…آدمی معنی کی تلاش میں

(یہ معروف ماہر نفسیات وکٹر فرینکل کی شہرۂ آفاق کتاب “Man’s search for meaning”کا ترجمہ ہے۔ یہ اپنے موضوع پر بے مثل کتاب ہے۔ علمِ نفسیات میں گراں قدر علمی اضافہ ہے۔ یہ 1946ء میں پہلی بار شایع ہوئی، جس کے بعد بے شمار ایڈیشن کئی زبانوں میں شایع ہوئے۔ یہ نازی جرمنی کے ایک قیدی کی ’’با معنی‘‘ کہانی ہے۔)
…٭…٭…٭…
کنسنٹریشن کیمپ میں جو ہم پر گزری
یہ کتاب یہ دعویٰ نہیں کرتی کہ قطعی حقائق پر مبنی واقعات کی کوئی دستاویز ہے، بلکہ یہ وہ ذاتی تجربات، وہ اذیت ناک آزمائشیں ہیں جو لاکھوں قیدیوں پر متواتر گزریں۔ یہ کنسنٹریشن کیمپ (نازی جرمنی) کی اندرونی کہانی ہے، جو زندہ بچ نکلنے والے قیدیوں میں سے ایک قیدی نے سُنائی ہے۔ یہ قصہ عظیم ہولناکیوں کے بارے میں نہیں ہے، وہ ہولناکیاں جو پہلے ہی بہت کچھ بیان کی جاچکی ہیں، جن کی معمولی سے معمولی اذیت بھی تفصیل سے پیش کی جاچکی ہے۔
یہ قصہ، دوسرے لفظوں میں دراصل اس سوال کا جواب دینے کی کوشش ہے کہ ایک عام قیدی کے ذہن میں کنسنٹریشن کیمپ کی روزمرہ زندگی کس طرح منعکس ہوئی؟ اس کتاب میں شامل بیشتر واقعات بڑے اور مشہور کیمپوں سے متعلق نہیں ہیں، بلکہ یہ چھوٹے کیمپوں کی المناک کہانیاں ہیں، جہاں بہت استحصال ہوا۔ یہ عظیم ہیروز پرگزرنے والے دکھوں اور چھا جانے والی موت کی کہانی بھی نہیں ہے۔
یہ کہانی اُن Capos—prisoners (وہ قیدی جونازی کیمپوں میں دیگر قیدیوں کے خلاف جرمن انتظامیہ کی معاونت کرتے تھے، انہیں خاصی رعایت اور نرمی سے برتا جاتا تھا)کی بھی نہیں ہے، یہ وہ قیدی تھے کہ جب عام قیدی بھوک سے مررہے ہوتے تھے، انہیں خوراک ملتی رہتی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے کاپوز نے ان کیمپوں میں اپنی زندگی کا سب سے آسودہ وقت گزارا۔ اسی طرح یہ طاقت کے جبر وستم کی داستانِ محض بھی نہیں ہے۔ یہ اُن اَن گنت فوجیوں کی قربانیوں، اذیتوں، اور موت کا ذکر ضرورکرتی ہے جو بے چارے کسی گنتی میں نہ تھے، جنہیں کاپوز بھی حقارت سے دیکھا کرتے تھے۔ کاپوز جرمن محافظوں کی نسبت قیدیوں پر زیادہ سخت اور متشدد تھے۔ یہ کاپوز اپنے ساتھی قیدیوں پر SS (کیمپ کے جرمن محافظوں کو ایس ایس کہا جاتا تھا) سے زیادہ تشدد کرتے تھے۔ ان کاپوز کا انتخاب اُن قیدیوں میں سے کیا جاتا تھا جن کے کردار مطلوبہ کارگزاریوں کے لیے مناسب معیار پر پورے اتر جاتے تھے، اور اگر وہ بعد میں بھی کبھی توقع پر اترتے نظر نہ آتے تو انہیں پھر سے عام قیدی بنادیا جاتا تھا۔ یہ بہت جلد ایس ایس محافظوں کی نفسیاتی سطح پر پرکھے جاتے تھے، یہ بالکل ویسے ہی بن جاتے تھے، سوچ کی سطح پر بھی نرمی کا شائبہ باقی نہ رہتا تھا۔ باہر کا کوئی بھی آدمی بڑی آسانی سے کیمپ کی زندگی سے دھوکا کھا سکتا تھا، یہ ترحم اور جذباتیت میں گندھی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ وہ بہ مشکل ہی اُس جنگ کا اندازہ لگاسکتا تھا، جویہاں زندگی کے لیے لڑی جارہی تھی۔ ویران آنکھوں اور خالی پیٹ والے قیدی بری طرح آپس میں الجھے ہوئے تھے، سب بقاکی جنگ لڑ رہے تھے۔ یہ تھوڑی سی روٹی اور چند سانسوں کی جنگ تھی۔ کبھی یہ اپنے لیے، کبھی اپنے پیارے ساتھی کی خاطر لڑی جاتی تھی۔ یہ روز لڑی جاتی تھی، اور چند لاشیں چھوڑ کر کیمپ کی زندگی پھر بڑی بے حسی سے ایک دن آگے بڑھ جاتی، اور تقدیر نئی کہانی لکھنے بیٹھ جاتی تھی۔
ٹرانسپورٹ کا معاملہ لے لیجیے، سرکاری طور پر اعلان کیا جاتا کہ قیدیوں کی مخصوص تعداد دوسرے کیمپ منتقل کی جائے گی۔ مگر ہمارا محتاط اندازہ تھا کہ وہ سارے گیس چیمبر میں لے جاکر جھونک دیے جاتے تھے۔ بیمار، نادار، کمزور قیدیوں کو سب سے بڑے کیمپ بھجوا دیا جاتا، جہاں سب سے بڑے گیس چیمبر اور بھٹیاں موجود تھیں، یہ ان کی آخری منزل تھی۔ ان بدنصیبوں کا انتخاب قیدیوں میں باہم کھلی جنگ چھیڑ دیتا تھا، یہ کبھی فرد سے فرد اور کبھی گروہ سے گروہ کی لڑائی ہوتی تھی۔ سب کی یہی کوشش ہوتی تھی کہ کسی طرح اُس کا اور اُس کے دوست کا نام اس فہرست میں آنے سے بچ جائے۔ مگر یہ حقیقت بھی سبھی جانتے تھے کہ چند لوگوں کو بھٹیوں تک ہر صورت جانا ہی پڑے گا۔ ہر چکر میں چند قیدی لے جائے جاتے تھے۔ یہ کون لوگ تھے؟ کچھ نہیں! بس چند ہندسے تھے۔ کیمپ میں داخلے کے وقت (Auschwitzمیں کم از کم یہی طریقہ تھا) قیدیوں کے دیگر سامان کے ساتھ ساتھ اُن کی دستاویزات بھی لے لی جاتی تھیں۔ اس طرح بعد میں کئی قیدیوں نے جعلی نام اور جعلی پیشہ ظاہر کرکے چند فائدے بھی سمیٹے۔ یہاں (جرمن) حکام کو صرف نمبرز میں دلچسپی تھی۔ یہ نمبر قیدی کی کھال پر گوندھ دیا جاتا تھا، اور ٹراؤزرز، جیکٹ، یا کوٹ پر سی دیا جاتا تھا۔ جب کسی نگراں کوکسی قیدی پرالزام دھرنا ہوتا، وہ اُس کے نمبر کی طرف صرف گھور کر دیکھ لیتا تھا (اور ہم اس گھورنے سے کس قدر خوف زدہ ہوجاتے تھے!)، وہ کبھی بھی نام جاننے کی زحمت نہیں کرتا تھا۔
یہاں ہر قیدی صرف ایک ہی خیال کی گرفت میں جکڑا ہوا تھا کہ ’’کسی طرح زندہ بچ جاؤں اور گھر والوں کے پاس پہنچ جاؤں، جوکہیں دور بے چینی سے میری راہ دیکھ رہے ہیں‘‘، اور یہ کہ وہ کس طرح اپنے دوستوں کو بچاسکتا ہے۔ اس لیے بغیر کسی ہچکچاہٹ، ہرکوئی چاہتا تھا کہ اُس کی جگہ دوسرے کا نمبر آجائے اور وہ بچ جائے۔ جیسا کہ میں پہلے ذکر کرچکا ہوں، کاپو کا انتخاب ایک ناگوار موقع ہوتا تھا، قیدیوں میں سے ظالم ترین فرد کا چناؤ کیا جاتا تھا (اگرچہ چند خوشگوار استثنا بھی دیکھے گئے)۔ لیکن کاپوز کے انتخاب کو چھوڑ کر، کہ جو ایس ایس گارڈ خود کرتے تھے، ایک قسم کی خود انتخابی کا عمل بھی ہمارے درمیان حرکت میں تھا۔ ایک تناسب یہ تھا کہ وہ قیدی جو ایک کیمپ سے دوسرے کیمپ منتقل ہوتے رہتے تھے، وہی زندہ رہتے تھے، کیونکہ اپنا وجود قائم رکھنے کے لیے جدوجہد کرکرکے وہ ہر طرح کی خلش سے عاری ہوچکے ہوتے تھے۔ یہ اپنی بقا کے لیے ہر حربہ آزما لیتے تھے، یہاں تک کہ ظالمانہ ہتھکنڈے بھی اختیار کرتے تھے۔ اپنے دوستوں سے غداری بھی کرجاتے تھے خود کو بچانے کے لیے۔ ہم وہ لوگ جوکئی بار قسمت کی یاوری سے بچتے چلے آئے تھے، اچھی طرح جانتے تھے کہ سب کا گھروں کو پلٹنا انتہائی مشکل ہوگا۔
اس بارے میں بہت سے تفصیلی حقائق پہلے ہی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ یہی نوعیت اُن انسانی تجربات کی بھی ہے جو یہاں بیان کیے جارہے ہیں۔ لیکن، اُن کے لیے جو اِن کیمپوں میں قیدی رہے ہیں، یہ تجربات موجودہ علم (اُس وقت کے علم نفسیات)کی روشنی میں سامنے آئیں گے، اور وہ جو اِن کیمپوں میں نہیں رہے، اُن کے لیے یہ واقعات سبق آموز ہوں گے، وہ جان سکیں گے کہ قیدیوں کی وہ انتہائی کم تعداد جو زندہ بچ گئی ہے، کس طرح بعد کی زندگی بسر کررہی ہے؟
جبکہ عام طور پرسابق قیدی اکثر یہ کہتے ہیں کہ ’’ہمارے لیے اپنے تجربات بیان کرنا انتہائی تکلیف دہ ہے، کیونکہ جو جرمن کیمپوں میں قید نہیں رہے وہ کبھی نہیں سمجھ سکیں گے کہ ہم نے کیسا محسوس کیا تھا اورہم اب کیسا محسوس کرتے ہیں؟ اور جو کیمپوں میں قیدی رہے ہیں اُن کے لیے کسی وضاحت کی کوئی ضرورت ہے ہی نہیں!‘‘
اس موضوع پرکسی خاص طریقۂ تحقیق کی کوشش بہت مشکل ہے، جیسا کہ علمِ نفسیات کو ایک یقینی سائنسی تجربے کی ضرورت ہے۔ مگر کیا ایک قیدی محض اپنے مشاہدات سے یہ کارنامہ انجام دے سکتا ہے؟ یہ سہولت صرف باہر کے آدمی کو حاصل ہوسکتی ہے، مگر وہ کس طرح اندر کے احساسات کی قدرپیمائی کرسکتا ہے! یہ صرف اندر کا آدمی ہی جان سکتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اُس کے نتائج معروضی نہ ہوں، اُس کے جائزے مبالغہ آرائی ہوں۔ یہ ناگزیر ہے۔ مگر ایک کوشش ضرور ہونی چاہیے جس میں اس ذاتی عصبیت سے گریز کیا جاسکے، اور یہ اس نوعیت کی کسی کتاب میں بہت مشکل ہوتا ہے۔
یہ بہت ضروری ہے کہ ہمت کی جائے، اور ناقابلِ فراموش تجربات بلا کم و کاست دنیا کے سامنے رکھ دیے جائیں۔ پہلے میں نے ’’گُم نام مصنف‘‘ کے طور پر کتاب لکھنے کا ارادہ کیا، قیدی نمبر کے عنوان سے… مگر جب مسودہ مکمل ہوگیا تو مجھے یہ لگا کہ بے نامی کتاب سے مواد کی اہمیت آدھی رہ جائے گی، اس لیے مجھے ہمت کرکے تلخ ترین تجربوں کو کھل کر بیان کرنا ہوگا، اسے اپنانا ہوگا۔
لہٰذا میں نے مسودے کے کسی بھی حصے کو مٹانے سے گریز کیا، باوجود اس کے کہ یہ ’’اظہار‘‘ مجھ پرانتہائی ناگوار گزر رہا تھا۔ یہ کتاب کتنی اہم ہے؟ اس کا فیصلہ قاری کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ کتاب شاید عقوبت خانے کے ماحول کی نفسیات سمجھنے میں مددگار ہو۔ وہ نفسیاتی صورت حال، جس سے ہمارا واسطہ کنسنٹریشن کیمپ پڑا تھا۔
(جاری ہے)