افغانستان کا چیلنج اور خطے کی سیاست

پاکستانی ریاست، حکومت اور معاشرے کا یہ خدشہ بہت حد تک بجا ہے کہ اگر افغانستان کا بحران حل نہیں ہوتا تو اس کا براہِ راست منفی اثر پاکستان کی داخلی صورت حال پر ہوگا۔ کیونکہ وزیراعظم عمران خان نے بجا فرمایا کہ موجودہ افغان منظرنامہ ظاہر کرتا ہے کہ افغان خانہ جنگی کے پاکستان آنے کا خطرہ بدستور موجود ہے۔ وزیراعظم کے بقول افغان امن کے جو امکانات موجود تھے انہیں امریکی پالیسی اور بعض ممالک بشمول بھارت نے بجائے بگاڑ دیا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کی ریاست، حکومت اور فیصلہ ساز اداروں میں افغان صورتِ حال کے بارے میں خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔ پاکستان کا یہ فیصلہ بھی موجودہ صورت حال میں درست ہے کہ ہم کسی بھی صورت میں کسی بھی خاص فریق یا کسی خاص تنازعے کا حصہ نہیں بنیں گے۔ وزیراعظم کا یہ خدشہ بھی بہت حد تک بجا ہے کہ طالبان کیونکہ پشتون ہیں، اگر افغانستان میں خانہ جنگی کا آغاز ہوا تو ہماری طرف کے پشتون بھی اس کی طرف راغب ہوسکتے ہیں، جس سے خود پاکستان کی داخلی صورتِ حال خراب ہوسکتی ہے۔
بظاہر یہ لگتا ہے کہ طالبان کی طاقت کے بعد امریکہ، بھارت اور بالخصوص افغان حکومت افغانستان کو کسی بھی صورت میں مستحکم دیکھنے کی خواہش مند نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تینوں فریق افغانستان کی صورتِ حال کو بنیاد بناکر پاکستان مخالف ایجنڈے پر بھی یکسو نظر آتے ہیں۔ ان تین ممالک کا باہمی گٹھ جوڑ پوری دنیا میں اس بیانیے کو طاقت فراہم کررہا ہے کہ طالبان کی برتری اور وہاں تشدد کی سیاست کا اصل فریق پاکستان اور اس کے عسکری ادارے ہیں۔ پاکستان کو افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال کا ذمہ دار قرار دینا ظاہر کرتا ہے کہ یہ فریق ایک خاص مقصد اور ایجنڈے کے تحت پاکستان کی مشکلات کو بڑھانا چاہتے ہیں۔ اس کی ایک خاص وجہ بھارت کی افغانستان میں چار کھرب روپے سے زیادہ کی سرمایہ کاری اور چارسو سے زیادہ منصوبو ں کا ڈوبنا ہے۔ کیونکہ بھارت نے بڑے پیمانے پر عملاً اپنی سیاسی گرفت قائم کرنے کے لیے بڑے بڑے منصوبے شروع کیے ہوئے تھے اور بڑی تعداد میں کئی شہروں میں اپنے قونصل خانوں کو ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت پاکستان کی جاسوسی کرنے کے لیے قائم کیا تھا، مگر اس میں ناکامی کا سامنا ہے۔ بھارت کی توجہ کا مرکز افغان حکومت تھی اور اُسی کی سرپرستی کی جارہی تھی۔ مگر اب جو افغانستان کی صورتِ حال تبدیل ہوئی ہے اُس میں بھارتی مفاد کو نقصان پہنچا ہے، جس کی وجہ سے بھارت امن عمل میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔
افغان حکومت کو لگتا ہے کہ ہم افغانستان میں اقتدار کی سیاست کے تناظر میں سیاسی طور پر تنہا ہوئے ہیں، اس لیے وہ بدلے میں پاکستان کو نشانہ بنا کر علاقائی استحکام کو نقصان پہنچانا چاہتی ہے۔ اس لیے افغان امن عمل آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف جارہا ہے اور ایک منظم سازش کے تحت اس صورتِ حال کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالی جارہی ہے۔ جبکہ پاکستان نے برملا کہا ہے کہ طالبان کو پاکستان سے جوڑنا درست نہیں، اورنہ ہی ہم اُن کے ترجمان ہیں، افغانستان میں ہمارے پسندیدہ وہی ہوں گے جن کو افغان عوام منتخب کریں گے، اگر افغان حکومت سمجھتی ہے کہ کچھ لوگ پاکستان سے جاکر وہاں دہشت گردی کرتے ہیں تو اس کے لیے وہ ہمارے ساتھ تعاون کرکے ان لوگوں کی نشاندہی کریں، ہم ان کے خلاف کارروائی کریں گے۔ اسی طرح پاکستان نے یہ بات بھی واضح کردی ہے کہ امریکہ کے دبائو پر ہم کسی بھی صورت میں افغان مذاکرات کے عمل میں بھارت کا دبائو قبول نہیں کریں گے۔ جو لوگ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان کو باہر سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے، وہ غلطی پر ہیں، اور افغان مسئلے کا واحد حل مشترکہ حکومت ہے، لیکن اس کے لیے بھارت کو ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہیے اور اس تاثر کی وہ نفی کرے کہ وہ امن نہیں چاہتا۔
حالیہ دنوں میں جاری ہونے والی امریکی اسپیشل انسپکٹر جان ایف سپکو کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کی پیش قدمی سے افغان حکومت مشکلات کا شکار ہے اور اس کی سیاسی بقا کو خطرہ ہے۔ افغان فوج طالبان کا مقابلہ کرنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتی، اور اگر وہاں اموات زیادہ ہوتی ہیں تو وہ بھی امریکہ کے حق میں نہیں۔ ان کے بقول اگر افغان حکومت نے طالبان کے حملوں کے معاملے کو حل نہ کیا تو اس کی بقا کو خطرہ ہوسکتا ہے۔ یہ رپورٹ افغانستان کی تعمیرنو میں امریکی کردار کی تصویر کے برعکس ہے۔ یہ رپورٹ پاکستان کے مؤقف کی بھی عملاً تائید کرتی ہے کہ امریکہ نے افغانستان کو جس حال میں چھوڑا ہے یہ صرف امریکہ کی ناکامی ہے، بلکہ افغانستان میں جاری موجودہ لڑائی اور خانہ جنگی کی ذمہ داری بھی امریکہ پر عائد ہوتی ہے۔ امریکہ اپنی ناکامی کا بدلہ لینا چاہتا ہے، اور اسی وجہ سے وہ افغان حکومت کی حمایت اور بھارت کے مفاد کا تحفظ کررہا ہے۔ یہ تاثر بھی مضبوط ہے کہ اگرچہ امریکہ نے اپنی فوج کو افغانستان سے نکال لیا ہے، لیکن یہ کہنا کہ اس نے خود کو افغانستان سے نکال لیا ہے، درست نہیں۔ وہ اب بھی افغانستان کے معاملات میں سرگرم ہے اورکئی ملکوں کی مدد سے اپنا کھیل کھیلنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس لیے یہ بات پہلے بھی کی جاتی رہی ہے کہ امریکہ، بھارت اور اسرائیل افغان حکومت کی مدد سے اس خطے میں انتشار کا ایک نیا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں جو افغانستان سمیت پاکستان کے مفاد میں نہیں۔
یہ اطلاعات بھی سامنے آرہی ہیں کہ وہ قوتیں جو افغانستان میں عدم استحکام چاہتی ہیں، اب طالبان کے مقابلے میں داعش کی سرپرستی یا حمایت کرکے اسے آگے لانا چاہتی ہیں تاکہ افغان طالبان اورداعش کو ایک دوسرے کے مقابلے میں کھڑا کیا جاسکے۔ اس صورتِ حال کو طالبان کی قیادت نے بھی محسوس کیا ہے اور اسی کو بنیاد بناکر افغان طالبان نے ڈاکٹر اشرف غنی سے حکومت چھوڑنے کا مطالبہ کیا ہے، اورکہا ہے کہ اگر وہ حکومت چھوڑتے ہیں تو ہم بھی اس بات کی یقین دہانی کراتے ہیں کہ ہم کابل پر طاقت کے زور پر قبضہ نہیں کریں گے۔ کیونکہ طالبان کو لگتا ہے کہ اس وقت وہ قوتیں جو افغانستان میں عدم استحکام چاہتی ہیں اورطالبان کے خلاف ہیں وہ ڈاکٹر اشرف غنی کو استعمال کرکے ہمارے مقابلے میں لانا چاہتی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ حالیہ دنوں میں چینی وزیر خارجہ اور طالبان وفد کی اہم ملاقات کو خاصی اہمیت دی جارہی ہے اور اس کا ہر طرف سے خیرمقدم کیا گیا ہے۔ چین نے دوٹوک انداز میں طالبان پر واضح کیا ہے کہ اگر وہ ہماری مدد چاہتے ہیں تو ہم اس کے لیے تیار ہیں، مگر اس کی شرط یہ ہوگی کہ طالبان بھی اس کی ضمانت دیں کہ وہ افغان سرزمین کو کسی پڑوسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ یہ مطالبہ محض چین تک محدود نہیں، بلکہ خود پاکستان بھی ایسا ہی چاہتا ہے کہ بھارت سمیت کسی کو بھی افغان سرزمین استعمال نہ کرنے کی یقین دہانی کرانی ہوگی۔ (باقی صفحہ 41پر)
افغانستان کی یہ ساری صورت حال پیچیدہ بھی ہے اور گمبھیر بھی، اور اس کا اثر پاکستان پر بھی ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں افغان صورتِ حال پر خاصی تشویش موجود ہے۔ ایسے میں پاکستان کے داخلی استحکام، سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان مسائل پر باہمی اتفاقِ رائے، مؤثر اور مشترکہ حکمتِ عملی پر اتفاق سمیت سیاسی اور سفارتی محاذ پر بھی سرگرم کردار ادا کرنا ہوگا۔ خاص طور پر جب بھارت ایک مخالفانہ منفی مہم کی مدد سے پاکستان کے خلاف ایک بڑی مہم کی قیادت کررہا ہے ایسے میں ہماری سیاسی و عسکری قیادت کو زیادہ ذمہ داری سے ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو تیار کرنا ہوگا۔ یہ کام سیاسی تنہائی میں نہیں ہوگا، بلکہ تمام فریقین کو اعتماد میں لینا ہوگا، اور مؤثر حکمت عملی بناکر میڈیا کے محاذ پر ریاستی یا پاکستانی مفاد کے لیے ایک بڑی جنگ لڑنی ہوگی تاکہ خطے کے امن کو یقینی بنایا جاسکے۔