بازاری بول چال میں تو خیر بکراہت سن لیا کرتے تھے۔ مگر اب ادیبوں، افسانہ نگاروں اور مقبول کالم نویسوں کی تحریروں میں بھی اس قسم کے فقرے کراہ کراہ کر بالاکراہ پڑھنے پڑتے ہیں کہ ’آپ ایسا کرو… آپ کل آجاؤ … آپ دعوت اُڑاؤ … پھر آپ دفع ہوجاؤ‘۔
صاحبو! اُردو زبان کی اپنی تہذیب ہے۔ بزرگوں اور صاحبِ تعظیم افراد کو مخاطب کرنے کے لیے یا اُن کا ذکر کرتے ہوئے لفظ ’آپ‘ استعمال کیا جاتا ہے، اور ’آپ‘ کے ساتھ احتراماً تمام صیغے جمع کے لگائے جاتے ہیں۔ مثلاً حنیفؔ اسدی کی نعت کا یہ شعر دیکھیے:
زندگی باقی ہے جب تک دہر میں، زندہ ہیں آپؐ
صرف ماضی ہی نہیں ہیں، حال و آئندہ ہیں آپؐ
اس شعر کے دونوں مصرعوں میں اگر آپ ہر ’ہیں‘ کی جگہ ’ہو‘ لکھیں گے یا بولیں گے تواہلِ زبان ’ہو ہو‘ کرکے رہ جائیں گے۔ جب ہم لفظ ’آپ‘ استعمال کرتے ہیں تو اس قسم کے فقرے بولتے ہیں کہ ’آپ بجا فرماتے ہیں‘ یا ’آپ لاہور میں کہاں قیام فرما ہیں؟‘ یا ’آپ ہمارے گھر کب تشریف لائیں گے؟‘ وغیرہ۔ ہم عمروں، ہم سَروں یا خُردوں کے لیے ’تُم‘ استعمال کیا جاتا ہے۔’تم جانو، تم نے کہا، تم پچھتاؤگے‘ وغیرہ (تم کے ساتھ ’آئے گا‘ یا ’جائے گا‘ لگانا صرف صوبہ خیبر پختون خوا میں رَوا ہے، اور ’آئیں گا، جائیں گا‘ بولنا صرف ممبئی اور کراچی کی گجراتی برادری میں۔ مولانا ذاکر نائک بھی یہی بولتے ہیں)۔ بے تکلف دوستوں سے مخاطب ہونا ہو،کسی سے اپنائیت اور بے تکلفی کا اظہار کرنا ہو، یاکسی کی تحقیر مقصود ہو یعنی ادنیٰ اور کم درجے کا ٹھیرانا ہو تو ایسی صورت میں ’تُو‘ کا کلمۂ تخاطب کام آتا ہے۔ پنجابی زبان میں ’تحقیرِ مزید‘ کے لیے بھی ایک لفظ موجود ہے اور وہ ہے ’تُوں‘۔ نذیرؔ احمد شیخ مرحوم ایک صاحبِ طرز مزاح گو شاعر تھے۔ انھوں نے اپنی منفرد صنف ’لمرک‘ میں’ارتقائے زباں‘ کے عنوان سے’ تُوں‘ کا تذکرہ بڑے دلچسپ انداز میں کیا ہے۔ یہ تو آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ پنجابی زبان میں روئی کے لیے ’رُوں‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ شیخ فرماتے ہیں:
بس گئے پنجاب میں، روئی کو رُوں کہنے لگے
دلبرانِ لکھنؤ اُوئی کو اُوں کہنے لگے
آج کل رنگِ زباں کچھ اور ہے
شوخی و حُسنِ بیاں کچھ اور ہے
آپ کو تُم، تُم کو تُو اور تُو کو تُوں کہنے لگے
اردو زبان میں آپ، تم اور تُو کے محلِ استعمال کا فرق تہذیب و ادب کا پاس رکھنے کے لیے ہے، جسے حفظِ مراتب کہا جاتا ہے۔ یعنی مقام و مرتبے کا خیال رکھنا، لحاظ کرنا یا تکریم محفوظ رکھنا۔ غصے میں آدمی بد تہذیبی پر اُتر آتا ہے۔سو، ایسی ہی تو تکار داغؔ دہلوی کے ساتھ ہوگئی :
رنج کی جب گفتگو ہونے لگی
آپ سے تُم، تُم سے تُو ہونے لگی
شاید اسی کو ’تُوتُو مَیں مَیں‘ بھی کہتے ہیں۔ ’آپ‘ کے ساتھ ’آئیے، جائیے، کھائیے، لیجیے، پیجیے، کیجیے‘ وغیرہ لگائے جاتے ہیں۔ ’تم‘ کے ساتھ ’آؤ، جاؤ اور کرو‘ وغیرہ استعمال ہوتا ہے۔ جب کہ ’تُو‘ کے ساتھ ’آ، کھا، اور مَر‘ جیسے افعالِ امر لکھنے اور بولنے کا رواج ہے۔
غالبؔ کا شعر ہے:
بے نیازی حد سے گزری، بندہ پرور کب تلک
ہم کہیں گے حالِ دل اور آپ فرمائیں گے ’کیا؟‘
یعنی ’آپ‘ کے ساتھ ’فرماؤ‘ نہیں لگایا جائے گا۔ یہ طرزِ تخاطُب ’تُم‘ کے ساتھ ہوتا ہے۔ مثلاً: ’جو نقشِ کہن تُم کو نظر آئے مٹادو‘۔ ’تُو‘ کے متعلق پہلے عرض کیا گیا ہے کہ اسے تحقیر کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔دیکھیے چچا غالبؔ تُو کے تحقیرانہ استعمال پر کیسے بھڑک اُٹھے ہیں:
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تُو کیا ہے؟
تمہیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے؟
اردو سے ناشناسا نئی نسل کو معلوم ہو کہ اِسم کی جگہ استعمال ہونے والے الفاظ ’مَیں، ہم، آپ، تم، تو‘ وغیرہ اسمائے ضمیر کہے جاتے ہیں۔ یہ وہ ضمیر نہیں ہے جو حکومت بدلتے ہی اچانک ہڑبڑا کر جاگ اُٹھتا ہے اور جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ آپ کا ضمیر آپ کو گناہ کرنے سے باز تو نہیں رکھ سکتا، مگر یہ ’خدائی پُلسیا‘ گناہ سے لطف اندوز بھی نہیں ہونے دیتا۔ ’آپ‘ ضمیر تعظیمی ہے جو کسی معزز فرد (واحد حاضر) یا معززین کے کسی مجمع (جمع حاضر) کو مخاطب کرتے وقت استعمال کرتے ہیں۔ آج کل برقی ذرائع ابلاغ پر بڑے دھڑلے سے مُعزَّز کی پہلی ’ز‘ پر زیر لگا کر اچھے خاصے عزت دار آدمی کو زیر کردیا جاتا ہے۔ معزز کی پہلی ’ز‘ پر زیر لگایا جائے تو اس کا مطلب ہوتا ہے ’عزت کرنے والا‘۔ جب کہ اگر پہلی ’ز‘ پر زبر ہو تب اُس کے معنی ’وہ شخص جس کی عزت کی جائے‘ یا ’وہ شخص جو عزت دار ہو‘ بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حُسنیٰ میں سے ایک اِسمِ حَسَن ’مُعِز‘ ہے، جس کا مطلب ہے ’عزت عطا فرمانے والا‘۔’اعزاز‘ بھی کسی کو عزت، مرتبہ اور توقیر دینے کا عمل ہے ۔
اسمِ ضمیر کے طور پر استعمال کرنے کے علاوہ ’آپ‘ کا لفظ ’خود‘ کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً ’آپ سے آئے تو آنے دو‘ یا ’اپنے پاؤں پر آپ کلھاڑی مار لی‘۔ دیوانگیٔ شوق میں چچا غالبؔ کا محبوب مشغلہ رہا ہے کہ ’آپ جانا اُدھر اور آپ ہی حیراں ہونا‘۔ اپنے منہ پر اپنا ہی دھپ (تھپڑ) رسید کرنے کو پہلے ’آپ دھاپ‘ بولا جاتا تھا، اب ’آپا دھاپی‘ کہا جاتا ہے۔آپا دھاپی میں پتا ہی نہیں چلتا کہ کس کے منہ پر کس کا تھپر پڑ رہا ہے۔ ’آپ‘ کا ایک استعمال ’خود اپنی ذات‘ کے لیے بھی ہوتا ہے۔ مگر اس کے لیے آپ کو لکھنؤ جانا پڑے گا، جہاں یہ کہا جاتا ہے کہ ’میں نے ناحق تمھاری خاطر آپ کو برباد کرلیا‘۔ ہم اہلِ کراچی ایسے موقع پر ’اپنے آپ کو‘ کہا کرتے ہیں، جو زیادہ بلیغ ہے۔
چچا غالبؔ ہی کا ایک قصہ مشہور ہے کہ ایک مرتبہ لکھنؤ اور دلّی کی زبان پر گفتگو ہورہی تھی۔ ایک لکھنوی صاحب نے چچا سے پوچھا:
’’ جس موقع پر اہلِ دہلی ’اپنے تئیں‘ بولتے ہیں وہاں لکھنؤ والے’آپ کو‘ بولتے ہیں، آپ کی رائے میں فصیح ’آپ کو‘ ہے یا’اپنے تئیں؟‘‘
چچا نے کہا:’’فصیح تو یہی معلوم ہوتا ہے جو آپ بولتے ہیں، مگر اس میں دِقّت یہ ہے کہ مثلاً آپ میری نسبت یہ فرمائیں کہ میں آپ کو فرشتہ خصائل جانتا ہوں، اور میں اس کے جواب میں اپنی نسبت یہ عرض کروں کہ میں تو آپ کو کتے سے بھی بدتر سمجھتا ہوں، تو سخت مشکل واقع ہوگی۔ میں تو یہ بات اپنی نسبت کہوں گا اور ممکن ہے کہ آپ اسے اپنی نسبت سمجھ لیں‘‘۔
آخر میں تحدیثِ نعمت کے طور پر بتاتے چلیں کہ میرپور (آزاد کشمیر) سے پروفیسر ڈاکٹر غازی علم الدین نے اپنی گراں قدر تصانیف میں سے تین کتب ’لسانی زاویے‘، ’اُردو کا مقدمہ‘ اور ’میزانِ انتقاد و فکر‘ اپنی جانب سے اِس عاجز کو ازرہِ علم پروری ہدیتاً (یعنی بلا ہدیہ) ارسال فرمائی ہیں۔ کالم نگار تو ان کتب سے استفادہ کر ہی رہا ہے، ان شاء اللہ قارئین کو بھی فائدہ پہنچایا جائے گا۔