عدالتِ عالیہ بلوچستان کے نئے چیف جسٹس، جسٹس نعیم اختر افغان ہوا کا تازہ جھونکا ہیں۔ ان کی ذات کئی خوبیوں کی حامل ہے۔ وکیل اور بطور ہائی کورٹ کے جج، عام مشاہدہ اور رائے یہی ہے کہ انہوں نے پیشے اور منصب سے کماحقہٗ انصاف کیا ہے۔ وہ میرٹ پر آئے ہیں۔ پیش نظر عدل و انصاف کی بالاتری ہے۔ بلاشبہ معاشرے کے اندر عدل اور انصاف کی بالادستی و روانی ہو تو اعتماد کی فضا عروج پاتی ہے۔ بدظنی، بدگمانی اور انتقام کے رویّے ختم ہوتے ہیں۔ سب کے لیے یکساں قانون سماج کو جوڑتا ہے۔ بدقسمتی سے یہاں نظام تفتیش میں کئی سنگین خرابیاں موجود ہیں۔ اس کے اندر بدعنوانی، سازش اور انتقام کا جذبہ قانون کے رکھوالوں، اداروں اور عوام کے درمیان خلیج کا باعث بنا ہے۔ آگے عدالتوں میں بھی اگر ایسا ہی ہو تو یقیناً اس کے اثرات ریاست کے استحکام پر مرتب ہوں گے۔
بلوچستان کے اندر بات اگر طویل انسرجنسی کی، کی جائے تو اس میں پولیس، لیویز اور ان کی تفتیش کا شعبہ سرے سے کام نہیں کرسکا ہے۔ قانون کو لاگو و بالادست نہیں رکھا جاسکا ہے۔ عدالتیں یرغمال بن گئیں۔ نتیجتاً چار و ناچار قانون و عدل سے ماوراء اقدامات کرنے پڑے،جو کئی دیگر نزاعات و بگاڑ کا موجب بنے۔ بدامنی کے ماحول میں خوف و تردد نے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدلیہ کو نقصان سے دوچار کیا۔ مجموعی بات کی جائے تو پولیس عوام میں اچھا تاثر چھوڑنے میں قطعی کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔
چیف جسٹس نعیم اختر افغان نے پیر19جولائی کو بلوچستان ہائی کورٹ کے احاطے میں اپنے اعزاز میں دیے گئے عشائیے کے موقع پر خطاب میں ایک بہت ہی قبیح عمل کی نشاندہی کی ہے۔ ان کی یہ گفتگو قابلِ غور ہے۔ تقریب میں جج صاحبان اور وکلا موجود تھے۔ ایک داعی رہنما کے طور پر نعیم اختر افغان نے بلوچستان کے ضلع خضدار کی سنٹرل جیل میں ناحق عمر قید کی سزا کاٹنے والے قیدی کی بے گناہی، اُس کے وکیل کی محض اپنی فیس کی خاطر اُسے جیل کی تاریکیوں میں جھونکنے اور تفتیش کار پولیس اہلکاروں کے فاسد برتائو کا تذکرہ کیا۔ کاش! جج صاحبان، وکلا اور پولیس اہلکاروں کی اس ایمان افروز گفتگو کے بعد آنکھیں کھل جائیں۔ جسٹس افغان نے بیان کیا کہ جیل کے دورے کے اختتام پر وہ واپس جارہے تھے کہ اس اثنا میں ایک قیدی نے فریاد سنانے کے لیے انہیں پکارا۔ وہ رکے اور قیدی کی پوری روداد سنی۔ وہ شخص عمر قید کی سزا بھگت رہا تھا۔ کراچی کے رہائشی اس قیدی کی بھتیجی کی شادی کوئٹہ میں ہوئی تھی۔ لڑکی کو ایک سال بعد طلاق ہوگئی تھی۔ جہیز کے سامان کی واپسی کے لیے کوئٹہ کی فیملی کورٹ میں درخواست لگائی گئی۔ عدالت نے لڑکی کے حق میں فیصلہ دیا۔ جہیز کا سامان کراچی منتقل کرنے کے لیے کوئٹہ کے ٹرک اڈے سے ٹرک کرایہ پر لیا۔ سامان کے ساتھ یہ شخص کراچی روانہ ہوا۔ اوتھل کے قریب چیک پوسٹ پر گاڑی روک لی گئی۔ پولیس نے بتایا کہ انہیں اطلاع ہے کہ ٹرک میں منشیات اسمگل کی جارہی ہے۔ اہلکاروں کو سامان کی رسید دکھائی۔ ناظر کی رپورٹ اور عدالت سے اجراء کا حکم دکھایا، مگر پولیس تلاشی پر مُصر رہی۔ تلاشی کے دوران ٹرک کے پچھلے فرش کو اکھیڑا گیا تو خفیہ خانوں میں چرس کے پانچ سو پیکٹ چھپائے گئے تھے۔ وہ ڈرائیور سمیت گرفتار کرلیا گیا۔ یوں تفتیشی افسر نے دونوں کا چالان کردیا۔ بعد میں سیشن جج نے دونوں کو عمر قید کی سزا سنادی۔ اس شخص کے پیش کیے گئے بے گناہی کے ثبوت کو نہ تھانہ، نہ ہی عدالت نے قابلِ غور سمجھا۔ ہائی کورٹ میں بھی تین سال سے اپیل کی سماعت نہیں ہوئی تھی۔ بقول جسٹس نعیم اختر افغان، جب انہوں نے قیدی کے مقدمے کی فائل پڑھی تو اس کے ہر صفحے پر اُس کی بے گناہی کے سوا کچھ نہ تھا۔ جسٹس افغان نے کہا کہ میں حیران ہوں کہ ثبوت نہ ہونے کے باوجود میرے ساتھی جج صاحب نے اُس کو سزا کیسے دی! اور یہ دیکھنے کے لیے ہائی کورٹ میں سزا کے خلاف اپیل کے بعد اس کی سماعت کیوں نہیں ہوئی! مقدمے کی آرڈر شیٹس دیکھیں۔ آرڈر شیٹس پر قیدی کے وکیل کی بار بار غیر حاضری پائی گئی۔ اگلے دن جب سماعت کے لیے قیدی کی باری آئی تو نوٹس ہونے کے باوجود وکیل پھر نہیں آیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے اپنے اسٹاف کو کہا کہ وکیل کو فون کریں اور اسے بلائیں خواہ وہ کہیں بھی ہو۔ وکیل ساڑھے بارہ بجے پیش ہوا، تو اُس سے پوچھا کہ آپ کا کیس ہے کیوں ظلم کررہے ہیں؟ کیس کیوں نہیں چلارہے؟ وکیل نے کہاکہ یہ ظالم میری فیس نہیں دیتا۔ وکیل کو کیس کی فائل پڑھنے کی مہلت دی، مگر اگلے دن جب پیش ہوا تب بھی اُس نے فائل نہیں پڑھی تھی۔ جسٹس افغان نے بتایا کہ قیدی سے منشیات کی برآمدگی کا کوئی ثبوت نہیں تھا، جس پر اسے پانچ منٹ میں ہی بری کردیا۔
ایک قصہ میری یادداشت میں ہے۔ چند سال پہلے سی آئی اے پولیس نے کوئٹہ کے نواحی علاقے غوث آباد میں ایک نوجوان کو گرفتار کیا تھا۔ نوجوان کی سرکی روڈ پر الیکٹرک کی دکان تھی۔ اُس کی فون پر راولپنڈی کی ایک لڑکی سے دوستی ہوگئی تھی۔ چناں چہ لڑکی اس کے پاس کوئٹہ آگئی تھی اور لڑکے کے گھر رہ رہی تھی۔ لڑکی ایڈجسٹ نہ ہوسکی توکچھ عرصے بعد اُس نے گھر والوں کو فون پر مطلع کردیا۔ خاندان کے افراد کوئٹہ پہنچ گئے۔ ستی تھانے کی سی آئی اے پولیس نے چھاپہ مارا، اور لڑکے اور لڑکی کو تھانے لے آئے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ لڑکی برضا و رغبت آئی تھی، اور لڑکے پر اغوا کا مقدمہ درج کرکے راولپنڈی پولیس کے حوالے کردیا۔ صحافیوں کے سامنے لڑکے نے بتایا کہ لڑکی اپنی مرضی سے آئی ہے۔ پولیس نے جواب میں تھپڑ رسید کرکے اسے چپ کرادیا۔ یعنی لڑکی والوں نے اپنی عزت کے لیے اغوا کا ڈرامہ رچایا اور سی آئی اے پولیس نے (باقی صفحہ 41 پر)
جانتے بوجھتے محض کریڈٹ و محکمانہ شاباش لینے کی خاطر نوجوان کو عذاب میں جھونک دیا۔ معلوم نہیں کہ اس نوجوان پر بعد میں کیا بیتی ہوگی، یا بیت رہی ہوگی! لڑکے کا خاندان یقیناً ملک کے قانون اور انصاف کے ایوانوں سے بدظن ہوچکا ہوگا۔ خصوصاً پولیس ان کی نگاہ میں شر کی مخلوق ٹھیری ہوگی۔ چناں چہ چیف جسٹس نعیم اختر افغان نے یہ افسوس ناک قصہ ججوں، وکلا اور یقیناً پولیس کے سامنے نظام میں بہتری کی نیت سے سنایا ہے، اور ذمے داریوں کو احسن اور انصاف کے ساتھ نبھانے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے شرکاء کے سامنے قسم اٹھا کر کہا ہے کہ وہ اپنی ذمے داریاں پوری کریں گے، چاہے اس کے لیے انہیں کتنے ہی کڑوے گھونٹ کیوں نہ پینے پڑیں۔ انہوں نے وکلا سے سوال کیا کہ آپ لوگ بتائیں کہ اپنی ذمہ داریاں پوری کریں گے یا نہیں؟
نعیم اختر افغان عدل و انصاف کی اس بڑی و اہم نشست پر ایک مدت بعد صائب اضافہ ہیں۔ اُن سے عدل و انصاف، میرٹ اور بینچ و چیمبرکی توقیر و تقدس کا پاس رکھنے کی واثق امید ہے۔ اورآنے والوں سے اُن کی پیروی و تقلید کی توقع ہے۔