پاکیزہ تہذیب بنی نوع انسانی کی ضرورت

قوموں کی ترقی و عروج کا راست تعلق انسانی اخلاقیات سے ہوتا ہے۔ انسانی تاریخ میں انھی قوموں اور تہذیبوں کو فروغ اور دوام حاصل رہا جو انسانی اخلاقیات میں بلند مقام پر فائز رہیں۔انسانی فطرت پاکیزگی و طہارت سے مانوس ہوتی ہے اور اس کو پسند کرتی ہے۔ اسی لیے وفا انسانی معاشرہ میں ایک تسلیم شدہ اور قابل تحسین قدر سمجھی جاتی ہے۔ ایفائے عہد بنیادی اخلاقیات میں سے ہے۔ ایمان داری، سچائی، پاکیزگی، عدل و انصاف باہم پیوستہ اور جڑی ہوئی انسانی صفات ہیں۔ یہ جہاں پائی جائیں انسانی معاشرہ انھیں قدر کی نگاہوں سے دیکھتا ہے اور انسانی سماج کی فوز و فلاح اور ترقی بھی انھی سے وابستہ ہے۔شرک اور زنا دراصل اپنی ذات میں خیانت یعنی اپنی فطرت سے دغا کرنے اور اپنی فطرت میں کرپشن کرنے کے مترادف ہے۔مشرک اپنے رب رحیم کے بے شمار احسانات پر حقیقی اعتراف بندگی کے بجائے اپنی نیاز مندی اور شکر گزاری کو یا تو اپنی ذات و کمالات کی طرف منسوب کرتا یا اپنے باپ دادا اور لیڈران کے ہاتھوں بنائے ہوئے جھوٹے خداؤں کی طرف منسوب کرتا ہے۔ یہ فطرت انسانی میں موجود داعیے کی خلاف ورزی اور اپنے آپ میں بدترین خیانت ہے۔ خدا سے کیے ہوئے عہدِ بندگی کو فراموش کردینا دراصل اپنی فطرت میں موجود شہادت کو چھپانا یا غلط شہادت دینا ہے، اور یہ سب سے بڑی خیانت اور سب سے بڑا کرپشن ہے۔ یہ انسان کی طرف سے سب سے بڑا جھوٹ اور سب سے جھوٹی گواہی ہے جو انسان خود اپنی فطرت کے خلاف دے رہا ہوتا ہے۔زانی بھی خیانت کا مرتکب ہوتا ہے۔ سماج میں رہتے ہوئے انسان کئی خاموش اور ان کہے معاہدات کا پابند ہوتا ہے۔ اسی سے سماج میں امانت داری اور ایک دوسرے پر اعتماد کی فضا بحال رہتی ہے۔ ایک زانی ان معاہدات میں خیانت کا مرتکب ہوتا ہے۔ چوں کہ انسانی فطرت اس کو ایک انتہائی برا کام سمجھتی ہے اسی لیے وہ یہ کام چوری چھپے کرتا ہے اور سچائی کے علی الرغم ایک جھوٹ اور خیانت کا ارتکاب کرتا ہے۔ یہ اپنی ذات میں کرپشن ہے۔ایسا معاشرہ جہاں جھوٹ کا فروغ ہو اور سماجی معاہدات دن دہاڑے پامال کیے جاتے ہوں وہ ایک استحصالی ذہنیت کا معاشرہ ہوتا ہے۔ لوگوں کا ایک دوسرے پر اعتماد نہیں رہتا۔ اس استحصالی معاشرہ میں عورت چوں کہ کم زور ہوتی ہے اس لیے خواتین کا استحصال اور ان سے بے وفائی اور عہد شکنی ایک معمول بن جاتی ہے۔ ان کو اس استحصال کا خوگر اور عادی بنایا جاتا ہے اور حقیر مالی مدد اور تعاون کے نام پر ان سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی باحیا فطرت کے خلاف گواہی دیں اور خود اپنی فطرت کی نفی کریں۔یہ جھوٹ پر مبنی ایک حیوانی کلچر ہوتا ہے۔ جس معاشرے میں انسان شہوتوں اور لذات کا بندہ بن جاتا ہے، وہ معاشرہ سماجی قدروں اور اعلی اخلاقی اصولوں کا قبرستان بن جاتا ہے۔ یہاں سے امانتداری، حیا و پاکیزگی، ایثار و اعتماد جیسی اعلی اخلاقی قدریں رخصت ہوجاتی ہیں۔ سماجی ادارے زوال کا شکار ہوتے ہیں۔ “خاندان” جیسا سب سے اہم اور بنیادی ادارہ جو انسان کی تعمیر و تربیت کا سب سے بنیادی ادارہ ہوتا ہے وہ بے اعتمادی کے طوفانوں کی نذر ہوجاتا ہے۔ ایسا معاشرہ انسانوں کو نہیں بلکہ ظالم حیوانوں کو جنم دیتا ہے۔ جن کا واحد مقصد مادی منفعت اور لذات نفس کا حصول ہوتا ہے چاہے اس کے لیے استحصال اور ظلم ہی کا سہارا کیوں نہ لینا پڑے! ظلم اور دھوکہ دہی منکر سے نکل کر معروفات میں داخل ہوجاتی ہے۔ زناکار دراصل سماج کے اعتماد اور سماجی اداروں کا قاتل ہوتا ہے۔معاشرے کو ایسی گرواٹ سے بچانا اور معاشرے کی اجتماعی قدروں اور اداروں کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ ایسے خائنوں کو خاطر خواہ سزا دی جائے اور سزا بھی ایسی ہو جس سے سماج کے دوسرے افراد کو عبرت ملے! یہ سماجی اعتماد کے قاتل ہوتے ہیں ان کو سزا میں کوئی رعایت دینا سماجی ناانصافی ہے۔زنا جیسے سماجی اداروں اور اخلاقی قدروں کے قتل کو کنٹرول کرنا اور اس پر سدے بٹھانا ایک سماجی ذمہ داری ہے۔ آنے والی نسلوں کی اس سے حفاظت اور سماج کواس سے دوری بنائے رکھنا ایک سماجی فریضہ ہے۔ اس کے تمام مظاہر سے انسانوں کو بچانا سماج کے حق میں ایک اہم ذمہ داری ہے۔زنا صرف فعل نہیں ہے بلکہ یہ ایک پورے کلچر اور تہذیب کو نگل جانے والی وبا ہے۔ ایک سماجی جرم ہے۔ جس سے سارا سماج جو جھتا ہے۔ اور نسل انسانی کو پوری طرح برباد کردینے کا سامان اپنے اندر رکھتا ہے۔ اس کے جلو میں بیماریوں کا ایک قافلہ چلتا ہے۔ جس میں تفریحی کلچر، عریانیت اور ننگا پن، گندی فلمیں، فحاشی پر مبنی ڈرامے اور سیریل، اباحیت اور منشیات، پاپ میوزک، شراب اور ریو پارٹیوں جیسی گندگیاں اپنے ساتھ لاتا ہے۔اسی لیے سماج کے تانے بانے ایسے ہونے چاہئیں جو انسانی نسل کو اس راہ ہی سے دور رکھنے والے ہوں۔ ہر اس راہ کو مسدود کرنا لازم ہے جو زنا کی طرف لے جانے والی ہو یا اس کو بڑھاوا دینی والی ہو۔زنا کا یہ کلچر ہر زمانے میں باطل نظریات کا بڑا آلہ کار بنا رہا ہے۔ اسی کلچر کے ذریعے باطل نظریات قبولِ عام حاصل کرتے ہیں۔ نوجوانوں کے جذبات کا استعمال کرنا، خواتین کو ترقی کے سبز باغ دکھانا وہ حربے ہیں جن سے یہ اپنی سڑاند کو ننگے پن اور “ترقی کی چکاچوند” میں چھپا دیتے ہیں۔ آج ہم جس دور میں جی رہے ہیں اس میں سرمایہ دارانہ استعمار کے پھیلاؤ میں اس کلچر کا بڑا دخل ہے۔ لوٹ کھسوٹ اور اعلی اخلاقی قدروں سے عاری یہ تہذیب تیزی سے زوال کا شکار اور اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ ظلم و استحصال پر مبنی ایسی تہذیبوں کو کبھی حقیقی فروغ اور دوام حاصل نہیں ہوتا۔ حق کی کرن ان گھٹاٹوپ اور موج در موج ظلمتوں کو چاک کرکے نمودارہوتی ہے اور انسانیت کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لے آتی ہے۔توحید پر مبنی اور انسانی فطرت کے حسن و پاکیزگی پر استوار ربانی تہذیب ہی انسانوں کو اعلی اخلاقیات سے سرفراز کرتی ہے۔ یہی تہذیب سماج کو ترقی دے سکتی اور اس ترقی کی حفاظت کرسکتی ہے۔ یہ تہذیب اپنے بے پناہ حسنِ اخلاق سے انسانوں کو اپنا گرویدہ بنالیتی ہے اور اس کے نور سے جہالت و ظلم کی ساری تاریکیاں چھٹ جاتی ہیں۔