پچھلے دنوں ہمارے ملک کے اخبارات، جرائد، برقی ذرائع ابلاغ اور سماجی ذرائع ابلاغ میں ایک لرزہ خیز خبر کا بڑا چرچا رہا۔ یہ ’چرچا‘ بھی خوب لفظ ہے۔ اس کے صوتی آہنگ سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے بہت سے مرد وزن مل کر باہم ’چاؤں چاؤں‘ کررہے ہوں۔ ہندی الاصل لفظ ہے۔ معنی: لگاتار ذکر، شہرت، افواہ، بات پھیلنا وغیرہ۔ ’چرچا‘ ہندی میں مؤنث مگر اردو میں مذکر ہے۔ اکبرؔ کا مشہور شعر ہے:
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
مگر یہاں تو چرچا ہی قتل کا تھا۔ ایک بڑے گھر کے بیٹے نے گھر بلا کر ایک بڑے آدمی کی بیٹی پر وحشیانہ تشددکیا، پھر اُسے قتل بھی کر ڈالا۔ ذرائع ابلاغ ہی کی اطلاع کے مطابق یہ دونوں بغیر نکاح کے ایک دوسرے کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ کچھ دنوں سے دونوں میں اَن بَن تھی۔ قابلِ مذمت ہیں دونوں باتیں۔ بے نکاحے تعلقات بھی اور وحشیانہ قتل کی واردات بھی، کہ بقول راغب تحسینؔ:
طالبِ حُسن پہ تُھو، حُسنِ ریا کار پہ تُھو!
بعد تُھو تُھو کرنے کے، عرض ہے کہ مرد، عورت بغیر نکاح کیے ساتھ رہنے سہنے لگیں تو اس کے لیے انگریزی میں بہت دل کش، دِل آویز اور پُرکشش الفاظ ہیں۔ مثلاً: Live-in relationship … Cohabitation …Civil union … Domestic partnership وغیرہ۔ مگر افسوس کہ اس قسم کے رہن سہن کے لیے اردو میں استعمال ہونے والے الفاظ میں ایسی کشش نہیں۔ لغاتِ اُردو میں اِس ’روشن خیالی‘ کو کالے کرتوتوں میں گِنا گیا ہے۔ پھر ان کرتوتوں کے لیے جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں، اُن کو سُن کر بھی طبیعت خوش نہیں ہوتی، دل بُرا ہی ہوتا ہے۔ مثلاً بدکاری، حرام کاری اور زناکاری وغیرہ۔
صاحبو! ہر زبان اپنی اپنی تہذیب رکھتی ہے، اور یہی کہتی ہے کہ ’میری تہذیب، میری مرضی‘۔
نکاح کے بغیر رکھی ہوئی عورت اُردو میں داشتہ یا ’رکھیل‘ کہلاتی ہے۔ ’رکھیل‘ کا مطلب حقی صاحب کے الفاظ میں ’گھر میں ڈالی ہوئی عورت‘ ہے۔ الفاظ ہی سے اُس کی توقیر کا اندازہ لگالیجیے۔ ظفرؔ کمالی اُردو زبان کے شاعر ہیں۔ شاید اسی وجہ سے انھیں بھی صدمہ ہے کہ
نکاح کر نہیں سکتی وہ مجھ فقیر کے ساتھ
رکھیل بن کے رہے گی کسی وزیر کے ساتھ
لغاتِ مغربی میں مذموم عمل صرف “Rape”ہے، جسے اُردو لغت میں ’زِنابالجبر‘ کہا گیا ۔ اُردو میں زِنا، زِنا ہی ہے، خواہ بالرضا ہو یا بالجبر۔ زانی، زانی ہی ہے اور زانیہ، زانیہ۔ انسان اور اس کی تمام قوتوں اور قابلیتوں کے خالق و مالک نے بڑی سختی سے حکم دیا ہے: ’’خبردار، زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا، کیوں کہ وہ یقینی طور پر بڑی بے حیائی ہے اور بہت ہی بُرا راستہ‘‘ (بنی اسرائیل۔آیت: 32)۔ اب جو چاہے اللہ واحد القہار کے آگے بھی ’تختۂ اعلان‘ پکڑکر کھڑا ہوجائے اورمنہ پر ڈھاٹا باندھ کر ڈھٹائی سے چیں چیں چِلّائے : ’’میرا جسم، میری مرضی‘‘۔
اُردو میں زنا کاری کے فعلِ بد کے لیے ’آبرو ریزی‘ اور’عصمت دری‘ کے الفاظ بھی مستعمل ہیں۔ شرم و حیا، عزت وناموس اور عصمت و عفت کے مفاہیم کو ادا کرنے کے لیے تہذیبِ مغرب میں نہیں معلوم کہ کون کون سے الفاظ ہیں؟ مگر ہمارے ہاں تو’آبرو‘ کی بڑی اہمیت ہے۔ نوراللغات (شائع کردہ نیشنل بُک فاؤنڈیشن، اسلام آباد) کے سات صفحات محض اسی ایک لفظ کے معانی اور مفاہیم سمجھانے میں صرف ہوگئے ہیں۔ سب کا احاطہ یہاں ممکن نہیں۔ ’آبرو‘ کا لفظ دراصل ’آبِ رُو‘ تھا۔ یعنی چہرے کا نور اور وہ چمک دمک جو حیا، عفت، عصمت اور پاک دامنی سے منہ پر آئے۔ اگر ضد میں آکر ان صفات کی ضد اپنا لی جائے تو اسی چہرے پر پھٹکار برسنے لگتی ہے۔
عَصَم کا مطلب محفوظ رکھنا یا بچانا ہے۔ عِصمت (ع پر زیر کے ساتھ) بچے رہنے اور محفوظ رہنے کا نام ہے۔ بے حیائی اور گناہ کے کاموں سے اپنا جسم بچائے رکھنے کو عِصمت کہتے ہیں۔ شفیقؔ جونپوری اس پاکیزہ صفت کا بہت احترام کرتے ہیں:
وہ نازنیں عِصمتِ مجسم، ہے فخر بلقیس، نازِ مریم
شفیقؔ ادب کے خلاف ہوگا وہاں محبت کا نام لینا
انبیاء علیہم السلام ’معصوم‘ ہوتے ہیں، کیوں کہ اللہ انھیں بچاتا ہے۔ بچے بھی اسی وجہ سے ’معصوم‘ کہلاتے ہیں کہ وہ فطری طور پر گناہ اور بے حیائی کے کاموں سے بچے بچائے ہوتے ہیں۔ بالغ و با اختیار ہوجائیں تو پھر بچیں یا نہ بچیں، اُن کی مرضی۔
’ ریزیدن‘ ٹکڑے ٹکڑے کرکے بکھیر دینے کو کہتے ہیں (ریزہ ریزہ کردینا)، جب کہ ’دریدن‘ پھاڑ ڈالنے کو۔ منہ پھاڑ کر بولنے والے کو فارسی میں ’دریدہ دہن‘ کہتے ہیں، جس کا اُردو مترادف ’منہ پھٹ‘ ہے۔ چیر پھاڑ کرنے والے جانوروں کو اُن کی اسی صفت کی وجہ سے ’درندہ‘ کہا گیا۔ ریزیدن اور دریدن کے معنی جان لینے کے بعد ’آبرو ریزی‘ اور ’عِصمت دری‘ کا مفہوم بآسانی اخذ کیا جاسکتا ہے۔
اوپر ایک لفظ ’عِفّت‘ بھی آیا ہے۔ ’عَفِّ‘ کا مطلب حرام یا غلط کاموں سے ’باز رہنا‘ ہے۔ ’عِفّت‘ بدن کی پاکیزگی اوراخلاقی طہارت ہے۔ یعنی پارسا اور پاک دامن رہنا۔ عفاف پاک دامنی کو کہتے ہیں اور عفیفہ پاک دامن خاتون کو۔ نذیرؔ احمد شیخ فرماگئے ہیں:
یہ مانا بہت عورتیں ہیں عفیفہ
مگر مرد بھی کچھ عفیفے ہوئے ہیں
آج کل کوئی مرداگر اتفاق سے پاک دامن نکل آئے تو اُسے ’عفیف‘ کہنا چاہیے۔اسرارالحق مجازؔعمر بھر اس بات پر حیران رہے کہ
نہ اُن کا ذہن صاف ہے، نہ میرا قلب صاف ہے
تو کیوں دلوں میں جاگُزیں وہ بنتِ صد عفاف ہے
القصہ مختصر،اُردو لغات میں ایسے الفاظ و اصطلاحات کا ڈھیروں ڈھیر ذخیرہ موجود ہے، جو ہماری اخلاقی اور تہذیبی صفات کے مظہر ہیں۔پردہ، چلمن، حیا، حجاب اور نقاب جیسے الفاظ اردو شاعری کی رونق ہیں۔ اِنھیں میں ایک لفظ ’غض بصر‘ بھی ہے۔اس کا مطلب ہے نگاہ نیچی رکھنا۔ یعنی جس چیز کو دیکھنا جائز نہیں اُس سے نظر بچانا۔مولانا نعیم صدیقی مرحوم اپنے معتقدین کو نصیحت فرماتے ہیں:
جلووں کے اِزدِحام میں لازم ہے احتیاط
سہوِ نظر معاف ہے، قصدِ نظر حرام
مگر لسان العصر حضرت اکبر حسین اکبرؔ الٰہ آبادی اسی بات پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں:
سبھی مجھ سے یہ کہتے ہیں کہ رکھ نیچی نظر اپنی
کوئی اُن سے نہیں کہتا نہ نکلو یوں عیاں ہو کر
شادی شدہ پاک دامن خاتون کو ’محصنہ‘ کہا جاتا ہے، جس کی جمع محصنات ہے۔حِصْن محفوظ جگہ یا قلعے کو کہتے ہیں۔ جس عورت نے نکاح کر لیا وہ گویا ایک محفوظ قلعے کی مکین ہوگئی۔سچ پوچھیے تو ’نکاح‘ مرد سے زیادہ عورت ہی کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔دینِ اسلام اپنے پیروکار مردوں کو پابند کردیتا ہے کہ وہ ایک وقت میں چار خواتین سے زائد کسی خاتون سے ازدواجی تعلقات نہیں رکھ سکتے ۔ ہر مرد پر انصاف کے ساتھ اپنی تمام ازواج کی تمام ضرورتوں کی تکمیل لازم قرار دی گئی ہے۔جب کہ بدکار معاشروں کے بدکار مردوں پر کوئی پابندی نہیں، کوئی حد مقرر نہیں۔وہ جتنی عورتوں سے چاہیں بدکاری کر سکتے ہیں۔ یہ اُن کا ’انسانی حق‘ ہے۔مگر جن عورتوں سے وہ بدکاری کرتے ہیں اُن کے ’انسانی حقوق‘ ادا کرنے کی ذمے داری اُن پر نہیں۔ بالخصوص بڑھاپے میں ایسی خواتین کا(’اولڈایج ہوم‘ کے سوا) کوئی پُرسانِ حال نہیں ہوتا۔ جوانی میں بھی ان عورتوں کواپنے معاشی مسائل اور اپنے جسمانی و نفسیاتی عوارض کو خود ہی بھگتنا پڑتا ہے۔سو بھگتیں!