افغانستان پر مکمل حکمرانی کے بعد طالبان کا امتحان؟

بیس سال پہلے افغانستان پر امریکی حملے اور نہتے” ‘طلبہ“ کی جانب سے مزاحمت پر تبصرہ کرتے ہوئے ممتاز پاکستانی تجزیہ نگار جناب ارشاد حقانی مرحوم نے اسے Arrogance (تکبر) اور Ignorance(جہالت)کا ٹکراو قراردیا تھا۔حقانی صاحب کا خیال تھاکہ تکبر سے چُورامریکہ جنگ کے دوران کسی اصول یاضابطے کی پرواہ نہیں کرے گا اور شوق شہادت سے سرشار جاہل مُلّا جنت کی تلاش میں اپنی جان دے دینگے۔ معاملہ صرف حقانی صاحب تک محدود نہیں تھا اکثر عسکری ماہرین یہی کہہ رہے تھے کہ معاملہ چند ماہ سے آگے بڑھتا نظرنہیں آتا۔ امریکہ کی ناقابل تسخیر ٹیکنالوجی کے آگے توڑے دار بندوقوں سے لیس ان نوخیز نوجوانوں کا ٹہرنا ممکن نہیں۔
لیکن ان ‘جاہل، ‘اجڈ و ‘گنوار ملائوں نے بیس سال کی مسلسل صبرآزما جدوجہد کے بعد جارحیت کے طوفان کا رخ موڑ دیا۔دوہفتہ پہلے صوبے نمروز کے دارالحکومت زارنج سے شروع ہونے والی پیشقدمی کا اختتام پندرہ اگست کو کابل کے صدارتی محل پر پرچم کشائی سے ہوا۔ غنی سرکار کی جانب سے ہتھیار ڈالنے پر آمادگی کے جواب میں طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ افغان دارالحکومت میں گولی نہیں چلائیں گے۔ افغان طالبان نے اپنے اس عہد کا پاس رکھا اور وہ افغان صدر کے خاتون اول اور قریبی رفقا کے ہمراہ تاجکستان فرار کے بعد ایوانِ صدر میں داخل ہوئے۔ اس سے پہلے طالبان کے ترجمان نے عام معافی کا اعلان کیا جس میں کہا گیا کہ ‘کسی کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ افغانستان ہم سب کاگھر ہے اور اماراتِ اسلامی گھر کے ہر فرد حتیٰ کہ غیر ملکی مہمانوں کی جان، مال اور عزت و آبروکی ضامن ہے۔
معافی اور عزت و احترام کا مظاہرہ صوبائی دارالحکومتوں میں داخلے کے وقت بھی پیش آیا۔ ہرات کے رہنما اور مشہور کمانڈر اسماعیل خان نے جب بغیر لڑے طالبان کے آگے ہتھیار ڈال دئیے تو مقامی کمانڈر نے انکے محل کے گرد تعینات سپاہیوں کو وہاں سے چلے جانے کا حکم دیدیا۔اسی طرح جب گورنر جناب داود لغمانی نے علاقے کو خون خرابے سے بچانے کیلئے ہتھیار ڈالے تو طالبان کے کمانڈرابوبکر نے لغمانی صاحب کی بڑائی کا اعتراف کرتے ہوئے انکی پیشانی پر بوسہ دیا۔ جسکے بعد گورنر اورانکے عملے کو مالِ غنیمت کی ایک بکتربند گاڑی میں بٹھاکر عزت واحترام کیساتھ کابل روانہ کردیاگیا۔ ابوبکر کا کہنا تھا ہم اپنے عزت دار بزرگوں کو جنگی قیدی بنانے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔لیکن جیسے ہی گورنر صاحب صوبہ وردک کے شہر میدان پہنچے، سرکاری فوج سے انھیں گرفتار کرکے لغمانی صاحب کی مشکیں کس دیں۔ان پر غداری، دشمن سے ساز باز، ‘دہشت گردوں کی مالی معاونت اور کرپشن کے الزام میں مقدمہ چلایا جائیگا۔ عین حالتِ جنگ میں اُجڈوگنوار ملاوں کا ‘ دشمن سے حسِن سلوک اور ‘گھر واپس لوٹنے پر اپنوں کے ہاتھوں گورنر صاحب کی درگت سے دوسرے گورنروں میں سخت اشتعال پھیلا اور اسکے بعد ہتھیار ڈالنے والے سپاہی انتقام کے خوف سے یا تو روپوش ہو گئے یا انھوں نے اماراتِ اسلامی افغانستان کی فوج میں شمولیت اختیار کرلی۔
افغان فوج جس تیزی سے طالبان کے آگے سرنگوں ہوئی ہے اس کی خودبلنکن کو بھی توقع نہ تھی۔ امریکی وزیرخارجہ انتھونی بلنکن نے افغانستان پر طالبان کے قبضے اور کابل میں مُلاوں کے داخلے کو ایک دل دہلا دینے والا واقعہ قراردیا۔افغان فوج کی کارکردگی پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی وزیرخارجہ نے کہا کہ عسکری ماہرین اس بات کا خطرہ تو ظاہر کررہے تھے کہ انخلا کے بعد افغان فوج، طالبان کا مقابلہ نہیں کرپائیگی، لیکن اعلیٰ تربیت یافتہ اور جدید ترین اسلحے سے لیس 3 لاکھ کا لشکر جرار اس تیزی سے تحلیل ہوجائے گا، اس کاہمیں بالکل اندازہ نہ تھا۔قارئین کی دلچسپی کے لیےعرض ہے کہ افغان فوج کی بھرتی، تربیت اور اسلحے کی فراہمی پرامریکہ نے 10 کھرب ڈالر خرچ کئے ہیں۔
گزشتہ ہفتے کے آغاز سے یہ اشارے مل رہے تھے کہ امریکہ نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا ہے اوراب چچا سام کی واحد ترجیح ‘پرامن پسپائی ہے۔ طالبان کی جانب شاخ زیتون لہراتے ہوئے صدر بائیڈن نے افغانستان پر بمباری روک دینے کا حکم دے دیا۔ اسی کی ساتھ امریکی وزیرخارجہ نے ڈاکٹر اشرف غنی سے فون پر بات کرتے ہوئے ان سے مستعفی ہونے کی درخواست کی تاکہ پرامن انتقالِ اقتدار کیلئے ایک وسیع البنیاد عبوری حکومت کی راہ ہموار ہوسکے۔کہا جاتا ہے کہ وزیرخارجہ کے بعد امریکی صدر نے بھی اپنے افغان ہم منصب سے بات کی اور ڈاکٹر غنی کو انکی حفاطت وسلامتی کا یقین دلایا۔ امریکہ کے اس دوٹوک مطالبے کے بعد ڈاکٹر صاحب کے لیےراستے سے ہٹ جانے کے سواکوئی چارہ نہ تھا۔ انھوں نے آخری فیصلہ کرنے سے پہلے جنگجو کمانڈر جنرل عبدالرشید دوستم نے بات کی۔ دوستم اپنے آبائی علاقے شبر غن کے بعد مزارِ شریف ہاتھ سے نکل جانے پر حوصلہ ہار چکے تھے۔ گفتگو کے دوران دوستم نے ڈاکٹر صاحب سے بہت سخت و درشت لہجے میں بات کرتے ہوئے انھیں ان ساری خرابیوں کا ذمہ دار قرار دیا۔ دوستم کا کہنا تھا کہ صدر کے منظورِ نظر بزدل اور منشیات کے عادی فوجی جرنیلوں نے یہ دن دکھائے ہیں۔دوستم نے صاف صاف کہا کہ اب کابل میںطالبان کے داخلے کو کوئی نہیں روک سکتا۔ جنرل دوستم کے اس جواب سے ڈاکٹر غنی کا رہا سہا حوصلہ بھی جواب دے گیااور انھوں نے تھوڑی ہی دیربعد ایک تقریر ریکارڈ کراکےاشاعت کیلئے افغان وزارت اطلاعات کے حوالے کردی۔ اس خطاب میں ڈاکٹر صاحب نے کہا:
‘عزیر ہم وطنو! مجھے معلوم ہے کہ آپ اپنے حال اور مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ملک کو مزیدافراتفری، تشدد اور خانہ جنگی سے بچانا آپ کے صدر کی اولین ترجیح ہے۔اس ضمن میں میں نے حکومتی مشیروں، عمائدین، سیاسی رہنماوں اور بین لااقوامی اتحادیوں سے تفصیلی مشاورت شروع کردی ہے۔ اس بات چیت کی تفصیل جلد عوام کے سامنے پیش کی جائیگی۔ میرے لئے افغان عوام کا مزید قتل عام اور معصوم جانوں کا زیاں ناقابل برداشت ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ 20 سالوں میں ہم نے قوم کی تعمیرنو کا جو کام کیا ہے وہ سب اکارت ہوجائے۔
دورسری طرف امریکہ کی ہدایت پر ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے قطر میں طالبان کے نائب امیر ملا عبدالغنی برادر کو مطلع کیا کہ اٖفغان حکومت طالبان کو اقتدار منتقل کرنے پر رضامند ہے۔اس سلسلے میں سابق افغان صدر حامد کرزئی، عبداللہ عبداللہ اور حزب اسلامی کے امیر گلبدین حکمت یار پر مشتمل کمیٹی عبوری اقدامات کو آخری شکل دے رہی ہے۔ کابل سرکار کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کی اس یاد دہانی پر طالبان نے اعلان کیا کہ انکے سپاہی مفاہمتی اقدامات کا احترام کرتے ہوئے بزور قوت کابل میں داخل نہیں ہوں گے۔اس موقع پر طالبان نے عام معافی کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ عفوو درگزر ہماری قابل فخر اقدار کا حصہ ہے۔یہ عظیم الشان کامیابی صرف اور صرف اللہ کی رحمت و استعانت کا نتیجہ ہے۔ ہماری کسی افغان سے کوئی رنجش نہیں اور یہ ماضی کو بھول پر آگے بڑھنے کا وقت ہے۔ عام معافی کا اطلاق ہر افغان شہری پر ہوگا اور اس ضمن میں کوئی استثنیٰ نہیں۔
اتوار 15 اگست کی صبح اپنے ایک بیان ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے کہا ‘سابق افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی اپنی اہلیہ اور قریبی رفقا کے ساتھ تاجکستان چلے گئے ہیں۔ اسی کے ساتھ خبر آئی کہ عبدالرشید دوستم ازبکستان فرار ہوگئے ہیں جبکہ افغان پارلیمان کے اسپیکر رحمان رحمانی، یونس قانونی، کریم خلیلی اور استاد محقق کے ہمراہ پاکستان میں سیاسی پناہ لے چکے ہیں، افغان خبر رساں ایجنسی خامہ کے مطابق ممتاز مجاہد رہنما احمد شاہ مسعود المعروف شیرِ پنج شیر کے دونوں بھائی سابق نائب صدر احمد ضیا مسعود اور احمد ولی مسعود بھی پاکستان چلے گئے ہیں۔
ڈاکٹر اشرف غنی اور ان کے رفقا کی صدارتی محل سے روانگی کی تصدیق کے بعد طالبان اللہ اکبر و للہ لحمد کا ورد کرتے ہوئے ایوان صدر میں داخل ہوگئے اور عملاً سارے افغانستان پر طالبان کی حکمرانی قائم ہوگئی۔اس پورے معاملے کا قابل اطمینان پہلو یہ ہے کہ بڑے پیمانے کا خوں خرابہ نہ ہوا۔ لوگوں کو ڈر تھا کہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد قتل و غارت کا وہی عالم ہوگا جو 1989ۓء میں سوویت یونین کی واپسی پر نظر آیا تھا۔ ایک بھی معصوم جان کا زیاں ساری انسانیت کا المیہ ہے اور گزشتہ دوہفتوں کے دوران سینکڑوں بےگناہ مارے جاچکے ہیں لیکن کابل پر قبضے کا مرحلہ پرامن کہا جاسکتا ہے۔ کچھ علاقوں سے لوٹ مارکی اطلاعات ملی ہیں جس کے بارے میں طالبان کاکہنا ہے کہ یہ انکے نام پر مجرم پیشہ لوگوں کی کاروائی ہے۔طالبان نے امن و امان کو یقینی بنانے کیلئے مساجد کی سطح پر امن کمیٹیاں قائم کردی ہیں جو ان شکایات کا جائزہ لیںگی۔
فی الحال سب سے حساس و نازک مرحلہ افغانستان سے سفارتی عملے اور غیر ملکی شہریوں کا انخلا ہے۔ کابل کے سفارتی ذرایع کا کہنا ہے کہ اس وقت کابل میں افراتفری اور نفسانفسی کا وہی منظر دکھائی دے رہا ہے جس کا مشاہدہ اپریل 1975میں سائیگون (ہوچی منہہ سٹی) نے کیا تھا۔ اس وقت ویتنام سے امریکی فوج کے انخلا پر امریکی فوج کے ہزاروں سہولت کار امریکی اڈے پر جمع تھے جبکہ باہر ہزاروں کی تعداد میں مسلح ویتنامی چھاپہ مار ‘غداروں کی ایک سزا، سر تن سے جدا،کے نعرے لگارہے تھے۔اڈے سے ایک کے بعد ایک دیو ہیکل ہیلی کاپٹر روانہ ہورہے تھے۔ جیسے ہی ہیلی کاپٹر کا دروازہ کھلتا لوگ سوار ہونے کیلئے دوڑ پڑتے جنھیں روکنے کے لیے امریکی میرین کے سینکڑوں جوان تعینات تھے۔کابل میں بھی امریکی سفارتخانے کے باہر قطاریں بنی ہیں لیکن یہاں خوف کا وہ عالم نہیں۔ طالبان عام معافی کے وعدے میں مخلص نظر آتے ہیں اور 16 اگست کو اپنے اقتدار کے پہلے دن طالبان نے عام معافی کی تجدید کرتے ہوئے کہا کہ ماضی فراموش کردیا گیا، اب کسی کو اپنے ماضی کے بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔
واپس ہوتے یورپی سفارتکاروں کے تحفظ کے لیے امریکی حفاظتی فوج (میرین) کے 3000 اہلکار کابل بھیجے گئے ہیں۔ قصرِ مرمریں (وہائٹ ہاوس) کے ترجمان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے 650فوجی پہلے سے کابل ائرپورٹ کی حفاظت پر مامور ہیں۔ کل صدر باییڈن نے مزید ایک ہزار جوان کابل بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ برطانیہ نے بھی اضافی دستے کابل میں تعینات کئے ہیں۔ برطانوی وزارت دفاع کے مطابق انکے 600سپاہی اپنے 4000 شہریوں کے انخلا کی نگرانی کررہے ہیں۔
کینیڈا کے وزیر امیگریشن ، مارکو مینڈیچینو (Marco Mendicino)نے افغانستان میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے 20 ہزار افغانوں کو اپنے ملک میں پناہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ دارالحکومت اٹاوہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے فاضل وزیر نے کہا کہ ویزے کے اجرا میں انسانی حقوق کے کارکنان، خواتین رہنماوں، ہم جنس پرستوں، لبرل صحافیوں ، حکومت کے اہلکاروں، مترجمین اور نیٹو کے سہولت کاروں کو ترجیح دیجائیگی۔خیال ہے کہ وطن واپس آتے کینیڈا کے سفارتکاروں کے ساتھ ان لوگوں کو کینیڈا لایا جائے گا۔ اپنے شہریوں کی بحفاظت واپسی کیلئے کینیڈا نے فوجیوں کا ایک دستہ کابل بھیجا ہے جن کی تعداد نہیں بتائی گئی۔
منگل سے شروع ہونے والے Operation Exodusکی تکمیل 28 اگست تک ہونے کی توقع ہے۔ امریکی فوجیوں، برطانوی شہریوں اور غیر ملکی سفارتکاروں کے علاوہ ایک لاکھ کے قریب امریکی فوج کے مترجمین اور سہولت کاروں کو نکالا جائے گا۔ کینیڈا جانیوالے 20ہزار افراد ان کے علاوہ ہیں۔امریکہ آنے والے افغان شہریوں کیلئے امیگریشن کی کاروائی قطر ائرپورٹ پر ہوگی جہاں امریکی فضائیہ کے 1000 اہلکار تعینات کردیے گئے ہیں۔ امریکہ اور نیٹو ممالک کے لیےانخلا کی یہ کارروائی بے حد اہم اور انتہائی حساس ہے۔دوسری طرف کابل میں داخلے کے ساتھ افغانستان طالبان کے کنٹرول میں آچکا ہے۔ یعنی سفارتکاروں کی حفاظت اب نئے حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، ناروے اور ایستونیا کی ایک مشترکہ قرارداد پر غور کررہی ہے جس میں بہت صراحت سے کہا گیا ہے کہ ‘اقوام ِعالم، امارات اسلامی افغانستان کو تسلیم نہیں کرتیں اور انکی حکومت کو کبھی تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ قرارداد میں افغان شہروں پر طالبان کے حملوں کی مذمت کی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے بھی طالبان کی مذمت کرتے ہوئے زور دیا کہ وہ تنازعے کاسیاسی حل تلاش کرنے کے لیے مذاکرات کی میز پر آئیں۔رائے شماری سے پہلے قرارداد کے مسودے پر غور ہورہا ہے۔ غالب خیال ہے کہ قرارداد منظور ہو جائے گی۔ ہندوستان اس وقت سلامتی کونسل کا صدر ہے اور پندرہ رکنی کونسل میں تیونس کے علاوہ کوئی بھی مسلم ملک شامل نہیں۔ قرارداد کی منظو ری کیلئے دنیا کے پانچ بڑے چودھریوں یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور چین کااتفاق رائے ضروری ہے۔
افغانستان کے لیے امریکہ کے نمائندے زلمے خلیل زاد نے دھمکی دی ہے کہ طاقت سے قائم ہونے والی طالبان حکومت کو عالمی برادری Pariah یعنی اچھوت و مردودریاست سمجھے گی۔
کابل میں طالبان کے داخلے پر تبصرہ کرتے ہوئے برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے کہا کہ ‘طالبان حکومت کو تسلیم کرنے میں جلد بازی نقصان دہ ہوگی۔ امریکہ کے قدامت پسندوں نے ایک باقاعدہ مہم شروع کی ہے جس میں انخلا کے فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے مزید امریکی فوج افغانستان بھیجنے اور بمباری کے ذریعے طالبان کی پیشقدمی روکنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ یہ افواہ بھی گردش کررہی ہے کہ واپس ہونے والے سفارتی عملے کی تحفظ کے لیے جو فوجی بھیجے گئے ہیں انھیں طالبان کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔ تاہم عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ اب بہت تاخیر ہوچکی۔ افغان فوج کی تحلیل، اور جنگجو کمانڈروں کے فرار اور تسلیم کے بعد امریکی فوج کے لیے طالبان کے خلاف نیا آپریشن شروع کرنا اتنا آسان نہیں۔
فوجی کارروائی تو بعید ازقیاس نظر آتی ہے لیکن طالبان انتظامیہ کو غیر موثر کر نے کیلئے پابندیوں کا ہتھیار استعمال ہوسکتا ہے۔ایران، شمالی کوریا اور وینزویلا کو پابندیوں نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اپنی شکست کا بدلہ لینے کیلئے مغرب بائیکاٹ کے ذریعے عالمی سطح پر نئی افغان حکومت کو ویسی ہی سفارتی تنہائی کا شکار کرسکتا ہے جس کا سامنا طالبان کو 1996 میں تھا جب صرف پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے انھیں تسلیم کیا تھا۔
تاہم آج کے طالبان اس وقت سے بہت مختلف ہیں۔ عام معافی، لڑائی سے پرہیز، ہتھیار ڈالنے والے فوجیوں اور رہنماوں سے باعزت سلوک کے علاوہ علاقائی ممالک یعنی پاکستان، ایران، چین، روس اور وسط ایشیائی ریاستوں سے بہتر تعلقات کے باب میں ان کی کارکردگی بہت اچھی ہے۔ ملا عبدالغنی برادر اور ملا عبد السلام ضعیف کا سفارتی برادری میں خاصہ احترام ہے۔ فون پر عبدالغنی برادر سے گفتگو کے بعد صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ مدلل گفتگو کرنے ولا یہ ملا بڑا sharp(ذہین) ہے۔
غیر معمولی پیش قدمی سے دنیا پر عسکری استعداد کی دھاک بیٹھ چکی ہے۔ اب طالبان کے صبر، معاملہ فہمی اور سیاسی بصیرت کی آزمائش ہے۔ آج طالبان کے نام اپنے پیغام میں ملا عبدالغنی برادر نے کیا خوب کہا:
غرور سے بچو، امتحان تو اب شروع ہوا ہے۔کامیابی سے پہلے جشن کیسا؟؟

اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@ ملاحظہ کرسکتے ہیں۔
…٭…٭…