معروف کالم نگار شاہد جتوئی نے اتوار یکم اگست 2021ء کو کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’پنھنجی اخبار‘‘ کراچی کے ادارتی صفحے پر محولہ بالا عنوان سے لکھے گئے اپنے کالم میں صوبہ سندھ میں پی ٹی آئی کی حالیہ سیاسی حکمت عملی اور صوبے کے معروضی سیاسی حالات کے بارے میں جو اظہارِ خیال کیا ہے، اس کا اردو ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
…٭…٭…٭…
’’سندھ میں بھی تیاری کریں۔ وہاں بھی عمران خان اپنی حکومت بنائیں گے۔ یہ بات وزیرداخلہ شیخ رشید احمد نے آزاد جموں کشمیر کے الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی کامیابی کے بعد لال حویلی میں جشن مناتے ہوئے کہی۔ دوسری جانب پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی کہا ہے کہ عوام کے دھتکارے ہوئے افراد کو سندھ پر مسلط کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ شیخ رشید اور بلاول بھٹو کے ان بیانات سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ سندھ میں ’’اسٹیٹس کو‘‘ کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہورہا ہے کہ کیا اس طرح کی کوششیں کامیابی سے بھی ہم کنار ہوسکتی ہیں؟
ویسے تو پاکستان میں ہر چیز ممکن ہے، کیوں کہ سیاست میں غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت بہت زیادہ ہے، لیکن پاکستان کے بعض علاقے ایسے ہیں جہاں پر غیر سیاسی قوتوں کے لیے اپنی سیاسی تدابیر (Manuvering) پر عمل کرنا حد درجہ مشکل ہوتا ہے۔
ان میں کراچی کے سوا سندھ کے دیگر اضلاع کے علاقے شامل ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ان علاقوں میں پی پی پی کی سیاسی گرفت مضبوط ہے، اور آزادانہ سیاسی عمل میں اس کا سیاسی مقابلہ کرنا کسی طور بھی کوئی آسان کام ہرگز نہیں ہے۔ پنجاب میں بھی بعض علاقے ایسے ہیں جہاں مسلم لیگ نواز کی سیاسی گرفت مضبوط ہے، وہاں بھی الیکشن کی سیاست میں ان کا مقابلہ کرنا کارِدارد ہے۔ سارے بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے اکثر علاقوں، اور کراچی میں کسی سیاسی پارٹی کی گرفت مضبوط ہونے نہیں دی گئی۔ ان علاقوں میں اگر کسی سیاسی جماعت کی گرفت مضبوط تھی تو اسے کمزور کرنے میں کامیابی حاصل کرلی گئی۔ وہاں پر غیرسیاسی قوتیں جو بھی سیاسی حکمت عملی اپناتی ہیں اُن پر عمل پیرا ہونا اُن کے لیے آسان ہوتا ہے۔
سندھ کا ووٹ بینک دراصل چار حصوں میں منقسم ہے۔ ایک ووٹ بینک بھٹو کا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بتدریج سکڑتا چلا جارہا ہے لیکن تاحال موجود ہے۔ لازمی طور پر یہ پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک ہے۔
دوسرا ووٹ بینک سندھی قوم پرستی (نیشنل ازم) کا ہے۔ یہ ووٹ بینک اتنا زیادہ بالکل نہیں ہے کہ قوم پرست جماعتیں اپنے امیدواروں کو کامیابی دلا سکیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھ کی قوم پرست جماعتیں سیاسی طور پر جس انداز میں سرگرم ہیں، موجودہ دور میں ایسی سیاسی سرگرمیاں دنیا میں شاید ہی کہیں دکھائی دیتی ہوں۔ لانگ مارچ، احتجاجی مظاہرے، جلسے جلوس، ریلیاں، بھوک ہڑتال سندھ میں روزانہ کسی نہ کسی طرح ہوتی رہتی ہیں۔ اس کا فائدہ بھی درحقیقت پیپلزپارٹی ہی کو حاصل ہوتا ہے، کیوں کہ قوم پرستوں کے پاس پارلیمنٹ کا فورم موجود نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی اس فورم پر سندھیوں کا کیس لڑتی ہے، اور وفاق پرست دیگر جماعتوں کے مقابلے میں سندھی پیپلزپارٹی کو اپنی نمائندہ سیاسی جماعت تصور کرتے ہیں۔ قوم پرستی کی مضبوط جڑیں سندھی مڈل کلاس میں ہیں، جنہیں پیپلزپارٹی کی حکومتوں نے جنم دیا اور معاشی فوائد بھی بہم پہنچائے۔
تیسرا ووٹ بینک وڈیروں، پیروں اور بااثر افراد کا ہے، جو منتخب ہونے والے یا ’الیکٹ ایبلز‘ کہلاتے ہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی لگاتار حکومتوں میں ہے۔ ہر حلقے میں پیپلزپارٹی کے وڈیرے، پیر، میر اور بااثر افراد اپنے سیاسی مخالفین سے کہیں زیادہ مضبوط اور طاقتور ہوچکے ہیں۔ ماضی میں عام افراد کو بھی پیپلزپارٹی کے ٹکٹ دیے گئے تھے۔ اب یہ عام افراد بھی بڑے وڈیرے بن چکے ہیں۔ ہر حلقے میں انتظامیہ اور پولیس کی انہیں مدد حاصل ہے۔ ترقیاتی فنڈز اور ملازمتوں کے ذریعے وہ چھوٹے وڈیروں اور پارٹی کے عہدے داروں کو خوش رکھتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے الیکٹ ایبلز کا مقابلہ کرنا سیاسی مخالفین کے لیے بے حد مشکل ہے۔
چوتھا ووٹ بینک وہ ہے جو پیسے خرچ کرکے بنایا جا سکتا ہے۔ پیپلزپارٹی کے افراد کے ہاں ظاہرہے کہ سرمائے اور پیسے وغیرہ کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔
کچھ دیگر اسباب اور عوامل بھی ہیں جو پیپلزپارٹی کے حق میں ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نواز اور تحریک انصاف جیسی وفاق پرست جماعتوں نے یا تو سندھ میں دلچسپی نہیں لی ہے، یا پھر انہیں سندھ میں سیاست کرنے میں بہت مشکل درپیش ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جس طرح پنجاب میں بعض الیکٹ ایبلز کسی بھی سیاسی جماعت کے سوا جیت سکتے ہیں، اس طرح سندھ میں ایسے افراد کی تعداد بہت کم ہے۔ پنجاب میں مسلم لیگ نواز کے الیکٹ ایبلز کو حالاں کہ پی ٹی آئی میں شامل کیا گیا، لیکن سندھ میں اس نوع کی تمام کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئی ہیں۔ پیپلزپارٹی مخالف قد آور سیاسی شخصیات اپنے حلقوں میں الیکشن کی سیاست میں کمزور ہوچکی ہیں۔ گزشتہ دنوں لاڑکانہ میں اکٹھی ہونے والی سیاسی شخصیات نے پیپلزپارٹی کے خلاف لاڑکانہ کے ’’راجوانی اتحاد‘‘ کی طرح ہر حلقے میں اتحاد بنانے پر اتفاق کیا، لیکن ان شخصیات میں سے اگر کسی کو پیپلزپارٹی میں شامل ہونے یا پیپلزپارٹی کے ٹکٹ کے حصول کا موقع مل جائے تو وہ اسے ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔ تیسری اور اہم بات یہ ہے کہ شاید سندھ کا موجودہ سیاسی توازن طاقتور حلقوں کے فائدے میں ہو۔ سندھ کی سیاست اور سماج پر گہری نظر رکھنے والے ہمارے ایک دوست اور سابق صوبائی وزیر کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی ایک سیاسی جماعت نہیں ہے بلکہ الگ سیاسی فرقہ ہے۔غیر معمولی حالات یا پھر کوئی غیرمعمولی واقعہ ہی صورت ِحال کو تبدیل کر سکتا ہے۔ عام حالات یا کوششوں سے یہ ممکن نہیں ہے۔