تیونس کے صدر قیس سعید نے پارلیمان ایک ماہ کے لیے معطل کرکے وزیراعظم ہشام المشیشی کو برطرف کردیا۔ وہاں کورونا پر قابو کے لیے لگائی گئی پابندیوں اور اس کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف کئی ہفتوں سے مظاہرے ہورہے تھے۔ صدارتی محل سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ عوام حکومت کے منافقانہ طرزِعمل اور کرپشن سے نالاں ہیں اور ملکی سلامتی کے لیے نااہل حکومت کا خاتمہ ضروری تھا۔
گزشتہ دہائی کے اختتام پر شروع ہونے والی عرب دنیا کی تحریکِ آزادی یا ربیع العربی(Arab Spring) صرف تیونس ہی میں اپنے اہداف حاصل کرسکی ہے۔ مصر میں مغرب و اسرائیل کی ایما پر فوج نے عوامی امنگوں کا گلا گھونٹ دیا۔ الجزائر اور بحرین میں بھی یہ مزاحمت کچل دی گئی۔ جبکہ لیبیا اور یمن میں اٹھنے والی تحریک خانہ جنگی کا شکار ہوگئی۔ یہی حال شام کا ہے، جہاں فرقہ وارانہ محاذ آرائی نے داعش کا روپ اختیار کرلیا ہے۔ مراکش میں بادشاہ نے اپنے کچھ اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل کیے، لیکن وقتاً فوقتاً جاری ہونے والے شاہی احکامات کے ذریعے یہ تمام اقدامات کالعدم کردیے گئے۔
سوا کروڑ سے بھی کم آبادی والا یہ چھوٹا سا ملک بحرِ روم کے کنارے شمالی افریقہ میں واقع ہے۔ قدیم عرب جغرافیہ داں اس علاقے کو مغرب العربی کہا کرتے تھے جو تیونس، الجزائر، لیبیا، مراکش اور موریطانیہ پر مشتمل ہے۔ ساحلی علاقوں میں بربر عرب آباد ہیں، اور اس مناسبت سے مغرب کا ایک اور نام ”بربری ساحل“ بھی ہے۔ مشہور مسلم جرنیل طارق بن زیاد بھی بربر نسل کے تھے۔ علمی سطح پر تیونس کی وجہِ شہرت مسجد و جامعہ الزيتونہ ہے۔ دوسری صدی ہجری کے آغاز میں قائم ہونے والا یہ تعلیمی ادارہ دنیا کے قدیم ترین مدارس میں شمار ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سابق امریکی صدر اوباما کے والد بارک حسین اوباما سینئر نے بھی جامعہ الزیتونہ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی ہے۔
جنوری 1956ء میں فرانس سے آزاد ہونے والے تیونس نے اپنے پہلے 55 سال میں صرف دو صدور دیکھے۔ پہلے صدر حبیب بورقیبہ تیس سال برسراقتدار بلکہ مسلط رہے، حتیٰ کہ معذوری کی بنا پر انھیں معزول کرکے 1987ء میں وزیراعظم زین العابدین صدر بن گئے اور 23 سال تک مطلق العنانیت سے بھرپور لطف اٹھانے کے بعد 14 جنوری 2011ء کو بصد سامانِ رسوائی سعودی عرب فرار ہونے پر مجبور ہوئے۔
تیسری دنیا کی طرح تیونس میں بھی تمام قومی وسائل فوج اور حکمران طبقے کے لیے وقف تھے، جبکہ بے روزگاری اور مہنگائی نے تیونس کے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا تھا۔ بدترین آمریت، اخبارات پر پابندی اور جاسوسی نظام کی وجہ سے سارے ملک میں گھٹن کا ماحول تھا اور عام لوگوں میں سخت مایوسی تھی۔
24 دسمبر 2010ء کو بے روزگاری سے تنگ آکر ایک نوجوان محمد بوعزیزی نے تیونس کے صدارتی محل کے سامنے خود کو نذرِآتش کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی سارے ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ ایس ایم ایس اور انٹرنیٹ نے آزاد میڈیا کی کمی پوری کردی، اور سارے تیونس میں طلبہ سڑکوں پر نکل آئے۔ زین العابدین حکومت نے پہلے تو طاقت کا بھرپور استعمال کیا، اور پھر معافی تلافی کا ڈول ڈالا گیا۔ فوج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے آخری وقت تک صدر زین کی پشتیبانی کرتے رہے۔ لیکن طلبہ کے پُرامن مظاہروں سے مجبور ہوکر خودساختہ مردِ آہن اپنی اہلیہ، اپنی دونوں بیٹیوں، داماد، بیٹے، دس سالوں اور اُن کے اہلِ خانہ کے ساتھ ایک خصوصی پرواز کے ذریعے سعودی عرب روانہ ہوگئے۔ صدر صاحب کی خواہش تھی کہ وہ امریکہ یا یورپ کے کسی ملک میں پناہ حاصل کریں، مگر ان کے سب سرپرستوں نے آنکھیں پھیر لیں۔
فوج نے راشد الغنوشی کی قیادت میں قومی حکومت کی تجویز دی جسے النہضہ نے فوری طور پر مسترد کردیا۔ جناب غنوشی کا کہنا تھا کہ تیونسی عوام نے چہرے نہیں بلکہ نظام کی تبدیلی کے لیے قربانیاں دی ہیں اور اِس وقت ملک کی ترجیح ایک ایسے دستور کی تدوین ہے جو عوامی امنگوں کا ترجمان ہو۔ چنانچہ پارلیمان کے اسپیکر فواد مبزا کو قائم مقام صدر بناکر انتخابات کی تیاری شروع ہوگئی۔
اُسی سال 23 اکتوبر کو متناسب نمائندگی کی بنیاد پر انتخابات منعقد ہوئے، جس میں قانون ساز اسمبلی کا چنائو کیا گیا۔ ان انتخابات میں سو سے زیادہ جماعتوں نے حصہ لیا، مگر اصل مقابلہ اخوانی فکر کی حامل حزب النہضہ، کانگریس فار ری پبلک المعروف موتمر،العریضہ الشعیبہ، ڈیموکریٹک فورم اور ترقی پسند جمہوری پارٹی (PDP) کے درمیان تھا۔
پہلے عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا تناسب 90فیصد رہا۔ نتائج کے مطابق النہضہ نے41فیصد ووٹ لے کر 217کے ایوان میں90 نشستیں حاصل کیں، اس کی قریب ترین حریف موتمر نے30، ڈیموکریٹک فورم نے 21، العریضہ الشعیبہ نے 19، جبکہ مغرب کی منظورِ نظر انتہاپسند سیکولر جماعتPDP کے حصے میں صرف 17نشستیں آئیں۔
النہضہ نے جو آئین ترتیب دیا اس کے بارے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ یہ عملاً انسانی حقوق کا منشور ہے جس میں قیدیوں کے حقوق کی بھی ضمانت دی گئی ہے۔ تفتیش کے لیے تشدد کی ہر شکل کو قابلِ دست اندازیِ پولیس قرار دیا گیاہے۔ ضلعوں کی بنیاد پر سارے ملک میں انسانی حقوق کی کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں جس کے سربراہ حاضر سروس جج ہیں۔ یہ کمیٹیاں تشدد کے ہر الزام کی تحقیق کرتی ہیں اور سماعت عوامی مقامات پر میڈیا کے سامنے منعقد کی جاتی ہے۔ الزام ثابت ہونے پر ذمہ داروں کو سزا کا تعین بھی یہی کمیٹیاں کرتی ہیں۔ آئین کے مطابق رنگ، نسل، مذہب اور لسانیت کی بنیاد پر امتیاز ایک جرم ہے۔ آزادیِ اظہار کو آئینی تحفظ فراہم کیا گیا ہے، جبکہ عدالتیں انتظامیہ کے اثر سے کلیتاً آزاد ہیں۔
آئین منظور ہوتے ہی جنوری 2013ء میں ایک قومی حکومت تشکیل دی گئی جس کی نگرانی میں 26اکتوبر کو 217 رکنی ایوان نمائندگان کے انتخابات منعقد ہوئے۔ گویا تیونس کی تاریخ میں پہلی بار ایک منتخب حکومت نے اپنی مہلت ختم ہونے سے قبل ہی اقتدار نگراں حکومت کو منتقل کردیا، اور عبوری حکومت نے ٹال مٹول اور طولِ اقتدار کے حیلے وضع کرنے کے بجائے دیانت داری سے انتخابات منعقد کرا دیے۔ ان انتخابات میں النہضہ کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ فوج کی حامی ندائے تیونس 86 نشستوں کے ساتھ پہلے نمبر پر رہی، اور 69 سیٹوں کے ساتھ النہضہ نے حزبِ اختلاف کا کردار سنبھال لیا۔
پانچ سال بعد 2019ء میں ایک بار پھر انتخابات ہوئے جس میں کوئی بھی جماعت اکثریت حاصل نہ کرسکی، لیکن 52 نشستوں کے ساتھ النہضہ پارلیمان کی سب سے بڑی جماعت بن گئی۔ کچھ دن بعد ہونے والے صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں کسی بھی امیدوار کو مطلوبہ 50 فیصد ووٹ نہ مل سکے، چنانچہ ووٹوں کے اعتبار سے پہلے نمبر پر آنے والے قیس سعید اور اُن کے قریب ترین حریف نبیل قروئی کے درمیان Run-offمقابلہ ہوا۔ النہضہ نے قیس سعید کی حمایت کی اور وہ بھاری اکثریت سے صدر منتخب ہوگئے۔ دوسری طرف راشد الغنوشی کو پارلیمنٹ کا اسپیکر چن لیا گیا۔ یعنی انقلابِ یاسمین کی کامیابی کے بعد سے تیونس میں 3 پارلیمانی اور دو صدارتی انتخابات ہوچکے ہیں۔ یہ سارے چنائو انتہائی پُرامن انداز میں ہوئے اور انتقالِ اقتدار میں کسی قسم کی بدمزگی دیکھنے کو میں آئی۔ گزشتہ عام انتخابات کے صرف سات ماہ بعد وزیراعظم الیاس الفخفاح ایک اسکینڈل کا شکار ہوئے، لیکن جناب الیاس شائستہ انداز میں سبک دوش ہوگئے اور پارلیمان نے جناب ہشام المشیشی کو نیا وزیراعظم منتخب کرلیا۔ نظریاتی اختلافات کے باوجود تیونس میں ایک دہائی سے وزیراعظم، صدر، اسپیکر اور حزبِ اختلاف کے تعلقات انتہائی شاندار رہے ہیں۔
گزشتہ سال مارچ سے وارد ہونے والے نامراد کورونا نے ملکی معیشت کو برباد کرکے رکھ دیا، اور مہنگائی نے عوام کی زندگی اجیرن کردی۔ اس کے نتیجے میں تیونسی سیاست دانوں کی جانب سے برداشت اور مل کر کام کرنے کی دس سالہ مخلصانہ کوششوں پر پانی پھرگیا اور الزام تراشی و انگشت نمائی کا سلسلہ شروع ہوا۔ صدر قیس نے شکوہ کیا کہ معیشت میں بہتری کے لیے پارلیمان ان کے اقدامات کی توثیق میں بہت دیر لگا رہی ہے۔ دوسری طرف اسپیکر راشد الغنوشی کا کہنا تھا کہ پارلیمان میں بحث کے بغیر قانون سازی نہیں ہوسکتی، تاہم فوری اقدامات کے لیے جاری ہونے والے صدارتی آرڈیننس پر وہ اعتراض نہیں کریں گے۔
دو ہفتے قبل حکومت کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے اور جلد ہی ان کا رخ پارلیمان اور خاص طور سے النہضہ کی طرف ہوگیا۔ پارلیمان کا گھیرائو کرکے حکومت سے استعفے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس دوران تشدد کے واقعات میں درجنوں افراد زخمی ہوئے، کئی مقامات پر نقاب پوش گروہوں نے النہضہ کے دفاتر پرحملے کیے، اور جنوب مغربی تیونس کے شہر توزر میں مقامی دفتر کو آگ لگادی گئی۔ مارشل لا کے نعرے لگے اور صدر قیس نے پارلیمان معطل کرکے وزیراعظم کو گھر بھیج دیا۔ قوم سے اپنے خطاب میں صدر قیس نے حکومت پر کرپشن اور بے حسی کے سنگین الزامات لگائے، اور ساتھ ہی دھمکی بھی دی کہ اگر کسی نے صدارتی حکم کی خلاف ورزی کی تو انھوں نے مسلح افواج کو روایتی تنبیہ کے بغیر گولی چلانے کا حکم دے دیا ہے۔
جناب راشد الغنوشی نے صدر کے فیصلے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا تھا، لیکن جب النہضہ کی شوریٰ نے مزاحمت کے بجائے مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تو غنوشی صاحب نے مظاہرہ منسوخ کرکے صدر قیس کو بات چیت کی پیش کش کردی۔ معزول وزیراعظم نے بھی صدر کا فیصلہ قبول کرتے ہوئے کہا کہ وہ نامزد وزیراعظم کو فوری طور پر اقتدار منتقل کردیں گے۔
لیکن اس پیشکش کے جواب میں فوج نے دو ارکانِ پارلیمان کو گرفتار کرلیا۔ مشہور بلاگر اور مجلس نواب الشعب (قومی اسمبلی) کے آزاد رکن جناب یاسین العیاری پر الزام ہے کہ انھوں نے 26 جولائی کو ایوانِ صدر پر مظاہرے میں اپنے ساتھیوں کو تشدد پر اکسایا تھا۔ فوجی عدالت کا کہنا ہے کہ موصوف تین سال پہلے بھی فوج پر ”الزام تراشی“ کے الزام میں گرفتار کیے گئے تھے لیکن صدر قیس سعید نے پارلیمانی استثنا دے کر ان کی رہائی کا حکم دے دیا تھا جو آج واپس لے لیا گیا۔
اسی کے ساتھ قدامت پسند کرامہ پارٹی کے رکنِ پارلیمنٹ مہر زید بھی دھر لیے گئے۔ مہر زید کو 2018ء میں سوشل میڈیا پر اُس وقت کے صدر باجی قائد السبسی پر تنقید کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، جنھیں صدر قیس نے پارلیمانی استثنا دے کر رہا کردیا تھا۔ اب مہر زید کا استثنا بھی واپس لے لیا گیا ہے۔
اُسی دن ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے ایک بیان میں کہا کہ اشتعال انگیز نعرے لگانے اور عوام کو تشدد پر اکسانے کے الزام میں النہضہ کے چار رہنمائوں کے خلاف نقضِ امن کے پرچے کاٹے جارہے ہیں۔ اعلامیے میں ان افراد کے نام بیان نہیں ہوئے لیکن خدشہ ہے کہ النہضہ کے سربراہ راشدالغنوشی اور ان کی صاحب زادی یسریٰ الغنوشی اس فہرست میں شامل ہیں۔ پکڑ دھکڑ کے خلاف النہضہ نے پارلیمان کی عمارت پر دھرنا دیا۔ اس دوران النہضہ اور صدر کے حامیوں نے ایک دوسرے پر پتھر اور بوتلیں پھینکیں۔ دوسری طرف کورونا کے پیش نظر رات 10 بجے سے نافذ کرفیو اب 7 بجے شروع کرنے کا اعلان کردیا گیا ہے۔
تیونسی صدر کے قریبی احباب بھی اُن کے سخت رویّے اور طاقت کے استعمال کی دھمکی پر حیرت زدہ ہیں۔ قیس صاحب قانون کے پروفیسر اور بار ایسوسی ایشن کے سابق سربراہ ہیں۔ ان کی ساری زندگی قانون پڑھانے اور قانون کی بالادستی پر لیکچر دینے میں گزری ہے۔ موصوف اپنے نرم لہجے اور سیاسی معاملات پر مفاہمانہ رویّے کے لیے مشہور ہیں۔ کچھ ایسی ہی شخصیت راشد الغنوشی کی بھی ہے۔
مشرقِ وسطیٰ کی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ النہضہ کی جانب سے بڑھائے جانے والے مفاہمت کے ہاتھ کو صدر قیس جس حقارت سے جھٹک رہے ہیں، اس کے پیچھے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر اور مغرب کا اشارہ بہت واضح ہے۔ پارلیمنٹ کی معطلی پر ”مثبت“ ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ انور قرقاش نے کہا کہ ”برادر ملک تیونس میں استحکام کی ہر کوشش قابلِ تحسین ہے جس کی UAEبھرپور حمایت کرتا ہے“۔ ان کا کہنا ہے کہ انتہاپسندی، دہشت گردی اور تشدد کے استیصال کے لیے صدر قیس جو بھی قدم اٹھائیں گے، امارات اس کی غیر مشروط حمایت کرے گا“۔ کورونا لہر کے باوجود صدر قیس سے اظہارِ یکجہتی کے لیے سعودی وزیرخارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان 30 جولائی کو بنفسِ نفیس تیونس تشریف لائے اور صدر قیس سے تین گھنٹے طویل بات چیت کے دوران انتہاپسندی کو کچل دینے کے اقدامات پر غور کیا گیا۔ سعودی شہزادے کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت خاص طور سے ولی عہد محمد بن سلمان آزمائش کی اس گھڑی میں صدر قیس کے ساتھ کھڑے ہیں اور تیونس کو غیر مستحکم کرنے کی ہر کوشش کا دونوں ملک مل کر مقابلہ کریں گے۔
ربیع العربی کے آغاز پر عرب حکمراں، اسرائیل اور ان کے مغربی سرپرست لرز کر رہ گئے تھے جب دیکھتے ہی دیکھتے ساری عرب دنیا آمریت کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ شیوخ و امرا نے جہاں اس تحریک کو کچلنے پر کروڑوں ڈالر خرچ کیے وہیں اس کی بنیادیں اکھیڑنے پر خلیجیوں کے ساتھ ان کے سرپرستوں نے بہت عرق ریزی سے کام کیا، جس میں نصاب کی تبدیلی، اسرائیل سے قریبی تعلقات اور اخوان المسلمون کی بیخ کنی شامل ہیں۔ لیبیا، شام اور یمن میں فرقہ وارانہ آگ کا تندور دہکانے کے ساتھ مصر میں منتخب حکومت کو صرف ایک سال میں فوجی انقلاب کے ذریعے ختم کردیا گیا۔
تیونس، ربیع العربی کی واحد کامیاب نشانی ہے، جس کے خلاف ایک منظم مہم دس سال سے جاری ہے۔ تیونس میں سوشل میڈیا پر ان تجزیاتی مقالوں کی بھرمار ہے جن میں سیاست دانوں کی بدعنوانیوں کو بے نقاب کرکے اعداد و شمار کی مدد سے یہ ثابت کیا جارہا ہے کہ ملک کو چلانا بے ایمانوں کے بس کی بات نہیں۔ تیونس کا درد وہی سمجھ سکتے ہیں جو ملک کی حفاظت کے لیے وردیوں میں ملبوس سر سے کفن باندھے بیٹھے ہیں۔ سیاست دان تو موقع پرست طالع آزما ہیں جنھیں صرف اقتدار عزیز ہے جس کے حصول کے لیے یہ اپنا ضمیر اور ملکی مفاد سب کچھ بیچنے کو تیار ہیں۔
زمینی حقائق کے سرسری جائزے سے تیونس کا حالیہ تنازع اُس مصری ڈرامے کی شرطیہ نئی کاپی نظر آرہا ہے جو 2013ء میں کھیلا گیا۔ اُس وقت مصر کے سیکولر و ”جمہوریت“ پسند عناصر نے صدر مرسی کی ”انتہاپسندی“ اور ”کرپشن“ کے خلاف تحریک چلائی۔ تحریک کے روحِ رواں مایہ ناز جوہری سائنس دان اور دانشور ڈاکٹر محمد البرادعی تھے۔ مصر کے سلفی مُلّا بھی اُن کے ساتھ مل گئے۔ مظاہروں کے دوران اخوان کے دفاتر پر حملے کیے گئے اور جناب البرادعی نے فوج سے درخواست کی کہ ملک کو بچانے کے لیے سجیلے جوان آگے آئیں۔ ستم ظریفی کہ گوشہ نشیں البرادعی کو اب بہت دکھ ہے کہ انھوں نے جنرل السیسی پر اعتماد کرلیا جنھوں نے وعدہ کیا تھا کہ صدر مرسی کو معزول کرتے ہی نئے انتخابات کا اعلان کردیا جائے گا جس میں اخوان کے سوا تمام جماعتوں کو شرکت کی اجازت ہوگی اور فوج بالکل غیر جانب دار رہے گی۔
کچھ ایسی ہی صورت حال ترکی میں بھی پیش آئی تھی جب معروف اسکالر، مبلغ اور امام فتح اللہ گولن اور صدر اردوان کے اختلافات اتنے بڑھے کہ گولن صاحب نے مبینہ طورپر 2016ء میں اردوان کے خلاف فوجی بغاوت کی حمایت کی۔ گولن، سعید الزماں المعروف بدیع الزماں نورسی کے شاگرد ہیں۔ کردستان کے علاقے نورس میں جنم لینے والے سعید الزماں نورسی کو ترکی کا ابوالاعلیٰ مودودی سمجھا جاتا ہے۔ فتح اللہ گولن، پروفیسر نجم الدین اربکان کے ساتھی تھے، اور جب وزیراعظم اردوان نے انصاف و ترقی پارٹی قائم کی تو گولن صاحب اردوان کا دست و بازو بن گئے۔ ان کے درمیان اختلافات اُس وقت سامنے آئے جب 2013ء میں گولن کے حامیوں نے اردوان پر مالی کرپشن اور اقربا پروری کے الزامات لگاکر ان کے خلاف عوامی مظاہرے کیے۔ سیکولر طبقے نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور کئی ہفتوں تک حکومت مخالف مظاہرے جاری رہے۔ اردوان کے ساتھیوں نے الزام لگایا کہ ان مظاہروں کے لیے گولن نے مالی مدد فراہم کی تھی۔
باہر کی ریشہ دوانیاں اپنی جگہ، لیکن ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ بدترین آزمائشوں سے گزرنے کے باوجود اسلامی، عوامی اورجمہوری تحریکوں نے اختلافی مسائل پر اعتدال و برداشت کے گُر نہیں سیکھے۔ ایسے ہی اختلاف نے مصر میں اخوان اور سیکولر قوتوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کیا، جس کے نتیجے میں اخوان کے ساتھ جو ہوا سو ہوا، جمہوریت کا باب بھی بند ہوگیا۔ کچھ ایسی ہی صورت حال اب تیونس میں ہے۔
…٭…٭…٭…
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@ ملاحظہ کرسکتے ہیں۔