… امریکہ کی عبرت ناک پسپائی و رسوائی… فا اعتبرو یا اُولو الابصار

عبرت کی جا ہے، تماشا نہیں ہے… فا اعتبرو یا اُولو الابصار… اے آنکھوں والو!عبرت حاصل کرو… چشم فلک نے ایک بار پھر ایک ناقابل یقین اور انہونا منظر اہل عالم کو دکھایا ہے… افغان مسلمان، جنہوں نے ایک زمانے میں عظیم برطانیہ، جس کی سلطنت پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا، کو شکست فاش سے دو چار کیا تھا… پھر اپنے وقت کی خونخوار طاقت، جس کا دعویٰ تھا کہ وہ جہاں گھس جائے، وہاں سے کبھی واپس نہیں گئی مگر اس سوویت یونین کو انہی افغان مسلمان مجاہدین نے ایسی ہزیمت سے دو چار کیا کہ آج اس یونین کا وجود ہی صفحہ ہستی پر موجود نہیں… بیس برس قبل خود کو یک محوری دنیا کی واحد سپر پاور کہلانے والا امریکہ، نیٹو کے چالیس ملکوںبلکہ پوری دنیا کی حمایت و تعاون کے ساتھ بھر پور گھن گرج کے ساتھ طالبان مجاہدین کے افغانستان پر حملہ آور ہوا… طاقت کے نشے میں چور، ظالم امریکہ بہادر نے بے سروسامان نہتے افغان عوام پر اس قدر کارپٹ بمباری کی کہ کسی ذی روح کا زندہ رہنا محال محسوس ہوتا تھا… مگر جسے اللہ رکھے، اسے کون چکھے، مجاہدین نے سخت ترین حالات میں بھی ہمت نہیں ہاری اور کٹھن سے کٹھن، جاں گسل مراحل میں بھی مزاحمت جاری رکھی۔ آخر اللہ تعالیٰ کی مدد آئی، اپنی بات نہ ماننے پر پتھر کے دور میں پہنچا دینے کی دھمکیاں دینے والا امریکہ مجاہدین کے سامنے گھٹنے ٹیک کر مذاکرات کی بھیک مانگنے اور افغانستان سے اپنی اور اپنے حمایتیوں کی فوجیں بے نیل و مرام واپس لے جانے کا اعلان کرنے پر مجبور ہوا۔ تاہم ابھی اس کی اعلان کردہ واپسی کی تاریخ میں خاصے دن باقی تھے کہ بصد سامان رسوائی، اس کی فوجوں کو مجاہدین کے مقابلے میں شرمناک پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ کھربوں ڈالر کے اخراجات سے دنیا کی بہترین کہلانے والی فوج کی تربیت یافتہ جدید ترین اسلحہ و گولہ بارود سے لیس کی گئی نام نہاد افغان قومی فوج، مجاہدین کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ پاکستان کو آنکھیں دکھانے اور آئے روز بھارت کی زبان میں دھمکیاں دینے والے اشرف غنی جیسے کٹھ پتلی حکمران پہلا ہلہ ہی برداشت نہ کر سکے اور اپنے تمام تکبر اور غرور سمیت اپنے ملک سے دم دبا کر بھاگ گئے… پختہ ایمان اور جذبۂ جہاد کو اسلحہ کے ڈھیروں اور مال و دولت کے انبار پر فتح نصیب حاصل ہوئی۔ وقت نے ایک بار پھر شاعر مشرق کے اس یقین کامل پر مہر تصدیق ثبت کر دی کہ ؎
فضائے بدر پیدا کر، فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں، گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
اس فتح مبین پر خالق و مالک کائنات، رب رحیم و کریم کی ذات کا جس قدر بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے… مجاہدین کا طرز عمل اپنوں اور پرایوں کی توقعات کے قطعی برعکس، الحمد للہ نہایت مثبت اور حوصلہ افزا رہا ہے، انہوں نے قتل و غارت اور خانہ جنگی کے خدشات کو قطعی غلط ثابت کر دیا ہے، تمام تجزیہ نگار دانتوں میں انگلیاں دابے مجاہدین کے تدبر و حکمت پر حیرت زدہ ہیں، جنہوں نے محسن انسانیت، نبی رحمت حضرت محمد ؐ کی فتح مکہ کی سنت کو تازہ کرتے ہوئے کسی سے بدلہ نہ لینے کا عندیہ دیا ہے، مخالفین کے لیے دھمکیاں نہیں بلکہ عام معافی اور سب کو امان کا واضح اعلان کیا گیا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ فتح کابل کے موقع پر کہیں خانہ جنگی ہوئی ہے نہ لوٹ مار اور امریکہ کی رسوا کن پسپائی کے بعد افغانستان میں تباہی و بربادی کی پیش گوئیاں کرنے والے دانش ور منہ چھپاتے پھر رہے ہیں، چین اور روس ہی نے مجاہدین کی نو تشکیل حکومت سے دوستانہ تعلقات کی خواہش کا اظہار نہیں کیا بلکہ امریکہ اور اتحادی بھی، جو کل تک طاقت کی حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے، کی رٹ لگائے ہوئے تھے، کھسیانی بلی کھمبا نوچے، کے مصداق آج کابل کی نئی حکومت کو تسلیم کرنے پر آمادگی کا برملا اظہار کر رہے ہیں۔ حکومت پاکستان کا رویہ اس نازک مرحلہ پر اگرچہ مجموعی طور پر خاصا بہتر اور ذمہ دارانہ رہا ہے تاہم مشیر قومی سلامتی کی جانب سے یہ اعلان سامنے آیا ہے کہ افغانستان میں نئی طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ دنیا سے مل کر کریں گے جب کہ وزیر اعظم دنیا سے شکوہ کناں ہیں کہ اس کی جانب سے چار دہائیوں سے جاری ہماری قربانیوں کا اعتراف تک نہیں کیا گیا۔ جس کی تازہ ترین مثال اس صورت میں سامنے آئی ہے کہ افغانستان کی موجودہ صورت حال پر غور کے لیے منعقدہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں افغانستان کے اہم ترین ہمسایہ، پاکستان کو اجلاس میں شرکت تک سے روک دیا گیا ہے۔ اس عالمی منظر نامے میں باقی دنیا کی اہمیت اپنی جگہ مگر پاکستان کا مفاد بہرحال ہماری اولین ترجیح ہونا چاہیے…!!!
(حامد ریاض ڈوگر)