آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابات اور اُن میں اسلام آباد میں برسرِاقتدار جماعت کی کامیابی سے جہاں پہلے سے موجود کچھ سیاسی روایات پر مہرِ تصدیق ثبت ہوئی ہے، وہیں کچھ نئے سیاسی نظریوں نے بھی سر اٹھایا ہے۔ یہ بات تو پہلے دن سے کہی جارہی تھی کہ آزاد کشمیر میں وہی جماعت کامیاب ہوتی ہے جس کی اسلام آباد پر حکومت ہوتی ہے، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ آزاد کشمیر میں محض 2 نشستیں رکھنے والی جماعت اس لیے غیر معمولی کامیابی حاصل کر گئی کہ وہ اسلام آباد میں برسرِاقتدار تھی۔ اس طرزِ سیاست سے پوری دنیا کو یہ پیغام بھی جاتا ہے کہ اسلام آباد کی حکومت جب آزاد کشمیر میں حکومت پر ہر صورت میں قبضہ کرنا چاہتی ہے تو وہ کس منہ سے مقبوضہ کشمیر میں بوگس انتخابات پر شور مچاتی ہے! ان انتخابات میں یہ بات بھی پایۂ ثبوت کو پہنچی کہ وہاں کے الیکٹ ایبلز بھی اسلام آباد ہی کی طرف دیکھتے ہیں، اور وہاں کے عوام بھی کسی نظریے اور کسی سیاسی فکر کے بجائے اسلام آباد کی حکومت ہی کے ذہنی و فکری اسیر بنے ہوئے ہیں۔ چنانچہ اسلام آباد کی حکمران جماعت بآسانی یہ انتخاب جیت سکتی ہے، اور اگر آسانی سے نہ جیت سکے تو کچھ دھاندلی کرکے ایسا کرلیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آزادکشمیر میں تاحال برسرِاقتدار مسلم لیگ(ن)31سے 6 نشستوں پر آگئی ہے، لیکن خود مسلم لیگ(ن) اپنے دورِ اقتدار میں ان ہی حربوں سے حکومت بناتی رہی ہے۔ اِن انتخابات میں جو نیا رجحان سامنے آیا ہے وہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی وہاں حد درجہ دلچسپی اور محنت تھی۔ لگ رہا تھا کہ آزاد کشمیر اسمبلی کا نہیں بلکہ پاکستان کی کسی اسمبلی کا انتخاب ہورہا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خود آزاد کشمیر کی اپنی اصل سیاسی جماعتیں اس قدر نیچے چلی گئی ہیں کہ شاید وہ چند برسوں میں ختم ہی ہوجائیں۔ آزاد جموں و کشمیر مسلم کانفرنس جو وہاں بار بار برسراقتدار رہی ہے اُس کا وجود ہی تقریباً ختم ہوگیا ہے، وہ بمشکل ایک نشست جیت سکی ہے، اور ہوسکتا ہے کہ وہ اسے زبردستی جتوا دی گئی ہو۔ سردار ابراہیم خان کی جماعت کا بھی یہی حال ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما نبیل گبول نے یہ اعتراف کرکے سب کو حیرت میں ڈال دیا ہے کہ ہمیں 16 نشستوں کی یقین دہانی کرائی گئی مگر 11 نشستیں دی گئی ہیں۔ یہ یقین دہانی کس نے کرائی تھی اور کس برتے پر کرائی تھی، کاش نبیل گبول اس پر بھی روشنی ڈالتے۔ مگر اس مشکل سوال کو وہ خوبصورت سیاسی انداز میں ٹال گئے۔ ہارنے والی دیگر جماعتوں کا بھی یہی تاثر اور الزام ہے۔ اس کا بھی دنیا کو ایک خاص پیغام جاتا ہے جو پاکستان، آزاد کشمیر اور کشمیر کی آزادی کے حوالے سے کوئی اچھا تاثر نہیں ہے۔ ایک زمانے تک پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو آزاد کشمیر میں کام کرنے کی اجازت نہیں تھی، لیکن 1970ء میں سردار عبدالقیوم خان کے صدرِ آزاد کشمیر منتخب ہونے، اور پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کے برسرِاقتدار آنے کے بعد یہ اچھی سیاسی روایت ختم ہوگئی ۔ پہلے وہاں پیپلزپارٹی نے پنجے جمائے، پھر دیکھا دیکھی دوسری جماعتیں بھی میدان میں اتر آئیں، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اِس بار وزیراعظم عمران خان، بلاول بھٹو اور مریم نواز کے علاوہ وفاقی وزراء کی فوج اور اپوزیشن کے نمایاں رہنمائوں کے جتھوں نے وہاں پہنچ کر اسے پاکستان کا انتخاب بنادیا۔
ان انتخابات کا سب سے دوررس نتائج کا حامل وزیراعظم عمران خان کا وہ اعلان ہے جس میں وہ آزادکشمیر میں ایک ایسے ریفرنڈم کی ’’نوید‘‘ سنا رہے ہیں جس میں وہاں کے عوام یہ فیصلہ کریں گے کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا آزاد حیثیت میں اپنا الگ ملک چاہتے ہیں۔ یہ اعلان وزیراعظم کی بے علمی اور جہالت پر مبنی ہے یا سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایسا کیا گیا ہے؟ یہ کشمیر کاز سے جڑا ہوا سب سے اہم سوال ہے۔ اپنے اس خطاب میں دنیا میں شائع ہونے والی کتابوں کے حوالے دینے والا وزیراعظم کیا اتنا بے خبر ہوسکتا ہے کہ اسے یہ بھی معلوم نہ ہو کہ کشمیر پر پاکستان کا تواتر کے ساتھ قومی مؤقف کیا ہے۔ کیا اسے 3 جون 1947ء کے تقسیمِ ہند پلان کا علم نہیں جس کے تحت ریاستوں کے مستقبل کا فیصلہ والیانِ ریاست کو کرنا تھا کہ آیا وہ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا ہندوستان ہی میں رہنا چاہتے ہیں۔ انہیں آزادی کا کوئی تیسرا آپشن نہیں دیا گیا تھا۔ کیا ہمارے وزیراعظم کو یہ بھی علم نہیں کہ جب بھارت مسئلہ کشمیر کو لے کر سلامتی کونسل پہنچا جہاں کونسل نے کشمیر میں استصوابِ رائے کا فیصلہ کیا جس کے تحت کشمیر کے عوام کو یہ آزادانہ حق دیا گیا کہ وہ ہندوستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ۔ تقسیمِ ہند پلان اور سلامتی کونسل کی قرارداد میں کشمیریوں کو کسی آزاد ریاست کے لیے استصواب کا حق نہیں دیا گیا تھا۔ وزیراعظم عمران خان کا یہ بچکانہ اعلان نہ صرف پاکستان کے بنیادی اصولی مؤقف کے منافی ہے بلکہ کشمیر کاز کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی کوئی جانی انجانی کوشش بھی ہے، لیکن اس سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں خصوصاً مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے اس اعلان کے خلاف ڈٹ جانے کا اعلان نہیں کیا، محض اشک شوئی کے لیے دوچار جملے کہہ دیے۔ خود آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں نے بھی اس پر کسی زوردار ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ اس سے کچھ لوگ یہ اندازہ بھی لگا رہے ہیں کہ شاید اسٹیبلشمنٹ ہی کی مرضی اور آشیرباد سے یہ شوشا چھوڑا گیا ہے، تاکہ ردعمل کا اندازہ ہوجائے اور کشمیری و پاکستانی عوام کو بھی پتا چل جائے کہ ہم مستقبل میں کیا کرنے جارہے ہیں۔ ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں ریفرنڈم کی نامعقول اور غیر قانونی تجویز کے سامنے دیوار بن جائیں، ورنہ مقبوضہ کشمیر میں قربانیاں دینے والے نہتے کشمیریوں پر کیا گزرے گی کہ ہم تو الحاقِ پاکستان کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں اور خود پاکستان ہمیں آزادی کی راہ دکھا رہا ہے۔
آزاد کشمیر کی بھی تمام سیاسی جماعتیں الحاقِ پاکستان کی حامی ہیں۔ وہاں کی اسمبلیاں بارہا یہ کہہ چکی ہیں کہ آزاد کشمیر آزادی کا بیس کیمپ ہے، اور یہ آزادی ہم الحاقِ پاکستان کے لیے چاہتے ہیں۔ اس لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ پاکستان اور آزاد کشمیر کی تمام سیاسی جماعتیں، دانشور اور اہل الرائے سر جوڑ کر بیٹھیں اور حکومت کو ریفرنڈم کا ڈرامہ رچانے سے روکیں، کہ یہ امریکی و مغربی سازش اور بھارت کے مؤقف کی کامیابی اور ہماری پسپائی ہوگی۔ اس کے لیے آخری حد تک جدوجہدکریں، اور حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو یہ گھنائونا کھیل کھیلنے سے روکیں۔