پیاری ہمشیرہ ام ذوالنون!(1957ء-2021ء)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تم میں سب سے بہتر شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔ بلاشبہ قرآن امتِ مسلمہ کے لیے ایک بہت بڑا خزانہ ہے۔ اللہ کے خوش نصیب بندے قرآن سے اپنا تعلق ہمیشہ قائم رکھتے ہیں۔ میری پیاری ہمشیرہ ام ذوالنون 23جولائی 2021ء بروز جمعہ چونسٹھ سال کی عمر میں اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ اللہ کا فیصلہ بصد اطمینان سر آنکھوں پر۔ وہ مالک و مختار ہے، رحیم و حکیم ہے۔ جواں سال اور انتہائی قابل بیٹے ہارون ادریس کی وفات کے چند دنوں بعد یہ المناک سانحہ بہت تکلیف کا باعث بنا، مگر اللہ کے فیصلے پرسرِتسلیم خم کیا اور اللہ سے یہی دعا کی کہ پروردگار! اپنی بندی کو اپنی رحمتوں سے ڈھانپ لینا، اور ہم کمزور بندوں کو حوصلہ اور صبر عطا فرمانا۔ اللہ دعائیں قبول کرتا ہے۔ وہ ستّر مائوں کی مامتا سے بھی زیادہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے۔ بندے کا بھی فرض ہے کہ اس کے ہر فیصلے پر راضی رہے۔ اے اللہ تیرا شکر ہے تُو نے صبر عطافرمایا۔ تیری عطا کردہ توفیق کے بغیر بندۂ ناتواں کچھ بھی نہیں کرسکتا۔
ہمشیرہ مرحومہ چھ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی تھیں۔ بچپن میں قرآن پاک ناظرہ پڑھا اور پھر اپنے شوق سے خود حفظ کرنا شروع کردیا۔ اللہ نے اعلیٰ ذہانت اور حافظہ بخشا تھا۔ قرآن یاد کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔ اس عرصے میں اپنے گھر میں گائوں اور گردونواح کی بستیوں کی بچیوں کو قرآن پڑھانا شروع کیا، اور اللہ کی توفیق سے سیکڑوں بچیاں اس درسگاہ سے فیض یاب ہوئیں۔ ترجمہ و تفسیر بھی خود پڑھی اور ذہین بچیوں کو اس میں سے بھی حسبِ نصیب استفادے کا موقع ملا۔ قرآن پڑھنے والی بچیاں ادب و احترام سے اپنی معلمہ کو ’’باجی جی‘‘ کہا کرتی تھیں۔ یہ نام اتنا معروف ہوا کہ سب بہن بھائی بھی باجی کہہ کر ہی پکارتے۔ سب بہن بھائیوں میں چھوٹی ہونے کی وجہ سے ماں باپ اور عزیز و اقارب کو زیادہ محبوب تھیں۔ اے اللہ تُو اپنی کتاب کی حافظہ اور معلمہ کو اپنی رحمتوں کے سائے میں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرما۔
اللہ مجھے معاف فرمائے۔ بہن کی پیدائش کے موقع پر میری عمر بارہ سال تھی۔ قرآن حفظ کرچکا تھا اور اسکول کی ابتدائی کلاسوں میں زیرتعلیم تھا۔ کئی روز تک میرے ذہن میں یہ خیال آتا رہا کہ اللہ بہن کے بجائے بھائی دیتا تو ہم تین بھائی ہوجاتے۔ بہنیں تو پہلے تین تھیں۔ میں نے ان جذبات کا اظہار کسی سے نہ کیا، مگر خود چند ایام اس ادھیڑ بن میں گزرے۔ پھر اس بہن کے کھیلنے کے پیارے انداز نے بہت متاثر کیا اور اس کی گہری محبت دل میں پیدا ہوگئی۔ اس کے بچپن کے واقعات اور اندازِ گفتگو زندگی بھر یاد آئے تو دل خوش ہوتا۔ توتلی زبان میں تیزتیز باتیں کرنا بہت بھلا لگتا تھا۔
عزیزہ ہمشیرہ کی شادی ہمارے ماموں زاد میاں عبدالماجد کے ساتھ ہوئی۔ شادی کے دس سال بعد اللہ تعالیٰ نے پہلا بیٹا عطا فرمایا۔ اس سال والدِ محترم اور میں اکٹھے حج ادا کررہے تھے۔ والدہ محترمہ وفات پا چکی تھیں۔ میں انہی کی طرف سے حج بدل کررہا تھا۔ والد مرحوم حرمین شریفین میں پُرسوز لہجے کے ساتھ بڑی جامع قرآنی اور مسنون دعائیں مانگا کرتے تھے۔ وہ ہر دعا کے بعد اپنی بیٹی کے لیے نیک اولاد کی دعا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حج سے واپس آنے کے ایک سال بعد مرحومہ کو بیٹے کی نعمت سے نوازا۔ پھر یکے بعد دیگرے تین مزید فرزند عطا فرمائے۔ سبھی بچے تندرست و توانا تھے۔ بیٹی کی رحمت سے اللہ نے محروم رکھا۔ اللہ کی اپنی مرضی ہوتی ہے کہ وہ بیٹا دے یا بیٹی۔ اس نے اپنی یہ قدرتِ کاملہ سورہ شوریٰ میں بہت دل نشین انداز میں ہم تک پہنچا دی ہے۔
خود حافظ ہونا بہت بڑا اعزاز ہے، اور حفاظ کے ماں باپ کا بھی بہت اعلیٰ درجہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ مرحومہ خود حافظہ ہونے کے ساتھ چار حفاظ کی والدہ بھی تھیں۔ چاروں بیٹے بہت پختہ حافظ ہیں اور سبھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ چھوٹے دونوں بیٹے ذوالکفل اور ذوالنون اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن رہے، اب تیسرے بھائی سعد عبدالماجد کے ساتھ جماعت اسلامی کے رکن ہیں۔ بڑا بیٹاحافظ ضیغم عبدالماجد جماعت کا محض متفق ہے۔ چھوٹے بیٹے ذوالنون کے سوا سب بھائی شادی شدہ ہیں۔ میں نے 2003ء سے غالباً 2012ء تک جامع مسجد دارالہدیٰ مرکز ماڈل ٹائون میں قرآن سنایا۔ اس کے بعد حافظ سعد ہر سال یہ ذمہ داری بطریق احسن ادا کررہا ہے۔ اس کی تلاوت سوزوگداز سے مالامال اور اس کا خلاصہ بیان کرنے کا انداز دل نشین ہے۔
میاں عبدالماجد صاحب اسکول ٹیچر تھے۔ کچھ عرصہ تدریس کے بعد یو اے ای چلے گئے۔ وہاں ملازمت کرتے رہے۔ چند سال اکیلے ہی وہاں مقیم رہے، پھر اپنے اہل و عیال کو بھی وہاں بلا لیا۔ میرا جب بھی یو اے ای کا دورہ ہوتا، تو ان کے پاس العین میں جانا ہوتا۔ ام ذوالنون وہاں بھی پاکستانی خواتین کو اپنے گرد جمع کرکے دین کی تعلیمات سے مزّین کرتی رہتی تھیں۔ میں ایک آدھ دن وہاں قیام کرتا، تو رخصتی کے وقت عزیزہ کا اصرار ہوتا کہ بھائی جان ایک آدھ دن اور ہمارے پاس رک جائیں۔ عزیز از جان بہنا کی فرمائش کا انکار میرے لیے ممکن نہ ہوتا۔ چناں چہ ایک دو دن مزید ان کے پاس قیام ہوجاتا۔ ذوالنون اُس زمانے میں بہت چھوٹا تھا۔ ایک رات عشا کی نماز کے بعد میں گھر آیا تو وہ اپنی ماں سے کوئی سرگوشی کررہا تھا اور وہ مسکرا رہی تھی۔ میں نے پوچھا کہ شہزادہ کیا کہتا ہے؟ تو ہنستے ہوئے کہنے لگی کہ اس کا مطالبہ ہے میں آج ماموں جی کے پاس سوئوں گا۔ میں نے کہا یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے۔ چناں چہ وہ رات کو میرے ساتھ سویا اور کچھ دیر تک ہم آپس میں باتیں کرتے رہے، جس سے اس کی سنجیدگی اور ذہانت کا اندازہ ہوا۔ الحمدللہ! اب بھی اس کی وہی سنجیدگی و متانت اور ذہانت قائم ہے۔ اللہ اسے سلامت رکھے۔
یو اے ای سے واپسی پر میاں عبدالماجد صاحب نے اپنی فیملی کو منصورہ میں منتقل کردیا۔ شروع میں ہمارے گھر کے بالائی حصے میں قیام رہا۔ اس دوران انھوں نے اپنا پلاٹ خریدا اور اس پر گھر تعمیر کرنے کی ذمہ داری مجھے سونپ کر واپس یو اے ای چلے گئے۔ منصورہ میں ان کا گھر تعمیر ہوگیا اور الحمدللہ یہ خاندان اپنے گھر میں قیام پذیر ہوا۔ ذوالنون اسکول کے زمانے میں ایک جلوس کے دوران گرفتار ہوا اور دیگر اسیران کے ساتھ اسے میانوالی جیل بھیج دیا گیا۔ وہاں پر اس نے جس استقامت کا مظاہرہ کیا وہ یادگار ہے۔ وہاں پر کچھ تحریریں لکھیں، جس سے اندازہ ہوا کہ اللہ نے اسے لکھنے کی صلاحیت بھی خوب دی ہے۔ جب جمعیت کا رکن بنا، تو بہت جلد قیادت میں شامل ہوگیا۔ پہلے لاہور جمعیت کا معتمد، اور پھر دو سال تک ناظم رہا۔ اس عرصے میں اُس کی والدہ اُس کی ہر ضرورت کو بڑے شوق و محبت سے پورا کرتیں۔ جتنی رقم درکار ہوتی وہ اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں اس کا مطالبہ کرتا، اور ماں بغیر کسی سوال و جواب کے اس کا مطالبہ پورا کردیتیں۔
زندگی اور موت اللہ کے اختیار میں ہے۔ عزیزم ہارون ادریس کی بیماری اور وفات پر پوری فیملی ہل کر رہ گئی تھی۔ عزیزہ ام ذوالنون نے تو اس صدمے کو زیادہ ہی محسوس کیا اور پھر اپنے پیارے بھتیجے کے پیچھے پیچھے وہ بھی اُس سے جا ملیں۔ ہارون کی وفات پر اُس نے بے ساختہ کہا ’’جانا مجھے تھا اور تم جلدی جلدی چلے گئے ہو۔‘‘ اسی دوران سانس کی تکلیف محسوس ہوئی۔ کورونا کا ٹیسٹ کروایا تو پازیٹو آیا۔ جناح اسپتال میں داخل کرائی گئیں۔ علاج شروع ہوگیا۔ میں عزیزم ہارون کی فیملی کے پاس عید گزارنے کے لیے سرگودھا چلا گیا۔ عید کے اگلے روز لاہور واپسی ہوئی۔ اس دوران ہمشیرہ کی بیماری اور علاج کی پوری رپورٹ عزیزم سعد اور دوسرے بھائی مجھے دیتے رہے۔ میں مغرب کی نماز پر لاہور پہنچا اور اسپتال جانے کا ارادہ کیا۔ بچوں نے کہا صبح چلے جانا۔ میں نے کہا نہیں، میں ابھی جائوں گا۔
اسپتال گیا تو ہمشیرہ سخت تکلیف میں تھیں۔ آکسیجن لگی ہوئی تھی۔ میں نے دو مرتبہ السلام علیکم کہا، مگر کوئی جواب نہ دیا۔ سعد بیٹے نے کہا ’’امی جی ! ماموں جان آئے ہیں۔‘‘بس ایک بارآنکھیں کھولیں، میری طرف دیکھا اور آنکھیں بند کرلیں۔ میں کچھ دیر ان کے پاس بیٹھا، پھر واپس آگیا۔ رات ایک بجے کے قریب سعد بیٹے کا ٹیلی فون آیا، جس میں یہ اطلاع تھی کہ مریضہ تکلیفوں سے نجات پاکر اللہ کے دربار میں چلی گئی ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون! یہ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات تھی۔ میں نے اسی وقت عزیزو اقارب کو اطلاع دی اور ساتھ ہی بتایا کہ اِن شاء اللہ نمازِ جمعہ کے ساتھ نمازِ جنازہ ادا کی جائے گی۔
مصطفیٰ ٹائون کے قبرستان میں تدفین ہوئی۔ عجیب اتفاق کہ بھتیجے کی قبر ایک لائن میں ہے اور دوسری لائن میں اس کے بالکل پائنتی میں پھوپھی کی قبر بن گئی۔ ہارون کی وفات کے بعد جب میرے بچے خواتین کو لے کر قبرستان گئے، تو ہارون کی ماں نے کہا ’’یہ جگہ میری قبر کے لیے بک کرا دیں۔‘‘ کسے معلوم تھا کہ وہاں کس کی قبر بننی ہے۔ ہمشیرہ کی وفات پر پورا خاندان انتہائی غم میں ڈوب گیا۔ ہارون کی جدائی بھی سب کے دلوں میں زخم لگا رہی تھی اور یہ سانحہ بھی سب کو رلا رہا تھا۔ ہارون کی ماں جو عمر میں ام ذوالنون سے کئی سال بڑی ہیں، بے ساختہ روتے ہوئے کہنے لگیں: ’’ہائے زہرا تُو بھی داغِ مفارقت دے گئی، جانا تو مجھے تھا، تُو نے یہ کیا کیا۔‘‘ یہ بے ساختہ جذبات و ردعمل فطری ہے ، مگر سب جانتے ہیں کہ جاتا وہی ہے جس کو بلایا جائے۔ جس کا بلاوا نہ آئے وہ کیسے جا سکتا ہے؟ یہ اختیار بندے کے پاس نہیں بلکہ خالق و مالک کے پاس ہے۔ اللہ ہم سب کو صبر عطا فرمائے اور مرحومین کی قبروں کو نور سے منور فرمائے، آمین۔