ڈاکٹر تحسین فراقی کے فارسی سے دواردو تراجم
کتاب
:
اب کیا کرنا چاہیے اے اقوامِ شرق
مثنوی پس چہ باید کرد کا منظوم اردو ترجمہ
مترجم
:
ڈاکٹر تحسین فراقی
0300-4709273
صفحات
:
190 قیمت: 560 روپے
ناشر
:
ڈاکٹر بصیرہ عنبرین، ناظم اقبال اکادمی پاکستان۔ قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن حکومتِ پاکستان، چھٹی منزل، ایوانِ اقبال، ایجرٹن روڈ، لاہور۔
فون
:
042-36314510,99203573
ای میل
:
info@lap.gov.pk
محلِ فروخت
:
116 میکلوڈ روڈ، لاہور
فون :37357214
ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ ایک مشکل کام ہے، کیونکہ ہر زبان کی اپنی ایک تاریخ، اصطلاحات، ادبیت اور اسلوبِ بیان ہوتا ہے۔ ترجمے میں سب سے زیادہ مجروح ادبیت ہوتی ہے لیکن مضامین کا بیان دوسری زبان میں ہوجاتا ہے۔ ترجمہ خاص طور پر شاعری کا، اور وہ بھی منظوم ترجمہ، ایک بہت ہی مشکل عمل ہے۔ ڈاکٹر تحسین فراقی نے علامہ اقبال کی مشہور مثنوی ’پس چہ باید کرد‘ کا منظوم ترجمہ آزاد شاعری میں خوبی سے کردیا ہے، جس میں علامہ اقبال کی آفاقی شاعری اور پیغام کو دیانت داری سے پیش کرنے کی کوشش بلکہ کامیاب کوشش کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’یہ ایک حقیقت ہے کہ بڑی شاعری ہی بڑی شاعری کے خصائص، معیارات اور شرائط کا تعین کرتی ہے، مگر بڑی شاعری کے مطالبات بہت کڑے اور اس کی تخلیق خونِ جگر کھائے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ایک مشکل یہ آن پڑتی ہے کہ تخلیق کار بعض اوقات کسی متعین مقصد کو پیش نظر رکھ کر شاعری کو اس مقصد کی ترسیل کا ذریعہ بنانا چاہتا ہے۔ اب اگر اس کا متخیّلہ کمزور اور زبان و بیان پر اس کی گرفت ڈھیلی ہو تو شاعری محض ڈھنڈورچی کا اعلان بن کر اپنے مقامِ رفیع سے گر جاتی ہے۔ یوں گویا شاعری اپنی آزاد اور خودمختار حیثیت سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے اور اس کی تاثیر کا دائرہ سکڑ جاتا ہے۔ ایسی شاعری کی حیثیت شعلۂ مستعجل کی ہوتی ہے۔ بس ایک لمحے کی بھڑک، اور اس کے بعد ایک بے روح اور ناقابلِ التفات خاکستر! بڑی شاعری انسانی روح کی عمیق ترین آوازوں اور آرزوئوں کو محفوظ کرتی ہے۔ یہ ایک انتہا سے اگلی انتہا کا سفر سانس پھولے بغیر جاری رکھتی ہے تاآنکہ فکر و خیال کا ایک نامیاتی کل ظہور کرتا ہے، خیال اور الفاظ گھل مل کر ایک حیران کن وحدت تشکیل دیتے ہیں اور پڑھنے والا تو کیا، خود لکھنے والا ایک سرشاری کی کیفیت سے ہمکنار ہوتا ہے۔ بڑا شاعر زبان کے ہاتھ میں ایک ہتھیار نہیں ہوتا۔ تلوار کی کاٹ سے کسے انکار ہے، مگر یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ تلوار کاٹتی ہے مگر ہاتھ چاہیے!
اقبال کا ظہور برعظیم کی تاریخ کے ایک ایسے موڑ پر ہوا جب صدیوں سے جاری مسلم حاکمیت اور سالمیت پارہ پارہ ہوچکی تھی اور سات سمندر پار سے قوت اور برتری کے نشے میں چُور ایک قوم نے اس سرزمین پر اپنے پنجے گاڑ لیے تھے۔ حادثہ یہ ہوا کہ معاشرے کی بچی کھچی خلاّق قوتوں نے بھی زیادہ تر استعمار کی غلامی کو ذہناً قبول کرلیا تھا۔ اقبال اس صورتِ حال میں ایک بڑا انقلاب لانے کے متمنی تھے۔ وہ ایک ایسے معاشرے کو وجود میں لانے کے آرزومند تھے جہاں متخیّلہ مقید اور معتوب نہ ہو۔ صداقت اور خلاّقیت کے بڑے سرچشموں سے فیض اندوزی نے ان کی شخصیت میں عرفانِ ذات، حریتِ فکر، سربلندی اور جہانِ تازہ کی نمود کے شکست ناپذیر داعیے کی تخلیق کی، اور اسی داعیے کے نتیجے میں اردو اور فارسی شعر و ادب میں بالِ جبریل، پیامِ مشرق، زبورِ عجم، جاوید نامہ، گلشنِ راز جدید اور ’’پس چہ باید کرد‘‘ جیسے شعری معجزے ظہور میں آئے۔ مقصد نے شاعری کا گھٹنا نہیں دبایا، اور نظریے نے شاعری کو پابہ زنجیر نہیں کیا۔ یہ سب اس وجہ سے ممکن ہوا کہ اقبال کو قدرت کی طرف سے بے مثال متخیّلہ ملا تھا، اور انہوں نے مشرق کی فلسفیانہ، شعری اور تہذیبی روایت اور اس کے اسالیب کو بڑی حیران کن صورت میں اپنے وجود میں گھلا ملا لیا تھا۔ کیا یہ ایک حیرت خیز معاملہ نہیں کہ مسلم ثقافت، مسلم نشاۃ ثانیہ اور مسلم فضائل کو سربلند اور پورے آفاق میں پھیلا دینے کا متمنی یہ شاعر اپنی شاعری کو نعرہ بننے سے کس خوبی سے بچالے جاتا ہے، اور اسے چند مستثنیات کو چھوڑ کر کہیں بھی سپاٹ نہیں ہونے دیتا۔ یہیں آکر یہ حقیقت کھلتی ہے کہ مقصدی شاعری کو صرف ایک ہی شے نعرہ بننے سے بچاتی ہے، اور وہ ہے زبان کا نہایت خلاّقانہ استعمال۔ اور یہ استعمال بہ ذاتِ خود ایک خلاّق ذہن اور غیر معمولی لسانی شعور کا زائیدہ ہوتا ہے۔ اقبال کے پاس یہ دونوں ہتھیار تھے!
’’پس چہ باید کرد‘‘ اقبال کے اُن شعری صحیفوں میں سے ایک ہے جس کے تاروپود میں مقصدیت رچی بسی ہے۔ وفات سے صرف دو برس پہلے لکھی جانے والی یہ کتاب اپنے مطالب اور مفاہیم کے اعتبار سے حد درجہ قابلِ توجہ ہے۔ اس کتاب کے ظہور میں آنے سے اٹھارہ، بیس برس قبل ’رموزِ بے خودی‘ اور ’اسرارِ خودی‘ منصۂ شہود پر آچکی ہیں۔ اقبال کا شاہ کار ’جاوید نامہ‘ اس کی آمد سے تین چار برس پہلے شائع ہوچکا ہے۔ شعری کمالات کے حامل تین مجموعے ’پیام‘، ’زبور‘ اور ’بالِ جبریل‘ شائع ہوچکے ہیں۔ بہ ظاہر ایسا لگتا ہے کہ اقبال اپنے تمام شعری امکانات، اعلیٰ نصب العین، عمرانی تصورات، قوموں کے عروج و زوال کے اسباب و علل اور نشاۃ ثانیہ کے بھید بھائو بتاچکے ہیں اور اب اُن کے پاس کوئی بات کہنے کو نہیں۔ مگر ایسا نہیں۔ جس باغبانِ ازلی نے ان کی مٹی میں مصرع بوکر شمشیر کی فصل کاٹی تھی اس نے انہیں سُجھایا کہ شجر کو نخلِ سینا بنانے کا عمل تادمِ آخر جاری رکھنا تمہارا مقدر ہے۔ کُل تریسٹھ برس کی قلیل زندگی، مگر کتنی بابرکت اور بار آور رہی!
کُل پانچ سوتیس شعروں پر مشتمل ’’مثنوی پس چہ باید کرد‘‘ کا مطالعہ قاری کے اندر گوکہ حساسِ نشاط بھی پیدا کرتا ہے، مگر اس سے بڑھ کر احساسِ درد کی جوت جگاتا ہے۔ اس چھوٹی سی مثنوی میں اقبال نے کئی زمانوں کو نہایت ایجاز کے ساتھ سمیٹ لیا ہے۔ اس میں ایجاز، اعجاز کی حدوں تک پہنچتا ہے۔ دو دو مصرعوں میں ایسے ایسے مضامین سمیٹ لیے ہیں کہ ان کی معجزبیانی پر حیرت ہوتی ہے۔ مثنوی کے کتنے ہی شعر اور مصرعے ہیں جو ضرب المثل بن کر آج بھی اہلِ علم کے نوکِ زبان ہیں۔‘‘
ڈاکٹر صاحب مزید لکھتے ہیں:
’’یوں تو فکرِ اقبال کا پورا سرمایہ میرے لیے الہام گیری (Inspiration) کا سبب رہا ہے، مگر ان کے شعری کارنامے تو کم و بیش سارے کے سارے ہی میرے لیے مسرت، بہجت اور حکمت آموزی کا سامان رہے ہیں۔ ’’پس چہ باید کرد‘‘ کا مطالعہ میں نے آج سے کوئی تیس برس پہلے کیا، اور پھر متعدد بار کیا۔ خیال آیا کہ کیوں نا اس کا منظوم اردو ترجمہ کردوں، کیونکہ اب ملک میں فارسی کا چلن وہ نہیں رہا جو کبھی تھا۔ اسی احساس کے پیش نظر میں نے کوئی پچیس برس پہلے اس کے چند حصوں مثلاً ’’بہ خوانندۂ کتاب‘‘، ’’تمہید‘‘ اور ’’پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق‘‘ کے ایک حصے کا آزاد منظوم ترجمہ کیا، جسے میں نے اپنے دوسرے شعری مجموعے ’’شاخِ زریاب‘‘ (2012ء) میں شامل کیا۔ یہ ترجمے الگ سے بھی بعض ادبی مجلوں میں شائع ہوئے۔ ان تراجم کو اہلِ علم نے پسند کیا۔ اِس سال فروری کے اوائل میں، میں نے نہ صرف اپنے سابقہ ترجمہ کردہ حصوں پر نظرثانی کی بلکہ پوری کتاب ہی کا ترجمہ کرنے کی ٹھانی، اور الحمدللہ کہ ایک ڈیڑھ مہینے میں یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچا۔ ترجمے میں، میں نے اصل متن سے حتی الوسع وفادار رہنے کی کوشش کی ہے، مگر جہاں ناگزیر تھا بعض کلمات کے، قلابین میں درج کرنے کا اہتمام بھی کیا ہے۔ میں نے اس ترجمے پر کئی بار نظر ڈالی اور ترمیمات کیں۔ بعدازاں ممتاز دانشور ڈاکٹر خورشید رضوی سے بھی مسودے پر نظرثانی کی درخواست کی۔ انہوں نے ترجمے کو بڑی دقتِ نظر سے دیکھا اور نہ صرف بعض اسقام کی نشاندہی کی بلکہ چند مصرعوں کے متبادل تراجم بھی میری سہولت کے لیے تجویز کردیے۔ میں نے ان کے بیشتر مشوروں کو مفید اور موزوں پایا، اور ترجمے میں مناسب ترامیم کرلیں۔ میں اس کرم کے لیے ڈاکٹر صاحب کا بے حد ممنون ہوں۔
’’پس چہ باید کرد‘‘ کے متعدد اردو، ایک دو پنجابی، اور ایک انگریزی ترجمہ شائع ہوچکے ہیں۔ یقیناً اور بھی ہوں گے۔ میرے حساب میں پیشِ نظر آزاد منظوم ترجمہ شاید پہلا ہے۔ امید ہے قارئین اور فکرِ اقبال کے دلدادگان اس ترجمے سے لطف اندوز ہوں گے، ہاں اس میں موجود کمیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی میں بھی تامل نہیں کریں گے۔ اردو ترجمے کے ساتھ اصل فارسی متن بھی کتاب کے آخر میں شامل کردیا گیا ہے تاکہ قاری کو تقابل کی سہولت رہے۔ کتاب کی اشاعت کے لیے راقم، اقبال اکادمی کی ناظم محترمہ ڈاکٹر بصیرہ عنبریں کا شکر گزار ہے جن کی بار بار کی یاددہانی مجھے مہمیز کرتی رہی۔ خدا کرے کہ یہ ترجمہ فکرِ اقبال کی ترویج و اشاعت میں معاون ہو، اور اس سے ملّتِ اسلامیہ کے قلوب حرارت اندوز ہوسکیں۔ کتاب کا انتساب اپنے رنگ کے واحد فلسفی، نامور دانشور اور دردمند پاکستانی ڈاکٹر برہان احمد فاروقی کے نام کیا گیا ہے جن سے مجھے بے حد تعلق خاطر تھا، اور جن کے خوانِ علم کا میں ریزہ چین رہا ہوں‘‘۔
علامہ اقبال نے مثنوی میں 14 عنوانات کے تحت اپنے افکار پیش کیے ہیں جو درج ذیل ہیں:
(1) کتاب کے قاری سے، (2) تمہید، (3) مہر عالمتاب سے خطاب، (4) کلیمی حکمت، (5) حکمتِ فرعونی، (6) لاالٰہ الااللہ، (7) فقر، (8) مردِ حر، (9) اسرارِ شریعت، (10) ہندیوں کے نفاق پر چند آنسو، (11) عہدِ حاضر کا نظامِ سیاست، (12) امتِ عربیہ سے چند باتیں، (13) اب کیا کرنا چاہیے اے اقوامِ شرق، (14) حضورِ رسالت مآبؐ میں۔
ڈاکٹر صاحب نے کتاب پر 20 صفحات کا مبسوط بیش قیمت مقدمہ تحریر کیا ہے۔ ہم نے مندرجہ بالا اقتباسات اسی سے لے کر اپنے تعارف میں درج کیے ہیں، مقدمے کا عنوان علامہ کا ایک مصرع ہے:
طوفِ خود کن، گِردِ ایوانے مگرد
یعنی اپنی ذات کو مرکز بناکر اپنی خودی کی تعمیر کرو، نہ کہ دوسروں کے ایوانوں کے چکر لگائو۔
اسی مثنوی میں ایک شعر ہے:
در عجم گردیدم و ہم در عرب
مصطفی نایاب د ارزاں بولہب
یعنی ہر طرف خیر پر شر کا غلبہ تھا۔
کتاب سفید کاغذ پر عمدہ طبع کی گئی ہے، مجلّد ہے۔ رنگین سرِورق سے مزین ہے۔