اس وقت پورے سندھ اور بالخصوص کراچی میں کورونا کی چوتھی لہر ڈیلٹا تباہی مچارہی ہے۔ ایسا لگتا ہے ہر دوسرا، تیسرا شخص متاثر ہوچکا ہے، کیونکہ ٹیسٹ کرانے کی شرح بہت کم ہے۔ اس وقت سندھ میں لاک ڈائون ہے جس کے کئی ترمیمی نوٹیفکیشن جاری ہوئے، اس کے بعد اب بازار، انٹرسٹی ٹرانسپورٹ اور سرکاری دفاتر بند ہیں، امتحانات ملتوی ہوچکے ہیں۔ بینک، بندرگاہ، پیٹرول پمپ، اسٹاک ایکسچینج، کریانہ، بیکری، سبزی، تندور، گوشت کی دکانیں اور صحت سے متعلق شعبے کھلے رہیں گے- ریسٹورنٹ سے صرف ڈلیوری کی اجازت ہے۔ ڈبل سواری پر پابندی لوگوں کی تنقید کے بعد ختم کردی گئی ہے۔ اس سب کا فوری اثر تو یہ سامنے آیا ہے کہ روزمرہ کی اشیا کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ فیصلے مجبوری میں کیے ہیں، این سی او سی کے سربراہ اسد عمر اور ڈاکٹر فیصل نے کورونا ایس او پیز پر عمل درآمد کے لیے مکمل تعاون و مدد کی یقین دہانی کرائی ہے۔ جب کہ وفاق اس کی تردید کررہا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اس اہم معاملے میں بھی سندھ اور وفاق ایک پیج پر نہیں ہیں۔ وفاقی وزیر فواد چودھری کا کہنا تھا کہ کسی صوبے کو این سی او سی کے بغیر فیصلے کی اجازت نہیں۔ دوسری طرف حکمران لاک ڈائون لگانے، نہ لگانے، اور کورونا کی پھیلتی ہوئی لہر کو روکنے میں کتنے سنجیدہ ہیں اِس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ جب وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے سندھ حکومت کے لاک ڈاؤن کے فیصلے پر اعتراض کیا تو ناصر شاہ نے وفاقی وزیر کی ٹوئٹس میں اردو کی غلطیاں نکالیں اور کہا کہ آپ لاک ڈاؤن کا جائزہ لیں، ہم آپ کی صلاحیتوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔
لاک ڈاؤن کے نفاذ کے بعد پولیس نے مختلف سڑکوں پر ناکے لگادیے، جس کے بعد سفاری پارک، صدر، شارع فیصل، ملیر ہالٹ، ایف ٹی سی، تین ہٹی، گلشن چورنگی، لیاقت آباد اور دیگر مقامات پر ٹریفک کی صورتِ حال اور زیادہ خراب ہوگئی، جگہ جگہ ناکے کی وجہ سے ہجوم دیکھنے میں آیا جو خود کورونا کو پھیلانے کا باعث بن سکتا تھا۔ ان ناکوں کو بغیر اعلان بہت زیادہ تنقید اور ردعمل کے بعد ختم کردیا گیا ہے۔ لاک ڈائون رش ختم کرنے کی دلیل کے ساتھ لگایا گیا ہے، لیکن اس وقت بھی بند بازاروں کے باہر دکان دار ٹولیوں کی صورت میں موجود ہیں اور پولیس کے تعاون کے ساتھ خرید و فروخت کم، مگر جاری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اپنے فیصلوں پر بھی عمل درآمد کرانے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
سندھ حکومت کے موجودہ اقدامات پر معاشی بدحالی کا شکار عوام سخت بے چین ہیں۔ تاجروں اور سیاسی جماعتوں نے یک آواز ہوکر اس کو معیشت دشمنی اور غیر دانش مندانہ فیصلہ قرار دیتے ہوئے حکومتِ سندھ کے لاک ڈاؤن کے فیصلے کو مسترد کردیا ہے۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے سندھ حکومت سے لاک ڈاؤن کے فیصلے پر نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے۔ ایک بیان میں ایف پی سی سی آئی کے صدر ناصر مگوں کا کہنا تھا کہ انڈسٹری کو ہفتے میں سات دن کھلا رکھنے کی اجازت ہونی چاہیے، ویکسی نیشن کے ساتھ کاروبار اور معاشی سرگرمیوں کی اجازت دی جائے، صنعتوں اور کاروبار کو تالا لگا تو تنخواہیں ادا نہیں کی جاسکیں گی۔ تاجر ایکشن کمیٹی کے رہنما رضوان عرفان کا کہنا ہے کہ انہوں نے حکومتی وفد کو مکمل لاک ڈاؤن نہ کرنے اور کاروبار کے اوقات بڑھانے کی تجویز دی تھی۔ آل پاکستان انجمن تاجران نے بھی لاک ڈاؤن کا فیصلہ مسترد کردیا، تاجر رہنما جاوید قریشی کا کہنا ہے کہ ایس او پیز پر عمل کررہے ہیں، کاروباری بندش قبول نہیں، سندھ حکومت لاک ڈاؤن کا فیصلہ واپس لے۔
امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے سندھ حکومت کی جانب سے کراچی میں مکمل لاک ڈاؤن نافذ کیے جانے کے فیصلے پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کورونا وائرس کی چوتھی لہر کی اطلاعات بہت دنوں سے آرہی تھیں، لیکن اس کے باوجود سندھ حکومت نے ہمیشہ کی طرح عوام بالخصوص مزدور طبقے کے روزگار کے لیے کسی قسم کا کوئی متبادل انتظام نہیں کیا، اور نہ ہی ویکسی نیشن کے عمل کا بہتر نظام بنانے کے لیے کوئی مؤثر اقدامات کیے گئے۔
یہ بات درست ہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے ویکسی نیشن کے نظام کو کورونا کی روک تھام کے لیے بروقت اور مؤثر بنایا جاتا تو آج عوام طویل لائنیں لگا کر اذیت کا شکار نہ ہوتے۔ کورونا سے بچاؤ کے لیے ڈاکٹرز اور حکومت مسلسل سماجی فاصلے کی ہدایت کررہے ہیں لیکن دوسری جانب سندھ حکومت کے مختلف سخت اقدامات کی اطلاعات کے بعد ویکسی نیشن مراکز میں شدید ازدحام ہے، اور کورونا ایس اوپیز کی پابندیوں کا خیال کیے بغیر عوام طویل لائنیں لگانے پر مجبور ہیں، ایکسپو سینٹر کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ وہاں کوئی بڑا جلسہ ہورہا ہے۔ خالق دینا ہال میں صورتِ حال اُس وقت سنگین ہوگئی جب کئی گھنٹوں کے انتظار کے بعد شہریوں کا صبر جواب دے گیا اور لڑائی جھگڑا شروع ہوگیا۔شہریوں کے مشتعل ہونے اور املاک کو نقصان پہنچانے کے واقعات مستقل رپورٹ ہورہے ہیں۔
اسی سندھ میں غیر قانونی طور پر کورونا ویکسین فروخت ہونے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔ اب حکومتِ سندھ نے موبائل ویکسی نیشن سینٹرز شروع کیے ہیں۔ اس وقت کراچی میں ماس ویکسی نیشن سینٹر ضلع شرقی میں ڈاؤ اوجھا ہسپتال… اور ضلع جنوبی میں خالقدینا ہال، جناح ہسپتال اور لیاری جنرل ہسپتال… ضلع وسطی میں چلڈرن ہسپتال، سندھ گورنمنٹ (ایس جی) ہسپتال نیو کراچی، ایس جی ہسپتال لیاقت آباد… ضلع غربی میں سندھ گورنمنٹ قطر ہسپتال… ضلع ملیر میں ایس جی ہسپتال مراد میمن گوٹھ اور کورنگی میں ایس جی ہسپتال میں ہیں،جو شہر کی تین کروڑ کی آبادی کے لحاظ سے ابھی بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ لوگ صبح سے لمبی قطاروں میں کھڑے ویکسی نیشن کا انتظار کررہے ہوتے ہیں، اور ان کا نمبر آئے یا نہ آئے، یہاں سے کورونا کا پھیلائو بہت آسان ہوگیا ہے، کیونکہ اس دوران لوگوں کی جانب سے خود بھی سماجی فاصلے اور ماسک کا خیال بھی نہیں رکھا جا رہا ہے، اور نہ انتظامی طور پر انہیں مجبور کیاجارہا ہے۔
کورونا کی پہلی لہر میں سندھ حکومت کے لاک ڈائون کا خیر مقدم کیا گیا تھا، لیکن آج کی صورت حال کا تقاضا کچھ اور تھا جو سندھ اور وفاق دونوں نے پورا نہیں کیا۔ حافظ نعیم الرحمٰن کا یہ سوال بالکل درست ہے کہ ”سندھ حکومت بتائے کہ کورونا وائرس کی پہلی لہر کے موقع پر معاشی طور پر متاثر ہونے والے عوام کے لیے اربوں روپے کے کورونا ریلیف فنڈ کہاں استعمال کیے گئے؟ اور یہ بھی بتایا جائے کہ حالیہ لاک ڈاؤن کے بعد کراچی میں بسنے والے ہزاروں دیہاڑی دار مزدوروں کی مالی امداد کے لیے کیا اقدامات کیے گئے؟ کیونکہ مہنگائی و بے روزگاری کے باعث عوام کی اکثریت شدید مشکلات و پریشانیوں کا شکار ہے، اور انہیں بنیادی ضروریاتِ زندگی کے لیے مواقع میسر نہیں آرہے ہیں“۔
اس وقت عملی صورت حال یہ ہے کہ سندھ سیکریٹریٹ، کے ڈی اے حسن اسکوائر یا حکومت کا کوئی بھی دفتر ہو، وہاں ایس او پیز پر دو فیصد بھی عمل نہیں ہورہا ہے۔ اگر سندھ حکومت نے ایس او پیز پر عمل درآمد کرانے اور علاج معالجہ کی صورتِ حال پر توجہ دی ہوتی تو اس کے بعد اوّل تو یہ صورت حال پیدا نہ ہوتی، اگر ہوتی بھی اور اس کے بعد لاک ڈائون کا انتہائی مجبوری میں فیصلہ کرنا ہوتا تو شاید یہ ردعمل سامنے نہ آتا۔ اس وقت ہر ایسے اقدام سے گریز کرنے کی ضرورت ہے جو لوگوں کی تکلیف بڑھائے۔ لوگ ہر ایسے اقدام کے خلاف ہوں گے جس سے عام آدمی کی معیشت متاثر ہو۔ این سی او سی اور سندھ حکومت ایسا لائحہ عمل مرتب کریں کہ عام آدمی کا روزگار اور کاروبار کم سے کم متاثر ہو۔
اس ساری صورتِ حال میں اہم سوال یہ ہے کہ اگر کورونا ڈیلٹا کی انڈین قسم پاکستان پہنچی ہے تو اس بارے میں کیا اقدامات کیے گئے تھے؟ کیا یہ اقدامات کافی تھے؟ اور کیا آج جب وبا تیزی سے پھیل رہی ہے تو حکومت اطلاعات فراہم کرنے کے سوا کوئی کام کررہی ہے؟ کیا ہسپتالوں کی صورت حال میں تبدیلی آئی ہے؟ علاج معالجہ کی سہولتیں بہتر ہوئیں؟ یقیناً اس کا جواب نفی میں ہوگا۔
حکومت کے کرنے کا اِس وقت کام یہ ہے جس کا حافظ نعیم الرحمٰن نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ شہریوں کو ریلیف پہنچانے کے لیے ویکسی نیشن کے انتظامات محلے کی سطح پر کیے جائیں اور اس کے لیے مساجد کو مرکز بنایا جائے۔ اس وقت حکومت کی نااہلی کی وجہ سے آکسیجن گیس بنانے والی کمپنیوں نے گیس سلینڈر کی قیمتوں میں چارگنا اضافہ کردیا ہے۔ جو سلینڈر کورونا وبا سے قبل 7ہزار کا تھا اب اس کی قیمت 25 ہزار روپے تک پہنچ گئی ہے۔ یہ تو وفاقی وصوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ ایسی کمپنیوں کے خلاف سخت اقدامات کریں تاکہ مشکل کا شکار شہری اپنے مریضوں کی زندگی بچانے کے بنیادی اقدامات کرتے ہوئے ان کے سانس لینے کو تو آسان بنا سکیں۔ اس وقت ریاست کی سطح پر صرف باتیں ہی باتیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سیںٹر زیادہ بنا بھی دیں تو نہ ہماری حکومت نے اس بڑی تعداد میں اب تک ویکسین کا انتظام کیا ہے، اور نہ بڑی تعداد میں ان سینٹرز کو چلانے کے لیے کوئی خاص لائحہ عمل مرتب کیا ہے۔ ہمارے یہاں حکومت بھی ناکام ہے اور بدقسمتی سے عوام بھی ابھی تک اس وبا کو سنجیدہ لینے کے لیے تیار نہیں ہیں، اور ڈیڑھ برس بعد بھی ہم ”کورونا، حقیقت یا فسانہ؟“ کی بحث میں جی رہے ہیں۔ وبائی مرض کی ہلاکت خیزی میں تیزی آتی جارہی ہے لیکن اس سے کوئی سبق حاصل کرنے کو تیار نہیں۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کورونا ایک حقیقت ہے، اور لوگ ہمارے اردگرد متاثر ہوکر مر بھی رہے ہیں، اور اب نوجوانوں اور بچوں کی بڑی تعداد متاثر ہورہی ہے اور موت کی طرف بھی جارہی ہے۔ کورونا کی زیادہ تکلیف سے بچنے کے دستیاب علاج میں ایک ویکسین ہے، اور لوگوں کو اسے ترجیحی بنیادوں پر لگوانا چاہیے۔ اس کی اہمیت ہے، اسی پس منظر میں امریکی ادارے انفیکشیئز ڈیزیز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر انتھونی فاؤچی کا کہنا ہے کہ ویکسین ہمیں بیمار ہوکر ہسپتال پہنچنے، اور شدید بیمار ہونے یا مرنے سے بچا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ویکسین وہی کام کررہی ہے جو ہم چاہ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ویکسی نیٹڈ افراد میں بغیر علامات یا معمولی علامات والا کورونا ہوسکتا ہے، مکمل ویکسین شدہ افراد میں کورونا کی شدت میں بھی کمی دیکھی گئی۔ امریکی ادارے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ویکسی نیٹڈ افراد کے کورونا کا شکار یا انتقال کرنے کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے۔
اسی لیے اب عوام کو ”کورونا ہے یا نہیں؟“ کی بحث سے باہر آنا چاہیے۔ پوری دنیا میں انسان متاثر ہوچکے ہیں، اس لیے لوگ اس وبا کو حقیقت مان کر اس سے بچنے کے لیے احتیاط کریں، اور ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں۔ تمام احتیاط کے ساتھ اللہ ہی کی توفیق سے اس وبا کا خاتمہ ہوسکتا ہے، کیونکہ ابھی تک سائنس دان یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ اس وبا کا خاتمہ کب اور کیسے ہوگا؟ سب کا کہنا یہی ہے کہ یہ برسوں کا معاملہ ہے، لہٰذا احتیاط ہی مسئلے کا حل ہے، اور کراچی میں خاص طور پر لوگوں کو خود احتیاط کرنی ہوگی، ورنہ یہ صورتِ حال پورے ملک میں پھیل سکتی ہے اور پھیل رہی ہے۔ اسی لیے این سی او سی کے فیصلے کے بعد حکومت نے 3 اگست سے 31 اگست تک دوبارہ پابندیاں لگانے کا اعلان کیا ہے۔