وطنِ عزیز ہفتہ رواں کے دوران اپنی آزادی کا75 واں سال شروع کرنے والا ہے۔ یہ کوئی معمولی سفر نہیں۔ اس عرصے کے دوران پاکستان ایٹمی قوت بنا ہے اور بے شمار کامیابیاں حاصل کی ہیں، تاہم ایک حقیقی اسلامی نظریاتی مملکت کے قیام کی جانب کوئی عملی قدم اٹھتا نظر نہیں آرہا۔ ملک میں آئین ہے، مگر اس کے ضابطوں کی پابند جمہوریت نہیں، پارلیمنٹ ہے۔ مگر حکومتیں آرڈی نینسوں کے ذریعے چلائی جاتی ہیں۔ احتساب کے لیے نیب ہے، مگر اس نے کرپٹ ٹولے کو دو حصوں میں بانٹ رکھا ہے، جو حکومت کے ساتھ ہیں اُنھیں ہر قسم کی رعایت، اور اپوزیشن کے لیے سختیاں، جیل اور تفتیش۔ ملکی آبادی کی بہت بڑی تعداد انصاف کے حصول کے لیے عدالتوں میں رُل رہی ہے، ماتحت عدالتوں سے لے کر سپریم کورٹ تک لاکھوں مقدمات برس ہا برس سے زیر التوا ہیں۔ ہر اپوزیشن کہتی ہے کہ حکومت ڈیل کرکے آئی ہے، اور حکومتیں کہتی چلی آئی ہیں کہ انہیں عوامی مینڈیٹ ملا ہے۔ جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویزمشرف نے بھی سیاسی نظام بنایا تھا، وہ بھی یہی کہتے رہے کہ انہیں عوامی مینڈیٹ ملا ہے۔ اسی کھیل میں74 سال گزر گئے ہیں۔ پاکستان کی سیاست کا بڑا المیہ ہے کہ ڈیل کیے بغیر اقتدار میں نہیں آیا جاسکتا۔ کسی بھی سیاسی جماعت کو اقتدار کے لیے موقع ملے تو وہ سمجھوتا کرلیتی ہے۔ یہاں سیاست دانوں کو برا بھلا کہنے کی رسم چل نکلی ہے۔ سیاست دانوں کو معاشرے کا سب سے برا طبقہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ حکومتیں ڈیل کے بغیر نہیں بنتیں۔ ہر سیاسی جماعت کی اپنی اپنی تنخواہ ہے۔ کوئی کم پر راضی ہے اور کوئی اپنے نام کے ساتھ محض وزارتِ عظمیٰ کا ٹیگ لگنے پر مطمئن ہے۔ ہر سیاسی جماعت آئین کے آرٹیکل 6پر بہت زور دیتی ہے، مگر آئین کے آرٹیکل 31 کا کوئی ذکر نہیں کرتا، یہ آرٹیکل کہتا ہے کہ وفاقی حکومت ایسے اقدامات کی پابند ہوگی جن سے ملک کے شہری قرآن اور سنت کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے تیار ہوں، ان کی تربیت کی جائے اور انہیں عملی طور پر ایسا ماحول فراہم کیا جائے۔ یہ وفاقی حکومت کی آئینی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری ہے۔ 1973ء کا آئین منظور ہوئے48 سال ہوچکے ہیں، اس دوران ضیاء دور میں گیارہ سال اور پرویزمشرف دور میں چار سال یہ عملاً معطل رہا، اور یوں ملک میں33 سال جمہوریت رہی۔ یہ جمہوریت بھی کیسی تھی؟ اس کا فیصلہ قاری پر ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی ادارہ ہے، تاہم پارلیمنٹ اس کی سفارشات تسلیم کرنے کی پابند نہیں۔ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور میں اقبال احمد خان کی سربراہی میں پہلی بار اس کی سالانہ رپورٹ مرتب کی گئی تھی۔ یہ رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش ہوئی اور پھر کہیں گم ہوگئی۔ ابھی حال ہی میں حکومت نے گھریلو تشدد سے متعلق بل اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل اس پر جو فیصلہ کرے گی وہ پارلیمنٹ میں زیر بحث آئے گا، مگر یہ ضروری نہیں کہ پارلیمنٹ اس کی سفارشات کو قبول کرے۔ گھریلو تشدد کے بل جیسے قوانین سندھ، بلوچستان، پنجاب اور خیبر پختون خوا میں منظور ہوچکے ہیں، صرف اسلام آباد میں نہیں ہوئے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے خیبر پختون خوا کے بل کے بارے میں اعتراضات اٹھائے تھے جو فی الحال تسلیم نہیں ہوئے۔ پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے، یہاں منتخب نمائندے بھی اسلام کی تشریح لے کر قانون سازی کرتے ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا کردار ایک مفصل جائزے کا متقاضی ہے، اور جو افراد اس کے سربراہ اور ممبر رہے وہ خود اپنا احتساب کریں کہ تنخواہیں لینے کے سوا انہوں نے اپنی سفارشات پارلیمنٹ سے منظور کرانے کے لیے کیا کردار ادا کیا، یا محض پارلیمنٹ کے سامنے ہاتھ باندھ کر، بے بس ہوکر کھڑے رہ کر وقت گزار دیا!
اسلام آباد میں حالیہ دنوں میں دفتر خارجہ بھی متحرک رہا۔ وزارتِ خارجہ ہمیشہ ہی متحرک رہتی ہے، اور اس کا سفر دائروں میں جاری رہتا ہے۔ ان دنوں افغانستان کے حالات اس کے تحرک کا باعث ہیں۔ بیرونِ ملک سے آنے والی شخصیات کی بے شمار ایسی ملاقاتیں ہیں جو اسلام آباد میں نہیں بلکہ راولپنڈی میں ہوئی ہیں۔ عالمی طاقتوں کے مفادات کے باعث ان کی نگاہوں کا مرکز بنا ہوا ہے، پاکستان سے افغانستان کے عوامی رابطے تو بہت گہرے ہیں، کہ بے شمار خاندان سرحد کے آرپار آباد ہیں۔ حالیہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ظاہر شاہ کے بعد افغانستان میں مرکزی سیاست کا جھکائو ماسکو اور دہلی کی طرف رہا۔ پاکستان سے حکومتی اختلاف کی بڑی وجہ ڈیورنڈ لائن ہے۔ اب آج کی حقیقت یہ ہے کہ قبائلی علاقے مکمل جمہوری انداز سے کے پی کے کا حصہ بن گئے ہیں جس سے زمینی حقائق تبدیل ہوچکے ہیں۔ پاکستان بھی یہی چاہتا ہے کہ وہ اس خطے میں زمینی حقائق کے مطابق ہی اپنے معاشی اور تزویراتی مفادات کا تحفظ کرے۔ یہ بات دہلی اور امریکہ کو قبول نہیں ہے۔ چین اور روس اگرچہ امریکہ کے خلاف پاکستان کا ساتھ دے رہے ہیں، تاہم انہیں اپنے مفادات بھی عزیز ہیں۔ دنیا بھر میں سفارت کاری کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ہر ملک صرف اپنے مفاد میں کسی کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے اور سہولت کار بنتا ہے۔ بھارت کی افغانستان سے نہ سرحد ملتی ہے اور نہ براہِ راست فضائی رابطہ ہے۔ وہ افغان فوج کو اسلحہ فراہم کرکے اشرف غنی کی حکومت کا پشتیبان بنا ہوا ہے اور امریکہ اس کی پشت پر ہے۔ بھارت کے اس کردار پر جنوبی ایشیا کے ذرائع ابلاغ کے ادارے تجزیہ دے رہے ہیں کہ بھارت اپنی غربت اور مسائل نظرانداز کرکے افغانستان میں کیوں سرمایہ کاری کررہا ہے، جب کہ یہ نامرادی کا سودا ہے! اس پس منظر میں اگر امریکی حکومت کی ترجیحات دیکھی جائیں تو منافقت اور عیاری کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ ڈیموکریٹس خود کو انسانی حقوق کا علَم بردار سمجھتے ہیں، مگر ڈیموکریٹس صدر جوبائیڈن افغانستان کی جنگ میں ذلت آمیز ناکامی کے باوجود اسے چھوڑنے کو تیار نہیں۔ فوجی انخلا کا پروگرام خاموشی سے طویل ہوتا جارہا ہے، اور یہ کسی گریٹ گیم کا حصہ ہے۔ دوحہ امن مذاکرات اور امریکی محفوظ انخلا کے بعد افغانستان کو تبدیل ہونا چاہیے تھا، مگر حالات تشویش ناک بن رہے ہیں۔ اب روس کی میزبانی میں روس، امریکہ، چین اور طالبان کے امن مذاکرات دوحہ میں ہونے والے ہیں، لیکن امن کے قیام کی کوئی شکل نظر نہیں آرہی۔ یہ صورت حال پاکستان کے لیے بہت پیچیدہ ہے۔ اسی پس منظر میں وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی سلامتی سے متعلق ایک اجلاس ہوا جس میں وفاقی وزراء سمیت سول اور اعلیٰ عسکری حکام شریک ہوئے۔ وزیراعظم آفس کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق اجلاس میں ملکی سلامتی، سیکورٹی اور افغانستان کی تیزی سے بدلتی صورتِ حال سمیت بارڈر مینجمنٹ کا جائزہ لیا گیا۔ افغانستان کی موجودہ صورت حال اور اس کے پاکستان پر ممکنہ اثرات، افغان مہاجرین کی متوقع آمد اور مہاجرین کی آڑ میں دہشت گردوں کے پاکستان میں داخلے کی روک تھام کی حکمت عملی پر غور کیا گیا۔ بارڈر مینجمنٹ، خطے کی مجموعی صورت حال اور داخلی سیکورٹی کو درپیش چیلنجز پر بھی بریفنگ دی گئی۔ اجلاس میں وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد، وزیراطلاعات فواد چودھری، وزیر قانون فروغ نسیم، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید، ڈی جی ملٹری آپریشنز میجر جنرل نعمان زکریا، ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابرافتخار سمیت دیگر متعلقہ اعلیٰ سول و فوجی افسروں نے شرکت کی۔ اجلاس میں پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں کے ایشوز حل کرنے کے لیے بین الصوبائی سرحدی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا، اور طے کیا گیا کہ مذکورہ کمیٹی سروے آف پاکستان 2021ء کے ذریعے صوبائی سرحدوں کے تنازعات حل کرے گی۔ وزیر خارجہ، وزیر اطلاعات، وزیر انسانی حقوق اور وزیر داخلہ پر مشتمل 5 رکنی کمیٹی قائم کی گئی۔
ایک آخری بات جس کا ذکر بہت ضروری ہے، بھارت نے ایک ماہ کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدارت سنبھال لی ہے۔ ہر رکن ملک باری باری ایک ماہ کے لیے سلامتی کونسل کی صدارت کی ذمہ داریاں سنبھالتا ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چودھری نے اس موقع پر ایک بیان جاری کیا کہ ’’امید ہے بھارت سلامتی کونسل کی صدارت کی اقدار کی پاسداری اور قواعد کا احترام کرے گا، بھارت کو مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسئلے پر سلامتی کونسل کی منظور کردہ قراردادوں کی ذمہ داری یاد کرائیں گے‘‘۔ یہ کشمیر پر ایک روایتی بیان ہے جو موجودہ حکومت کو دینا چاہیے تھا، مگر اسے ایک عالمی ادارے میں جس طرح شکست ہوئی، اس پر یہ حکومت معافی کے قابل نہیں ہے۔ سلامتی کونسل کے اجلاس میں پاکستان کو اپنا موقف پیش کرنے کی اجازت تک نہیں ملی۔ دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چودھری نے کہا ہے کہ ”سلامتی کونسل کے پلیٹ فارم کو پاکستان کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا گیا، امن عمل میں پاکستان کا کردار پوری دنیا نے تسلیم کیا، افغانستان کے مسئلے کا واحد حل سیاسی مذاکرات ہیں، اپنا موقف عالمی برادری کے سامنے رکھ چکے ہیں، کابل کی صورتِ حال پر سلامتی کونسل میں بحث کا بغور جائزہ لیا ہے، پاکستان کو سلامتی کونسل میں بات کرنے کی اجازت نہ دینا انتہائی افسوسناک ہے۔“
بھارت کو سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن کی حیثیت سے کونسل کی صدارت کا موقع ملا ہے تو اُس نے پاکستان کے خلاف اپنے خبث ِ باطن کا مظاہرہ کیا، اور افغانستان کے اہم ترین معاملے پر بات کے لیے پاکستان کو اجلاس میں شرکت کی اجازت ہی نہیں دی، جبکہ بعض این جی اوز کو اجلاس میں بلا لیا گیا۔ اِسی سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ اگر بھارت کو کسی طاقت کی آشیرباد مل جائے تو وہ پاکستان کے خلاف کیا کیا سازشیں کرسکتا ہے۔ بھارت کے نمائندے نے سلامتی کونسل کے اجلاس کو پاکستان مخالف پروپیگنڈے کا فورم بنانے میں مدد کی، حالانکہ پاکستان اگر اجلاس میں شرکت کرتا تو کوئی نہ کوئی راستہ تلاش کرنے کی تجویز دیتا۔