بیلجیم کے قریب واقع شہر ’’واٹرلو‘‘ (waterloo)طاقت کے کمزوری میں ڈھل کر ڈوب جانے کے محاورے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ 18 جون 1815ء کو واٹرلو کے مقام پر کئی کامیاب اور انقلابی جنگوں کے فاتح فرانسیسی شہنشاہ نپولین بونا پارٹ اور برطانوی و اتحادی فوجوں کے درمیان گھمسان کا رن پڑا۔ یہ دونوں طرف کی افواج کے مابین آخری معرکہ ثابت ہوا، اور آخرکار نپولین بونا پارٹ جیسے بہادر جرنیل کو واٹرلو کے مقام پر شکست ہوگئی۔
پاکستان کے سیاست دان قریہ قریہ لڑی جانے والی اپنی سیاسی جنگ کو گلگت بلتستان کے بعد آزادکشمیر میں بھی گھسیٹ لائے۔ انتخابات کی صورت میں گلگت بلتستان کے بعد آزادکشمیر میں بھی قومی سیاسی جماعتوں کے درمیان بھرپور معرکہ آرائی ہوئی، اور یوں لگتا ہے آزادکشمیر یکے بعد دیگرے کئی قومی سیاست دانوں کا ’’واٹرلو‘‘ ثابت ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی میزبانی میں مریم نواز نے آزادکشمیر میں بڑے جلسوں کے ذریعے، اور نوازشریف کے روایتی مؤقف کا اعادہ کرکے اپنی دھاک بٹھانے کی کوشش کی۔ وہ دھاک بٹھا سکیں نہ اپنی جماعت کو کوئی نمایاں کامیابی دلاسکیں۔ اس شکست کے بعد مسلم لیگ (ن) میں ’’ش‘‘ اور ’’م‘‘کی کشمکش کچھ اور تیزہوگئی۔ مریم نواز کی جارحانہ پرواز کو بھانپتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہبازشریف نے خود کو پہلے ہی آزادکشمیر کی انتخابی مہم سے الگ کرلیا تھا، اور کوئی وجہ بتائے بغیر آزادکشمیر میں اپنے تمام پروگرام منسوخ کردیے تھے۔ یوں انتخابی مہم میں مریم نواز کا ڈنکا بجتا اور سکہ چلتا رہا، مگر مسلم لیگ (ن) کی سیاست کا چراغ اب ٹمٹما رہا ہے۔ مریم نواز جب آزاد کشمیر کے ماحول کا جائزہ لے کر میرپور سے واپس جارہی تھیں تو انہی کی رپورٹ پر عالمِ مایوسی میں نوازشریف نے پاکستان کو ’’قحبہ خانہ‘‘ کہنے والے افغان نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر حمداللہ محب سے ایک غیر ضروری اور پاکستان کی ہیئتِ مقتدرہ کو محض چڑانے کی خاطر ملاقات کی۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے ان انتخابی نتائج کو دھاندلی کہہ کر مسترد کردیا، مگر انہیں اپنے اس مؤقف کے حق میں کوئی دلیل اور ثبوت میسر نہیں۔ ان کے میڈیا سیل نے ٹھپے لگانے والی خواتین کی جو ویڈیو آزادکشمیر کے پولنگ اسٹیشن کی بناکر پیش کی وہ حقیقت میں 2011ء کے کراچی میں انتخاب کی ہے جب ایم کیو ایم نے ٹھپے لگاکر اپنے دونمائندے آزاد کشمیر اسمبلی میں پہنچائے تھے۔ شاہدخاقان عباسی نے راجا فاروق حیدر خان کے ساتھ جو پریس کانفرنس کی ہے، اصولی طور پر وہ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہبازشریف کو کرنا چاہیے تھی، مگر انہوں نے ٹھوس ثبوت فراہم ہونے تک دھاندلی کا راگ الاپنے سے انکار کیا۔ اس طرح آزادکشمیر کی مہم جوئی مسلم لیگ (ن) کی داخلی کشمکش کو مزید گہرا کر گئی، اور اندازہ ہے کہ اب اُبھرنے والی دراڑ کا بھرنا ناممکن ہوگیا ہے۔شہبازشریف کی طرف سے مریم نوازکو پارٹی کے معاملات سے الگ کرنے یا اپنی راہیں جدا کرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ آزادکشمیر کا یہ آخری معرکہ مریم نوازکی سیاست کا ’’واٹر لو‘‘ ثابت ہونے کے امکانات اور خدشات کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ شاہد خاقان عباسی اور راجا فاروق حیدر نے اندرون و بیرون ملک تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ تحریک سے اندرونِ آزادکشمیر کوئی اتھل پتھل ہوتی ہے یا نہیں، اس سے قطع نظر سری واستو گروپ اور ہائبرڈ وار چلانے والوں اور ارنب گوسوامی جیسے بھارتی صحافیوں کو اچھا خاصا مواد ملے گا، انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے نام پر قائم مغربی اداروں کی بھی چاندی ہوجائے گی۔ مسلم لیگ (ن) کے اس مؤقف کو مسلم کانفرنس کے صدر مرزا شفیق جرال کے ایک بیان سے بھی تقویت مل رہی ہے۔ مرزا صاحب کا یہ بیان کسی ماہر شخصیت کی تحریر وتقریر کا رنگ لیے ہوئے ہے، اور وہ شخصیت سردار عتیق احمد خان ہی ہوسکتے ہیں۔ اس بیان میں پی ٹی آئی کے ساتھ مفاہمت ختم کرنے اور انتخابی نتائج پر ناپسندیدگی کا واضح اظہار جھلک رہا ہے۔ بیان میں مسلم لیگ (ن) کے ہی مؤقف کو آگے بڑھاتے ہوئے آزادکشمیر کو صوبہ بنانے کے خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس مؤقف پر اصرار مسلم کانفرنس کو مسلم لیگ (ن) کے قریب لے جا سکتا ہے۔ پیپلزپارٹی کے راہنما نبیل گبول کا یہ جملہ معنی خیز ہے کہ ہم سے 16 نشستوں کا وعدہ تھا مگر 11 ملیں۔
آزادکشمیر میں کٹھ اور سخت گیر مرکزیت کے خلاف اگر اپوزیشن جماعتیں متحد ہوتی ہیں تو یہ آزادکشمیر کی مستقبل کی حکومت کے لیے ہی نہیں، وفاقی حکومت کے لیے بھی ایک نیا دردِ سر ثابت ہوسکتا ہے۔ اپوزیشن کے گھاگ سیاست دان جن میں تین سابق وزرائے اعظم شامل ہوں گے، جب کورس کی صورت میں صوبہ بنانے کا الزام دھریں گے تو کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی بہت کچھ محسوس ہوگا۔ یوں کراچی سے خیبر تک اپوزیشن کو پچھاڑنے والی شخصیت عمران خان کے لیے آزادکشمیرکا دوردراز پہاڑی مقام ’’واٹر لو‘‘ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس لیے تحریک انصاف کو آزادکشمیر کو اس کی حساسیت اور مخصوص مزاج وشناخت کے ساتھ قبول کرنا اور چلانا ہوگا۔ صوبوں کے تجربات دہرانے سے قطعی احتراز کرنا ہوگا۔آزادکشمیر کا چار لکیروں والا جو پرچم قائداعظم اور لیاقت علی خان نے لوگوں کو تھمایا ہے اُسے اتنی آسانی سے لپیٹنا ممکن نہیں ہوگا۔ آزادکشمیر کو سابق سوویت یونین کے حکمران گورباچوف کی پالیسیوں گلاسناسٹ اور پریسٹرائیکا کی طرح آزاد ی پر مبنی اور گھٹن سے پاک ماحول کا احساس دلانا ہوگا۔ آزادکشمیر کے الگ پرچم، الگ قومی ترانے، الگ آئین، اپنے الگ صدر اور وزیراعظم نے یہاں کے عوام کا الگ اور منفرد مائنڈ سیٹ بنایا ہے، اور اس انفرادیت کو جگہ دے کر اور تسلیم کرکے ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر کسی بھی پڑائو کے ’’واٹرلو‘‘ بننے میں دیر نہیں لگتی۔