مودی کا بھارت، اور مفاہمت کی سیاست

پاکستان اور بھارت کے درمیان بہتر تعلقات ہی اس خطے کی ترقی کے لیے کلید کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن تعلقات کی بہتری کا عمل اسی صورت میں ممکن ہوسکتا ہے جب دونوں ملکوں کی سیاسی و عسکری قیادتیں تعلقات کی بہتری کو اپنی ترجیح سمجھیں۔ ترجیحی بنیاد پر دونوں ملکوں کا ایک دوسرے سے بہتر تعلقات کا ایجنڈا واضح اور شفاف ہونا چاہیے، اور یہ سب کو نظر بھی آنا چاہیے۔ کیونکہ نعروں یا خوشنما لفظوں کی سیاست اسی صورت میں اپنا رنگ دکھاتی ہے جب عملی اقدامات بھی شفافیت پر مبنی ہوں۔ بہتر تعلقات کی بنیاد عملی طور پر دو طرفہ مکالمہ، بات چیت یا مذاکرات کا عمل ہوتا ہے، اور اسی کی بنیاد پر تنازعات کو ختم کرکے ایک دوسرے کے لیے سازگار ماحول یا اعتماد کی بحالی کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی بہتری کسی سیاسی تنہائی میں ممکن نہیں ہوسکتی۔ اس کے لیے دو طرفہ خواہش اور حکمتِ عملی سے جڑے عملی اقدامات شرط ہیں۔ اس میں طاقت کے اُن مراکز کو بھی آگے بڑھ کر تعلقات کی بہتری کی کوششوں کا حصہ بننا پڑے گا جو دونوں ملکوں کے فیصلوں میں اپنا اثر رکھتے ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم بہتر تعلقات کے بجائے مسلسل تعطل، اعتماد کے بحران، الزامات پر مبنی سیاست، ایک دوسرے کو خراب صورت حال کا ذمہ دار قرار دینے کی سیاست کا شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت تعلقات کی بہتری کا عمل جمود کا شکار ہے۔ لیکن اس بات کا تجزیہ کیا جانا بھی ضروری ہے کہ یہ جمود کس نے پیدا کیا ہے اور کون اس وقت بگاڑ یا انتشار کی سیاست کو طاقت دے کر نہ صرف دونوں ملکوں، بلکہ خطے کی سیاست کو بھی عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتا ہے۔
یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ پاکستان سمیت خطے کے تمام ممالک بشمول عالمی طاقتوں کو ماضی کے بھارت کے مقابلے میں ایک نئے بھارت کا سامنا ہے۔ بھارت کے اس نئے تشخص کی قیادت نریندر مودی اور آر ایس ایس سمیت ہندوتوا کے دوسرے پیروکاروں کے ہاتھ میں ہے۔ یہ قیادت بغیر کسی جھجک، ڈر، خوف کے بھارت کو سیکولر ریاست کے بجائے ہندوتوا پر مبنی ریاست بنانا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی برادری سمیت بھارت میں جو لوگ بھی سیکولر سیاست کے حامی ہیں وہ نریندر مودی کی سیاست کو بھارت کی سیاست، جمہوریت اور آئین کے خلاف بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ ان کے بقول مودی کی ہندوتوا پر مبنی انتہا پسند سیاست نے بھارت کو مختلف حصوں میں تقسیم کردیا ہے جو بھارتی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ ہے۔
بدقسمتی سے انتہا پسندی پر مبنی سیاست یا سیاسی رجحانات ہمیں دنیا بھر کی سیاست میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ پاکستان خود بھی انتہا پسندی اور دہشت گردی کی جنگ سے باہر نکلنے میں بہت حد تک کامیاب ہوا ہے، لیکن اس کے باوجود یہ مسئلہ پوری طرح حل نہیں ہوا، بلکہ ابھی بھی ہمیں داخلی معاملات میں کئی طرح کے انتہاپسند رجحانات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ لیکن اب بھارت ہمارے تجربے سے سیکھنے کے بجائے خود کو انتہاپسندی کی سیاست میں دھکیل رہا ہے۔
بھارت کو اس وقت چار مختلف چیلنجز کا سامنا ہے:
(1) انتہا پسندی کی انفرادی یا اجتماعی حمایت کرنے والوں کو ریاستی و حکومتی سرپرستی حاصل ہے، اور ان کی حمایت میں ریاست مددگار کے طور پر کھڑی ہے۔
(2) مودی نے ریاستی اور حکومتی اداروں کو اپنی انتہاپسندی کی حمایت کرنے پر مجبور کردیا ہے، یا ریاست و حکومت کو انتہا پسندی کی مدد کے لیے یرغمال بنالیا ہے۔
(3) بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اُس پر بھی عالمی برادری میں تشویش پائی جاتی ہے، اور مختلف عالمی رپورٹوں میں اس نکتے کو اجاگر کیا گیا ہے۔
(4) بھارت سمجھتا ہے کہ پاکستان کی تعلقات کی بہتری کی بہت زیادہ کوشش اور جذباتیت اُس کی داخلی کمزوری کی عکاسی کرتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان سے تعلقات کی بہتری یا مذاکرات کی بحالی میں بھارت کا رویہ سخت گیر ہے، اور وہ مذاکرات کی بحالی کے بجایے عملاً معاملات کو خراب ہی رکھنا چاہتا ہے۔ اس لیے پاکستان کو بھارت کے تناظر میں خاصی مشکلات کا سامنا ہے، اور اس میں بڑی رکاوٹیں غالب ہیں۔ اس کی وجہ مودی اور اُن کے اردگرد موجود وہ انتہا پسند قیادت ہے جو سمجھتی ہے کہ بھارت کی طاقت سیکولر سیاست کے مقابلے میں ہندوتوا کی سیاست ہے۔ بھارت کی انتہا پسند قیادت افغانستان کے معاملات میں براہِ راست مداخلت، اور افغان حکومت کی سرپرستی کرکے پاکستان کو عدم استحکام کی طرف دھکیل رہی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو آج کا بھارت ماضی کے بھارت سے خاصا مختلف ہے۔ ان حالات میں مذاکرات کا کھیل پیچھے اور سیاسی تنائو یا سیاسی محاذ آرائی کا کھیل زیادہ بالادست ہے۔
حالانکہ بھارت سے تعلقات کی بحالی یا بہتری میں اس وقت پاکستان کے مؤقف میں کافی جان بھی ہے اور سیاسی لچک بھی۔ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنا کر معاشی ترقی اورامکانات کے عمل کو طاقت دینا چاہتا ہے، اوراسی بنیاد پر ماضی کی تلخیوں، تنائو اور ٹکرائو سے باہر نکل کر بھارت کو تواتر کے ساتھ مذاکرات اور تعلقات کی بہتری کا واضح پیغام دے رہا ہے۔یہ پیغام پاکستان کی محض سیاسی قیادت ہی نہیں بلکہ عسکری قیادت بھی دے رہی ہے، مذاکرات کے تناظر میں پاکستان کی اوّلین شرط کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق مسئلہ کشمیر کا پُرامن حل ہے۔ پاکستان کے بقول بھارت سے معاملات اسی صورت میں آگے بڑھ سکتے ہیں جب بھارت مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر لچک کا مظاہرہ کرے۔
مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگرچہ بھارت میں مودی کی ہندوتوا کی سیاست کی مزاحمت کرنے والے بھی موجود ہیں۔ سیاسی، سماجی دانشور، صحافی، کالم نگار، مصنف، شاعر، ادیب، فن کار، سبھی مودی کی انتہا پسند سیاست کو بھارت کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ان کی مزاحمت اب تک کوئی مؤثر نتیجہ پیدا نہیں کرسکی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مودی کا انتہا پسندی کا جادو چل رہا ہے اور لوگوں کو لگتا ہے کہ سیکولر سیاست کے مقابلے میں بھارت کا مستقبل ہندوتوا کی سیاست سے جڑا ہوا ہے۔ بھارت میں بننے والی بیشتر فلمیں مسلم دشمنی یا پاکستان دشمنی پر مبنی ہوتی ہیں، اور ان میں زیادہ تر نفرت اور تعصب پر مبنی مواد ہوتا ہے۔ پاکستان میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو انتہا پسند رجحانات یا بھارت دشمنی کا رویہ رکھتے ہیں، مگر جو انتہا پسندی بھارت میں نظر آتی ہے وہ پاکستان کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔
ایک مسئلہ پاکستان اور بھارت کے درمیان میڈیا کے محاذ پر جاری کھیل کا بھی ہے۔ بھارت کا میڈیا پاکستان کے مقابلے میں زیادہ پاکستان مخالف ایجنڈا رکھتا ہے، اور اسی بنیاد پر وہ پاکستان مخالف مہم میں شدت پیدا کرکے عام لوگوں میں نفرت کے کاروبار کو فروغ دیتا ہے، اور اس میڈیا کو ہر محاذ پر مودی سرکار اور ریاست کی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ بدقسمتی سے دونوں ملکوں کے میڈیا نے دونوں ممالک کو قریب لانے کے بجائے ان میں دوریاں پیدا کی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی ملک مفاہمت کی سیاست کے نام پر ایک قدم آگے بڑھاتا ہے یا اُس کی واقعی یہ خواہش ہو تو اسے انتہا پسند عناصر یا انتہا پسند حکومت کے سامنے بے بسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس وقت پاکستان اور بھارت کو ماضی کی تلخیوں، روایتی سیاست اور نعرے لگانے کے بجائے ایک دوسرے کے ساتھ غیر معمولی فیصلے یا ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جو دونوں ملکوں میں اعتماد کا ماحول پیدا کرنے کا سبب بن سکیں۔ یہ نہ صرف بھارت کے حق میں بہتر ہوگا بلکہ اس کے مثبت اثرات خطے کی مجموعی سیاست پر بھی پڑیں گے۔