نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات زندگی کے ہر شعبے میں انسانوں کو عملی ہدایات فراہم کرتی ہیں۔ یہی معاملہ سرکاری مناصب کا بھی ہے۔ آپؐ کے کچھ ارشادات تو عمومی نوعیت کے ہیں، جن میں دیگر افراد کے ساتھ سرکاری مناصب کے حامل لوگوں کے لیے بھی رہ نمائی موجود ہے، جب کہ کئی ایک مواقع پر آپؐ نے براہِ راست سرکاری ملازمین کو مخاطب کرکے ان کی رہ نمائی فرمائی ہے۔مثال کے طور پر آپؐ کے چند ارشادات نقل کیے جاتے ہیں:
1۔ اخوت اور بھائی چارہ: اسلام کی عمومی تعلیمات میں اخوت اور بھائی چارے کو غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے۔ سرکاری مناصب اور سرکاری اہل کاروں کی ذمے داریوں کے پس منظر میں اس کی اہمیت مزید واضح ہوتی ہے۔ ارشادِ نبویؐ ہے:’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اُس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اُسے کسی کے حوالے کرتا ہے۔ جو شخص اپنے بھائی کی کسی حاجت کو پورا کرے گا، اللہ اِس کی حاجت پوری کرے گا۔ اور جو شخص کسی مسلمان کو کسی مصیبت سے نکالے گا، اللہ اسے روزِقیامت کی مصیبتوں میں سے کسی مصیبت سے نکال دے گا ، اور جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا، اللہ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا۔‘‘ (الجامع الصحیح2443، مسلم2580)
اس حدیث پاک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق سرکاری ملازمین کے لیے بڑی واضح راہ نمائی موجود ہے۔ ان کا کام ہی یہ ہے کہ وہ عوام کی حاجتوں کو پورا کریں، ان پر ظلم نہ کریں، انھیں بے جا پریشان نہ کریں، ان کا استحصال نہ کریں۔ یہ سب کرنے کے بعد وہ اللہ تعالیٰ سے امید رکھیں کہ وہ ان کے مسائل کو حل کرے گا اور ان کی حاجات کو پورا کرے گا۔
2۔ خیرخواہی: یہ اسلام کی امتیازی خصوصیات میں سے اہم ترین خصوصیت ہے۔ ایک موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا: ’’بے شک دین خیرخواہی ہے‘‘(سنن ابی داؤد،2944)۔ صحابہؓ نے پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ! کس سے خیرخواہی؟ فرمایا: ’’اللہ سے، اور اُس کی کتاب سے، اور اس کے رسولؐ سے، اور اہل ایمان کے ائمہ سے، اور ان کے عام لوگوں سے‘‘۔
عام لوگوں کے لیے خیرخواہی کا مطلب یہ ہے کہ ان کو ان امور کی طرف دعوت دی جائے جن میں ان کی مصلحت ہو اور دین کے کام میں ان سے تعاون کیا جائے، ناداروں کی مالی امداد کی جائے، مسلمانوں کے عیوب کی پردہ دری نہ کی جائے، انھیں ضرر سے بچایا جائے اور انھیں فائدہ پہنچانے کی کوشش کی جائے۔ اس حدیث میں جو بات کہی گئی ہے وہ بلا امتیاز معاشرے کے تمام افراد کے لیے ہے، مگر خصوصاً اس میں سرکاری مناصب کے حامل افراد کے لیے واضح ہدایت موجود ہے۔
اربابِ اختیار کی خیر خواہی اور ان کے ساتھ حسنِ تعلق یہ ہے کہ حق بات میں ان کی مدد کی جائے، بھلائی اور نیکی میں ان کی اطاعت کی جائے، غلطیوں اور غفلتوں پر ان کو متنبہ کیا جائے اور مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ پر انھیں آمادہ کیا جائے، جب کہ عام مسلمانوں کی خیر خواہی اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک یہ ہے کہ ان کو ضرر نہ پہنچایا جائے اور ان کی ضروریات پوری کی جائیں، حسد، بغض اور دھوکا دہی سے اجتناب کیا جائے۔
3۔ کسبِ حلال: اسلام اپنے ماننے والے ہر شخص سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ حلال رزق کمائے۔ تاہم اس کا سب سے زیادہ اطلاق سرکاری اہل کاروں اور ملازمین پر ہوتا ہے، کیوں کہ ان کے پاس حرام کمانے کے مواقع بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ ارشادِ نبویؐ ہے:
’’قیامت کے دن کسی بھی انسان کے قدم اُس وقت تک نہیں ہل سکیں گے جب تک اُس سے اُس کی عمر کے بارے میں پوچھ نہ لیا جائے کہ اُس نے اُسے کہاں گزارا؟ اور اُس کے علم کے بارے میں کہ اِس پر کتنا عمل کیا؟ اور اُس کے مال کے بارے میں کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ اور اُس کے جسم کے بارے میں کہ کہاں استعمال کیا؟‘‘(سنن ترمذی،2417)
قیامت کے روز دیگر افراد کی طرح سرکاری ملازمین کو بھی بارگاہِ خداوندی میں اس بات کا جواب دینا ہو گا کہ انھوں نے اپنے منصب کا استعمال کرکے جو مال کمایا ہے وہ حلال بھی تھا یا نہیں؟ اپنی عمر کہاں گزاری؟ جو ذمے داریاں ان پر ڈالی گئی تھیں ان سے کس حد تک عہدہ برآ ہوئے؟
4۔رعایت اور نرمی: اسلام نے ہمیشہ آسانی، نرمی، رعایت اور تخفیف کا درس دیا ہے۔ یہ ہدایت اربابِ اختیار کے لیے بھی ہے۔ اس لیے کہ ان کے پاس اختیار ہوتا ہے۔ وہ چاہیں تو سختی کرسکتے ہیں اور چاہیں تو معاملے میں نرمی سے بھی کام لے سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں آپؐ نے بڑی وضاحت سے ارشاد فرمایاہے: ’’اے اللہ! جس کو میری امت میں کسی کام کا اختیار ملے اور وہ لوگوں پر سختی کرے، تُو بھی اس پر سختی کر، اور جس کو میری امت میں کسی کام کا اختیار ملے اور وہ لوگوں پر نرمی کرے، تُو بھی اس پر نرمی کر‘‘۔(مسلم، 1828)
سرکاری ملازمین نے اگر اپنے اختیارات کا درست استعمال کیا، عوام کو آسانیاں فراہم کیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ان کی نجات کا باعث بنے گی اور اللہ تعالیٰ ان پر نرمی کرے گا۔ اور اگر انھوں نے ایسا نہ کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے بہ موجب ان کو اس سے بھی زیادہ سختی کا سامنا کرنا پڑے گا:’’جس کو مسلمانوں کے کسی کام کا اختیار ملے اور وہ کم زور مسلمانوں سے اعراض کرے،اللہ قیامت کے دن اس سے اعراض کرے گا‘‘۔(معجم الکبیر)
سرکاری اداروں میں یہ بات بہت عام ہے کہ سرکاری ملازمین صرف انھی لوگوں کا خیال رکھتے ہیں جو ان سے زیادہ صاحبِ اختیار ہوں، یا پھر اُن سے اِن کو کوئی فائدہ ہو۔ جن لوگوں سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا، عام طور پر ان کے مسائل حل کیے جاتے ہیں اور نہ ان کی راہ نمائی کی جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی وضاحت سے فرمایا ہے کہ ایسا کرنے والوں(باقی صفحہ 41پر)
سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اعراض کرے گا۔ اس سے زیادہ بدبختی کسی انسان کے لیے اور کیا ہو سکتی ہے!
5۔ خوش اخلاقی: انسان کا المیہ ہے کہ جب اس کے پاس اختیار آتا ہے تو بسا اوقات اس کا غلط استعمال کرنے لگتا ہے، بلکہ کبھی کبھار اخلاقی حدوں سے بھی تجاوز کرجاتا ہے۔ اسلام خوش اخلاقی پر بہت زور دیتا ہے۔ سرکاری منصب داروں کے پاس اس کے مواقع اوروں کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہوتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں نہ صرف اپنے فرمودات بلکہ اپنے طرزِعمل سے بھی راہ نمائی فرمائی ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے: ’’لوگوں میں بدترین شخص وہ ہے جس کی بدکلامی کی وجہ سے لوگ اسے چھوڑ دیں‘‘۔(ترمذی)
اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ لوگ سرکاری ملازمین کی بدکلامی اور بداخلاقی کی شکایت کرتے ہیں۔ عمومی زندگی کے معاملات کے برعکس یہاں پر معاملہ عام لوگوں سے مختلف ہوتا ہے۔ اگر کسی انسان سے شکایت ہو تو اس سے قطع تعلق کیا جاسکتا ہے، کسی دکان دار سے شکایت ہو تو دوسری دکان پر جایا جا سکتا ہے، لیکن سرکاری ملازمین کے معاملے میں یہ ممکن نہیں ہوتا۔ لوگوں کو بار بار ان ہی سے واسطہ پڑتا ہے۔ اس صورت میں ان ملازمین کی بداخلاقی بہت سے مسائل پیداکرتی ہے۔