جیسے اہم مسائل کے حل کے لئے ان صحافتی تنظیموں کا کوئی خاص کردار نظر نہیں آتا۔ موجودہ دور میں ملک کے ابتر معاشی حالات، موجودہ حکومت کی میڈیا اور سرکاری اشتہارات کی پالیسی،کورونا وائرس کی لہر ،لاک ڈائون اور وقت کے بدلتے تقاضوں کے باعث اور عوام الناس میں تازہ ترین خبروں کے لئے سوشل میڈیا کی مقبولیت نے پرنٹ میڈیا کی صنعت کو تیزی سے زوال کی جانب گامزن کردیا ہے۔ چونکہ اب تقریبا تمام اخبارات و جرائد کے ای پیپر/ انٹرنیٹ ایڈیشن پر پڑھنے کے لئے دستیاب ہیں ۔لہٰذا اخبارات وجرائد کی سرکولیشن بھی دن بدن کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے۔لہٰذا بیشتر اخبارات و جرائد اور نجی ٹی وی چینلز اور خبر رساں اداروں میں صحافیوں اور دیگر عملہ کی ملازمتوں سے برطرفیوں اور تنخواہوں میں کٹوتی کا سلسلہ بھی تیزی سے جاری ہے ۔
اخباری صنعت میںیہ وطیرہ بھی عام ہوگیا ہے کہ کئی کئی دہائیوں تک قومی اخبارات و جرائد میں اہم ذمہ داریوں پر خدمات انجام دینے والے بزرگ صحافیوں کو ان کی ملازمت سبکدوشی کے موقعہ پر ان کی برسوں کی خدمات کے لاکھوں روپے کے واجبات ،جنرل پروویڈنٹ فنڈ، گریجویٹی اور ای او بی آئی پنشن کے حصول کے لئے ملازمتی سرٹیفکیٹ اور دیگر دستاویزات کی تصدیق اور ان کی ای او بی آئی پنشن میں رکاوٹیں ڈالنے کی غرض سے ملازمت کے آخری برس کی تنخواہوںکے گوشوارے بھی فراہم نہیں کئے جا تے اوراس مقصد کے لئے انہیں بار باراخبارات کے ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ کے چکر کاٹنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔جس کے باعث ان کی پنشن کی منظوری میں کافی تاخیر ہوجاتی ہے۔صنعت صحافت کو درپیش اس ابتر اور غیر یقینی صورت حال میں صحافیوں، اخبارات و جرائد اور ٹی وی چینلز سے وابستہ دیگر ملازمین کی ملازمتوں کے تحفظ،تنخواہوں کی بروقت ادائیگی اوران کے دیگربنیادی ملازمتی حقوق کے تحفظ کے لئے قانونی اور اخلاقی امداد فراہم کرنا اخباری مالکان اورصحافیوں کی ملک گیرتنظیموں کی اولین ذمہ داری ہے۔