دن کے گیارہ بجے تو میں جلدی سے غسل خانے کی طرف لپکا۔ میرا دل کہہ رہا تھا کہ بارہ بجے تک کچھ ہوکر رہے گا۔ اس لیے اس سے پہلے پہلے نہا کر، کپڑے بدل کر والد صاحب کے سرہانے آبیٹھوں۔ والد صاحب نے ایک رات پہلے لکھ کر دے دیا تھا کہ میں بارہ بجے سے جنت میں جارہا ہوں۔ پھر ہوا بھی اسی طرح۔ پونے بارہ اور بارہ بجے کے درمیان ان کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ کیا ہی پُرسکون چہرہ تھا اور کتنی مطمئن روح۔ آیات قرآنی گویا ابھی نازل ہورہی تھیں:
یاَ اَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةّ۔ ارْجِعِی اِٴلٰی رَبِّکِ رَاضِیَةً مَرْضِیَّةً۔ فَادْخُلِی فِی عِبَادِی۔ وَ ادْخُلِی جَنَّتِی۔ (الفجر89: 27۔30)
”اے نفس مطمئن! چل اپنے رب کی طرف، اس حال میں کہ تُو (اپنے انجام ِنیک سے) خوش اور (اپنے رب کے نزدیک) پسندیدہ ہے۔ شامل ہو جا میرے (نیک) بندوں میں اور داخل ہوجا میری جنت میں۔“
ان کے یقین اور اطمینان کی کیفیت کا سوچ سوچ کر حیرت ہوتی ہے۔ انھیں یقین تھا کہ اسی سال (2020ء) میں ان کا انتقال ہوگا، اور وہ بالکل مطمئن تھے کہ سیدھے جنت میں جائیں گے۔ یہ بات تو وہ مجھ سے کئی دفعہ کہہ چکے تھے کہ ”میں مر جاؤں تو جنازے کے لیے اسلام آباد سے آنے کی ضرورت نہیں ہے، دعا کہیں سے بھی ہوسکتی ہے۔“ یا 2018ء میں اسلام آباد تشریف لائے تو فرمایا: ”اگر میں یہاں مر جاؤں تو کراچی اطلاع کرنے کی ضرورت نہیں ہے، پہلے تدفین کردینا، پھر اطلاع کرنا۔“ البتہ اس سال کے آغاز پر مجھ سے کہا کہ ”یہ میرا آخری سال ہے۔“ ابھی ان کے انتقال کے بعد جب گھر میں ان کے تذکرے ہوئے تو کچھ باتیں اور بھی معلوم ہوئیں۔ مثلاً چھوٹے بھائی صابر نے بتایا کہ اس بقرعید پر والد صاحب نے کہا تھا کہ ”یہ آخری قربانی کررہا ہوں۔“ اور والدہ صاحبہ کی زبانی معلوم ہوا کہ دو تین ماہ پہلے والد محترم نے اُن کو اپنا خواب سنایا کہ ”آج رات۔۔۔ فرشتہ آیا تھا (والدہ کہتی ہیں کہ انھوں نے فرشتے کا نام بھی لیا تھا لیکن مجھے یاد نہیں رہا)، کہہ رہا تھا کہ آپ کا محل تیار ہوگیا ہے، بس ایک کونا باقی رہ گیا ہے۔“ یہ بتاتے ہوئے ان کا چہرہ خوشی سے تمتما رہا تھا۔ کہنے لگے: ”ہم نے کہا ہم بالکل تیار ہیں۔“ انتقال کے وقت جب کہ ان کے بستر کا سرہانہ کچھ اونچا کیا ہوا تھا اور وہ لیٹے اور بیٹھے کی درمیانی حالت میں تھے، جسم میں آکسیجن بہت کم ہوچکی تھی، آکسیجن کے دو سلنڈر بیک وقت لگے ہوئے تھے، انھوں نے تھوڑا سا لپک کر سامنے کی طرف ہاتھ بڑھایا جیسے کچھ دیکھ کر آگے بڑھ رہے ہوں، منہ سے بس ایک لفظ دو دفعہ نکلا ”جنّت، جنّت“ اور جان، جانِ آفریں کے سپرد کردی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
میں سوچتا ہوں کہ والد مرحوم و مغفور کوئی عالم دین نہیں تھے، مروجہ معنوں میں کوئی صوفی نہیں تھے، دنیا سے قطع تعلق کرکے نہیں رہتے تھے، دن رات اللہ ہو، اللہ ہو کی ضربیں نہیں لگاتے تھے، پھر ان کی زندگی میں ایسی کیا خاص بات تھی کہ انھیں مغفرت کی ایسی ایسی بشارتیں دنیا ہی میں مل گئیں! آئیے اس سوال پر غور کرتے ہوئے ان کی زندگی کے کچھ اوراق پلٹتے ہیں:
والد ماجد1927ء میں اعظم گڑھ کے گاؤں چاند پٹی میں پیدا ہوئے۔ اعظم گڑھ کے بعض لوگ اپنے آپ کو اعظمی، اور چاند پٹی والے کچھ افراد خود کو چاند کی مناسبت سے ہلالی بھی کہلواتے ہیں۔ والد صاحب کا رنگ گہرا گندمی تھا لیکن پچاس سال کی عمر کے قریب برص کے سفید دھبے پڑنے شروع ہوئے اور آہستہ آہستہ آپ مکمل گورے ہی ہوگئے۔ آپ نے شبلی کالج اعظم گڑھ سے میٹرک کیا، پھر کچھ عرصہ یہاں تدریس کے فرائض بھی سرانجام دئیے۔ اُس وقت تقسیم ہند کی تحریک زوروں پر تھی۔ علاقے میں ہندو مسلم فسادات بھی ہوتے رہتے تھے۔ والد صاحب لاٹھی چلانے کے فن بنوٹ اور تیراکی کے ماہر تھے۔ آپ نے تحریکِ پاکستان میں بڑی سرگرمی سے حصہ لیا، اور جب پاکستان بن گیا تو ازخود پاکستان ہجرت کا فیصلہ کیا، جس پر پورا خاندان پریشان ہوگیا، لیکن وہ اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے۔ بالآخر ان سے بڑی بہن اور والدہ (ہماری دادی) پاکستان آگئے۔ والد صاحب کہا کرتے تھے کہ انڈیا تقسیم نہیں ہوا میرا خاندان تقسیم ہوگیا کہ والد صاحب، دادی محترمہ اور ایک پھوپھی صاحبہ پاکستان آگئے، اور دادا صاحب، تایامحترم اور دو پھوپھیاں چاند پٹی، اعظم گڑھ میں رہ گئے۔
والد صاحب کی رشتے کی ایک پھوپھی کی شادی مولانا امین احسن اصلاحی ؒسے ہوئی تھی۔ والد محترم لاہور جاتے تو مولانا اصلاحی سے ملاقات کیا کرتے۔ مولانا اصلاحی اور ہمارے دادا مرتضیٰ حسین، دونوں کا علاقے میں بڑا رعب تھا۔ امین احسن اصلاحی صاحب کا علمی جلال تھا، جب کہ دادا مرحوم کا زمیندار اور سرپنچ ہونے کا دبدبہ تھا۔ لیکن والد صاحب نے ہجرت کے بعد ایک انچ زمین کا بھی کلیم جمع نہیں کرایا۔ (جو مسلمان ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے وہ حکومتِ پاکستان کو اپنی وہاں کی جائداد کا کلیم جمع کراتے تھے، اس کے بدلے میں انھیں یہاں پر زمین، مکان وغیرہ دئیے جاتے تھے۔ اسی طرح جو ہندو یہاں سے ہندوستان جاتے، وہ وہاں کلیم جمع کراتے تھے۔) والد ماجد کہتے تھے: میں نے پاکستان اور لاالہٰ الا اللہ کے نام پر ہجرت کی ہے، مجھے اس کا معاوضہ اللہ ہی سے لینا ہے۔
پاکستان آکر والد محترم نے نوکری بھی کی، بلکہ ایک عرصے تک دو دو نوکریاں بھی کیں اور تعلیمی سلسلہ بھی جاری رکھا۔ کہا کرتے تھے کہ میں اپنے خاندان کا پہلا فرد ہوں جس نے نوکری اختیار کی ہے۔ 1953ء میں ہمارے والدین کی شادی ہوئی۔ ہمارے نانا ماسٹر (مولوی) قربان علی مرحوم تھے جو ہجرت کے بعد سکھر میں آباد ہوئے تھے۔ ان کا تذکرہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی ”رسائل و مسائل“ جلد دوم میں ”تبلیغی بھائیوں سے ایک دوستانہ شکایت“ کے ذیل میں ملتا ہے۔
والد صاحب کو اپنی بھی اور اپنے بچوں کی بھی نماز کی فکر سب سے زیادہ رہتی تھی۔ ہمیشہ مسجد میں پہلی صف میں نظر آتے تھے۔ ہمیں اپنے لڑکپن میں والد کے ہاتھ سے پڑنے والی جو دو تین دفعہ کی چھڑیاں یاد ہیں وہ نماز میں سستی ہی پر پڑی تھیں۔ نماز جمعہ کا تو ہمیشہ سے بہت ہی اہتمام کرتے تھے۔ صبح ہی سے تیاری شروع کردیتے۔ غسل کرکے سفید کرتا پاجامہ پہنتے، خوشبو لگاتے اور اوّل وقت سے مسجد چلے جاتے۔ ریٹائرمنٹ سے پہلے بھی، 1977ء سے پہلے جب اتوار کی چھٹی ہوا کرتی تھی، (1997ء کے بعد پھر جمعہ کے بجائے اتوار کی چھٹی ہونے لگی)، جمعہ کے دن پینٹ شرٹ کے بجائے شیروانی پاجامہ پہن کر دفتر جاتے۔ ضعیف العمری میں انتہائی نقاہت اور غنودگی میں بھی کبھی نماز نہیں چھوڑی۔ بالکل آخری تین چار دنوں میں جب دن رات کا احساس بھی نہیں ہوپاتا تھا، چند نمازیں فوت ہوئیں۔ جب ہوش آتا تو باصرار کہتے کہ میری کئی نمازیں فوت ہوگئی ہیں، ان کا فدیہ دے دینا۔ البتہ آخری رات جو کہ عالمِ نزع میں گزری، اس میں تہجد اور فجر ہی نہیں ادا کیں بلکہ صبح ہونے پر اشراق کی نماز بھی ادا کی اور ظہر سے پہلے پہلے اپنے رب سے ملاقات کے لیے روانہ ہوگئے۔ کئی سال سے نہایت کم زور ہوگئے تھے۔ رمضان کا پورا مہینہ سب گھر والے کہتے رہتے کہ آپ میں اب روزہ رکھنے کی طاقت نہیں ہے، روزہ نہ رکھیں بلکہ اس کا فدیہ دے دیں، وہ افطار کے بعد کتنی دیر بے سُدھ پڑے رہتے لیکن روزہ نہیں چھوڑتے تھے۔ حتیٰ کہ 2015ء سے اب تک کراچی میں آنے والے شدید ہیٹ اسٹروک، جن میں سیکڑوں اموات بھی ہوئیں، کے دوران میں آنے والے رمضانوں کے بھی نہ صرف پورے روزے رکھے اور تراویح باقاعدگی کے ساتھ اور مکمل پڑھتے رہے بلکہ شوال کے چھ روزے بھی رکھتے رہے۔
والد صاحب نے دو حج کیے۔ پہلا حج 1974ء میں بحری جہاز کے ذریعے سے کیا۔ گھر سے اکیلے ہی گئے تھے۔ تقریباً ساڑھے چار ماہ بعد واپسی ہوئی۔ دوسرا حج1991ء میں ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد کیا۔ اُس وقت والدہ اور چند اور اعزہ بھی ساتھ تھے۔ بتاتے تھے کہ میں ہر جمعرات کو پیدل مسجد قبا جا کر نفل ادا کرتا تھا اور روزانہ پیدل مسجد عائشہؓ جا کر وہاں سے احرام باندھ کر ایک عمرہ کیا کرتا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ عمرہ تو مجھے کرنا ہی ہوتا تھا تو میں ایک ایک عمرہ اپنے بیٹے، بیٹیوں اور اُس وقت تک دنیا میں آچکنے والے پوتے، پوتیوں، نواسے، نواسیوں کی طرف سے کر لیا کرتا تھا۔
والدِ محترم کے اوصاف میں سے سخت کوشی، وقت کی پابندی اور یہ فکر کہ میری ذات سے کسی کو کوئی تکلیف یا نقصان نہ ہو بلکہ کچھ سہولت اور فائدہ پہنچ جائے، زیادہ نمایاں ہیں۔ محنت اور سخت کوشی کی بڑی مثال تو روزانہ مسجد عائشہ ؓ سے پیدل عمرہ کرنے اور بیک وقت دو نوکریوں کے ساتھ ساتھ سلسلہ تعلیم جاری رکھنے کی ہے۔ اس کے علاوہ بھی وہ ہمیں ہمیشہ تیار، متحرک اور چاق چوبند نظر آتے تھے۔ 1966ء میں ہم لوگ عزیزآباد (بعد میں یہاں کا نائن زیرو مشہور ہوا) سے گلبرگ منتقل ہوئے۔ یہ نسبتاً نیا اور کم آباد علاقہ تھا۔ یہاں ہمیں کچھ ہی عرصہ رہنا تھا، لیکن گھر کی پچھلی گلی کے بعد ایک میدان تھا اس میں مسجد کی بنیاد ڈالی۔ مسجد کی تعمیر میں بڑی لگن کے ساتھ اور بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، مسجد کمیٹی کے صدر منتخب ہوئے۔ آج جامع مسجد مدنی بلاک 17 فیڈرل بی ایریا، گلبرگ کی ایک بڑی اور معروف مسجد ہے۔ جون 1967ء میں ہم نارتھ ناظم آبادکے بلاک این میں منتقل ہوئے۔ یہ عزیزآباد اور گلبرگ سے بھی کم آباد بلکہ تقریباً غیر آباد علاقہ تھا۔ بلاک این کے وسط میں واقع وسیع و عریض پارک اور پلے گراؤنڈ میں مسجد کا پلاٹ تھا۔ اس پلاٹ کو کچھ خطرہ لاحق ہوا تو راتوں رات اس کی کچی سی عمارت تعمیر کی جس میں سالہا سال نماز ہوتی رہی۔ اب یہ اس علاقے کی سب سے بڑی جامع مسجد ہے۔ اس کا نام مدنی جامع مسجد رکھا۔ آج بھی اس کے ٹرسٹیز میں پہلا نام والد صاحب (حاجی رفیع الدین) ہی کا لکھا ہے۔
علاقے کی علمی و سماجی بہتری کے لیے ایک تنظیم ”انجمن فلاحِ بلاک این، شمالی ناظم آباد“ قائم کی، جس کے ایک عرصے تک روحِ رواں آپ ہی رہے۔ ہمیں نہیں یاد کہ والد صاحب نے کبھی دفتر سے چھٹی کی ہو یا دیر سے دفتر گئے ہوں۔ شاید زندگی میں چند ہی مواقع ہوں گے جب طبیعت کی سخت خرابی کی وجہ سے دفتر نہ جا سکے ہوں۔ روزانہ صبح نماز فجر کے بعد ذرا بلند آواز سے تلاوت اور ایک خاص لطف کے ساتھ تفہیم القرآن کا مطالعہ ان کا معمول تھا۔ تفہیم القرآن پڑھتے ہوئے بیچ بیچ میں بعض عبارات گنگنانے کے سے انداز میں بھی پڑھتے تھے۔ اب ایک عرصے سے بعد نماز عصر بھی تلاوت کیا کرتے تھے۔ ہم نے انھیں ہمیشہ سے ناشتے کے فوراً بعد روزنامہ جسارت پڑھتے دیکھا۔ کہتے تھے کہ اخبار پڑھے بغیر میرا ناشتہ ہضم نہیں ہوتا۔ ماہنامہ ترجمان القرآن، رسالہ ایشیا اور فرائیڈے اسپشل بھی بہت باقاعدگی سے پڑھتے۔ 1970ء کے انتخابات کے وقت ہم چھوٹے بچے تھے۔ والد صاحب محلے کے لڑکوں کو جمع کرکے ایک کاغذ تھما دیتے تھے جس پر کئی نعرے لکھے ہوتے تھے۔ اب ہمیں ان میں سے تین ہی یاد ہیں: ”نعرئۂ تکبیر۔۔۔ اللہ اکبر“، ”پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔ لاالٰہ الا اللہ“، اور ”جیتے گا، جیتے گا۔۔۔ ترازو جیتے گا“۔
یاد کرنے اور رکھنے اور اپنانے کی باتیں تو بے شمار ہیں لیکن اِس وقت ہم صرف اس موضوع تک محدود رہنا چاہتے ہیں کہ والد مرحوم و مغفور کو اسی سال اپنی رحلت کا اور ساتھ ہی مغفرت کا بھی یقین تھا، بلکہ بالکل آخری دنوں میں تو لگتا تھا کہ انھیں یہ اندازہ بھی تھا کہ انھیں اسی مہینے اور اسی ہفتے چلے جانا ہے۔ ان کے ایک نواسے (ہمارے بھانجے) کا رشتہ ان کی ایک پوتی (ہماری بھتیجی) کے ساتھ طے تھا، اور ہفتہ 21 نومبر کو نکاح ہونا تھا۔ والد صاحب نے اصرار کرکے وہ نکاح ایک ہفتہ پہلے 14 نومبر کو رکھوایا۔ گویا انھیں یقین تھا کہ 21تاریخ تک اس فانی دنیا میں نہیں رہنا ہے۔ بلکہ شاید وہ جانتے تھے کہ انھیں جمعرات کو جانا ہے اور بارہ بجے تک جاناہے۔ کیوں کہ دو تین دن پہلے سے بار بار پوچھتے تھے کہ آج کون سا دن ہے؟ اور بدھ کو لکھ کر دے دیا کہ بارہ بجے سے جنت جانا ہے۔
وہ تو اِن شاءاللہ جنت میں چلے گئے ہوں گے، لیکن یہ خیال بار بار آتا ہے کہ جب وہ ہر نماز اور تلاوت کے بعد دعا مانگا کرتے تھے تو میں سوچتا تھا کہ ان دعاؤں میں میرا اور تمام اولاد کا حصہ بھی ضرور ہوگا، اور یہ کہ ان جھرّیوں بھرے لرزتے ہاتھوں کی دعا اللہ ہرگز رد نہیں کرے گا۔ اب ہم ان دعاؤں سے محروم ہوگئے۔ لیکن یہ بات دل کو ڈھارس بندھاتی ہے کہ الحمدللہ ہمیں اپنی والدہ کی دعائیں تو حاصل ہیں۔ ہم عموماً بچھڑ جانے والوں کو تو اچھے الفاظ سے یاد کرتے ہیں لیکن اپنے اردگرد موجود اللہ کے نیک بندوں کو فراموش کیے رہتے ہیں۔ ہماری والدہ کی شادی تیرہ چودہ سال کی عمر میں ہوگئی تھی۔ انھوں نے ساری زندگی ہمارے والد صاحب، دادی صاحبہ، پھوپھی صاحبہ اور قریب اور دور کے دیگر افراد کی جس دل و جان سے محبت اور احترام کے ساتھ خدمت کی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ صرف ایک مثال یہاں دی جاتی ہے کہ ایک مرتبہ میرے ایک بھائی، جن کی عمر اُس وقت چھ سات سال ہوگی، گھر میں ایک دیوار پر گیند مار مار کر پکڑنے کا کھیل اکیلے ہی کھیل رہے تھے۔ انھیں دادی محترمہ نے آواز دی، بھائی نے گیند پکڑی اور دادی کے پاس گئے۔ والدہ نے بھائی کو ڈانٹا کہ تم نے جب دادی کے بلانے کی آواز سن لی تھی تو تمہارے قدم دادی کے بجائے گیند کی طرف اٹھے کیسے؟
ایک اور بات جو ہمیں اپنے والدین میں مثالی نظر آتی تھی وہ دونوں کے درمیان مکمل ہم آہنگی اور ایک دوسرے پر بھرپور اعتماد تھا۔ اگر والدہ نے کوئی بات کہہ دی تو والد صاحب اس کا پورا لحاظ کرتے تھے، اور والدہ صاحبہ گویا والد صاحب کے اشارے کی منتظر رہتی تھیں کہ کسی بھی چھوٹی یا بڑی بات پر والد صاحب کی خواہش معلوم ہو (باقی صفحہ41پر)
اور اسی کے مطابق عمل کیا جائے، سرِمو انحراف نہ ہو۔ ادائیگیِ حقوق کے مطالبات کرنے اور احسان جتانے کا نہیں، خلوص اور احترام کا معاملہ تھا۔ بلکہ وہ زمانہ ہی اپنے حقوق کے مطالبات کے بجائے دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کی فکر کا زمانہ تھا۔ اس لیے سب ہی زیادہ سکون اور محبت کے ساتھ رہتے تھے۔ مائیں خود بھی شوہر کی بات کو حرفِ آخر سمجھتی تھیں اور بچوں کو بھی یہ باور کرائے رکھتی تھیں کہ والد کی مرضی کے بغیر گھر میں پتّٗا بھی نہیں ہل سکتا۔ پٹائی مائیں زیادہ کرتی تھیں لیکن رعب ابا حضور کا زیادہ ہوتا تھا۔ والد صاحب کے انتقال کے صدمے کو والدہ محترمہ نے جس صبر اور حوصلے سے جھیلا ہے وہ بھی ہم سب کے لیے ایک نمونے کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اب ہم ہر نماز کے بعد دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی بچپن سے اب تک جو بھی غلطی، کمی، کوتاہی ہو اس کو معاف کردے۔
والد صاحب جماعت اسلامی کی مالی معاونت، روہنگیا مسلمانوں کی امداد اور کچھ مستحق بیواؤں کی مالی مدد ہر ماہ بڑی باقاعدگی سے کرتے تھے۔ نومبر کے آغاز ہی میں اپنی ساری رقم بینک سے نکلوا لی اور والدہ صاحبہ کو دے کر مذکورہ بالا تمام مدات کے بارے میں بتایا کہ فلاں فلاں مد میں ہر ماہ سے دس دس گنا زیادہ اور فلاں فلاں کو پانچ پانچ گنا زیادہ دے دینا، جو باقی بچے اپنے مصرف میں لے آنا۔ انتقال سے دس بارہ دن پہلے حالت بگڑنا شروع ہوگئی تھی۔ انتقال سے دو دن پہلے سے تو یوں محسوس ہوتا تھا کہ گویا انھیں رب سے ملنے اور جنت میں جانے کی بے چینی ہورہی ہے۔ کبھی غنودگی کے عالم میں کہتے کہ مجھے سلا دو۔ گھبراہٹ اور کسی تکلیف کا احساس یا اظہار نہیں تھا، لیکن کبھی ہاتھ پر لگے کینولا کو اتار دیتے کہ ہٹاؤ یہ سب۔ کبھی آکسیجن ماسک نکالنے لگتے کہ مجھے اب اس کی ضرورت نہیں۔ ایک دفعہ تو والدہ سے یہ بھی کہا کہ اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے جلدی بلالے۔ بالآخر 19 نومبر کو دن کے بارہ بجنے میں چند منٹ باقی تھے کہ ان کی آرزو پوری ہوئی اور انھیں اپنے خالق، اپنے محبوب کا وصال نصیب ہوگیا، جیسے ان ہی کو مخاطب کرکے کہا جارہا ہو:
وَسَارِعُوٓاْ إِلَىٰ مَغْفِرَةٍۢ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا ٱلسَّمَٰوَٰتُ وَٱلْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ (آل عمران 3: 133)
”دوڑو اس راستے پر جو تمارے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جاتا ہے جس کی وسعت آسمانوں اور زمین جیسی ہے، اور وہ متقیوں کے لیے مہیا کی گئی ہے۔“