امریکا ہارگیا،جہاد جیت گیا

فرائیڈے اسپیشل:- شہر کراچی کا افغان جہاد میں تاریخی کردار رہا ہے،آپ فتح کابل کو کس طرح سے دیکھتے ہیں؟
حافظ نعیم الرحمٰن::- آپ کی بات درست ہے کہ کراچی نے ہمیشہ دینی تحریکوں،مزاحمتی تحریکوں اور جہادی تحریکوں کی پشت بانی کی ہے اور یہ اس کا اعزاز ہے۔افغانستان میں جب روس نے حملہ کیا تھا تو پورے ملککے عوام اور جماعت اسلامی نےجہاد کی پشت بانی کی تھی اور کراچی میں خاص طور پر جامعاتمیں افغان مجاہدین کی قیادت کے لیے بڑے بڑےپروگرام کیے گئے اور پوری قوم کو ان کی پشت پر لا کھڑا کیا گیا تھا، اس میں بہت بڑا کردار شہر کراچی کا رہا ہے اس لحاظ سے ابھی جو فتح کابل ہوئی ہے۔ افغان طالبان نے بیس سال دنیا کی سب سے بڑی طاغوتی، سامراجی طاقت امریکہ کے خلاف جہاد کیا،ایک زبردست مزاحمت کی، جو اپنی فوجی قوت اور دولت کے لحاظ سے کئی گنا طاقت رکھتے تھے،اس کے ساتھ چالیس سے زائد ممالک کی افواج حملہ آورتھیں بد قسمتی سے پاکستان کی سرکار نے بھی اس وقت امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن افغان مجاہدین نے اپنی مزاحمت سے،جہاد اورایمان سے ان تمام طاقتوں کو شکست دی،افغان مجاہدین کابل میں فاتحانہ داخل ہوئے سب کے لیے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے اعلیٰ ترین مثال قائم کی ہے اور پوری شان و شوکت کے ساتھ انہوں نے یہ معرکہ سر کیا اور اسے ظاہر ہے اسلام کی فتح، ایمان کی فتح اور جہاد کی فتح سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:- طالبان کی فتح سے ایک بات اور بھی ثابت ہوتی ہے کہ ٹیکنالوجی ایمان کا مقابلہ نہیں کرسکتی، آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟
حافظ نعیم الرحمٰن::-بالکل گزشتہ تیس چالیس سال میں دیکھا گیا ہے کہ جہاں ٹیکنالوجی نے بہت بڑے پیمانے پر خود کو منوایا،سائنس نے ترقی کی،جدید دور میں جدید ترین اسلحہ ایجاد ہوا، میزائل، ڈیزی کٹر بم،یہ سب کچھ بھی ہم نے دیکھا لیکن ساتھ ہی ہم نےیہ بھی دیکھا کہ سارے ڈیزی کٹربم،ساری ٹیکنالوجی ہار گئی جس طرح حماس کا ایمان جیت گیا،لبنان اسرائیل جنگ میں حزب اللہ جیت گئی،اسی طرح افغانستان میں طالبان نے خود سے کئی بڑی قوتوں کو شکست دے دی۔ اسی طرح کشمیر میں اگرچہ کامیابی کے مراحل تک تو مجاہدین نہیں پہنچے لیکن دیکھا جائے تو کشمیری عوام کا جو جذبہ جہاد ہے اس نے ایک بہت زبردست مزاحمت تو پیدا کی ہوئی ہے، اس سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ جنگیں جذبہ ایمان سے لڑی جاتی ہیںاور جو بھی آپ کی استعداد ہوتی ہے اس کے ذریعے جیتی جاتی ہیں اور یقیں محکم عمل پیہم سے بالآخر کامیابی ہوتی ہے۔
ففرائیڈے اسپیشل:- ابھی بھی ایک طبقے کو اس بات کا یقین نہیں ہے کے افغانستان میں ایک معجزہ ہوگیا ہے ؟
حافظ نعیم الرحمٰن:: – جی ہاں! ایک طبقہ ایسا پیدا ہوجاتا ہے جو ذہنی طور پر غلام اور مرعوب ہوتا ہے، بڑی طاقت اور ٹیکنالوجی کو وہ خدا کا درجہ دے دیتا ہے،عملی اور ذہنی دونوں غلامی  قبول کرلیتا ہے۔ ایسے لوگوں کو تو یقیناً شاید آج بھی یہ یقین نہیں آرہا ہوگا کہ امریکہ ہارگیا ہے لیکن جو ایمان کی نظر سے دیکھنے والے ہوتے ہیں وہ دور تک دیکھتے ہیں ،آپ کو یاد ہوگا کہسید منور حسن صاحب بارہ سال پہلے یہ بات کہہ رہے تھے کہ ٘’’امریکہ زوال کی طرف جارہا ہے اور شکست کھا گیا ہےاور‘‘وہ اپنی فتح کو برقرار نہیں رکھ سکے گا۔ اس کا مطلب کیاہوا کہ جو بصیرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو اسلام کے پورے فلسفہ جہاد کو سمجھتے ہیں، اس کے تاریخی پس منظر سے واقف ہوتے ہیں وہ کبھی طاقت اور ٹیکنالوجی سے مرعوب نہیں ہوتے۔ آج بھی بہت سے لوگ پس و پیش سے کام لے رہے ہیں کہ ہمیں دیکھ لینا چاہیے، ہمیں انتظار کرنا چاہیے، امریکہ کو دیکھنا چاہیے، فلاں کو دیکھنا چاہیے۔ کیوں دیکھنا چاہیے؟ امریکہ تو ہار گیا ہے۔ کیونکہ اگر وہ دیکھ رہے ہوتے تھے تو آج سے دس سال پہلے کا امریکہ دیکھتے جوبلا کر طالبان سے مذاکرات کرنا چاہتا تھا اور طالبان مذاکرات نہیں کررہے تھے اور انہوں نے ہر ممکن کوشش کرلی کہ کسی طرح سے وہ مذاکرات کی میز پربیٹھیں لیکن بنیادی چیزوں پر جب تک اتفاق نہیں ہوا وہ بیٹھے نہیں پھر بالآخر کئی لوگوں کے ذریعے سے امریکہ طالبان مذاکرات ہوئے اور جنہیں امریکہ نے پکڑ پکڑ کر مارا تھا، پکڑا تھا اور اُس وقت پاکستان نے امریکہ کی کرائے کی حکومت کا کردار ادا کیا تھا اور پوری فوج کو اس کے پٹے پر دے دیا گیا تھا، ہوائی اڈے دے دیے تھے،یہاں تک کہ تمام سیاسی سفارتی آداب کو بدترین طریقے سے مسخ کرتے ہوئے ملا ضعیف کو گرفتار کروایا تھا،اس کے باوجود آپ دیکھیں کہ طالبان نے اپنی مرضی کے مطابق مذاکرات کیے،کسی ملک کو پاکستان سمیتدخل انداز نہیں ہونے دیا۔ انہوں نے یہ بات ضرور کہی کہ ہم پاکستان کا احترام کرتے ہیں لیکن ہم کسی ملک کو یہ اختیار نہیں دیں گے کہ وہ ہمارے معاملات میں دخل دے بلکہ ہم اپنے فیصلے خود کریں گے۔ تو جس کو یہ سب کچھ نظر نہیں آتا وہ تو کہیں گے کہ ہمیں دیکھ لینا چاہیے، ہمیں انتظار کرنا چاہیے۔
فرائیڈے اسپیشل:- طالبان کے خلاف بدترین تشدد ہوا،وہ ایک لمبا عرصہ مشکل حالات سے گزرے لیکن بکھرے اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں ہوئے یہ آپ کے نزدیک کتنی اہم بات ہے ؟
حافظ نعیم الرحمٰن:: جی !یہ اہم ترین با ت یہ ہے کہ بالعموم جب حکومتیں بنتی ہیں اور پھر حکومتوں کو طاقت کے ذریعے سے ہٹادیا جاتا ہے، آزمائشیں آتی ہیں، لوگ جیلوں میں جاتے ہیں تو تحریکیں دم توڑ دیتی ہیں خاص طور پر ایسی تحریکیں جہاں جہاد ہوتا رہاتو ایسی تنظیموں میں تو بہت ٹوٹ پھوٹ ہوجاتی ہےاور افغانستان میں بھی بدقسمتی سے روس کے جانے کے بعد مجاہدین میں بھی کئی تقسیم ہوئیں،لیکن طالبان کا ایک کمال یہ ہے کہ بیس سال کی مزاحمت میں بھی ان کی چین آف کمانڈ نہیں ٹوٹی۔ دوسری بات یہ کہ اندرون خانہ طالبان میں ایسا کوئی بحران پیدا نہیں ہوا جس کو آپ اخلاقی بحران بھی کہہ سکیں۔ اس پورے دور،جس میں وہ حکومت میں رہے یا مزاحمت میں بھی رہے ایسی کوئی مثال سامنے نہیں آئی کہ خدانخواستہ انہوں نے ایسی چیز کی ہو جو انسانی اخلاقیات یا دینی لحاظ سے،یا کرپشن کے اعتبار سے قابل اعتراض ہو۔ اور پچھلے دنوں وہ جس طرح فتوحات کررہے تھے تو کسی ایک جگہ سے بھی کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی کہ کسی نے اپنے طور پر کسی کمانڈر نے کوئی کام کرلیا ہو۔ چین آف کمانڈ بہت زبردست رہی اور ملا عمر کے انتقال کے بعد تو یہ مسئلہ بہت سنگین صورت اختیار کرگیا تو اور بعض لوگوں نے تو شاید اپنے طور پر ہی فیصلہ کرلیا تھا کہ طالبان ٹوٹ گئے ہیں لیکن آپ نے دیکھا کہ ملا ہبت اللہ کی قیادت میں یہ بالکل ایک رہے ہیں۔ انہوں ابتدائی دور کے مقابلے میں بہت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ابتدائی دور میں ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہاں وہاں سب جگہ سے لوگ شامل ہوگئے تھے تو کسی نے مسلک کو،کسی نے فرقہ کو،کسی نے دیوبندیت کو، کسی نے کسی چیز کو غالب کرنے کی کوشش کی اور اس کے یقیناً اس و قت اثرات پڑے ہوں گے، لیکن جو طالبان کا طرزِ عمل ہے وہ تو منجھے ہوئے بھی ہیں، وہ بین الاقوامی تعلقات کے ماہر بھی ہیں، وہ بہترین سفارت کار (diplomat) بھی ہیں اور بہترین فوجی بھی ہیں۔ اور آپ کیا چاہتے ہیں؟کسی جماعت کی ہم صرف اس بنیاد پر تو مخالفت نہیں کریں گے کہ وہ ہمیں پسند نہیں ہے یا ان کا مسلک یا ان کی زبان الگ ہے۔ اصل میںطرزِ عمل ہوتا ہے۔ آپ اگر طاقتور دشمن کے مقابلےمیں، طاغوت کے مقابلے میں مزاحمت کررہے رہیں اور ساتھ ہی اپنے بہترین اخلاقی کردار کا مظاہرہ بھی کررہے ہیں اور پھر نظم و ضبط کو بھی قائم رکھے ہوئے ہیں تو اسلام کو بھی یہی مطلوب ہے۔ کسی کا چہرہ اور حلیہ ہرگز مطلوب نہیں ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:- طالبان کے بارے میں یہ اندیشہ موجود تھا کہ وہ افغانستان کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سخت گیر رویے اختیار کریں گے، لیکن اب تک طالبان نے کسی سخت رویے کا اظہار نہیں کیا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے طالبان اپنے ماضی سے سبق سیکھا ہے؟آپ کیا دیکھتے ہیں کہ وہ آئندہ کس طرح آگے بڑھیں گے.؟
حافظ نعیم الرحمٰن::- ظاہر ہے کہ طالبان کا عمل ہی بتائے گا لیکن اس وقت تک کی جو صورتحال ہے اس میں تو حیرت انگیز طور پر بُردباری،غیرجذباتیت اور باوقار طریقے سے اپنا کام مکمل کیا ہے، جس پر انہیں خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔لیکن اس کے ساتھ میں یہ بھی کہوں گا کہ افغانستان ایک کثیر القومی اور کثیر اللسانی ملک ہے،اس کے جنوب مشرق میں بلوچ، مشرق میں پشتون،وسط میں ہزارہ، شمال اور مغرب میں تاجک اور پھرا سی طرح کئی جگہوں پر میں ازبک، عرب، ترکمان اور دیگر اقوام کی بھی قابل ذکر آبادیاں ہیں۔اسی طرح آٹھ سے دس فیصد ہزارہ شیعہ ہیں جن کی زبان بھی فارسی ہے۔جو وسط افغانستان کے صوبوں غور،غزنی اور بامیان کی اکثریتی قومیت ہیں اور صوبہ بلخ میں بھی خاصی تعداد میں آباد ہیں۔ ازبکستان اور ترکمانستان کی سرحد سے متصل صوبوں فاریاب، جوزجان، بادغیس اور سرائے پل میں ازبکوں اور ترکمانوں کی متعد بہ آبادی ہے اور دیگر اقوام بھی ہیں.افغانستان کا لسانی تنوع ماضی میں وہاں کی سیاست میں تنازع بن کر سامنے بھی آیا ہے .طالبان کو چاہیے اپنی موجودہ اسپرٹ کو برقرار رکھتے ہوے ان کے ساتھ بہتر تعلقات مستقبل میں بھی قائم رکھنے چاہئیں،یہ اُن کے لیے بالخصوص اور بحیثیت مجموعی افغانستان اور اس خطے کے لیے فائدہ مند ہے ۔
فرائیدے اسپیشل:.پاکستانی حکمران تو اب بھی امریکہ کی اور اقوام عالم کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ وہ طالبان کے لیے کیا رویہ اختیار کرتے ہیں؟
حافظ نعیم الرحمٰن::- پاکستان کی حکومت،یا امریکہ یا برطانیہ کی طرف سے یہ بات آرہی ہے ۔ جیسا کہبرطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے کہا ہے کہ کوئی افغانستان کو تسلیم نہ کرے۔ اب یہ باتیں پرانی ہوچکی ہیں،اب یہ ہار چکے ہیں شکست خوردہ ہیں ان کی خود کوئی ساکھ ہی نہیں رہی اور یہ اب اس کے مجاز ہی نہیں ہیں کہ اب افغانستان سے متعلق کوئی بیان بھی اخلاقی طور پر دے سکیں۔ نہ امریکہ اور نہ برطانیہ یہ پٹے ہوئے مہرے ہیں۔ لیکن اگر پاکستان کی حکومت یا کوئی بھی حکومت یا مسلم حکمران اب بھی امریکہ کے سحر سے آزاد نہیں ہوئے ہیں اور انہیں کی طرح کی بولی بولنا شروع کردیں کہ ایسا ہونا چاہیے ویسا ہونا چاہیے اور مداخلتیں شروع کردیں یا سازشیں شروع کردیں تو میرا خیال ہے کہ اس سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک عدم اعتماد کی فضا قائم ہوگی۔
پھر کہوں گا،عالمی دنیا اور امریکہ تو پٹ چکا ہے۔ اگر آپ ان کی طرف دیکھیں گے تو پٹے ہوئوں کے ساتھ کھڑے ہوجائیں گے، نہ اِدھرکے رہیں گے نہ اُدھر کے۔
دیکھیں امریکہ کے ساتھ کیا ہوا۔ امریکہ کی طاقت کا ایک بہت بڑا نشہ تھا کہ اس کے پاس عسکری طاقت بہت ہے، جو افغانستان میں تباہ ہوگئی۔ اخلاقیات کا تو ویسے ہی جنازہ نکال چکے ہیں اور نہ ان کے پاس کوئی اخلاقیات ہے۔ جو امریکہ عراق میں گھس آئے اور اقوام متحدہ سے قرارداد بھی پاس کروالے اور کہے کہ وہاں پروسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود ہیں اور بیس لاکھ عراقیوں کو قتل کردے، بچوں پر دوائوں کی پابندی لگا کر چھ لاکھ بچوں کو ماردےاور وہاں سے کچھ بھی نہ نکلے تو آپ بتائیں کہ اخلاقی ساکھ کہاں اور عسکری ساکھ پہلے ہی آپ کھو چکے۔ پھر مالیاتی اعتبار سے بھی ایک بہت بڑابحران سامنے آیا کہ 83 ملین ڈالر تین لاکھ فوجیوں کی تربیت کے لیے آپ نے خرچ کئے وہ کہاں چلے گئے آپ تو ٹریننگ بھی نہیں دے سکے۔ امریکہ تو شکست کھا چکامگر غلام ذہن یہ بات تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔ تو اس وقت تو ’’نو‘‘کہہ کر امریکہ سے بھی اپنی شرائط پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے حکمران چونکہ اس مائنڈ سیٹ سے نہیں نکلتے اس لیے وہ پاکستان کی اسٹرٹیجک پوزیشن کا فائدہ بھی نہیں اٹھاتے اور جس طرح خطے کی قوتیں پاکستان کے ساتھ رابطہ کرسکتی ہیں، چین، روس، ایران اور ترکی اس کا بھی فائدہ نہیں اٹھاتے۔کشمیر کا تحفظ بھی نہیں کرتے۔ یہ لوگ جہاد کا لفظ اپنی زندگی سے نکالنا چاہتے ہیں۔ ابھی بھی کوئی حکمران جہاد کی بات نہیں کرے گا اور یہ نہیں کہے گا کہ جہاد کامیاب ہوا ہے۔ مزاحمت کامیاب ہوئی ہے اور طاقت،قوت اور ٹیکنالوجی کو شکست ہوئی ہے یا امریکہ کو شکست ہوئی ہے۔ ہاں اسے جنگ کا نام دے دیں گے، اسے انارکی کا نام دے دیں گے۔ اصل بات یہ ہے کہ کہ امریکہ ہارگیاہے اور جہاد جیت گیا ہے، پہلے تو اس پر بات کریں اور پھر دوسری بات شروع کریں۔ یہ ایک نازک موقع ہے جس میں سنجیدہ طرزِ عمل اختیار کرنا ہوگا اور دونوں ممالک میں عدم اعتماد کی فضا کو ختم کرکے باہمی اعتماد کا جو رشتہ بھارتی و امریکی لابی کے باعث ٹوٹا ہوا ہے اس کو ازسرِ نو جوڑنے کی ضرورت ہے اور افغان طالبان سے بہترین رشتے استوار کرنے کی ضرورت ہے۔
امریکہ کے اس خطے میں آنے کے بعد جو سب سے زیادہ فائدہ اٹھا یا وہ امریکی سی آئی اے نےاٹھایا،ان کے بلیک واٹر نے، بھارت کی’’را‘‘نے،بھارتی فوج اور بھارت کی حکومت نےاور پٹھو حکومت بناکر جب امریکہ نے بٹھا دیتھی۔جب بھی وہ انتخاب کراتے تھے اس کا اصل نتیجہ کبھیسامنے نہیں آتا تھا ۔ دو دو صدرحلف اٹھاتے تھے پہلےایک صدر حلف اٹھاتا پھر دوسرا صدر حلف اٹھاتا یہ تو ان کی جمہوریت اور اس کا انتظام تھا۔جتنے سفارتخانے تھے بھارت کی’’را‘‘کے اڈے بن گئے، بلیک واٹر پاکستان کے اندر گھس بیٹھی،انہوں نے یہاں پر دہشت گردی کروائی اوراس پوری جنگ کے دوران پاکستان تقریباً 125بلین ڈالر کا نقصان پہنچا۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہماری معیشت کو کتنا نقصان ہوا۔ اس پورے عمل کے دوران پاکستان اور افغانستان کے عوام کے درمیان خرابی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ پاکستان کے پاس سنہری موقع ہے کہ طالبان کی اس مزاحمتی قوت کو کہ جس نے جہاد سے اپنی پوزیشن کو دوبارہ مستحکم کیا ہے اور دنیا کی سب سے بڑی طاقت کو ناک رگڑنے پر مجبور کیا ہےاس کو تسلیم کرے، اور یہ کہہ کر جان نہ چھڑائے کہ ہر ملک کے اپنے اپنے مسائل ہوتے ہیں، بات چیت بھی چل رہی ہے۔ صاف صاف طریقے سے پاکستان کو طالبان کی اس حکومت کو تسلیم بھی کرنا چاہیے اور تسلیم کروانے کے لیے بین الاقوامی سطح پر کوششیں کرنی چاہئیں۔ اس سے پاکستان اور افغانستان کے عوام ایک بار پھر قریب آجائیں گے اور بھارتی اور امریکہ کی سرپرستی میں کام کرنے والی لابیاں اور خود پاکستان کے اندر امریکہ نے اس حوالے سے بڑی سرمایہ کاری ہوئیہے ۔ آپ کو میڈیا میں بھی ایسے لوگ مل جائیں گے جو خوف پیدا کرتے ہیں، جو امریکہ کے گن گاتے ہیں، جو بھارت دوستی کا دم بھرتے ہیں لیکن ان کو افغان طالبان سے پریشانی ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کی بھی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے۔ ہاں!ایک بات کی بہت ضرورت ہے کہ پاکستان کو بطور ریاست اس مائنڈ سیٹ سے باہر نکلنا ہوگا کہ افغانستان پاکستان کی توسیع ہے۔ افغانستان ایک الگ آزاد مملکت ہے۔ پاکستان بھی اپنے مفادات پرکوئی سمجھوتہ نہ کرے اور افغانستان کے معاملات میں بھی مخل نہ ہو بلکہ برادرانہ سطح پر تعلقات کو استوار کرے۔ ظاہر ہے ایک طویل عرصہ سے ساتھ چلتے رہے ہیں تو یہ خیال پیدا ہوجاتا ہے کہ ہم جو چاہیں کرلیں لیکن پچھلے بیس سال کے تجربہ سے یہ بات ثابت ہوگیا ہے کہ اب وہ زمانہ نہیں رہا۔ اب افغان طالبان اپنی شرائط پر سب سے بات کرتے ہیں۔ جب وہ امریکہ سے اپنی شرائط پر بات کرتے ہیں،جب وہ چین سے اپنی شرائط پر بات کرتے ہیں، جب وہ روس سے مذاکرات کرسکتے ہیں، جب وہ ایران سے اپنے تعلقات بحال کرسکتے ہیں، جب وہ ترکی سے معاملات استوار کرسکتے ہیں جیسا کہ اردوان نے کہا کہ میں خود طالبان سے بات کروں گاتو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر پاکستان باہمی اعتماد کے ساتھ آگے بڑھے گا اور برادرانہ طریقے سے آگے بڑھے گا نہ وہ پاکستان میں مداخلت کرے اور نہ پاکستان وہاں پر مداخلت کرے تو یہ زیادہ اچھے طریقے سے عوام ایک دوسرے کے قریب آجائیں گےتجارتی اعتبار سے بھی اور خطے کے امن کے اعتبار سے بھی یہ بہت اہم چیز ہوگی۔ اور ساتھ ہی ایسے کسی بھی کام سے بچنا چاہیے جس میں امریکہ کے کہنے پر مختلف لوگوں کو جمع کرکے، پٹے ہوئے مہروں کو ساتھ بٹھا کر ایک مرتبہ پھر کسی سازشی عمل کا حصہ بنیں اس سے عدم اعتماد کی فضا قائم ہوگی اور اس سے مسائل بڑھیں گے۔
فرائیڈے اسپیشل:.آپ نے کہا کہ امریکہ اور نیٹو کو بدترین شکست ہوئی اور یہ اسلامی تاریخ کا بہت اہم واقعہ ہے لیکن اس اہم اور تاریخی واقع کا اس طرح ذکر نہیں ہورہا جس طرح ہونا چاہیے، اس پر آپ کیا کہیں گے؟
حافظ نعیم الرحمٰن:: – جس طرح پہلے عرض کیا کہ دو طرح کے طبقات ہوتے ہیں ایک تو وہ جن کے پاس دنیا میں طاقت،دولت اور چکا چوند ہوتی ہے، جو ان سے مفاد حاصل کررہا ہوتا اور ان کا زرخریدہوتا ہےیہ طبقہ بھی پاکستان کے حکمران طبقہ کے اندر پوری طرح سے موجود ہے۔ دوسرا طبقہ ہوتا ہے مرعوب اور غلام طبقہ جو ذہنی طور پر بھی غلام ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی ایک طبقہ ہوتا ہے جو ہوتا تو ان کے خلاف ہے لیکن شکست خوردہ ذہنیت کا حامل ہوتا ہے وہ بھی انتظار ہی کرتا رہتا اور نتیجے میں ساری ٹرینیں مس کردیتا ہے۔ یعنی جس وقت زور سے کہنا چاہیے کہ امریکہ کو شکست ہورہی ہے ۔ وہ شکست کی بات بھی نہیں کہہ پاتا اور یہ طبقہ تمام طبقات میں موجود بھی ہوتا ہے۔ خود مذہبی طبقات میں بھی آپ کو ایسے لوگ مل جائیں گے جو ذہنی طور پر شکست خوردہ ہوتے ہیں تو وہ ہر چیز میں حجتیں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں،ان کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ذہنی طور پر اس بات کو طے کرچکے ہوتے ہیں کہ دنیا کی جو طاقتور قوتیں ہیں ان پر کبھی زوال نہیں آئے گا۔ یہ انسانی کمزوریہے ۔ جو شخص بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ذرا سی ایسی بات کرے کہ جس میں ان طاقتور وں کی شکست کا تذکرہ ہوتو ایسے لوگ کہتے ہیں کہ یہ جذباتی بات ہے، یہ نعرے بازی ہے۔ ارے بھئی!افغانستان میں جذباتی بات نہیں ہوئی ہے، نعرے بازی نہیں ہوئی ہے ۔ افغانستان میں امریکہ ہار گیا ہے۔ افغانستان میں طالبان نے کابل سمیت پورے افغانستان پر اپنی حکومت قائم کرلی ہے۔عام معافی کا اعلان کیا ہےخون نہیں بہایا ہے۔ بہترین ڈپلومیٹ ثابت ہوئے اور بڑی بڑی ٹریننگ حاصل کرنے والے ان کے سامنے زیرو ہوگئے ہیںاور ایسے لوگ کامیاب ہوئے ہیں جن کو خدا نے بصیرت سے نوازا ہے۔شکست خوردہ ذہنیت تحریکوں کی پیش قدمی میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوتی ہے۔
یہ بات سمجھنے کی ہے کہ طالبان پہلے حکمران تھے اور امریکہ نے آکر ان کو ہٹایا تھا اب جب امریکہ گیا ہے اور انہوں نے خود کو ایک زمینی حقیقت بنایا ہے تو ہمیں پریشانی کی کیا ضرورت ہے کہ ہم سب کو ملا کریہ افغان طالبان فیصلہ کریں گے کہ کس کو ملانا اور کس کو نہیں ملانا ہے کیونکہ وہ ایک حقیقت ہے اور انہیں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرسکیں۔ دوسری بات یہ کہ کسی بھی ایسے عمل سے پاکستان کو پرہیز کرنا چاہیے کہ جس سے افغان عوام اور طالبان حکومت کو یہ پیغام ملے کہ ہم کسی اور کے کہنے پر ان کے خلاف کوئی ساز ش کررہے ہیں اور ایسے تمام لیڈر جو بھاگ بھاگ کر مختلف ممالک میں جارہے ہیں تو ان کی بھی ذمہ داری ہے کہ اگر وہ صحیح معنوں میں افغانستان میں امن دیکھنا چاہتے ہیں تو وہ طالبان کے ساتھ معنی خیز مذاکرات کریں بجائے اس کے کہ بین الاقوامی طاقتوں کی طرف دیکھ کر ایک سازشی عمل سے طالبان کے خلاف کوئی کام کریں۔ پاکستان کو ایسے کسی عمل کا حصہ نہیںبننا چاہیے چاہے کیسی ہی بڑی شخصیت ہو۔ اصل بات یہ ہے کہ بیس سال کے تجربہ نے یہ بات بتائی کہ امریکہ کی دوستی ناپائیدار دوستی ہے اور جنہوں نے بھی امریکہ پر بھروسہ کیا انہیں چھوڑ کر امریکہ بھاگ گیااور بعد میں ان کا کوئی پرسان حال نہ رہا۔ امریکہ کسی کا دوست نہیں ہوتا اور خاص طور پر مسلمانوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ امریکہ صرف اپنے مقاصد کے لیے لوگوں کو استعمال کرتا ہے اور پھراس کے آلہ کاروں کو بھاگ بھاگ کر جہاز میں چڑھنا پڑتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: – امریکہ کے آنے کے بعد ہماری افغانستان کی سرحد غیر محفوظ ہوئی اب طالبان کی فتح کے بعد آپ کیاسمجھتے ہیں؟
حافظ نعیم الرحمٰن: پاکستان کی ریاست اور پاکستان کی حکومت حقائق کا صحیح طریقے سے ادراک کرکے اور امریکہ کی غلامی سے نکل کر ٹھیک طریقے سے برابری کی سطح پر افغانستان سے تعلقات استوار کرے۔اس وقت سب سے اہم بات ہے کہ بھارت کمزور ہوا ہے۔اس پر پاکستان کو خدا کا شکر بھی ادا کرنا چاہیے کہ ہمارے اپنے ہی اعمال کے نتیجے میں جو کچھ ہم نے انڈیا کو سہولت فراہم کی تھی طالبان کے جہاد کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ہم سے وہ مصیبت دور کی ہے اور اس کا راستہ بنایا تو ہمیں اسی طریقے سے چیزوں کو لے کر چلنا چاہیے۔ پاکستان کے لیے بہت اچھا ہوسکتا ہے اور میں بار بار یہی کہوں گاکہ پاکستان اور طالبان کے عوام کے درمیان جو دوریاں ہیں وہ ختم ہوسکتی ہیں۔