افغانستان کے دارالحکومت کا انتظام سنبھالنے کے بعد یہ واضح ہو چکا ہے کہ کم از کم مستقبل قریب میں طالبان ہی ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہوں گے۔افغانستان کا سب سے بڑا پڑوسی ہونے کے ناطے سرحد پار اس بڑی تبدیلی سے پاکستان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہی وجہ ہے معاملے پر غور کے لیے وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا ہے جس میں اعلامیہ جاری کیا گیا کہ ’پاکستان تمام لسانی گروہوں کو شامل کر کے سیاسی تصفیے کے ذریعے افغان مسئلے کے حل کے لیے پرعزم ہے، اور پاکستان کی جانب سے فریقین سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ قانون کی حکمرانی کا احترام کریں، انسانی حقوق کا تحفظ کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ افغان سرزمین دہشت گرد تنظیموں اور گروہوں کے ہاتھوں استعمال نہ ہو۔
کابل کی صورت حال کا ایک تجزیہ تو یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد پاکستان کو یہ اطمینان تو ہوا کہ وہاں بھارت نواز سمجھے جانے والی حکومت اب نہیں رہی، مغربی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ طالبان ضروری نہیں کہ بھارت کے ساتھ سفارتی تعلق نہ رکھیں اسی لیے اسلام آباد میں بجا طور پر تشویش ہے کہ افغانستان طالبان کی کامیابیاں کہیں پاکستان میںٹی ٹی پی کی حوصلہ افزائی کا باعث نہ بن جائیں، قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے اعلامیے میں بالواسطہ طور پر طالبان سے کہا گیا ہے کہ ’وہ یقینی بنائیں کہ ٹی ٹی پی افغانستان کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں میں استعمال نہ کرے، کچھ تجزیہ کار یہ بھی خیال کرتے ہیں اسلام آباد اور کابل کو باہمی اعتماد بڑھانا ہوگا کیونکہ اگر مشرف دور دیکھا جائے تو ملا ضعیف کیس سمیت بے شمار واقعات ہیں، جن کی تلخی کہیں محسوس کی جارہی ہوگی، ابھی حال ہی میں پاکستان نے طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد افغان اولسی جرگہ کے سپیکر میر رحمان رحمانی کی قیادت میں آنے والے وفد کی میزبانی کی ہے، اس میزبانی کے اثرات بھی لازمی پیدا ہوں گے کیونکہ وفد میں غیر پشتون رہنما طالبان مخالف سمجھے جاتے ہیں وفد میں محمد یونس قانونی، استاد محمد کریم، احمد ضیا مسعود، احمد ولی مسعود، عبداللطیف پیدرام اور خالد نور شامل تھے یہ رہنما پہلے پاکستان نہیں آتے تھے، لیکن جب کابل ہاتھ سے نکلا تو پاکستان آنے پر آمادہ ہوئے تھے اور پاکستان کو ان سے فوری ملاقات نہیں کرنی چاہیے تھی۔
اسلام آباد میں ایک حلقے کی رائے ہے کہ اگر طالبان ضمانت دے رہے ہیں کہ افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی تو ہمیں ان پر بھروسہ کرنا چاہیے اور اچھی امید رکھنی چاہیے، بہر حال ابھی حتمی فیصلہ کرنے میں اسلام آباد کے پاس بہت وقت ہے، کیونکہ کابل میں وہی ہوا جو امریکہ کے انخلا کے بعد متوقع تھا، افغان طالبان ایک بار پھر کابل کے حکمران بن گئے ہیں، نائن الیون کے بعد بیس سال قبل امریکہ اور دنیا پھر کے چالیس ممالک کی افواج امریکہ کے تجارتی ٹاور کے انہدام کے بعد دہشت گردوں کی تلاش میں کابل پر چڑھ دوڑی تھیں امریکی صدر بش نے پاکستان سے پوچھا کہ ہمارے ساتھ ہیں یا دہشت گردوں کے ساتھ، پاکستان کے حکمران جنرل مشرف، جن کے ساتھ صدر بل کلنٹن نے اپنے مختصر ترین دورہ اسلام آباد کے دوران ہاتھ ملانے اور تصویر کھنچوانے سے گریز کیاتھا، جنرل مشرف نے یہ موقع غنیمت جانا اور فوراً ہاں کردی کہ وہ امریکہ کے ساتھ ہے، جنرل مشرف کے دور میں پاکستان نے امریکہ اور نیٹو فورسز کا اس حد تک ساتھ دیا کہ ہم سفارتی ضابطے فراموش کر بیٹھے اور افغان سفیر ملا ضعیف کو خود گرفتار کرکے امریکہ کے حوالے کیا اور امریکیوں کو محفوظ زمینی راستہ دیا ، اسے تین ایئر پورٹ دے دیے اور اسے لاجسٹک سپورٹ فراہم کی، فرائیڈے اسپیشل کی معلومات کے مطابق یہ لاجسٹک سپورٹ اس حد تک تھیں کہ امریکیوں کے جوتے کے تسمے بھی فراہم کرنا پڑتے تو پرویز مشرف یہ کام بھی کر گزرتے، کابل سے متعلق اپنی پالیسی سے انحراف کرنے پر پرویز مشرف نے اپنے ساتھی رفیق کار محمود خان سمیت تین ساتھیوں کو ملازمت سے قبل از وقت جبری رخصت پر بھیج دیا تھا، امریکہ نے لاجسٹک سپورٹ کی فراہمی کے لیے پاکستان پر دبائو بڑھانے کے لیے بھارت کو استعمال کیا اور دہلی سرکار نے اپنی فوجیں پاکستان کی سرحد تک پہنچا دیں، یوں اس وقت پاکستان مشرقی سرحدوں پر بھارت اور شمال مغربی سرحدوں پر امریکی اور نیٹو فورسز کے درمیان سینڈ وچ بن گیا تھا، یہ وہ وقت تھا جب پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کی قیادت ملک سے باہر جلاوطنی کے دن گزار رہی تھی، اور ملک میں موجود پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی قیادت میں اتنا دم نہیں تھا کہ وہ پرویز مشرف کے سامنے دم مارتی اور مزاحمت کرتی،دونوں جماعتوں نے جنرل مشرف کی طرح ان حالات کو اپنے لیے بہتر سودا بازی کے لیے استعمال کرنے کا سوچا اور امریکہ سے تعلقات بنائے اورا نہیں یقین دلایا کہ کابل میں وہ جس طرح چاہیں انہیں کوئی مزاحمت نہیں دی جائے گی، پاکستان میں صرف دفاع افغانستان و پاکستان کونسل آگے بڑھی اس پلیٹ فارم سے مولانا سمیع الحق، قاضی حسین احمد، مولانا احمد شاہ نورانی مزاحمت کی علامت بنے، اس دوران امریکیوں لاجسٹک سپورٹ کے لیے اس تمام سامان پر ڈیوٹی معاف کرائی، جو کابل پہنچایا جارہا تھا، پاکستان سے بڑے بڑے ٹرانسپورٹرز کو سامان لے جانے اور آئل ٹینکرز کابل تک پہنچانے کے لیے کروڑوں بلکہ اربوں ڈالر دیے گئے، ان میں سے ایک کو بعد میں 2002ء کے انتخابات میںقومی اسمبلی کا رکن بھی منتخب کرایا گیا، پرویز مشرف اس قدر فدا تھے کہ اس سامان کی تلاشی بھی لینا منع تھا، امریکہ پاکستان سے باقاعدہ معاہدہ کیا تھا کہ وہ طالبان کی حکومت گرا کر ان کی جگہ شمالی اتحاد کو اقتدار میں نہیں لائے گا مگر امریکیوں وہ سب کچھ کیا جو انہیں عزیز تھا، دھشت گردوں کی تلاش میں افغانستان پر کارپٹنگ بم باری کی گئی، تورا بورا کے پہاڑ بم باری سے کالے کر دیے گئے، ان کی راکھ بنا دی گئی، یہ سب کچھ اقوام متحدہ کی چھتری کے نیچے کیا گیا کہ اقوام متحدہ نے اپنی قراردادوں کے ذریعے امریکہ اور نیٹو کو اس کی اجازت دی۔ آج بیس سال گزر گئے، امریکہ خالی ہاتھ لوٹ جانے پر مجبور ہوا ہے اورکابل ایک بار پھر طالبان کے حوالے ہے اور وہی آج افغانستان میں حکمران ہیں،سیاسی سمجھوتے کے بغیر امریکی فوجی انخلا کے نتیجے میں افغانستان میں جو کچھ متوقع تھا بالکل وہی کچھ ہورہا ہے۔ طالبان کی پیش قدمی اندازوں سے کہیں زیادہ تیز رفتار دکھائی دی امریکی اداروں نے پیشن گوئی کی تھی کہ طالبان تین ماہ میں کابل کا کنٹرول سنبھال لیں گے لیکن یہ کام دنوں بلکہ گھنٹوں میں ہوا گزشتہ ہفتے افغانستان کے 34میں سے 19صوبوں کے دارالحکومتوں پر کنٹرول حاصل کرلیا گیا تھا جن میں نمروز، جوزجان، سرائے پل، تخار، قندوز، سمنگان، فراہ، بغلان، بدخشاں، غزنی، ہرات، بادغیس، قندھار، ہلمند، غور، اروزگان، زابل، لوگر، پکتیکا شامل تھے دارالحکومت کابل سے پہلے صوبہ لوگر پر قبضہ ہوا، قندھار اور جنوب میں اہم شہر پہلے ہی قبضہ میں آچکے تھے اہم کامیابی اس وقت ملی جب ہرات کے نامور کمانڈر اسماعیل خان نے اپنے 200سے زیادہ فوجیوں کے ساتھ طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور گرفتاری پیش کردی۔ صوبے کا پولیس چیف طالبان کے ساتھ مل گیا اور اس کے بعد آرمی چیف نے خود کو طالبان کے حوالے کیا، جس کے بعد اشرف غنی کا ملک میں رہنا ممکن نہ رہا،افغانستان کے نائب صدر امراللہ صالح فرار ہوئے اس اہم ترین پیش رفت کے بعد طالبان کا امتحان بھی شروع ہوگیا ہے کہ انہیں افغان عوام کی بھاری اکثریت کی حمائت کیسے حاصل کرنا ہے اور اسے برقرار بھی رکھنا ہے، طالبان نے یقین دھانی کرائی ہے کہ پاکستان کی سرحد پر باڑھ لگانے کے عمل کی مزاحمت نہیں کی جائے گی، کابل میں خواتین تعلیم حاصل کریں گی، اور خواتین اساتذہ اور لیڈی ڈاکٹرز اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں انجام دیتی رہیں گی، اقلیتیوں کو تحفظ دیا جائے گا، بلکہ طالبان نے ان کے کچھ علاقے انہی کے سپرد کر دیے ہیں، ایران، روس اور چین نے طالبان سے براہ راست بات کر کے مستقبل کی صورت حال سے نمٹنے کا انتظام کرنا شروع کر لیا ہے، یہ بہت اہم پیش رفت ہے۔ اسی لیے ادھر وزیر اعظم عمران خان گزشتہ ہفتے پشاور کور ہیڈکوارٹرز گئے جہاں آرمی چیف کی موجودگی میں انہیں صورت حال سے آگاہ کیا گیا، پاکستان نے فیصلہ کیا ہے اورقومی سلامتی کمیٹی نے افغانستان کے حوالے سے ملکی پالیسی بیان دیا ہے کہ’’ پاکستان اپنے ہمسائے ملک میں امن چاہتا ہے، پاکستان افغان مسئلے کے جامع سیاسی حل کے لئے پرعزم ہے اجلاس میں وفاقی وزراء اور مسلح افواج کے سربراہان نے شرکت کی، اجلاس میں افغانستان کی صورتحال اور پاکستان پر اس کے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔اعلامیے کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی کو بریفنگ دی گئی جس میں کہا گیا کہ عالمی برادری کو 4 دہائیوں سے دی جانے والی پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرنا چاہیے افغان مسئلے کا کبھی بھی کوئی فوجی حل نہیں تھا، پاکستان افغان صورتحال کے باعث کئی دہائیوں سے متاثر رہا۔شرکاء نے کہا کہ امریکا اور نیٹو کی موجودگی میں افغان مسئلے کا بہترین حل نکالا جا سکتا تھا افغانستان میں تمام فریق قانون کی حکمرانی کا احترام اور افغانوں کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کریں۔اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا کہ افغان سرزمین کسی دہشت گرد گروپ کی جانب سے کسی ملک کے خلاف استعمال نہ کرنے کو یقینی بنایا جائے۔شرکاء نے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان عالمی برادری کے ساتھ تعاون اور کام جاری رکھے گا۔قومی سلامتی کمیٹی نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ کا گزشتہ انتظامیہ کے انخلاء کے فیصلے کی توثیق بلاشبہ تنازع کا منطقی حل ہے، پاکستان تمام افغان گروہوں کی نمائندگی کے ساتھ ایک جامع سیاسی تصفیے کے لیے پرعزم ہے پاکستان افغانستان میں عدم مداخلت کے اصول پر سختی سے کاربند رہے گا پاکستان اپنی ہمسائیگی میں امن و استحکام چاہتا ہے پاکستان سیاسی تصفیے میں سہولت کاری کے لیے عالمی برادری اور افغان اسٹیک ہولڈرز سے مل کر کام کرے گا۔وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ کابل میں پھسنے پاکستانیوں، سفارتکاروں، صحافیوں کے لیے اقدامات کیے جائیں، اور کابل میں پھنسے عالمی اداروں کے نمائندگان کی واپسی کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں۔